حاصل مطالعہ

آئزک نیوٹن، جنہوں نے مذہب کے بارے میں اپنے بعض خیالات کو خفیہ رکھا

(مرسلہ:عزیز عمر بھٹی۔آسٹریلیا)

ان کے مطابق ’خدا ایک زندہ، ذہین ہستی ہے جس کی تعریف اس کی قادر مطلق اور بندوں پر اس کے تسلط سے ہوتی ہے اوریہی وجہ ہے کہ انسانوں کو بندے کے طور پر اس کی عبادت کرنی تھی

اردو کے معروف شاعر مرزا غالب نے خدا کے بارے میں لکھا تھا کہ ’نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا‘لیکن آکسفورڈ یونیورسٹی میں سائنس کی تاریخ کے پروفیسر اور 17ویں صدی کے سائنسی انقلاب کی آخری شخصیت کے مذہبی عقائد کا مطالعہ کرنے والی ایک ماہر شخصیت رابرٹ ایلیف کہتے ہیں کہ دنیا کو کشش ثقل سے آگاہ کرنے والے سائنسدان کے نزدیک ’خدا، بہت سی چیزوں کے درمیان، سب سے بڑا جیومیٹر یا مہندس ہے‘(یعنی ایک کامل ریاضی دان اور طبیعیات دان ہے۔)

یعنی معروف سائنسدان نیوٹن کے مطابق خدا نے دنیا کو ایک منصوبے کے تحت تخلیق کیا، جسے بائبل میں ’پڑھا جا سکتا ہے‘ لیکن اس کے ساتھ ’فطرت میں بھی‘اس کی جلوہ گری دیکھی جا سکتی ہے کہ کس طرح سے یہ تخلیق کی گئی تھی۔

لیکن محقق کہتے ہیں کہ خدا کے بارے میں سائنس دان نیوٹن کا نظریہ جس نے ہمارے عقلی عالمی نظریہ کو تشکیل دینے میں مدد کی وہ ’کافی روایتی، بہت ہی توحید پرست‘ تھا لیکن مذہب کے بارے میں ان کے کچھ خیالات کو اس کے زمانے کے ماہرینِ الہٰیات نے ’کافرانہ‘ یا ’ملحدانہ‘سمجھا ہو گا۔

’نیوٹن خدا کے بارے میں یہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ وہ جزوی طور پر ایک ریاضی دان ہے جس نے دنیا کو اس طرح تخلیق کیا تاکہ اس پر ریاضی کا قانون لکھا جائے۔‘

پروفیسر ایلیف ’دی نیوٹن پروجیکٹ‘ نامی غیر منافع بخش تنظیم کے جنرل ایڈیٹر ہیں۔اس تنظیم نے سائنسدان نیوٹن کی تحریروں کو اکٹھا اور شائع کیا اور اس کے ساتھ وہ A Very Short Introduction to Newton and Priest of Nature: the Religious Worlds of Isaac Newton نامی تصنیف کے مصنف بھی ہیں۔

ان کی راہنمائی کے ساتھ ہم آئزک نیوٹن کے مذہبی پہلو کو تلاش کرتے ہیں، جو کہ ایک دین دار مسیحی تھے لیکن انھوں نے اپنے بعض خیالات کو خفیہ رکھا ہوا تھا۔

جیسا کہ کیمبرج یونیورسٹی کے ایک حالیہ مضمون میں اس جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ مسیحیت کے ساتھ نیوٹن کا تعلق ’پیچیدہ اور غیر روایتی‘ تھا۔یعنی ’نیوٹن ایک غیر معمولی مسیحی تھے۔‘

نیوٹن کا خدا کا تصور

نیوٹن ایک ایسے وقت میں پیدا ہوئے جب فطرت کے اصول و ضوابط ایک معمہ تھے اور وہ درحقیقت ایک ایسے شخص تھے، جنہوں نے کائنات کو سمجھنے اور دیکھنے کے ہمارے طریقے کو بدل کر رکھ دیا۔

بعض محققین اُن کی پیدائش دسمبر 1642ءمیں بتاتے ہیں جبکہ بعض دوسرے جنوری 1643ء کی طرف اشارہ کرتے ہیں جبکہ ان کی وفات سنہ 1727ء میں بتائی جاتی ہے۔

