متفرق مضامین

السّلام۔ امن و سلامتی کا سرچشمہ

آج اس دور میں اسلام کی اس پر امن تعلیم کو از سر نو زندہ کرنے کا کام آنحضرتﷺ کے بروز کامل حضرت مسیح موعود ؑاور آپ کے بعد آپ کے خلفاء اور آپ کے ماننے والوں کے سپرد کیا گیاہے

ھُوَ اللّٰہُ الَّذِیۡ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ ۚ اَلۡمَلِکُ الۡقُدُّوۡسُ السَّلٰمُ الۡمُؤۡمِنُ الۡمُہَیۡمِنُ الۡعَزِیۡزُ الۡجَبَّارُ الۡمُتَکَبِّرُ ؕ سُبۡحٰنَ اللّٰہِ عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ۔ ( الحشر: ۲۴)

حضرات !اس کائنات کا مرکزی نقطہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اللہ تعالیٰ کیا ہے ؟کون ہے؟ اور کیسا ہے؟ اس کا علم ہمیں اس کی صفات کے ذریعہ سے ہوتا ہے۔ صفاتِ الٰہیہ کا جامع اور مکمل نقشہ اسلام نے ہی پیش کیا ہے اور وہ ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات اپنے اندردو قسم کی جلوہ گری رکھتی ہیں۔ایک جلوہ تو تنزیہی رنگ میں ظاہر ہوتا ہے جو اس کو اُن تمام قسم کے عیوب او ر نقائص سے جو اُس کی مخلوق میں پائی جاتی ہیں منزّہ اور پا ک ٹھہراتا ہے اور دوسرا جلوہ تشبیہی رنگ میں ظاہر ہوتا ہے یعنی ایسی صفات کی شکل میں جو مخلوق کی صفات کے مشابہ نظر آتی ہیں اور جن میں مخلوق کو بھی کسی قدر حصہ دیا گیاہے۔ ہمارا خدا بے شمار صفات کا مالک ہے اور اس کی ہرصفت اپنے اندر بےانتہا خوبصورتی اور حسن لیے ہوئے ہے۔ قرآ ن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَہٗ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی یعنی تمام خوبصورت نام اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہیں۔اپنی اِن بے شمار اور خوبصورت صفات میں سے تقریباً ننانوے کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کیا ہے۔ سورۃ الحشر کی آیت 24 میں جو خاکسار نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہے وہ اپنی بعض صفات کا ذکر اس طرح کرتا ہے : وہی اللہ ہے جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ وہ بادشاہ ہے، پاک ہے،السّلام یعنی سلامتی دینے والا ہے، امن دینے والا ہے، نگہبان ہے، کامل غلبہ والا ہے، ٹوٹے کام بنانے والا (اور) کِبریائی والا ہے۔ پاک ہے اللہ اس سے جو وہ شرک کرتے ہیں۔

سامعین کرام! السَّلَام اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ایک بہت ہی خوبصورت نام ہے۔ یعنی وہی ہے جو امن و سلامتی کا منبع اور سرچشمہ ہے اور یہی آج خاکسار کی تقریر کا موضوع ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ اِس بارے میں فرماتے ہیں: ’’اسلام کا اصلی سرچشمہ اور اس کا حقیقی منبع اللہ تعالیٰ کی ذات ماک ہے جس کا نام اَلسَّلَام ہے۔ قرآن کریم میں اِس مبارک نام کا مبارک ذکر اِس کلمہ طیبہ میں آیا ہے “ھُوَ اللّٰہُ الَّذِیۡ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ ۚ اَلۡمَلِکُ الۡقُدُّوۡسُ السَّلٰمُ (الحشر: ۲۴)…یعنی وہی اللہ ہے۔ کوئی معبود اور کاملہ صفات سے موصوف اس کے سوا نہیں۔ وہ حقیقی بادشاہ، ہر ایک نقص سے منزّہ و بے عیب و سلامت ہے۔اور اسلام کا حقیقی ثمرہ دار السلام ہے جس کا آسمان و زمین اور در و دیوار اور اس کے تمام یار و غمگسار طیّب ہوںگے۔اور ان کے میل جول میں سلامتی و سلام ہی ہو گا۔ جیسے فرمایاوَ تَحِیَّتُھُمْ فِیْھَا سَلَامٌ(یونس: ۱۱)‘‘(حقائق الفرقان جلد4صفحہ69)

سامعین کرام!لفظ ’السلام‘ کا مادہ یا root تین حروف سِین لَام مِیم ہیں۔ عربی زبان میں جہاں بھی یہ اکٹھے ہوںگے ان کے معنوں میں حفاظت کے معنے ضرور پائے جائیں گے۔ مثلاً اسلام کےمعنے فرمانبرداری کے ہیں۔ جب کوئی شخص کسی بڑے آدمی کی فرمانبرداری کرتا ہے اور اس کی بات مان لیتا ہے تو طبعی طور پر وہ اُس کی حفاظت میں آجاتا ہےاور پھر اُسی کے مال و جان کی حفاظت کی جاتی ہے جو مطیع و منقاد ہو۔ سَلِمَ یَسْلِمُ ألسَّلم وَ السَّلَامَۃُ کے معنی ہر قسم کی ظاہری اور باطنی آفات اور مصائب سے بچنے کے ہیں۔ باطنی سلامتی اور حفاظت کی مثال دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ (الشعراء:۹۰) کے الفاظ استعمال فرماتا ہے۔ یعنی جو بھی قلبِ سلیم کے ساتھ خدا کے حضور حاضر ہو گا وہ قیامت والے دن ہر قسم کی رُسوائی سے سلامت رہے گا۔ اِسی طرح ظاہری سلامتی کی مثال اللہ تعالیٰ مُسَلَّمَۃٌ لَّا شِیَۃَ فِیۡہَا (البقرۃ:72) کے الفاظ سے دیتا ہے یعنی وہ گائے جس کو یہودیوں نے پو جنا شروع کر دیا تھااور شرک کے قلع قمع کرنے کے لیے جسے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا وہ ظاہری نقص اور داغ وغیرہ سے محفوظ تھی۔

