اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ کا مصداق بننا چاہیے(قسط نمبر1)
(خطبہ جمعہ از حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ17؍نومبر1933ء)
سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے 17؍نومبر 1933ءکو خطبہ جمعہ میں سورت الفتح کی آیت تیس کا ایک حصہ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ کی پُر معارف تفسیر بیان کرتے ہوئےمومنین کی بعض بنیادی صفات پر روشنی ڈالی اوربطور خاص صدیقیت کے مقام کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کے واقعات بیان فرمائے۔
ایمان کی اصلاح کرنے اور نفس کے وساوس سے بچانے والے اس بصیرت افروز خطبہ جمعہ کا متن قارئین الفضل انٹرنیشنل کے استفادے کے لیے پیش ہے۔(ادارہ)
تشہد ، تعوّذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایسا بنایا ہے کہ وہ ایک طرف تو اپنے گرد و پیش کے اثرات کو قبول کرنے کے لئے بڑی شدت سے مائل رہتا ہے۔ اور دوسری طرف اس میں یہ بھی طاقت ہے کہ اگر چاہے تو ایسے اثرات کو قبول کرنے سے انکار کر دے۔ گویا ایک طرف تو وہ چٹان ہے ایسی مضبوط چٹان کہ جس سے سمندر کی تیز لہریں ٹکرا کر ہمیشہ واپس لوٹ جاتی ہیں اور اس پر ذرہ بھی نشان پیدا کرنے کےقابل نہیں ہوتیں۔ اور دوسری طرف وہ ایک سپنچ کے ٹکڑے کی طرح یانرم موم کی طرح ہے کہ اس پر ہاتھ ڈالتے ہی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس میں طاقتِ مقابلہ ہے ہی نہیں۔ اور یہ دونوں چیزیں انسان کے تمام اعمال کی جڑ ہیں ۔ یعنی کسی جگہ پر اثر کو قبول کرنااور کسی جگہ پر ردّ کر دینا۔ نہ تو ہر جگہ اثر قبول کرنا مفید ہوسکتا ہے اور نہ ہر جگہ ردّ کر دینا۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ مومنوں کی یہ صفت بیان فرماتا ہے کہ وہ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ(الفتح :30)ہوتے ہیں۔ یعنی یہ نہیں کہ وہ ہر اثر کو قبول کرنے والے ہوتے ہیں۔ کیونکہ اگر ایسا ہو تو وہ شیطان کا اثر بھی قبول کر لیتے ہیں اور یہ بھی نہیں کہ کسی کا اثر قبول کرتے ہی نہیں۔ کیونکہ اس صورت میں وہ فرشتوں کے اثر کو بھی ردّ کر دیتے ہیں۔ بلکہ مومن کے اندر دونوں باتوں کا پایا جانا ضروری ہے۔ ان میں سے ایک کو اپنے اندر پیدا کر کے انسان نیک نہیں بن سکتا۔ اور نہ ہی ایک سے تقویٰ قائم رہ سکتا ہے۔ ضروری ہے کہ کامل انسان میں یہ دونوں باتیں پائی جائیں۔ اس میں یہ بھی طاقت ہو کہ خواہ کتنی ہی تکلیف دہ بات ہو پھر بھی غلط اثر کو قبول نہ کرے اور یہ بھی چاہیے کہ خواہ حالات کتنے ہی مخالف کیوں نہ ہو۔ پھر بھی اچھی چیز کے اثر کو ردّ نہ کرے۔ اسی چیز کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایا کہ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ جب کسی ایسی چیز کا سوال ہو جو مذہب و دین کے خلاف ہو تو چاہیئے کہ مومن ایک ایسی چٹان کی مانند ہو جس پر کوئی چیز اثر ہی نہیں کر سکتی۔ لیکن جہاں تقویٰ کا معاملہ ہو، وہاں ایسا معلوم ہو کہ وہ قبل از وقت ہی جُھک رہا تھا۔ نیکی کا سوال تو بعد میں پیدا ہوا۔ اس کے قبول کرنے کا میلان اس کے اندر پہلے ہی موجود تھا۔ اس درجہ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اُس دیئے سے تشبیہ دی ہے جو قریب ہے کہ آگ کے بغیر ہی جل پڑے۔ یہی مقام ہے کہ جب انسان اسے ہر قسم کی ملونی سے پاک کر دیتا ہے۔ تو اسی کو صدِّیقیَّت کہتے ہیں۔ صِدِّیق اور مُصَدِّق میں یہی فرق ہوتا ہے۔ مُصَدِّق تو بعد میں آ کرکہتا ہے کہ میں اس کی تصدیق کرتا ہوں۔ مگر صدیق میں اس کے قبول کرنے کا میلان پہلے ہی موجود ہوتا ہے۔ یوں تو سب صحابہ مصدق تھے۔ لیکن صدِّیقیَّت میں ابوبکر رضی اللہ عنہ سب سے بڑھے ہوئے تھے۔ ہمارے زمانہ میں بھی صوفی احمد جان صاحب جو پیر منظور احمد صاحب اور پیر افتخار احمد صاحب کے والد اور حضرت خلیفہ اولؓ کے خسر تھے، صدِّیقیَّت کا مقام حاصل کئے ہوئے تھے۔ ابھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے دعویٰ بھی نہ کیا تھا کہ انہوں نے آپ کو ایک خط لکھا جس میں یہ شعر تھا۔
ہم مریضوں کی ہے تمہیں پہ نظر
تم مسیحا بنو خدا کے لئے
ابھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام بھی نہیں سمجھتے تھے کہ میں مسیح موعود ہوں۔ مگر انہوں نے کہا کہ آپ ایسا دعویٰ کریں ہم آپ کو ماننے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ یہی صدِّیقیَّت کا مقام ہے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ کیا تو حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کسی قریب یا بعید کے مقام پر باہر گئے ہوئے تھے۔ آپ کا دعویٰ سن کر لوگ اِدھر اُدھر دوڑ پڑے کہ خبر دیں کہ ایسے اچھے آدمی کو کیا ہوگیا ہے۔ وہ آپ کو پاگل سمجھنے لگ گئے تھے۔ جھوٹ تو بعد میں اس وقت کہا جب ضدّ ہوگئی وگرنہ شروع شروع میں وہ پاگل ہی سمجھتے تھے۔ آپ کے دعویٰ کو سنتے ہی عام چرچا شروع ہوگیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت روایت ہے کہ وہ اپنے ایک دوست کے گھر میں بیٹھے تھے کہ ایک لونڈی آئی اور اس نے کہا کچھ سنا ہے۔ آپ نے فرمایا کیا ہوا؟ اس نے کہا تمہارے دوست محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی عقل ماری گئی ہے۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ بات کیا ہے۔ اس نے کہا وہ کہتا ہے خدا میرے ساتھ باتیں کرتا ہے، میرے پاس فرشتے آتے ہیں، میں نبی ہوں۔ حضرت ابوبکرؓ نے سن کر کہا اگر وہ ایسا کہتا ہے تو ٹھیک کہتا ہے۔ اس کے بعد آپ وہاں ٹھہرے نہیں بلکہ فوراً آئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان پر پہنچے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُس وقت اندر تھے حضرت ابوبکرؓ نے جب دستک دی تو آپ باہر تشریف لائے۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا۔ میں نے سنا ہے کہ آپ نے کوئی دعویٰ کیا ہے۔ آپؐ اس خیال سے کہ ابوبکرؓ پرانا دوست ہے ایسا نہ ہو کہ ٹھوکر کھا جائے، کوئی دلیل دینے لگے۔ لیکن حضرت ابوبکرؓ نے کہا مجھے کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔ آپ صرف یہ بتائیں کہ آپ نے کوئی دعویٰ کیا ہے یا نہیں۔ حضرت ابوبکرؓ اگر دلیل سننے کے بعد ایمان لاتے تو مصدق ہوتے، صدیق کا مقام نہ حاصل کر سکتے۔ صدِّیقیَّت کے لئے دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ یہ انسان کے اندر سے آتی ہے۔ اور جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ ہاں میں نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے تو آپ نے فوراً کہا کہ میں اس کا مُصَدِّق ہوں۔ (السیرة الحلبیة جلد 1 صفحہ309المطبعةالازھریةمصر1935ء)