ایلیف نے انگریز سائنسدان کی تحریروں کا مطالعہ کیا اور انہوں نے نیوٹن کی تصانیف ’پرنسپیا‘ اور ’آپٹکس‘کی بعد کی مطبوعات میں یہ پایا کہ نیوٹن نے مذہب پر تبصرہ کیا تھا۔

ان دونوں تصانیف کو جدید سائنس کی تاریخ میں کلیدی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے، خاص طور پر سابقہ کتاب پرنسپیا کو جسے Philosophiæ naturalis principia mathematica (قدرتی فلسفے کے ریاضی کے اصول) بھی کہا جاتا ہے۔

اس تصنیف میں نیوٹن نے مکینکس اور علم ریاضی پر مبنی حساب کتاب پر اپنی تحقیق کو پیش کیا ہے اور حرکت کے تین قوانین بیان کیے اور کشش ثقل کے قانون کی بنیادیں قائم کیں۔

اپنے علمی و تحقیقی مضمون ’نیوٹن کی مذہبی زندگی اور ان کے کام‘میں ایلیف نے نوٹ کیا کہ پرنسپیا (1713) کے دوسرے ایڈیشن میں، نیوٹن نے براہ راست ’مرئی دنیا کی حیرت انگیز ترتیب کے ایک بے نظیر اور سائنسی طور پر ماہر تخلیق کار کے وجود اور فطرت‘ کے بارے میں کہا ہے۔

ان کے مطابق ’خدا ایک زندہ، ذہین ہستی ہے جس کی تعریف اس کی قادر مطلق اور بندوں پر اس کے تسلط سے ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ انسانوں کو بندے کے طور پر اس کی عبادت کرنی تھی۔‘’بہرحال خدا حقیقی اور مطلق خصوصیات کا حامل ہے۔ وہ ابدی اور ہر جگہ موجود ہے، اس نے زمان و مکان کو تشکیل دیا اور وہ کافی حد تک موجود ہے۔ اگرچہ خدا کی حسی صلاحیت کامل ہے لیکن نیوٹن کا اصرار تھا کہ وہ انسانوں کی طرح نہیں۔ حقیقت میں، خدا مکمل طور پر انسانوں سے مختلف ہے۔ وہ غیر مجسم ہے اور وہ دنیا میں ہونے والے واقعات کا تجربہ کرنے کے لیے اعضا کا محتاج نہیں۔‘

اور وہ وضاحت کرتے ہیں کہ ’خدا کی فطرت کا بہت کم حصہ ہمارے لیے قابل رسائی ہے‘ اور ’ہم کہنے کو انسانی جذبات کو اس کی طرف منسوب کر سکتے ہیں لیکن یہ ہماری اپنی حدود کا نتیجہ ہے۔‘

نیوٹن نے لکھا کہ ’خدائے عظیم ایک ابدی، لامحدود، بالکل کامل وجود ہے۔‘

تو پھر یسوع مسیح کون تھے؟

نیوٹن پروٹسٹنٹ عقیدے کے ماننے والے تھے اور انہوں نے رومن کیتھولک چرچ اور پوپ کے اختیار کو قبول نہیں کیا تھا۔ انہوں نے مقدس تثلیث کے نظریے، باپ، بیٹے اور روح القدس کے ایک ہونے کے نظریے کو تسلیم نہیں کیا۔

اپنے مضمون میں، ایلیف وضاحت کرتے ہیں کہ سنہ 1670ءکی دہائی میں، نیوٹن اس نتیجے پر پہنچے کہ ’مسیحیت کی ایک سادہ اور مستند شکل کو یسوع مسیح کی زندگی کے بعد کی صدیوں میں بدعنوان لوگوں نے بگاڑ دیا اور ایک ایسا مذہب پیدا کیا جسے آج قدامت پسند رومن کیتھولک چرچ اور کسی حد تک چرچ آف انگلینڈ کے طور پر قبول کیا گیا۔‘

ان سائنسدان کا ماننا تھا کہ ’تثلیث کا قدامت پسند تصور ایک افسانہ تھا جو کہ چوتھی صدی کے آغاز میں ایجاد ہوا تھا‘ اور بعد میں وہ پھیلتا گیا۔

مصنف ایلیف نے بی بی سی کو بتایا کہ نیوٹن کے لیے حضرت عیسیٰ مقدس تھے لیکن معبود نہیں تھے اور انہیں اس طرح سمجھنا شرک کی طرح ہے۔ یعنی ’صرف ایک خدا ہے اور باپ بیٹے جیسا نہیں۔‘