سامعین کرام! اللہ تعالیٰ کو اَلسَّلَاماس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی ذات ہر قسم کے عیوب سے، اس کی صفات ہر قسم کے نقص سے اور اس کے کام ہر قسم کے شر سے پاک اور منزہ ہیں اور وہ سلامتی عطا کرنے والا ہے۔ وہ اس لیے بھی السلام ہے کہ وہ باقی رہنے والا دائمی وجود ہےاور اس کی ذات اُن آفتوں سے سلامت ہے جو دوسروں کو تغیر اور فنا وغیرہ کی پہنچتی رہتی ہیں۔ حدیث میں جو یہ آیا ہے کہ اَنْتَ السَّلَامُ وَ مِنْکَ السَّلَام تو اس سے مراد یہ ہے کہ اے اللہ تیری ذات ہی ایسی ہے جو سلامتی بخشنے والی ہے اور جو ایک بے کس اور کمزور انسان کو ناپسندیدہ اور تکلیف دِہ امور سے سلامت رکھتی اور دونوں جہانوں کی تکلیفوں اور مصیبتوں سے چھٹکارا دلاتی ہے اور جو ایمان لانے والوں کے گناہوں اور عیوب کی پردہ پوشی کرتی ہے جس کی وجہ سے وہ قیامت والے دن کی رسوائی سے سلامتی میں ہوں گے۔ مِنْکَ السَّلَامکا ایک مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ جنت میں مومنوں کوسلامتی کا تحفہ عطا کرتاہے۔ جیساکہ فرمایا سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبِّ رَّحِیْم یعنی ان کو سلام کہا جائے گا جو بار بار کرم کرنے والے ربّ کی طرف سے ان کے لیے ایک پیغام ہو گا۔(ماخوذ از مفردات امام راغب، تفسیر طبری۔ تفسیر روح البیان وغیرہ )

سامعین کرام! جس طرح ماں باپ یہ کبھی برداشت نہیں کرسکتے کہ ان کے بچے آپس میں لڑیں جھگڑیں یافساد کریں بلکہ وہ یہی چاہتے ہیں کہ وہ آپس میں پیار، محبت اور امن و سکون سے رہیں۔جس طرح ایک گھر میں امن کےقائم رکھنے کے لیے ماں باپ کا وجود نا گزیر ہے اسی طرح اس دنیامیں امن کے قیام کے لیےایک بالا ہستی کے وجود پر ایمان لانا ضروری ہے جو کہ امن کی خواہاں ہو اوریہ عقیدہ کہ اللہ تعالیٰ امن دینے والا ہے صرف قرآن کریم نے ہی پیش کیاہے اوراس نے ہی اللہ تعالیٰ کی صفت السَّلَامُ بیان کی ہے اور السلام خدا کی طرف سے جو پیغام آیا ہے اس کا نام اسلام رکھا ہے۔ اس لیے اس پرسچا ایمان لائے بغیر دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ مزید یہ کہ وہی شخص امن کا حقیقی پیامبر کہلا سکتا ہے جو اس امن و سلامتی کے سرچشمہ خدا کی طرف لوگوں کوبلائے۔ ہمارے پیارے آقا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ انسان ہیں جنہوں نے اس جانفشانی کے ساتھ اُس ہستی کی طرف دنیا کو دعوت دی کہ داعیًا اِلٰی اللّٰہ کا لقب پایا اورایسی آفاقی تعلیم پیش کی جس پر عمل کرکے ہی ا ِس دنیا کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنایا جا سکتا ہے۔سورت البقرہ آیت 126 میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے :وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًا(البقرۃ:آیت ۱۲۶)یعنی یہ جو خداکی خواہش اور اُس کی صفت’’ السلام‘‘ کا تقاضا ہے کہ دنیا میں امن قائم ہو اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ اس دنیا میں ایک ایسا مرکز قائم کرتا جودنیا کوامن دینے والاہوتا۔پس بیت اللہ ہی وہ مرکز ہے جو اس نے اس غرض کے لیے بنایا۔ یہی وہ مدرسہ ہے جہاں چاروں اطراف سے لوگوں نے جمع ہونا تھا اور امن کا سبق حاصل کرنا تھا۔اس مدرسہ کا نصاب کیا ہوگا ؟ اس میں کیا تعلیم دی جائے گی؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خداسے خبر پاکراس کا جواب ان الفاظ میں دیا: قَدْ جَآءَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّ کِتَابٌ مُّبِیْنٌ یَّھْدِیْ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُبُلَ السَّلَامِ ( المائدۃ: آیت ۱۶۔۱۷)یعنی اے لوگو!تم تاریکی میں پڑے ہوئے تھے۔تم نہیں جانتے تھے کہ تم اپنے خداکی رضا کیسے حاصل کر سکتے ہو اس لیے اس نے تمہارے لیے ایک مدرسہ بنادیاہے۔مگرخالی مدرسہ کافی نہیں جب تک کہ اس مدرسے کا استاد نہ ہو اور اس میں پڑھائی جانے والی کتابیں موجود نہ ہوں۔پس فرمایا: قَدْ جَآءَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّ کِتَابٌ مُّبِیْنٌ۔خداکی طرف سے تمہارے پاس ایک نور آیا ہے جومحمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پاک وجود ہے اوراُس کے ساتھ ایک کتاب مبین ہے۔ یعنی ایسی کتاب جو ہرقسم کے مسائل کو کھول کر بیان کرنے والی ہے۔پس اس امن کے مدرسہ میں امن کا سبق پڑھانے والے تو حضرت محمدﷺ ہیں اورامن کا نصاب وہ کتاب ہے جو یَھْدِیْ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُبُلَ السَّلَامِ کی مصداق ہے۔جوشخص خداکی رضاحاصل کرناچاہتاہے اسے چاہیے کہ اس کتاب کو پڑھے۔اس میں جس قدر سبق ہیں وہ سُبُلَ السَّلَامِ یعنی سلامتی کے راستے ہیں اورکوئی ایک حکم بھی ایسانہیں جس پر عمل کرکے انسانی امن برباد ہوسکتا ہو۔اب یہ سوال رہ جاتاہے کہ یہ امن جو اسلام قائم کرناچاہتاہے کس کے لیے ہے؟اللہ تعالیٰ اس کاجواب دیتے ہوئے فرماتاہے:قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَسَلَامٌ عَلیٰ عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰیکہ اے محمدﷺ! تو لوگوں کو بتا دے کہ وہ لوگ جو خداتعالیٰ کے چنیدہ اور پسندیدہ ہوجائیں گے اوراپنے آپ کو اس کی راہ میں فداکردیں گے وہ پر امن زندگی بسر کرنے لگ جائیں گے۔یعنی وہ لوگ جو اخلاص سےمحمد رسول اللہﷺ کی اتباع کرنے والے اورآپ کے مدرسہ میں تعلیم حاصل کرنے والے ہیں وہ ہر قسم کے خوف و حزن سے محفوظ رہیں گے اور وہ خدا کی امان اور سلامتی کی چھتری کے نیچےبسیرا کریں گے۔

