الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
حضرت قیس بن سعدؓ
صحابیٔ رسول حضرت قیس بن سعدؓ کے بارے میں مکرم ڈاکٹر محمد داؤد مجوکہ صاحب کا ایک مضمون روزنامہ ‘‘الفضل’’ ربوہ 5؍اکتوبر2013ء میں شامل اشاعت ہے۔
آنحضرتﷺ کے مدینہ سے چلنے کی خبر مکّہ پہنچی تو حسب معمول ابوسفیان بن حرب اُس رات بھی مکّہ سے باہر نکلا۔ اُس کی نظریں کسی کی متلاشی تھیں۔ اسی کیفیت میں وہ بائیس کلومیٹر دُور مرالظہران پہنچ گیا۔ اچانک ایک ٹیلے کو عبور کرتے ہی اُس کی آنکھوں کے سامنے آگ کا ایک سمندر پھیل گیا۔ تاحد نگاہ آگ کے روشن الاؤ ایک لشکر جرار کا پتا دے رہے تھے۔ اُسے احساس ہوا کہ اب کھیل ختم ہوچکا۔ اچانک لشکر کی حفاظت پر مامور چند سپاہیوں نے اُسے جالیا اور لے جاکر آنحضورﷺ کے حضور پیش کردیا۔ اگلی صبح آنحضورﷺ نے حضرت عباسؓ بن عبدالمطلب کو ارشاد فرمایا کہ ابوسفیان کو اسلامی لشکر کا نظارہ کروائیں۔ اس امر کے مقاصد میں شائد یہ بھی تھا کہ اسلامی لشکر کی شوکت دیکھ کر مسلح مزاحمت کا خیال اُس کے دل سے نکل جائے۔ آپؐ کی ہمیشہ یہ خواہش رہتی تھی کہ جس قدر ممکن ہو جنگ و جدل سے بچا جائے۔
اسلامی لشکر کے دستے باری باری اُس ٹیلے کے سامنے سے گزرنے لگے جس پر ابوسفیان حضرت عباسؓ کے ہمراہ کھڑا تھا۔ مسلمانوں کا نظم و ضبط، عزم اور فوجی تیاری دیکھ کر وہ اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ اس لشکر کا مقابلہ بےسود ہے۔ ہر دستے کے گزرنے پر وہ عباسؓ سے پوچھتا کہ یہ کون ہیں؟ آخر ایک دستہ سامنے آیا جس کی شان ہی کچھ نرالی تھی۔ دستے کے پُررعب و پُرشوکت انداز سے اُس کا دل لرز اٹھا۔ اُس کے پوچھنے پر عباسؓ نے فرمایا کہ یہ مہاجرین و انصار ہیں۔ ابوسفیان بےاختیار کہنے لگا کہ تمہارا بھتیجا تو بڑا بادشاہ بن گیا ہے۔ عباسؓ نے فرمایا: یہ نبوّت ہے۔ نبوّت اور بادشاہت میں فرق شائد آج پہلی بار اُسے سمجھ آرہا تھا۔ اس دستے میں انصار کا علم حضرت سعدؓ بن عبادہ کے پاس تھا جو انصار کے سردار تھے۔ سعدؓ جانتے تھے کہ اہل مکہ نے تیرہ سال آنحضورﷺ کے ساتھ کیسا ظالمانہ رویہ اپنائے رکھا اور پھر آٹھ سال تک مسلمانوں پر جنگ مسلّط کیے رکھی۔ کتنے ہی مسلمان ظالمانہ طریق پر شہید کیے گئے۔ ابوسفیان کو دیکھ کر سعدؓ رہ نہ سکے اور کہنے لگے کہ آج جنگ کا دن ہے، آج حرم کو حلال کردیا جائے گا (یعنی حرم میں جہاں جنگ حرام ہے وہ آج جائز ہوگی اور کفّار سے اُن مظالم کا بدلہ لیا جائے گا۔ ) مظالم کا بدلہ لینا عین انصاف ہوتا لیکن ابوسفیان جانتا تھا کہ انصاف سے کام لیا گیا تو اہل مکّہ تباہ و برباد ہوجائیں گے۔ جب آنحضورﷺ کی سواری سامنے آئی تو ابوسفیان نے سعدؓ کی شکایت کی۔ آپؐ نے فرمایا: آج تو رحم کرنے کا دن ہے۔ پھر آپؐ نے حکم دیا کہ سعدؓ سے عَلَم لے لیا جائے۔ اس حکم کی حکمت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شائد اس لیے کہ قریش کا خوف دُور ہو، نیز اُن کی تالیف قلب کے لیے۔ شاید اس لیے کہ امام کی اجازت کے بغیر کسی کو فیصلہ کرنے کی اجازت نہیں۔
