از مرکز

صد سالہ جوبلی دارالقضاء سلسلہ عالیہ احمدیہ (1919ء تا 2019ء) کے موقع پر انٹرنیشنل ریفریشر کورس کا انعقاد

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اختتامی اجلاس میں شرکت اور انتہائی بصیرت افروز خطاب

حضرت مصلحموعود رضی اللہ عنہ نےاپنے عہد مبارک میں جماعت احمدیہ کے انتظامی ڈھانچے کی بنیاد رکھی اور اس طرح یکم جنوری 1919ء کو دیگر صیغہ جات کے ساتھ ایک اہم صیغہ دار القضاء بھی قائم فرمایا۔ آپ ؓنے فرمایا :’’مختلف علاقہ جات میں قاضی ہوں۔ خاص جھگڑوں میں جن میں شرعی مسائل کی واقفیت کی ضرورت نہ ہو یا ایسے امور جن میں صرف آسان شرعی مسائل کی ضرورت ہوتی ہو ان کو فیصلہ کرنے کا اختیار ہو گا۔‘‘ (اخبار الحکم 7 جنوری 1919 صفحہ 5)

اب 100 سال گزرنے پر دارالقضاء کا وہ ننھا پودا جو بالکل ابتدائی رنگ میںلگایا گیا تھا خلفائے سلسلہ احمدیہ کی توجہ اور راہنمائی سے اپنی بلوغت کی عمر کو پہنچ کر ایک مضبوط تناور درخت کی شکل اختیار کر رہا ہے اور قادیان کی بستی سے نکل کراس کی شاخیں عالمی سطح پر لہلہا رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اب تک کل 18 ممالک میں یہ نظام فعال ہے اور اس سے عالمی سطح پر افراد جماعت احمدیہ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

دارالقضاء کی صد سالہ جوبلی کے موقع پر ناظم صاحب دارالقضاء ربوہ کی جانب سے قاضی صاحبان کے لئے ایک عالمی ریفریشر کورس منعقد کروانے کی تجویز سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں پیش کی گئی جسے حضور انور نے ازراہ شفقت قبول فرمایا۔ حضور انورنے اس ریفریشر کورس کے لئے 19اور 20 جنوری 2019ء کی تاریخیں منظور فرمائیں اور ریفریشر کورس کے شاملین کی مہمان نوازی کی ذمہ داری جماعت احمدیہ یوکے کے سپرد کی۔ یوکے جماعت نے ایک انتظامی کمیٹی مکرم صدر صاحب قضاء بورڈ یوکے کی سربراہی میں تشکیل دی۔ اس کمیٹی میں ناظم دارالقضاء یوکے مکرم رشید احمد زاہد صاحب، نائب ناظم دارالقضاء یوکے مکرم ناصر محمود خان صاحب، مربی سلسلہ دارالقضاء یوکے مکرم سلمان احمد قمر صاحب اور قاضی سلسلہ یو کے مکرم ظہیر احمد خان صاحب شامل تھے۔

پروگرام کا ابتدائی حصہ ناظم صاحب دارالقضاء مرکزیہ پاکستان نے تجویز کیا اور پھر آپس میں کانفرنس کال کے ذریعہ تمام انتظامی امور کو زیر بحث لانے کے لئے میٹنگ کا اہتمام کیا گیا۔ مرکزی قضاء بورڈ کا لوگو استعمال کر کے اس پروگرام میں استعمال ہونے والے اسٹیج کا بیک گراؤنڈ تیار کیا گیا۔

اس پروگرام کے انتظامات کو حتمی شکل دینے کے لئے ریفریشر کورس کی انتظامیہ کمیٹی نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے شرفِ ملاقات حاصل کیا جس میں دیگر امور کے ساتھ ساتھ مہمانان کی رہائش وغیرہ کے انتظامات پر بھی رہنمائی حاصل کی گئی۔ یہ سارے انتظامات حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی توجہ اور راہنمائی سے بخیر و خوبی انجام پائے۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک

ریفریشر کورس میں شمولیت اختیار کرنے کے لئے دنیا بھر سے تشریف لانے والے مہمانوں کی رہائش کے لئے مسجد فضل کے گرد و نواح میں موجود جماعتی گیسٹ ہاؤسزکو حاصل کیا گیا تھاجبکہ ریفریشر کورس کی تمام تر کارروائی مسجد بیت الفتوح میں ہوئی۔ کارروائی کا زیادہ تر حصہ طاہر ہال میں جبکہ مجلس سوال و جواب مسجد بیت الفتوح کے اندرونی ہال میں منعقد ہوئی۔ اس ریفریشر کورس کو کامیاب کرنے کے لئے خدام الاحمدیہ یو کے اور جامعہ احمدیہ یوکے کے طلباء نے بھی ڈیوٹیاں سرانجام دیں۔

19؍ جنوری ، پہلے دن کی کارروائی

پہلا اجلاس

پروگرام کا باقاعدہ آغاز19 جنوری بروز ہفتہ صبح دس بجے سے کچھ پہلے مکرم صدر قضاء بورڈ مرکزیہ پاکستان مکرم سردار محمد رانا صاحب کی زیر صدارت ہوا۔ مکرم حافظ محمد ظفراللہ عاجز صاحب (قاضی سلسلہ یوکے) نے آیت دَین (البقرہ283:) کی تلاوت اور تفسیرِ صغیر سے اردو ترجمہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔

اس کے بعد پہلی تقریر ناظم دارالقضاء پاکستان مکرم حافظ راشد جاوید صاحب نے پیش کی۔ آپ نے ’’دارالقضاء کی سَوسالہ تاریخ کا مختصر جائزہ ‘‘پیش کیا۔ آپ نے بتایا کہ تاریخی اعتبار سے قضا کے نظام کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

1۔ رسو ل اللہ ﷺ سے قبل نظام قضاء۔
2۔ رسول اللہ ﷺ کے دور کے بعد نظام قضاء۔
3۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد نظام قضاء۔

انٹرنیشنل ریفریشر کورس دارالقضاء کا پہلا روز، ابتدائی اجلاس (19؍جنوری 2019ء)

پھر آپ نے ان تینوں ادوار میں جاری نظام کی کچھ تفصیل پیش کی اور بالخصوص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد قضاء کے نظام کی مضبوطی پر روشنی ڈالتے ہوئے ذکر کیا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے یکم جنوری 1919ء میں باقاعدہ قضاء کا نظام قائم فرمایا۔ پہلے ناظم قضاء یا انچارج قضاء حضرت میر محمد اسحاق صاحب ؓتھے۔ یہ نظام حضرت خلیفۃ المسیح کی دعاؤں اور رہنمائی سے دن بہ دن ترقی کرتا رہا۔ پھر 20 اکتوبر 1939ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اپیل سننے کے لئے قضاء کا بورڈقائم فرمادیا۔مقرر موصوف نے یہ بھی بتایا کہ تمام خلفائے کرام نے احمدیت کے پھیلنے کے ساتھ ساتھ قضاء کے نظام کو مضبوط کرنے کے لئے کس طرح نئی قائم ہونے والی جماعتوں میں اس صیغہ کا قیام فرمایا۔ حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے بابرکت عہدِ خلافت میں غیر معمولی طور پر اس صیغہ قضاء کی طرف توجہ ہوئی۔ چنانچہ صرف دارالقضاء مرکزیہ ربوہ میں 22 مئی 2003ء سے اکتوبر 2018ء تک حضور انور کی طرف سے موصول ہونے والے ارشادات کی تعداد 1615 ہے۔ یعنی ہر چوتھا کیس خلیفۃ المسیح کی خدمت میں پیش ہورہا ہے۔ مقرر موصوف نے بتایا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے فیصلوں کا اب تک کا ریکارڈ 3 جلدوں میں شائع ہو گا جس میں سے ایک جلد شائع ہو چکی ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دَور میں 11 نئے ممالک میں صیغہ قضاء کا قیام عمل میں لایا گیا اور اس طرح اب تک کل 18 ممالک میں یہ نظام مستحکم ہو چکاہے۔ ان ممالک میں بھارت، بنگلہ دیش، ملائیشیا، انڈونیشیا، ڈنمارک، جرمنی، بیلجئم، ہالینڈ، ناروے، سویڈن، انگلینڈ، شمالی امریکہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ماریشس اور تنزانیہ کے ممالک شامل ہیں۔مقرر موصوف نے یہ بھی بتایا کہ تنزانیہ میں اس صیغہ کے قیام کی منظوری ابھی کچھ عرصہ قبل ہی ہوئی ہے اس لئے اس ریفریشر کورس میں تنزانیہ سے کوئی نمائندہ شامل نہیں ہو سکا۔