رب العالمین خدا کی طرف سےآنے والی تعلیم صرف ایک طبقہ کے لیے امن و سلامتی کے حصول کا ذریعہ نہیں ہو سکتی بلکہ اس کا فیض تمام انسانوں کو برابر پہنچنا چاہیے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کا اظہار اللہ تعالیٰ نے سورہ زخرف میں ان الفاظ میں فرمایا ہے:وَقِیْلِہٖ یٰرَبِّ اِنَّ ھٰؤُ لَآءِ قَوْمٌ لَّایُؤْمِنُوْنَ۔ فَاصْفَحْ عَنْھُمْ وَقُلْ سَلَامٌ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ(الزخرف آیت ۸۹۔۹۰) یعنی نبی کریمﷺ اپنی قوم کی بد سلوکی کی وجہ سے پکار اٹھے کہ اے میرے رب !میں تو اپنی قوم کی طرف امن کا پیغام لے کرآیا تھا اِنَّ ھٰؤُ لَآءِقَوْمٌ لَّایُؤْمِنُوْنَ مگر یہ قوم تو ایسی ہے کہ اس پیغام کی قد رکرنے کی بجائے وہ میری مخالفت پر کمر بستہ ہو گئی ہے اور انہوں نے میرے اور میری قوم کے امن کو بھی بالکل برباد کردیا ہے۔ مگر اس کے باوجود اللہ تعالیٰ آپ کو درگزر کرنے کی تعلیم دیتا ہے اور فرماتا ہے کہفَاصْفَحْ عَنْھُمْ۔یعنی اے ہمارے نبی! ابھی ان لوگوں کوتیری تعلیم کی عظمت معلوم نہیں اس لیے وہ غصہ میں آجاتے ہیں اورتیری مخالفت پر اتر آتے ہیں لیکن تو پھر بھی ان سے درگزر کرکیونکہ ہم نے تجھے امن کے قیام کے لیے مبعوث کیا ہے۔ وَقُلْ سَلَامٌ۔اورجب یہ لوگ تجھے ستائیں توتُویہی کہتا رہ کہ میں تو تمہارے لیے سلامتی لایاہوں فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ عنقریب دنیا کومعلوم ہوجائے گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو دنیا کے لیے لڑائی نہیں بلکہ امن لائے تھے۔ گویا وہ امن و سلامتی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لائے وہ صرف مومنوں کے لیے مخصوص نہ رہے بلکہ مخالفین اور دشمنوں کو بھی اس کا فیض پہنچا۔پھر اس مدرسہ میں دی جانے والی تعلیم اتنی خوبصورت ہے کہ صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو درگزر کرنے کی تعلیم نہیں بلکہ تمام مومنوں کو بھی یہی تعلیم دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ عباد الرحمان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ وَاِذَاخَاطَبَھُمُ الْجَاھِلُوْنَ قَالُوْاسَلَامًا ( الفرقان : ۶۴) یعنی مومن کم فہم اورجاہل لوگوں سے جو اسلام کی غرض و غایت سے غافل ہیں الجھتے نہیں بلکہ ان کی شان تو یہ ہے کہ جب لوگ ان سے جہالت سے پیش آتے ہیں تووہ اس کے جواب میں ان کا مقابلہ نہیں کرتے بلکہ سَلَامًا کہتے ہیں کہ ہم توتمہاری سلامتی چاہتے ہیں۔ گویارسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی سلامتی صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے لیے ہے۔پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ محمدرسول اللہﷺ نے جو امن و سلامتی دنیا کو مہیا کی کیا اس کا اثر صرف اسی دنیا تک محدود ہے یا پھر اگلی دنیا تک بھی پہنچنے والا ہے۔ کیا وہ عارضی ہے یا مستقل۔ اس کا جواب دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: وَاللّٰہُ یَدْعُوْٓااِلیٰ دَارِ السَّلَامِ(یونس : ۲۶)کہ دنیا فسادوں کی طرف لے جاتی ہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جو تعلیم دی گئی ہے وہ نہ صرف اس دنیا میں امن کی ضامن ہے بلکہ مرنے کے بعد بھی وہ دارالسلام یعنی امن کے گھر کی طرف لے جانے کا موجب بنے گی جہاں سلامتی ہی سلامتی ہے۔