اب سوال یہ درپیش تھا کہ عَلَم کس کو دیا جائے۔ آنحضورﷺ ہر ایک کی عزت نفس کا خیال فرماتے خواہ وہ دوست ہو یا دشمن۔ آپؐ انسانی نفسیات کی باریکیوں کو جانتے تھے۔ گزشتہ رات آگ کے الاؤ دُور تک روشن کرنا اور صبح کو ابوسفیان کو اسلامی لشکر کی طاقت کا نظارہ کروانا بھی تو نفسیاتی حربے ہی تھے۔ ابوسفیان کی شکایت پر ایک طرف سردار مکّہ کی عزّت فرمائی تو دوسری طرف کمال حکمت سے انصار کے سردار کے دلی جذبات کی لاج بھی رکھ لی۔ چنانچہ حکم دیا کہ عَلَم سعدؓ کے بیٹے قیسؓ کو دے دیا جائے۔
حضرت قیسؓ بن سعدؓ نہایت زیرک اور قابل منتظم تھے۔ حضرت علیؓ کے زمانے میں مصر کے گورنر بھی رہے اور جنگ جمل اور صفین و نہروان کی جنگوں میں آپؓ کا ساتھ دیا۔ حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد اپنے وطن چلے گئے جہاں قریباً 60ہجری میں وفات پائی۔ آپؓ اپنی ذہانت اور سیاسی مہارت کی بِنا پر عرب کے پانچ مشہور لوگوں میں شامل کیے جاتے تھے۔ اپنی سخاوت کی وجہ سے بھی مشہور تھے۔ قرض لے کر بھی دعوت کرنے میں مضائقہ نہ فرماتے تھے۔ بھاری بھرکم جسم کے مالک اور قد کے بہت لمبے تھے۔
………٭………٭………٭………
محترم ڈاکٹر پیر فضل الرحمٰن صاحب آف سانگھڑ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 5؍اکتوبر2013ء میں محترم ڈاکٹر پیر فضل الرحمٰن صاحب کی وفات کی خبر اور مختصر ذکرخیر مرحوم کےصاحبزادے مکرم ڈاکٹر پیر مسیح الرحمٰن جالب صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔ آپ رقمطراز ہیں کہ محترم ڈاکٹر پیر فضل الرحمٰن صاحب آف سانگھڑ مورخہ 20؍ستمبر2013ء کو 93 سال کی عمر میں کراچی میں وفات پاگئے۔ آپ یکم اپریل 1920ء کو موضع رنمل شریف ضلع منڈی بہاؤالدین میں محترم پیر برکت علی صاحب اور محترمہ روشن جان صاحبہ کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ کی شادی محترمہ صفیہ بیگم صاحبہ بنت حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیرآبادی کے ساتھ ہوئی۔ آپ حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ کے بھتیجے تھے۔
محترم پیر فضل الرحمٰن صاحب نے ابتدائی تعلیم قادیان میں حاصل کی اور پھر سانگھڑ میں نقل مکانی کی اور پچاس سال تک وہاں بطور ڈاکٹر خدمت خلق کرتے رہے۔ آپ ضلع سانگھڑ میں جماعت کے بانیوں میں سے تھے۔ درویش صفت، فرشتہ سیرت، کم گو اور حکمت عملی سے کام لینے والے بزرگ تھے۔ آپ نے لمبی عمر پائی اور بھرپور زندگی گزاری۔ فرقان فورس میں خدمت کی توفیق پائی۔ ایک مرتبہ اپنی اہلیہ کا تمام زیور چندے میں پیش کردیا۔ ضلع سانگھڑ کے اسیران راہ مولیٰ کی بیش قیمت خدمت کی۔ احمدیوں کے تحفّظ کی کوشش بھی ہرمحاذ پر کی۔ آپ نے ذاتی طور پر بھی سلسلے کی خاطر کئی مقدمات کا صبر، شکر اور خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا۔ آپ کے ایک بیٹے مکرم ڈاکٹر مجیب الرحمٰن پاشا صاحب کو 2006ء میں اور دوسرے بیٹے مکرم پیر حبیب الرحمٰن صاحب کو 2010ء میں سانگھڑ میں شہید کردیا گیا تھا۔ ان صدمات کو آپ نے بہت صبر سے برداشت کیا اور راضی برضائے الٰہی رہے۔پسماندگان میں آپ نے دو بیٹے اور چار بیٹیاں چھوڑی ہیں۔
………٭………٭………٭………
محترمہ عزیز بیگم صاحبہ آف مونگ رسول
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 27؍ستمبر2013ء میں مکرمہ س۔ شبیر صاحبہ اپنی والدہ محترمہ عزیز بیگم صاحبہ اہلیہ محترم راجہ احمد خاں صاحب آف مونگ رسول(ضلع منڈی بہاؤالدین)کا ذکرخیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ ہمارے والد محترم نہایت سادہ اور مذہبی شخصیت تھے۔ میری والدہ بھی اگرچہ زیادہ تعلیم یافتہ نہیں تھیں لیکن احمدیت کی فدائی اور خلافت سے بہت پیار کرتی تھیں۔ خلیفۂ وقت کے سارے خطبات سنتیں اور دوسروں کو خاموشی کے ساتھ خطبات سننے اور ان پر عمل کرنے کی تلقین کرتیں۔ محلّے کی عورتیں اکثر خطوط لکھوانے آپ کے پاس آتیں تو آپ فوراً اپنا کام کاج چھوڑ کر خط لکھنے بیٹھ جاتیں۔ بیماروں کی تیمارداری کرتیں اور حسب توفیق بیمار کی مدد بھی کرتیں۔ جمعۃالمبارک کے دن ہم سب کو درود شریف پڑھتے رہنے کی تلقین کرتیں۔ آپ کے بڑے بیٹے مکرم راجہ الطاف محمود صاحب بھی اُن آٹھ شہداء میں شامل تھے جنہیں رمضان المبارک کے مہینے میں جمعے کے روز نماز فجر کے دوران احمدیہ مسجد پر حملے کے نتیجے میں شہید کردیا گیا تھا۔ اگرچہ گاؤں کے ماحول میں بَین ڈالنا اور رونا دھونا ایک رواج کی شکل میں جاری ہے لیکن مرحومہ نہایت صبر اور حوصلے سے خاموش بیٹھی رہیں اور دوسروں کو بھی یہی تلقین کرتی رہیں کہ صبر کرو، وہ مُردہ نہیں بلکہ زندہ ہے۔ اس سانحے سے قبل آپ کے ایک دوسرے بیٹے مکرم راجہ فضل محمود صاحب کو احمدی ہونے کی وجہ سے فوج کی ملازمت سے برخاست کردیا گیا جس کے بعد وہ کراچی چلے گئے اور انگریزی میں ایم اے کرنے کے بعد ایل ایل بی کے آخری سال میں تھے جب نامعلوم لڑکوں نے ان کو مارا جس سے وہ اپنا ذہنی توازن کھوبیٹھے اور طویل علالت کے بعد وفات پاگئے۔ اُس وقت بھی مکرمہ عزیز بیگم صاحبہ نے نہایت صبر کا مظاہرہ کیا۔ اسی طرح آپ کا ایک ڈیڑھ سالہ بیٹا بھی بیمار ہوکر وفات پاگیا۔ ان تمام صدمات پر آپ نے انتہائی صبر کا مظاہرہ کیا۔ بہت دعاگو تھیں۔ دس شرائط بیعت پر خود بھی عمل کرنے کی کوشش کرتیں اور ملنے والوں کو بھی اس کی تلقین کرتیں۔ بوجہ موصیہ ہونے کے بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہوئیں۔
