قرض کی واپسی بھی بڑے اچھے طریقے سے ہونی چاہئے
ایک بہت بڑی بیماری جو دنیا میں عموماً ہے اور جس کی و جہ سے بہت سارے فساد پیدا ہوتے ہیں وہ ہے کاروبار کے لئے یا کسی اور مَصرف کے لئے قرض لینااور پھر ادا کرتے وقت ٹال مٹول سے کام لینا۔ بعض کی تو نیت شروع سے ہی خراب ہوتی ہے کہ قرض لے لیا پھردیکھیں گے کہ کب ادا کرنا ہے۔ اور ایسے لوگ باتوں میں بھی بڑے ماہر ہوتے ہیں جن سے قرض لینا ہو ان کو ایسا باتوں میں چراتے ہیں کہ وہ بیوقوف بن کے پھر رقم ادا کر دیتے ہیں یا کاروباری شراکت کر لیتے ہیں۔… اکثر مشاہدہ میں آتا ہے ایسے لوگ جو بدنیتی سے قرض لیتے ہیں ان کے کاموں میں بڑی بے برکتی رہتی ہے۔ مالی لحاظ سے وہ لوگ ڈوبتے ہی چلے جاتے ہیں اور خود تو پھر ایسے لوگ برباد ہوتے ہی ہیں ساتھ ہی اس بے چارے کو بھی اس رقم سے محروم کر دیتے ہیں جس سے انہوں نے باتوں میں چرا کر رقم لی ہوئی ہوتی ہے۔ جو بعض دفعہ اس لالچ میں آ کر قرض دے رہا ہوتا ہے، پیسے کاروبار میں لگا رہا ہوتا ہے کہ مجھے غیر معمولی منافع ملے گا۔ وہاں عقل اور سوچ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بس وہ منافع کے چکر میں آ کر اپنے پیسے ضائع کر دیتے ہیں اور بظاہر اچھے بھلے، عقلمند لوگوں کی اس معاملے میں عقل ماری جاتی ہے اور ایسے دھوکے بازوں کو رقم دے دیتے ہیں۔ تو قرض جب بھی لینا ہو نیک نیتی سے لینا چاہئے۔ جیسا کہ آپؐ نے فرمایا اللہ پھر اس کی مدد کرتا ہے۔ اور ایک احمدی کا یہی نمونہ ہونا چاہئے اور قرض کی واپسی بھی بڑے اچھے طریقے سے ہونی چاہئے۔… یہی سمجھتا ہے کہ عموماً جس طرح احمدی دوسروں کی نسبت زیادہ قابل اعتماد ہیں، قابل اعتبار ہیں، یہ بھی ہو گا۔ لیکن جب کسی احمدی سے ایسی سوچ والے کسی شخص کولین دین میں یا کاروبار میں یا دوسرے وعدوں میں کوئی نقصان پہنچتا ہے یا صدمہ پہنچتا ہے تو وہ پوری جماعت کوہی برا سمجھتا ہے۔(خطبہ جمعہ فرمودہ18؍ نومبر 2005ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل9؍دسمبر2005ء صفحہ8،7)