الغرض اسلام نے امن کے قیام کے لیے ایسی مکمل تعلیم دی ہے کہ اس کے ماضی میں ایک سلام ہستی کھڑی ہے اور اس کے حال میں ایک مدرسۂ امن جاری ہے جس میں پڑھایا جانے والا نصاب امن و سلامتی سے بھر پور تعلیم پر مشتمل ہے اوروہ نصاب پڑھانے والا مدرّس بھی ایسا ہے جو سراپا ئے محبت و شفقت اور رحمت ہے اور عملی طور پر بھی اس نے ایک ایسی جماعت تیار کردی جو وَاِذَاخَاطَبَھُمُ الْجَاھِلُوْنَ قَالُوْاسَلَامًاکی مصداق ہے۔پھر اس کے مستقبل میں بھی امن ہے۔کیونکہ وَاللّٰہُ یَدْعُوْٓااِلیٰ دَارِ السَّلَامِ یعنی مرنے کے بعداللہ تعالیٰ انسان کو ایک ایسے جہان میں لے جائے گا جہاں سلامتی ہی سلامتی ہوگی۔پس اس طرح امن کے قیام کے لیے دی جانے والی اس بے مثال تعلیم کی زنجیر مکمل ہو جاتی ہے اورکوئی جزو تشنۂ تکمیل نہیں رہتا۔

سامعین کرام! اسلام نے صفاتِ الٰہیہ کا صرف ایک جامع اور مکمل نقشہ ہی پیش نہیں کیا بلکہ ا س نے بنی نوع انسان کو اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہونےاور اس کی صفات کو اپنانے کی تلقین بھی کی ہے۔ جیسا کہ فرمایا :صِبۡغَةَ اللّٰهِ ‌ۚ وَمَنۡ اَحۡسَنُ مِنَ اللّٰهِ صِبۡغَةً وَّنَحۡنُ لَهٗ عٰبِدُوۡنَ۔(البقرۃ:۱۳۹)اللہ تعالیٰ کا رنگ اختیار کرو اور رنگ میں اللہ تعالیٰ سے بہتر اور کون ہو سکتا ہے اور ہم اسی کی عباد ت کرنے والے ہیں۔ خدا تعالیٰ کی صفت السَّلَامسے متصف انسان ہی اصل میں مسلمان کہلانے کا مستحق ہے۔پیارے آقا حضرت محمد رسول اللہﷺ نے مسلمان کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان سلامتی میں رہیں۔ پھر ایک موقع پر آپﷺ نے فرمایا کہ وہ شخص سلامتی والا ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے لوگ محفوظ ہوں۔ (مسنداحمد بن حنبل، مسند معاذ بن انس، جلد5صفحہ377 حدیث 15729مطبوعہ بیروت1998ء)حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس ضمن میں فرماتے ہیں:’’ہر انسان کا پہلا تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہوتا ہے۔پس وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار بن جاتا ہے وہ مسلم ہوتا ہے کیونکہ وہ خداتعالیٰ کے احکام کے آگے اپنے آپ کو کلیۃً ڈال دیتا ہے اور یہی اسلام کی توضیح او ر اس کی صحیح تشریح ہے دوسرا تعلق انسان کا اپنی ذات اور بنی نوع انسان سے ہوتا ہے۔پس جو شخص اپنی ذات کو فتنوں میں پڑنے سے بچا لیتا ہے۔شرارتوں میں پڑنے سے بچا لیتا ہے۔بددیانتیوں،خیانتوں اور ظلموں میں پڑنے سے بچا لیتا ہے۔جھوٹ، فریب،دغا،بغض اور کینہ سے اپنے آپ کو بچا لیتا ہے۔وہ بھی مسلم ہے کیونکہ اُس نے اپنی جان کو سلامتی عطا کی۔اسی طرح جو شخص اپنی قوم کے لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے وہ بھی مسلم ہے۔جو شخص اپنے ہمسایوں اور رشتہ داروں کو امن دیتا اور فساد اور خونریزی اُن کےلیے پیدا نہیں کرتا وہ بھی مسلم ہے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد 6 صفحہ 109)

اللہ نے ہمارا نام مسلمان اسی لیے رکھا ہےتا کہ ہم اس کی صفت ’السلام ‘کے مظہر بن جائیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ قَبْلُ وَ فِيْ ھٰذَا(الحج:۷۹)یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے اب بھی اور اس سے پہلے بھی اور فِيْ ھٰذَا میں حضرت ابراہیم ؑ کی اس قرآنی دعا کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو آپ علیہ السلام نے ان الفاظ میں کی کہ رَبَّنَا وَجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَآ أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ ( البقرۃ:129) یعنی اے ہمارے ربّ!مجھ ابراہیم کو اور میرے بیٹے اسمٰعیل کو اپنے حضور میں مسلم قرار دے اوراسی طرح ہماری اولاد میں سے بھی ایک بڑی جماعت پیدا کر جو تیرے حضور میں مسلم کہلائے۔اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے پیارے آقا حضرت محمد مصطفی ٰﷺ نے فرمایا تھا کہ خداتعالیٰ نے میری امت کا نام مسلم اور میرے مذہب کا نام اسلام رکھا ہے۔ اس نام میں ہی اللہ تعالیٰ نےحضرت محمد رسول اللہﷺ کی بعثت کی غرض بتا دی ہے جو یہ ہے کہ ایک طرف لوگوں کا اللہ تعالیٰ سے جو السّلام ہے، مضبوط تعلق قائم ہو جائے اور وہ اس کی ناراضگی سے محفوظ ہوجائیں اور دوسری طرف وہ ایک دوسرے سے ہمدردی اور شفقت کا سلوک کریں۔ ان میں باہمی محبت و یگانگت پروان چڑھے اور وہ رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْکا نظارہ پیش کرنے والے ہوں اور وہ آپس کے لڑائی جھگڑوں اور فسادات سے نجات پا جائیں۔ اِس صورت میں وہ لَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُم یَحْزَنُوْنَ کے مصداق ہوجائیں گے یعنی نہ اُنہیں خداتعالیٰ کی طرف سے کسی ناراضگی کا ڈر ہو سکتا ہے اور نہ بنی نوع انسان کی طرف سے کوئی خطرہ لاحق ہو گااور اس طرح وہ روحانی اور جسمانی دونوں لحاظ سے محفوظ ہو جائیں گے۔

