پرسیکیوشن رپورٹس

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان

(اے آر ملک)

لاہور: توہین رسالت کیس میں مسیحی جوڑا بری

4؍جون 2021ء: روزنامہ ڈان نے مندرجہ بالا عنوان کے تحت درج ذیل رپورٹ شائع کی :

لاہور: لاہور ہائی کورٹ نے جمعرات کو ایک مسیحی جوڑے کو توہین مذہب کے الزامات سے بری کر دیا اور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کی جانب سے سنہ 2014ء میں سنائی گئی سزائے موت کو کالعدم قرار دے دیا۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ ضلع کی گوجرہ سٹی پولیس نے جون 2013ء میں ایک مقامی نمازی کی شکایت پر ایک مقامی اسکول کے گارڈ شفقت عمانوئل اور اس کی اہلیہ شگفتہ کوثر مسیح کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کی تھی۔ جسٹس سید شہباز علی رضوی اور جسٹس طارق سلیم شیخ پر مشتمل دو رکنی بنچ نے جمعرات کو کھلی عدالت میں اپنا فیصلہ سنایا اور اپیل کی اجازت دی۔ یہ جوڑا گذشتہ آٹھ سال سے جیل میں تھا۔ یہ بڑی بات ہے کہ انہیں آزاد کر دیا گیا ہے۔ تاہم ان کی زندگی کے آٹھ سال ضائع ہونے کا حساب کون دے گا؟ یہ ایک طویل وقت ہے ۔ بہت ہی طویل۔ روزنامہ ڈان نے 6؍جون 2021ءکو اس کیس پر ادارتی تبصرہ کیا : ’’قانون کا غلط استعمال کیا گیا …اپنی گرفتاری کے وقت، شگفتہ ایک اسکول میں بطور مددگار کام کر کےماہانہ 3500 روپے کمایا کرتی تھی۔ اس کے شوہر شفقت، جو واضح طور پر معذور ہیں، موبائل مرمت کرنے والی ایک دکان کے مالک تھے۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے علاقے گوجرہ سے تعلق رکھنے والے جوڑے کا تعلق انتہائی غریب گھرانے سے ہے، اور کیا کوئی صرف یہ تصور کر سکتا ہے کہ ان کے چار بچوں نے طویل قید کے دورا ن یہ ایام کیسے گزارے ہوں گے… سپریم کورٹ نے اکثر توہینِ رسالت کے جھوٹے الزامات کے خلاف خبردار کیا ہے اور سیاست دانوں سے بھی کہا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان جرائم کے تحت جیل جانے والوں پر غلط الزام تونہیں لگایا گیا ہے۔ ابھی تک اس معاملے پر بہت کم پیش رفت ہوئی ہے اور شہری اپنی زندگی کے کئی سال انصاف کے انتظار میں گزارتے رہتے ہیں۔ اس رجحان کو ختم ہونا چاہیے اور ہمارے قانون سازوں کو اس کا حل تلاش کرنا چاہیے تاکہ مزید معصوم شہریوں کو نقصان نہ پہنچے۔

لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر شدت پسندوں کا ردِّعمل

لاہور: لاہور ہائی کورٹ نے 3؍جون 2021ء کو مسیحی جوڑے کو بری کر دیا۔ سول سوسائٹی کی طرف سے اس بارے میں کئی تبصرہ جات کیے گئے جن میں سے ایک متشدد سوچ رکھنے والے پروفیسر محمد حسین آزاد ٹیم فکرِ بلال شہید جن کا تعلق ختم نبوت کے حامیوں سے تھا، کا بھی تبصرہ موجود تھا جو سوشل میڈیا پر گردش کرتا رہا ۔ ہم ذیل میں اس کا ترجمہ پیش کرکے اسی پر اکتفاکرتے ہیں:

’’توہینِ رسالت کے ملزم کو بری کر دیا گیا۔ حکومت پاکستان یورپی پارلیمنٹ کے دباؤ کے سامنے جھک گئی۔ ناموس رسالت (صلی اللہ علیہ وسلم) کا سودا ہوا۔‘‘