محقق نے اس بات کی نشاندہی کی کہ ریاضی دان کے مطابق ’یسوع مسیح ایک روح یا لفظ کے طور پر موجود تھے یہاں تک کہ وہ 2000 سال پہلے عیسیٰ کے اوتار میں وارد ہوئے۔‘

وہ ایک ایسی شخصیت تھے جن کی عبرانی بائبل میں مسیحا کے طور پر پیشگوئی کی گئی تھی اور جن کی تعلیمات کو نیو ٹیسٹامنٹ یعنی عہدنامہ جدید یا انجیل مقدس میں وفاداری کے ساتھ لکھ دیا گیا ہے۔

’یسوع مسیح ایک ایسے شخص تھے جن کے پاس ایک مشن تھا اور اس مشن کا ایک حصہ یہ تھا کہ وہ مرنے والے تھے اور انسانوں یا کم از کم مسیحیوں کا فرض تھا کہ وہ ان کے معیار زندگی پر قائم رہنے کی کوشش کریں اور ان کے اعمال کی نقل کریں۔‘

نیوٹن کے لیے یسوع مسیح اپنی زندگی میں قدرت اور مافوق الفطرت کے امتزاج کی ایک مثال تھے۔

’میں انہیں خدا کا بیٹا سمجھتا ہوں لیکن مقدس تثلیث پر یقین نہ کرنے کی وجہ سے عیسیٰ مسیح خدا نہیں۔‘ لہٰذا نیوٹن کے نزدیک ’یسوع مسیح کے ایک تخلیق شدہ مخلوق کے طور پر اور خدا ہونے کے درمیان ایک بڑا فرق ہے کیونکہ خدا وہ ہے جو تخلیق نہیں کیا گیا اور وہ ہر چیز کا خالق ہے۔‘

بہرحال انہوں نے یہ تو تسلیم کیا کہ کسی حد تک یسوع مسیح عزت و احترام کے مستحق ہیں لیکن عبادت کا پورا مرکز صرف خُدائے واحد کی ذات ہے۔

نیوٹن نے لکھا کہ ’مسیح اپنے باپ کی عبادت کو کم کرنے نہیں آئے۔‘

اس کی وجہ

ایلیف بتاتے ہیں کہ نیوٹن کے لیے یہ جاننا کہ خدا کیا چاہتا ہے جزوی طور پر تجرباتی کام کے ذریعے یعنی تجربات اور مشاہدوں کے ذریعے ممکن تھا۔

’لیکن، جزوی طور پر، اس کا تعین دماغ کے استعمال سے کیا جا سکتا ہے، مثال کے طور پر، عقل اور ریاضی کے ذریعے۔‘

سائنس کی پرانی تعریف یعنی فطری فلسفہ کے مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ ’خدا کے ذہن کو اس کی تخلیق کے ذریعے دیکھ کر پہچانا جائے۔‘

جبکہ ایک دوسرے شعبے کا نظریہ جسے نیچرل تھیالوجی کہا جاتا ہے، یہ تھا کہ ’جب کوئی قدرتی دنیا سے جتنا زیادہ سیکھتا ہے اس پر خدا کی تخلیق کی غیر معمولی ذکاوت کے بارے میں اتنے زیادہ راز کھلتے ہیں۔‘

اس لحاظ سے ہمیں ایک جملہ یاد آ رہا ہے جو محقق ایلیف نے سنہ 2019ءکے بی بی سی کے ایک پروگرام میں کہا تھا:’جسے ہم نیچرل تھیالوجی کہتے ہیں اور جس کے تحت تخلیق شدہ دنیا کی صفات کو دیکھ کر خدا کے وجود کوسمجھا جاتا ہے اس کی رو سے نیوٹن نے اپنے وقت کے معیار کے مطابق نئے شواہد پیش کیے اور اپنے اور دوسروں کے اطمینان کے لیے ثابت کیا کہ خدا ایک ریاضی دان ہے، ایک ماہر طبیعیات ہے یعنی واضح طور پر وہ ایک ماہر ریاضی دان اور ماہر طبیعیات ہے۔‘اور یہ نیوٹن کے مذہبی افکار کو سمجھنے کی کلید ہے۔