سامعین کرام! ہمارے پیارے آقا حضرت محمدﷺ نے نماز میں اپنے اور دوسروں کےلیے سلامتی طلب کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم لوگ آنحضرتﷺ کے پیچھے نماز میں یوں دعا مانگتے السَّلَامُ عَلی اللّٰہ۔ السَّلَامُ عَلیٰ جِبْرِیْلَ وَ مِیْکَائِیْلَ۔ السَّلَامُ فُلَانٍ۔ ایک روز آنحضرتﷺ نے فرمایا : ’’اِنَّ اللّٰہَ ھُوَ السَّلَامُ‘‘ کہ اللہ تو خود سلام ہے اس پر تم کیا سلامتی بھیجتے ہو؟ پس جب تم میں سے کوئی نماز میں قعدہ میں بیٹھے تو یہ دعا پڑھے التَّحِيَّاتُ لِلّٰهِ، وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلٰى عِبَادِ اللّٰهِ الصَّالِحِيْنَ۔ یعنی تمام زبانی، بدنی اور مالی عبادتیں اللہ کے لیے ہیں۔ اے نبیﷺ تجھ پر سلامتی ہو اور اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکات ہوں۔ سلامتی ہو ہم پر اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں پر۔ فرمایا کہ اگر تم یہ دعا پڑھو گے تو گویا تم نے زمین و آسمان میں موجود ہر شخص کےلیے سلامتی کی دعا کر دی۔(سنن الدارمی،کتاب الصلوٰۃ،باب فی التشھد)

نماز ختم کرتے وقت بھی جب ایک مسلمان دائیں اور بائیں منہ پھیر کر السلام علیکم و رحمۃ اللہ کے الفاظ کہتا ہے تو وہ یہ اقرار کرتا ہے کہ وہ ہر ایک کو چاہے وہ کوئی بھی ہو امن و سلامتی کی ضمانت دیتا ہے اور پھر نماز سے فارغ ہو نے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ جو السلام ہے اُس کی طرف سے ملنے والی سلامتی کا وہ اعتراف کرتا ہے۔ چنانچہ حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ نماز سے سلام پھیرتے تو تین دفع استغفراللہ کہتے اور پھر یہ دعا پڑھتے اللّٰھُمَّ أنْتَ السَّلَامُ وَ مِنْکَ السَّلَامُ تَبَا رَکْتَ ذَاالْجَلَالِ وَالْاِکْرامِ۔(مسلم کتاب المساجد باب استحباب الذکر بعد الصلوٰۃ و بیان صفتہ)اے اللہ! تُو سلام ہے۔ سلامتی تجھ ہی سے ہے۔ اے جلال و اکرام والے، تو برکت والا ہے۔

آنحضرتﷺ نے معاشرتی امن کے فروغ اور آپس کے محبت و پیار کو قائم کرنے کے لیے سلام کو رواج دینے کی تلقین فرمائی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:وَالَّذِي نَفْسِيْ بِيَدِهِ لاَ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ حَتَّى تُؤْمِنُوْا وَلاَ تُؤْمِنُوْا حَتَّى تَحَابُّوا أَوَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى شَىْءٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمْ أَفْشُوْا السَّلاَمَ بَيْنَكُمْ "(صحیح مسلم کتاب المقدمۃ،باب فی الایمان)اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ تم اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہو گے جب تک کامل ایمان نہ لے آؤ اور اس وقت تک کامل ایمان نہیں لا سکتے جب تک آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔ اور کیا میں تمہیں ایسی چیز کے بارے میں نہ بتاؤں کہ جب تم اسے اپنا لو گے تو ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو گے، وہ بات یہ ہے کہ تم آپس میں سلام کو رواج دو۔

سامعین کرام! سلام کو پھیلانا، آپس میں محبت پیدا کرنے اور معاشرے میں امن قائم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔یہ وہ سلامتی کی دعا ہے جو انتہائی خیر و برکت کا موجب ہے اور دل کی میل اور کدورتیں صاف کرنے کا ایک زبردست نسخہ ہے۔ جب ہم کسی کو السلام علیکم کہتے ہیں تو ہم اس کے لیے سلامتی کی دعا کرتے ہیں اور اسے یقین دلاتے ہیں کہ ہم اس کے خیرخواہ ہیں اور اسے کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچا ئیں گے۔معاشرتی امن کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ اسلام کی اس اہم تعلیم کو ازسرنو اپنے عملوں کے ذریعہ زندہ کیا جائے۔