لاہور ہائی کورٹ نے آج 3؍جون 2021ء کو توہین رسالت کے جرم میں 2014ء سے قید گوجرہ کی اسکول ٹیچر شگفتہ کوثر اور ان کے شوہر شفقت عمانوئل کو باعزت بری کر دیا۔ یہ خبر ٹیم فکرِ بلال شہید تک شام چار بجے ختم نبوت کے وکلاء کے ذریعے پہنچی تاہم انہوں نے کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا تھا۔ اب، بی بی سی، ایک عالمی خبر رساں ادارے نے اسے نشر کیا ہے۔ یاد رہے کہ یورپی یونین کی پارلیمنٹ نے 29؍ اپریل 2021ء کو ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں توہینِ رسالتﷺکے مذہب سے متعلق سیکشن 295A/B/C کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا، ساتھ ہی صحابہ کی توہین پر سیکشن 298Aکو بھی منسوخ کیا جانے کاکہا تھا۔ اس کے علاوہ شگفتہ کوثر اور شفقت عمانوئل کی رہائی کا نام لے کر مطالبہ کیا گیا۔ ایک ماہ کے اندر حکومت پاکستان یورپی پارلیمنٹ کے سامنے مان گئی اور سات سال سے زیرِ سماعت یہ مقدمہ چند دنوں میں نمٹا دیا گیا۔ ان دونوں کا دفاع ایڈووکیٹ سیف الملوک نے کیا جو گستاخ آسیہ بی بی کے وکیل بھی تھے جنہیں پی ٹی آئی حکومت کے ابتدائی دنوں میں رہا کر دیا گیا تھا اور فرار ہونے کی اجازت دی گئی تھی۔ اگرچہ ختمِ نبوت کے وکلاء کو اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کا حق حاصل ہےلیکن جب تک اپیل کی سماعت ہو گی ان گستاخوں کو بھاگنے دیا جائے گا۔ اور یہ بات یہیں نہیں رکے گی۔ یورپی یونین کی پارلیمنٹ کسی ایک ملک کی نہیں ہےبلکہ یہ 27 یورپی ممالک کے لیے قانون سازی کرتا ہے۔ اس طرح، دباؤ کسی ایک ملک کا نہیں بلکہ 27 کا ہے۔پاکستان کی حکومت ویسے بھی فروخت ہونے کو تیار تھی۔لہٰذا پاکستان کے قانون، خاص طور پر PPC 295-C میں چند اسلامی دفعات کے منسوخ ہونے کا واضح خطرہ ہے۔

1۔اس طرح، مسلمانوں کو کسی (دوسری) بریکنگ نیوز کے انتظار میں اس مسئلے کو ختم نہیں ہونے دینا چاہیے۔ ٹیم فکرِ بلال شہید لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف ٹویٹر ٹرینڈ شروع کرنے جا رہی ہے اور ان شاء اللہ اس معاملے پر بہت سے ٹرینڈز آئیں گے۔ تمام سوشل میڈیا ٹیموں/کارکنوں/ٹوئٹرز کو اس ٹرینڈ میں حصہ لینا چاہیے۔ جو لوگ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں لیکن ٹویٹر پر نہیں ہیں وہ ٹویٹر اکاؤنٹ کھولیں۔اس وقت اپنا احتجاج درج کروانے اور متعلقہ لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے ٹویٹر جیسا موثر کوئی اور ہتھیار نہیں ہے۔

2۔ مذہبی، سیاسی، سماجی جماعتوں اور ان کے قائدین کو محض ویڈیوز/تحریرات/اخبارات اور ٹویٹس کے ذریعے بیانات جاری نہیں کرنے چاہئیں بلکہ کھل کر سامنے آنا چاہیے۔ پہلے ان گستاخوں کے نام ای سی ایل میں درج کرائے جائیں۔ اس کے بعد اربوں خرچ کرکے کانفرنسیں اور ریلیاں نکالنے اور اس طرح اپنا پروپیگنڈہ کرنے کے بجائے سپریم کورٹ کے کیس میں کثرت سے پیسہ خرچ کریں اور نامور وکلاء کو شامل کریں۔

3۔ معزز علماء کرام اور عوام الناس کو تحفظ ناموس رسالت کے قانون کی اہمیت سے آگاہ کریں اور انہیں یاد دلائیں کہ وہ ان 10ہزارشہداء کی طرح خود کو متحرک کریں جنہوں نے مال روڈ لاہور پر 1953ء میں ایک دن میں اپنا خون بہایا، نے انہیں قائل کریں کہ وہ حکام کے ممکنہ فیصلوں کو زبردستی مسترد کر دیں۔

4۔سیاسی جماعتوں، اسمبلیوں، اور میڈیا/اخبارات کے ذریعے صحافیوں کو چاہیے کہ وہ حکومت کو مجبور کریں کہ وہ انتہائی حساس 295Cکو چھیڑنے سے دُور رہیں اور تمام قیدشدگان (توہین رسالت کے مجرم) گستاخوں کے سرعام سر کاٹنے کے لیے قانون سازی کریں۔