………٭………٭………٭………
کیپٹن سیّد ضمیر جعفری صاحب کا خط
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ29؍اکتوبر 2013ء میں جناب کیپٹن سیّد ضمیر جعفری صاحب کا ایک خط ایک پرانی اشاعت سے منقول ہے جو انہوں نے جماعت احمدیہ قادیان کے نام ارسال کیا۔ وہ رقمطراز ہیں:
’’مَیں حال ہی میں مشرق بعید سے آیا ہوں۔ ملایا جاوا وغیرہ میں آپ کے سلسلہ کی طرف سے مولوی غلام حسین صاحب ایاز تبلیغ کا کام کررہے ہیں۔ 1945ء میں جب اتحادی فوجوں کے ساتھ ہم ملایا میں پہنچے تو مولوی صاحب غالباً تنہا تھے مگر 1947ء میں مولوی عبدالحی اور شاید دو ایک اَور کارکن بھی پہنچ گئے تھے۔ جہاں تک مولوی غلام حسین صاحب ایاز کی ذات کا تعلق ہے، اُن کے خلاف مَیں ایک بات بھی نہیں کہہ سکتا۔ اپنے منصب کو وہ انتہائی ایثار و خلوص اور خاصے سلیقہ کے ساتھ انجام دے رہے ہیں بلکہ جن دشواریوں اور نامساعد حالات میں سے وہ گزر رہے تھے اگر اس پر غور کیا جائے تو اُن کے استقلال، حوصلہ اور ہمّت پر حیرت ہوتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ وہ اس کام کو ایک فریضۂ ایمانی سمجھ کر کررہے ہیں۔
ضمناً یہاں ایک ذاتی تأثر کا ذکر کروں جس پر مجھے اب بےاختیار ہنسی آتی ہے۔ …بیرونِ ملک جانے سے پیشتر احمدیت کے متعلق کوئی خیال آتے ہی مَیں اکثر سوچا کرتا تھا کہ ان کے مربیان کے لیے تو مزے ہی مزے ہیں۔ دیس دیس کی سیر اور فارغ البالی کی زندگی۔ آدمی کو یہ دو چیزیں مل جائیں تو اَور کیا چاہیے۔ مگر ملایا میں مولوی غلام حسین ایاز کو دیکھ کر میری اس خوش فہمی کو سخت دھکا لگا ہے۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ یہ لوگ خاص محنت و مشقّت کی زندگی گزار رہے تھے۔ اتنی مشقّت اگر وہ اپنے وطن میں کریں تو کہیں بہتر گزربسر کرسکتے ہیں۔‘‘
………٭………٭………٭………
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 29؍اکتوبر 2013ء میں مکرم ابن کریم صاحب کی ’’انڈونیشیا کے شہیدوں کے نام‘‘ درج ذیل نظم شائع ہوئی ہے:
شہیدوں کی وفاؤں کا جو منظر یاد آیا ہے
مرے دل میں دعاؤں کا عجب اِک جوش چھایا ہے
خدا کے عشق میں کچھ اس طرح بےانتہا کھونا
بھلائے سے نہیں بھولا وہ جانوں کا ذبح ہونا
یہاں ایثار و قربانی میں کوئی بھی نہ پیچھے ہے
بلندی میں ہیں سب یکساں یہاں کوئی نہ نیچے ہے
شہیدوں کی یہ شبراتیں مبارک ہیں تو ہم کو ہیں
خدا سے یوں ملاقاتیں مبارک ہیں تو ہم کو ہیں
غلام احمد کا ہر اِک چاہنے والا ہر اِک داعی
شہادت کے اسی رستے کا ہر دَم ہے تمنّائی
دیا آقا نے صبر و استقامت کا سبق ہم کو
بتایا اس طرح تاریخ کا زرّیں ورق ہم کو
دکھایا اس طرح ہے ضبط کا جذب سلیم ہم نے
عَلَم عالَم کی خوش بختی کا تھاما ہے حلیمؔ ہم نے