سامعین کرام! اللہ تعالیٰ کی صفت’’السلام‘‘کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے انبیاء جو اس کی صفات کے حقیقی مظہر ہوتے ہیں اور اسی طرح اُن کے سچے متبعین جو خدا تعالیٰ کے ہو جاتے ہیں وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور اس کی سلامتی کے سایہ میں زندگی بسر کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ اپنے خاص کرم سے اپنے ان پیاروں کو دشمنوں کے حملوں، منصوبوں اور بدارادوں سے محفوظ اور سلامت رکھتا ہے۔ ان کی حفاظت اور اپنے مقاصد عالیہ میں کامیابی اور اسی طرح ان کے دشمنوں کے بد انجام کے واقعات سے قران کریم بھرا پڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں نہ صرف ان کی زندگیوں میں سلامت رکھا بلکہ ان کی موت بھی ایسی سلامتی والی تھی کہ آج بھی جب ہم ان کا نام لیتے ہیں تو ہمارے دل ان کے لیے محبت اور احترام کے جذبات سے بھر جاتے ہیں اور بے اختیار ہماری زبانوں پر علیہ السلام اور رضی اللہ عنہم کے الفاظ جاری ہو جاتے ہیں اور یہ وہ سلامتی کی دعا ہے جو قیامت تک ان کو پہنچتی رہے گی۔انشاء اللہ۔ہم دیکھتے ہیں کہ فرعون کے مقابلے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اوران کے متبعین کو اللہ نے سلامت رکھا۔ عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر لٹکا کر مارنے والے نا کام ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو نہ صرف لعنتی موت سے سلامت رکھا بلکہ کامیابیوں سے بھر پور لمبی زندگی عطا فرمائی۔ پھر ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺ کے خلاف آپ کے دشمنوں نے کیا نہیں کیا۔ کبھی آپ کو قید کرنے کی کوشش کی، کبھی قتل کرنے کے منصوبے باندھے،آپ کو اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ آپ پر جنگیں مسلط کیں۔ آپ کے پیاروں کو شہید کیا۔ لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ ان سب کو ناکامی ونامرادی کا منہ دیکھنا پڑا۔ خدا نے ان کی گردنوں کو پیارے آقا حضرت محمدﷺ کے سامنے جھکا دیا اوریوں آپﷺ کو روحانی اور جسمانی سلامتی سے ہمکنار فرمایا۔

سامعین کرام! وہ آگ جو ابو الانبیاء حضرت ابراہیمؑ کو ہلاک کرنے کے لیے بھڑکائی گئی السلام خدا نے جس کے قبضہ و تصرف میں اس کائنات کا ذرہ ذرہ ہے اس آگ کو حکم دیا یٰنَارُ کُوۡنِیۡ بَرۡدًا وَّسَلٰمًا عَلٰۤی اِبۡرٰہِیۡمَ (الانبیاء:۷۰) کہ اے آگ !تو ابراہیم کے لیےٹھنڈی ہو جا اور سلامتی کا موجب بن جا۔چنانچہ وہ آگ آپ کے لیے گلزار بن گئی اور آپ کو ذرا بھی نقصان نہ پہنچا سکی۔انبیاء اور خدا کے پیاروں کا دل خدا تعالیٰ کی محبت کی آگ سے معمور ہوتا ہے اور اس کے مقابلے میں اس دنیا کی آگ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ جس طرح سورج کے سامنے شمعیں ماند پڑ جاتی ہیں اسی طرح خدا کی محبت کی آگ کے سامنے ا س دنیا کی آگ جو انبیاء کے خلاف جلائی جاتی ہے سرد پڑ جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم کے لیے جلائی جانے والی آگ ان کے لیے نہ صرف سرد پڑگئی بلکہ سلامتی کاموجب بھی بن گئی۔ بعض لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ٹھنڈی ہونے والی آگ سےمراد دشمنی کی آگ لیا کرتے تھے اس پر حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ اس تاویل کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں مجھے ابراہیم قرار دیا ہے اگر کسی کو شک ہے تو مجھے آگ میں ڈال کر دیکھ لے کہ کیسے اللہ تعالیٰ اس آگ کو مجھ پر ٹھنڈا کرتا ہے اور میں اس آگ سے سلامت نکلتا ہوں۔اللہ تعالیٰ نے تو آپ کو الہاماً یہ تسلی دی تھی کہ آگ نہ صرف آپ کی غلام ہے بلکہ آپ کے غلاموں کی بھی غلام ہے۔آپ اپنے ایک شعرمیں فرماتے ہیں؎