حضرت خلیفہ اولؓ کا بھی اسی قسم کا واقعہ ہے جو آپ خود سنایا کرتے تھے۔ فرماتے میں جموں میں تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام اُس وقت توضیح مرام اور فتح اسلام رسائل چھپوا رہے تھے۔ ان کا کوئی پروف کسی غیر احمدی نے چرایا اور جموں لے آیا۔ وہاں اپنے دوستوں سے کہا کہ میں نے اب نور دین کو قابو کرنے کا سامان کر لیا ہے۔ انہوں نے پوچھا کس طرح قابو کر لیا ہے۔ اس نے کہا کہ خواہ کچھ بھی ہومَیں یہ جانتا ہوں کہ اس کے دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عشق ضرور ہے۔ اور اب میں نے ایک ایسی بات مرزا صاحب کی پکڑی ہے کہ جس شخص کے دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عشق ہو وہ انہیں کبھی نہیں مان سکتا۔ آخر کچھ لوگ ایک دن اکٹھے ہو کر آئے۔ اوراس شخص نے خلیفہ اول سے دریافت کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیّٖن ہیں یا نہیں؟ آپ نے کہا ہیں۔ اُس نے پوچھا آپ کے بعد کوئی رسول آسکتا ہے یا نہیں؟ آپ نے کہا نہیں۔ اس نے کہا اگر کوئی ایسا دعویٰ کرے؟ آپ نے فرمایا کہ میں سمجھوں گا اس نے غلطی کی۔ اس پر اس نے وہ پروف نکال کر سامنے رکھ دیا اور کہا دیکھو! مرزا صاحب ایسا دعویٰ کرتے ہیں۔ خلیفہ اول نے کہا اگر میرزا صاحب کا یہ دعویٰ ہے تو میں سمجھوں گا میرے معنے غلط ہیں کیونکہ جب آپ کو مأمور مان لیا تو پھر میں ہی غلطی پر ہوسکتا ہوں وہ نہیں ہوسکتے۔ یہ سن کر اس کا رنگ زرد ہوگیا۔ اور اس نے کہا چلو اس کی اصلاح نہیں ہوسکتی۔ توصدِّیقیَّت یہی ہے کہ نفس عکس قبول کرنے کے لئے پہلے سے تیار ہو۔ اسے دبانا نہ پڑے بلکہ اس کے متعلق تو یہ خدشہ ہوتا ہے کہ گرفت زیادہ پڑ کر ضرر نہ پہنچ جائے۔ جیسے ہم جب کسی نرم چیز کو پکڑتے ہیں تو آہستگی سے پکڑتے ہیں لیکن سخت چیز کو پکڑتے وقت زور سے ہاتھ ڈالتے ہیں۔ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡکی کیفیت جس شخص کے اندر ہو وہ برداشت نہیں کر سکتا کہ کوئی غیر آکر اس پر اثر ڈالے۔ وہ اپنے سے ادنیٰ اپنے بھائی کا احسان اُٹھالے گا لیکن اپنے سے اعلیٰ کسی غیر کا احسان اُٹھانا گوارا نہ کرے گا۔
اس کیفیت کی مثال بھی حضرت ابوبکرؓ میں ملتی ہے۔ جب مکہ میں مسلمانوں کے خلاف مخالفت کا طوفان اُٹھا۔ اور قریش نے کہا کہ ان کو ایسا تنگ کرو کہ توبہ پر مجبور ہوجائیں۔ توبہ تو انہوں نے کیا کرانی تھی ہاں سختی انتہاء کو پہنچ گئی۔ قرآن کریم یا نماز تک پڑھنا مشکل تھا۔ اس وقت حضرت ابوبکرؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اگر اجازت ہو تو کہیں باہر چلا جاؤں جہاں عبادتِ الٰہی بِلا روک ٹوک ہوسکے۔ آپ نے اس وقت اجازت دے دی۔ اگرچہ بعد میں جب آپ کو علم ہوا کہ آپ کو بھی ہجرت کرنی پڑے گی تو آپ ان کو روکتے رہے۔ حضرت ابوبکرؓمکہ سے جانے کی تیاریاں کر رہے تھے کہ ایک سردارِ مکہ(ابن دغنہ) ان کے پاس آیا اور پوچھا کہاں جاتے ہو؟ آپ نے کہا میں مکہ کو چھوڑ رہا ہوں یہاں نمازوں وغیرہ کی آزادی نہیں۔ اس نے کہا ہم آپ کی منت کرتے ہیں کہ آپ نہ جائیں۔ آپ جیسے آدمیوں سے تو مکہ میں برکت ہے میں لوگوں کو سمجھاؤں گا۔ پھر اس نے لوگوں سے کہا۔ لوگوں نے مان لیا اور حضرت ابوبکرؓکو آزادی ہوگئی۔(بخاری کتاب مناقب الانصار باب ہجرة النبی ؐو اصحابہ الیٰ المدینة)لیکن ایک دن آپ نے جب دیکھا کہ بعض غلام مسلمانوں کو تکالیف دی جارہی ہیں تو آپؓ نے کہہ دیا کہ میں کسی کی پناہ نہیں چاہتا۔ مجھے یہ پسند نہیں کہ باقی مسلمانوں کو دکھ ہو اور میں امن میں رہوں ۔ اس طرح آپ نے دوسروں کا احسان اُٹھانے سے انکار کر دیا۔ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے ایک روایت سنی ہے کہ ایک دفعہ حضرت ابوبکرؓ کی مجلس میں آپ کے فرزند عبدالرحمٰن نے جو پہلے مخالف تھے مگر بعد میں انہوں نے بہت ترقی کی کہا کہ ایک دفعہ مجھے دشمنوں کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف جنگ کے لئے جانا پڑا ایک موقع پر آپ ایسی جگہ تھے کہ مَیں آپ پر وار کر سکتا تھا مگر باپ سمجھ کر میں نے ایسا نہ کیا۔ یہ سن کر حضرت ابوبکرؓ نے کہا خدا کی قسم! اگر میں ایسا موقع پاتا تو ضروروار کر دیتا۔ تو اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ کے یہی معنے ہیں کہ مومن جہاں ایک طرف حق کے عکس اور اثر کے مقابلہ میں ایسا نرم ہوتا ہے کہ ان کا معمولی دباؤ بھی برداشت نہیں کر سکتا اور ایسا ہوتا ہے جیسے تصویر لینے کا شیشہ۔ وہاں دشمن کے مقابل میں اس کی یہ حالت ہوتی ہے کہ بیٹے کی جان کی بھی اسے کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ اس قسم کے اور بھی لوگ صحابہ میں موجود تھے۔ حضرت عثمان بن مظعونؓ کے متعلق ایک اسی قسم کا واقعہ آتا ہے کہ ایک دفعہ ایک شاعر (حضرت لبید بن ربیعہؓ)جو کہیں باہر سے آیا ہوا تھا، اپنا کلام سنا رہا تھا۔ اس نے ایک شعر کا ابھی پہلا ہی مصرعہ پڑھا تھا کہ آپ نے کہا خوب ہے۔ اس پر وہ بہت جز بز ہوا۔ اور اس نے کہا مجھے تیرے جیسے انسان کی داد کی کیا ضرورت ہے۔ پھر اس نے اہلِ مکہ کو مخاطب کر کے کہا کہ کیااب تمہارے ہاں شرفاء کی یہی قدر ہوتی ہے۔ اس کے بعد اس نے دوسرا مصرعہ پڑھا تو آپ نے فرمایا یہ ٹھیک نہیں۔ اس پر مکہ کے رؤسا میں سے ایک نے اٹھ کر آپ کو ایسا مُکّا مارا کہ آپ کی ایک آنکھ نکل گئی۔ آپ اس واقعہ سے کچھ عرصہ قبل تک ایک شخص کی پناہ میں تھے۔ مگر خود ہی دوسرے مسلمانوں کی تکالیف کو دیکھ کر اس کی پناہ ترک کر دی تھی۔ وہ شخص آپ کا عزیز بھی تھا، یہ حالت دیکھ کر اسے رنج ہوا۔ اور اس نے کہا میری پناہ میں نہ رہنے کا نتیجہ تم نے دیکھ لیا۔ آپ نے جواب دیا میں اس قسم کا احسان اُٹھانے کو اب بھی تیار نہیں ہوں میری تو دوسری آنکھ بھی اسی کی منتظرہے۔ (سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 128 مطبوعہ مصر 1295ھ)
(باقی آئندہ)