5۔ سب سے اہم عنصر۔ یورپی یونین کی پارلیمنٹ کی یہ قرارداد اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ وہ اسے ہر طرح سے نافذ کرائیں گے۔ مسلمانوں کی توجہ اس مسئلے سے ہٹانے کے لیے متعدد جعلی خبریں چلائی جائیں گی۔ کسی بھی چیز کو ’شیئر‘ کرنے سے پہلے یہ سوچ لیں کہ اس طرح آپ ناموس رسالت کے معاملے کو پس پشت ڈالنے میں مددگار تو نہیں بن گئے۔ پروفیسر محمد حسین آزاد 2021/07/03 ٹیم فکرِ بلال شہید

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رائے

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 3؍جون 2021ء کو پاکستان میں توہین مذہب کے الزام میں سزائے موت پانے والے مسیحی جوڑے کی بریت کی خبر پر ایک بیان اور تبصرہ جاری کیا:

’’…پاکستان کے توہینِ رسالت کے قوانین حد سے زیادہ، مبہم اور زبردستی پر مجبور کرتے ہیں، غلط استعمال رواج دیتے ہیں اور انسانی حقوق کے احترام اور تحفظ کے لیے پاکستان کی بین الاقوامی قانونی ذمہ داریوں کے خلاف ہیں نیز مذہب یا عقیدے اور رائے اور اظہارِ رائے کی آزادی کے بھی مخالف ہیں۔ ان کا استعمال مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانے، ذاتی انتقام کی پیروی کرنے اور اپنی مرضی سے تشدد کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔بہت کم یا غیر معتبر ثبوتوں کی بنیاد پر، ملزم غصے میں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں، اور لوگوں کے پُرتشدد گروہ پولیس، گواہوں، استغاثہ، وکلاء اور ججوں کو دھمکانے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘

(Amnesty.org/en/latest/news/2021/06/Pakistan-acquittal-of-couple… )

پاکستان میں نفرت انگیز حملے

پاکستان میں احمدیوں پر منصوبہ بنا کر اور جان بوجھ کر حملے ہوتے ہیں۔ یہ بھی نفرت پر مبنی دہشت گردی کے حملے ہیں۔ مثال کے طور پر ماضی قریب میں:

٭…29؍جولائی 2020ء کو پشاور کے کمرۂ عدالت میں ایک امریکی شہری طاہر احمد نسیم کو جج کی موجودگی میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ قاتل کا یہ گمان تھا کہ یہ توہینِ رسالت کا مرتکب شخص اب بھی ایک احمدی ہے۔

٭…پشاور کے احمدی معراج احمد کو 12؍اگست 2020ء کو ان کے اسٹور کے قریب رات 9 بجے کے قریب گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔ انہیں حملے کے دن سے پہلے دھمکیاں ملی تھیں۔ ایک ماہ بعد، پشاور میں ان کے بھائی گلزار احمد کو گولی مار دی گئی۔ انہیں پانچ گولیاں لگیں۔ احمدی پروفیسر ڈاکٹر نعیم الدین خٹک 5؍اکتوبر2020ء کو پشاور میں گھر کی طرف گاڑی چلاتے ہوئے ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے۔ محبوب احمد خان بعمر82سال کو بیٹی کے گھر سے واپس آتے ہوئے پشاور میں قریب سے گولی مار کر 8؍نومبر 2020ءکوایک شخص نے شہید کر دیا۔

٭…11؍فروری 2021ء کو ایک احمدی ڈاکٹر عبد القدیر کو پشاور میں گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔

پہلے سے منصوبہ بندی کے ساتھ مذکورہ بالا شہادتوں کے متعلق پریس میں شاید ہی کوئی خبر یا تبصرہ شائع ہوا ہو سوائے پروفیسر ڈاکٹر نعیم الدین خٹک کے واقعۂ شہادت کے۔ کسی وی آئی پی کی طرف سے متاثرین کے اہلِ خانہ سے تعزیت کا کوئی دورہ نہیں ہوا۔ پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہوا۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ طاہر اے نسیم کے قتل کے بعد ایلیٹ پولیس اسکواڈ نے گرفتار قاتل کی ایک سیلفی کھینچی تھی۔ ایک معروف سوشل میڈیا کارکن، سپریم کورٹ کے ایک سینئر وکیل اور ایک سرکردہ سیاستدان کے بیٹے نے قاتل کے اہلِ خانہ سے اظہار یکجہتی کے لیے ملاقات کی۔ قتل کے پندرہ دن کے اندر سید عمران شاہ ایم این اے نے قومی اسمبلی میں قاتل سے اظہار یکجہتی کیا اور مطالبہ کیا کہ اسے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے فوری طور پر رہا کیا جائے، یا ریاست اس کی دیت (خون کی قیمت) ادا کرے، بصورت دیگر وہ اور اُن کے دوست ادا کریں گے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وزیر علی محمد خان اور جنید انور ایم این اے اور بہت سے دوسرے ان اخراجات کو برداشت کرنے میں ان کے ساتھ شامل ہوں گے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button