ترے مکروں سے اَے جاہل! مرا نقصاں نہیں ہرگز

کہ یہ جاں آگ میں پڑ کر سلامت آنے والی ہے

کئی مواقع پر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود ؑکی معجزانہ طور پر حفاظت فرمائی اور آپ کو نقصان سے بچایا۔ آپ علیہ السلام ’’السلام ‘‘خدا کی حفاظت کے واقعات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ کاذکر ہے جبکہ میں سیالکوٹ میں تھاتوایک دن بارش ہورہی تھی۔جس کمرےکے اندر میں بیٹھاہواتھا اس میں بجلی آئی۔ساراکمرہ دھوئیں کی طرح بھر گیا اورگندھک کی سی بُوآتی تھی۔لیکن ہمیں کچھ ضررنہ پہنچا۔اسی وقت وہ بجلی ایک مندر میں گری جوکہ تیجاسنگھ کامندر تھا اوراس میں ہندوؤ ں کی رسم کے مطابق طواف کے واسطے پیچ درپیچ اردگرد دیوار بنی ہوئی تھی اوروہ اندربیٹھاہواتھا۔بجلی ان تمام چکروں میں سے ہو کر اند رجاکر اس پر گری اورو ہ جل کرکوئلہ کی طرح سیاہ ہوگیا دیکھووہی بجلی کی آگ تھی جس نے اس کو جلادیا۔ مگرہم کو کچھ ضرر نہ دے سکی۔کیونکہ خداتعالیٰ نے ہماری حفاظت کی۔ایساہی سیالکوٹ کاایک اَورواقعہ ہے کہ ایک دفعہ رات کو میں مکان کی دوسری منزل پرسویا ہواتھا اوراسی کمر ہ میں میرے ساتھ پندرہ سولہ اورآدمی بھی تھے۔رات کے وقت شہتیر میں ٹک ٹک کی آواز آئی۔میں نے آدمیوں کو جگایا کہ شہتیر خوفناک معلوم ہوتاہے یہاں سے نکل جاناچاہیے۔انہوں نے کہا کوئی چوہاہوگا۔ کچھ خوف کی بات نہیں اوریہ کہہ کر پھر سوگئے تھوڑی دیر کے بعد پھر ویسی ہی آواز سنی۔تب میں نے ان کودوبارہ جگایا۔مگرپھر بھی انہوں نے کچھ پروا نہ کی۔پھر تیسر ی بار شہتیر سے آواز آئی۔تب میں نے ان کو سختی سے اٹھایا۔اورسب کومکان سے باہر نکالا اور جب سب نکل گئے توخود بھی وہاں سے نکلا۔ابھی میں دوسرے زینہ پرتھا کہ وہ چھت نیچے گری اوردوسری چھت کو بھی ساتھ لے کر نیچے جاپڑی اورچارپائیاں ریزہ ریزہ ہوگئیں اورہم سب بچ گئے۔یہ خداتعالیٰ کی معجزہ نماحفاظت ہے جب تک کہ ہم وہاں سے نکل نہ آئے شہتیر گرنے سے محفوظ رہا۔(الحکم ۱۰؍جون۱۹۰۷ء)

سامعین کرام! جماعت احمدیہ کی تاریخ السلام خدا کی حفاظت اور سلامتی کے ان گنت واقعات سے بھری پڑی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود مسیح پاک علیہ السلام، خلفائے احمدیت اوربحیثیتِ مجموعی جماعت احمدیہ کی حفاظت کی اور وہ جو بھی اِس جماعت کو مٹانے کا زعم لے کر اٹھا عبرت کا نشان بن گیا اور زمانہ گواہ ہے کہ مصائب کے بادل آئے لیکن چھٹ گئے اور طوفانوں کے رُخ پلٹادیے گئے اور کاروانِ احمدیت ترقی کی منزلوں کی طرف کامیابی کے ساتھ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اور انشاءاللہ بڑھتا چلا جائے گا۔حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیزفرماتے ہیں:’’تاریخ شاہد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر آپؑ کی زندگی میں جو بھی آگ بھڑکائی گئی وہ نہ صرف ٹھنڈی ہوئی بلکہ آپؑ کے لئے سلامتی کا پیغام لائی… اس زمانے میں بھی مخالفت کی جو آگ دنیا کے کسی بھی خطے میں جماعت کے خلاف بھڑکائی گئی یا بھڑکائی جا رہی ہے وہ ضرور ٹھنڈی ہو گی انشاء اللہ۔ کیونکہ وہ کسی فرد کے خلاف نہیں بھڑکائی جا رہی بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف بھڑکائی جا رہی ہے۔ آپؑ کے ماننے والوں کے خلاف اس لئے بھڑکائی جا رہی ہے کہ انہوں نے اس زمانے کے امام کو قبول کیا… اس آگ نے یقیناً ٹھنڈا ہونا ہے انشاء اللہ۔ نہ صرف یہ ٹھنڈی ہو گی بلکہ سلامتی بھی لے کر آئے گی اور یہی ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ سے ہمیں ہمیشہ سلامتی مانگتے رہنا چاہئے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۱؍مئی ۲۰۰۷ء)

سامعین کرام! خدا تعالیٰ نے انسان کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ اس کے ذریعےسے خدا تعالیٰ کی صفات کا ظہور ہو۔ اگر ہم میں سے ہر ایک خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر بننے کی کوشش کرے تو اس دنیا کا نقشہ ہی بدل جائے۔ یہ دنیا امن وسلامتی اور پیار ومحبت سے بھر جائے۔سلامت وہی ہے جو کہ اپنا تعلق خدائے سلام سے جوڑتا ہے اورجس کے آئینہ دل میں خدا تعالیٰ کی صفات منعکس ہوتی ہیں۔پس اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم آئندہ اورہمیشہ مصائب و آفات سے محفوظ اور نقائص و عیوب سے بچے رہیں، اگر ہم اس دنیا کو امن و سکون کا گہوارہ بنانا چاہتے ہیں اور خود بھی امن و سکون سے بھرپور زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں خدا تعالیٰ سے جو تمام سلامتیوں کا منبع اور سرچشمہ ہے اپنا تعلق مضبوطی کے ساتھ جوڑنا ہوگا اور اس کی صفات کا مظہر بننا ہوگا۔ جیسے وہ اپنے کرم سے لوگوں کو تکالیف اور مصائب سے سلامتی عطا کرنے والا ہے ویسے ہمیں بھی اس کی مخلوق کے لیے راحت و آرام کا موجب بننا ہوگا۔ جیسے وہ اپنے بندوں کے گناہوں اور ان کی کمزوریوں کی پردہ پوشی فرماتا ہے اور انہیں معاف کرتا ہے ویسے ہی ہمیں بھی اس کی صفت السلام کا مظہر بنتے ہوئے اپنے قصور واروں کے قصور معاف کرنے ہوں گے۔ان کی غلطیوں اور خطاؤں سے صرفِ نظر کرنا ہوگی۔ جیسے خدا میں خیر ہی خیر ہے ویسے ہی ہمیں اپنے ماحول میں بھلائی اور خیر کو عام کرنا ہوگا۔