ماہرین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جدید سیکولر دنیا میں ہم سوچتے ہیں کہ ہم فطرت سے جتنا زیادہ سیکھتے ہیں، اتنا ہی زیادہ ہم سیکولرائزیشن کی حمایت کرتے ہیں، یہ (سیکولرائزیشن) وہ خیال کہ انسان کو دنیا پر کنٹرول حاصل ہے اور وہ خود ایک ایسی دنیا کو سمجھنے کے قابل ہے جو بہت طویل عرصے سے موجود ہے۔ وقت اور یہ کہ اسے خدا نے پیدا نہیں کیا۔‘’

’لیکن نیوٹن اور ان کے ساتھیوں کے مطابق یہ بالکل اس کے برعکس ہے۔ (ان کا خیال ہے کہ) آپ جتنا زیادہ نظام شمسی کی ساخت، ہماری کہکشاں، انسانی جسم کی اناٹومی، ماحولیات کے بارے میں جانیں گے، اس سے اتنا ہی زیادہ واضح ہوتا ہے کہ ایسا محض اتفاق نہیں ہو سکتا اور یہ کہ یہ ایک ایسی ذہانت کی پیداوار ہے جس نے اسے ڈیزائن کیا ہے۔‘

پروفیسر کہتے ہیں کہ انہوں نے اسے ایک ’نگہبان ذہانت‘ کے طور پر بھی سمجھا ہے کیونکہ ’مثال کے طور پر خدا نے نظام شمسی کو اس طرح بنایا ہے جو زندگی کی خوبصورتی کے پنپنے کے لیے بہترین ہے اور 19ویں صدی کے اوائل تک برطانیہ اور دیگر جگہوں کے بہت سے لوگوں کا بھی یہی خیال تھا۔‘

روشن خیالی کے دور میں مختلف نقطہ نظر کے حامل بہت سے لوگ تھے، جن کے خیال میں خدا ایک خیالی تصور ہے اور یہاں ایلیف کو ایک دلچسپ تضاد نظر آتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس دور کے ’وہ فلسفی، روشن خیالی کی وہ کلیسائیت مخالف شخصیات، جن میں سے بہت سے مذہب مخالف بھی ہیں، وہ ایسی روشن خیالی میں یقین رکھتے ہیں جس کا خالق آئزک نیوٹن ہے۔‘’نیوٹن نے اپنی تحریروں کو خفیہ رکھنا مناسب سمجھا‘

ایلیف ہمیں نیوٹن کو سمجھنے کے لیے آپ کو اپنے آپ کو اس زمانے میں لے جانا ہو گا جس میں نیوٹن سانس لے رہے تھے تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ مقدس تثلیث کے عقیدہ کے مخالف نظریات، جسے عام طور پر کافرانہ اور ملحدانہ سمجھا جاتا تھا وہ واضح طور پر چرچ آف انگلینڈ اور رومن کیتھولک چرچ کے عقائد کے خلاف تھا۔

ریاضی دان نیوٹن کا زمانہ انگلینڈ میں انقلابی دور کا زمانہ تھا۔ بچپن میں انھوں نے خانہ جنگی دیکھی اور جب سنہ 1661 میں وہ کیمبرج یونیورسٹی پہنچے تو انگلینڈ میں بادشاہت بحال ہو گئی تھی۔

ایلیف کا کہنا ہے کہ ان اذیت ناک لمحات میں، یہ خیال کہ کوئی شخص تثلیث کے عقیدے کو ایک افسانہ یا جھوٹ قرار دیتا ہے ’تقریباً تمام ماہرینِ دینیات کے لیے ایک خوفناک چیز تھی۔‘

’نیوٹن نے جو کچھ کیا وہ بہت حد تک انقلابی تھا، وہ ایسی چیز تھی جو سماجی تانے بانے میں خلل ڈال سکتی تھی اور اسی وجہ سے انہوں نے اپنی تحریروں کو خفیہ رکھنا مناسب سمجھا۔‘

پروفیسر ایلیف کے مطابق سنہ 1670 کی دہائی کے بعد کے حصے تک نیوٹن کے پاس پہلے سے ہی تثلیث کے نظریے کے خلاف خیالات تھے۔

’ان کے پاس یہ راز شاید 60 سال سے بھی زیادہ عرصے سے رہے ہوں۔ اگر یہ بڑے پیمانے پر آشکار ہو جاتا تو ان پر کسی وقت توہین مذہب کا مقدمہ چلایا جا سکتا تھا۔‘