سامعین کرام! اس وقت دنیا کا امن خطرے میں ہے۔ لوگ خدا سے دور ہیں۔ قومیں قوموں کے اوپر چڑھائی کر رہی ہیں۔ دوسروں کے وسائل پر قبضہ کرنے کی خواہش اور حرص دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ قریب ہے کہ ایک ایسی جنگ چھڑ جائے جو ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے اور امن عالم کو برباد کردے۔ مختلف قسم کے ظلمات یعنی اندھیرے ہیں جنہوں نے اس دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اور ان سے بچنے کا حل یہی ہے کہ یہ دنیا اپنے آپ کو اس خدا کے ساتھ جوڑ دے جو اندھیروں سے نکال کر روشنیوں کی طرف لے جانے والا خدا ہے جو سلامتی اور امن کا منبع ہے۔ وہ تو ہر جگہ ہے اورہر ایک پر اس کی نظر ہے۔ وہ ظاہر و غیب کا علم رکھتا ہے اس پر ایمان لا کر اس سے تعلق جوڑ کر، اس کا ہم رنگ ہو کر کیسے کوئی کسی پر ظلم کر سکتاہے اور امن و سکون اور سلامتی کی راہوں کو چھوڑ سکتا ہے۔

سامعین کرام! مسلمانوں کو تو امن و سلامتی کا ضامن بنایا گیا تھا۔ انہیں ایسی پاک تعلیم دی گئی تھی جو خدائے سلام سے جوڑنے والی اور سلامتی کی راہوں کی طرف ہدایت دینے والی تھی لیکن بد قسمتی سے انہوں نے اس تعلیم کی قدر نہ کی اور اسے بھلا دیا اور آج اس دور میں اسلام کی اس پر امن تعلیم کو از سر نو زندہ کرنے کا کام آنحضرتﷺ کے بروز کامل حضرت مسیح موعود ؑاور آپ کے بعد آپ کے خلفاء اور آپ کے ماننے والوں کے سپرد کیا گیاہے۔ آج پورے عالمِ اسلام میں صرف جماعت احمدیہ عالمگیر ہی ہے جس کے افراد السلام خدائے سلام کا مظہر بن کر دنیا میں اسلام کی پُر امن تعلیم کے پیامبر بنے ہوئے ہیں۔ یہی وہ جماعت ہے جو ’’محبت سب کےلیے نفرت کسی سے نہیں‘‘ کا خوبصورت ماٹو لیے ساری دنیا میں محبتیں بانٹ رہی ہے۔ یہی وہ جماعت ہے جو جگہ جگہ امن کانفرنسز منعقد کرکے اسلام کی پرامن تعلیم دنیا تک پہنچا رہی ہے اور یہی وہ جماعت ہے جو امن و سلامتی کے قیام کے لیے غیر معمولی خدمات بجا لانے والوں کو امن کا انعام دیتی ہےاور یہی وہ جماعت ہے جس کے سربراہ اور پانچویں مظہر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیزامن و سلامتی کے سفیر بن کر شہر شہر اور ملک ملک سلامتی سے بھر پور پیغام کا پرچار کر رہے ہیں اور خدائے سلام کی طرف لوگوں کو درد دل کے ساتھ دعوت دے رہے ہیں تا یہ دنیا بھی سلامت رہے اور اس کے باسی بھی ہولناک تباہی سے بچ جائیں۔آپ افرادِ جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’…تمہارا واحد کام دنیا میں امن کا فروغ اور اس کا قیام ہے۔ ان کی نفرتوں اور زیادتیوں کے جواب میں تم صرف یہ کہو کہ ’’ تم پر سلامتی ہو ‘‘ اور انہیں بتاؤ کہ تم ان کے لئے محض سلامتی کا پیغام لائے ہو۔… جماعت احمدیہ مسلمہ انہی تعلیمات پر کار بند ہے اور انہی کے مطابق زندگی بسر کر رہی ہے۔ یہی وہ ہم آہنگی، روا داری اور ہمدردی کی تعلیم ہے جسے دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لئے ہم مصروفِ عمل ہیں۔ ہم احمدی مسلمان ہی ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُس تاریخی، بے نظیر اور لاثانی نرمی، محبت اور شفقت کی تقلید کرتے ہیں کہ کئی سالوں پر محیط سخت تکلیف اور کرب ناک مظالم برداشت کرنے کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں فاتحانہ شان کے ساتھ واپس تشریف لائے…..تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سے کوئی بدلہ نہ لیا بلکہ اعلانِ عام کروا دیا کہ تم میں سے کسی پر بھی کوئی پکڑ نہیں کیونکہ مَیں نے تم سب کو معاف کر دیا ہے۔ مَیں محبت اور امن و سلامتی کا نبی ہوں۔ خدا تعالیٰ کی صفت ’’السلام ‘‘ کا سب سے زیادہ علم مجھے دیا گیا ہے۔ وہی خدا ہے جو سلامتی بخشتا ہے۔ مَیں تمہاری ساری سابقہ زیادتیاں تمہیں معاف کرتا ہوں اور مَیں تمہیں سلامتی اور تحفظ کی ضمانت دیتا ہوں۔ ‘‘(عالمی بحران اور امن کی راہ صفحہ ۱۲۷تا۱۲۸،ایڈیشن۲۰۱۵ء)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حقیقی رنگ میں اپنی صفت السلام کا مظہر بننے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم اپنے پیارے امام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آنحضرتﷺ کے پاک اُسوہ کو اپنانے والے ہوں اور اسلام کے پر امن پیغام کو جلد سے جلد ساری دنیا تک پہنچانے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس پاک تعلیم کو اپنے اندر بھی رائج کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button