’وہ کبھی بھی ٹرینیٹی کالج کے فیلو کے طور پر اپنے کسی بھی عہدے پر فائز نہ ہوتے، ریاضی کے پروفیسر کے طور پر وہ کبھی پارلیمنٹ کے رکن نہ بنتے، وہ کبھی رائل سوسائٹی کے صدر نہ ہوتے اور انھیں کبھی ‘نائٹ’ کے خطاب سے سرفراز کر کے سر آئزک نیوٹن نہ کہا گیا ہوتا۔‘

اگرچہ انہوں نے اپنے بہت سے معتمد خاص سے اپنے مذہبی خیالات شیئر کیے لیکن یہ اب بھی ایک معمہ ہے کہ اصل میں کتنے لوگ ان کے راز کو جانتے تھے۔

ایک فریضہ

نیوٹن کے مذہبی عقائد کو ان کی سائنس سے کیسے ہم آہنگ کیا جائے؟ مصنف نے جواب دیا کہ کسی کے نزدیک مقدس تثلیث کے بارے میں ان کے خیالات انتہائی عقلی ہو سکتے ہیں۔

’ایک طرح سے ایسا لگتا ہے کہ وہ ایک ایسے شخص تھے جنہوں نے اپنے سائنسی ذہن اور سائنسی آلات کو صحیفے اور مقدس تاریخ کو سمجھنے کے لیے استعمال کیا۔‘

’یہ خیالات‘ اس بات سے نکلتے ہیں جس میں ایک گہرا یقین ہے کہ مذہب قابل فہم ہے، عقلی ہے۔‘

’اور یہ اس حد سے ٹکراتا ہے جو خدا کی تفہیم کی نمائندگی کرتا ہے کیونکہ ان کے خیال میں خدا کے بہت سے پہلو ہیں جو اس وقت ناقابل فہم ہیں: خدا لامحدود ہے، خدا ہمارے لیے بہت حد تک اجنبی ہے تاہم ہمارے پاس ایسے طریقہ کار اور اوزار ہیں جس سے ہم اس کو سمجھنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔‘

’یہ نیوٹن کے لیے بھی ویسا ہی جیسا اس جیسے دوسرے لوگوں اور دوسرے مسیحیوں کے لیے ہے کہ خدا کے ذہن کو سمجھنا ایک فریضہ ہے۔ سائنس یہی کرتی ہے، بائبل کا مطالعہ بھی یہی کرتا ہے۔ یہ سب کچھ یہ سمجھنے کی کوشش کی ایک عمومی کوشش کا حصہ ہے کہ خدا کے ارادے کیا ہیں۔‘

سب سے پہلے مذہب

نیوٹن اپنے آپ کو ایک گہرا دین دار آدمی سمجھتے تھے۔ ایلیف واضح کرتے ہیں کہ تو پھر سوال یہ نہیں کہ ’اس سائنسی دماغ نے اپنے فارغ وقت میں بائبل کے تمام کام کو کیسے پورا کیا؟ لیکن سوال یہ ہے کہ اس بڑے دین دار مسیح عالم نے قدرتی فلسفہ یا ریاضی پر کام کیسے کیا جبکہ ان کی زندگی مذہب، مذہبی مطالعہ کے لیے وقف تھی، جیسا کہ نیوٹن پروجیکٹ میں دیکھا جا سکتا ہے جس کا موٹو ہی مذہب، مذہبی مطالعہ ہے؟

پروفیسر کا کہنا ہے کہ ’وہ بہت دین دار اور مذہبی آدمی تھے اور میرے خیال میں اب بھی بہت سے لوگ ہیں جو ان کی ذہانت میں الجھ جاتے ہیں۔

ایسا نہیں کہ انہوں نے اپنا وقت مذہب پر ضائع کیا بلکہ یہ مذہب ہے، ان کا یقین، ان کی خواہش، ان کا تخیل، ان کی مذہبی حساسیت سے پیدا ہونے والی تحریک ہے، جو انھیں کیلکولس ایجاد کرنے، عالمگیر کشش ثقل اور حرکت کے اصولوں وغیرہ کو دریافت کرنے کے قابل بناتی ہے۔

وہ یہ سب کچھ کرتے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ یہ سب صرف اپنے فارغ وقت میں کرتے رہے لیکن یہ ان کی مجموعی سرگرمیوں کے ایک چھوٹے سے حصے کی نمائندگی کرتا ہے اور یہ باتیں کچھ معاملات میں انہیں مزید بہت بڑی شخصیت بناتی ہیں، جنتا کہ اب تک لوگ جانتے ہیں۔‘

https://www.bbc.com/urdu/science-61147604

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button