اس اجلاس کی دوسری تقریر دارالقضاء پاکستان کے نمائندہ مکرم محمد عبدالودود صاحب کی تھی۔ موصوف نے گواہی قلمبند کرنے کے طریق کے بارہ میں تفصیل سے بتایا۔ نیز بر صغیر ،برطانیہ اور افریقن ممالک کے ملکی قوانین کی روشنی میں گواہی کے حوالہ سے اہم معلومات بیان کیں۔ مکرم عبد الودود صاحب نے بتایا کہ گواہی کو سمجھنے کے لیے 3 چیزیں اہم ہیں :

1۔ Examination in Chief یعنی زبانی گواہی ۔
2۔ Cross Examination یعنی جرح ۔
3۔ Re-Examination گواہ سے دوبارہ کسی چیز کی وضاحت کروانا جیسے بعض اوقات گواہ کوئی تاریخ یا جگہ غلط بتا دے۔

اس کے بعد صدر قضاء بورڈ امریکہ مکرم عطاءالقدوس ملک صاحب نے نارتھ امریکن ممالک کے ملکی قوانین کی روشنی میں گواہی کے حوالہ سے قانونی راہنمائی اور گواہی نوٹ کرنے کے طریق کی بابت دلچسپ معلومات فراہم کیں۔ آپ نے بتایا کہ امریکہ میں تمام گواہیوں کی ریکارڈنگ کی جاتی ہے اور پھر اس کو ٹرانسکرائب کیا جاتا ہے۔ نیز یہ بھی بتایا کہ امریکہ میں وکیل کے لئے یہ ضروری نہیں کہ لازماً گواہ پر جرح کرے۔ اگر وہ یہ دیکھے کہ گواہ کی گواہی میرے کیس کو نقصان نہیں پہنچا رہی تو وہ کہہ سکتا ہے کہ میں نے جرح نہیں کرنی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہو گا کہ وہ گواہ کی سب باتوں سے متفق ہے۔

پہلے اجلاس کی چوتھی تقریر صدر قضاء بورڈ جرمنی مکرم ڈاکٹر نعیم احمد طاہر صاحب کی تھی۔ آپ نے جرمنی کے ملکی قوانین کی روشنی میں گواہی کے حوالہ سے قانونی راہنمائی اور گواہی نوٹ کرنے کے طریق پر سیر حاصل بحث کی۔ آپ نے بتایا کہ جرمن قانون میں گواہی میں پانچ باتیں قابل توجہ ہوتی ہیں۔

1۔ Documentary Evidence کاغذی شہادت۔
2۔ Expert Opinion ۔ ماہرانہ رائے ۔
3۔ Cross Questioning ۔ جرح
4۔ Inspection ۔ جج کا خود جا کر موقع دیکھنا ۔
5۔ Witness۔ شخصی شہادت

نیز بتایا کہ جرمن قانون میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر گواہ کے بیان کی وجہ سے گواہ کو کسی نقصان کا اندیشہ ہو تو گواہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ گواہی دینے سے انکار کر دے۔ نیز جرمن قانون کے مطابق اگر جج چاہے تو ویڈیو لنک وغیرہ کے ذریعہ بھی گواہی ریکارڈ ہو سکتی ہے۔ اور اللہ کے فضل سے جماعت کا نظام بھی جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بھی اجازت عنایت فرمائی ہے کہ سکائپ کے ذریعہ گواہی ریکارڈ ہوسکتی ہے۔

انہوں نے صیغہ دارالقضاء کی خصوصیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ جرمنی میں اگر کوئی ثالثی فیصلہ ہوتا ہے تو اس کے خلاف اپیل نہیں ہوسکتی لیکن یہ ایک سقم ہے۔ اللہ کے فضل سے جماعتی نظام میں ثالثی فیصلہ پربھی اپیل کی جاسکتی ہے۔

اس کےبعد صدر قضاء بورڈ یو کے مکرم ڈاکٹر زاہد خان صاحب نے ’’قرآن، حدیث، فقہائے اربعہ اور احمدیہ فقہ کی روشنی میں گواہی کی اہمیت‘‘ کے عنوان پر انگریزی زبان میں تقریر کی۔ آپ نے بتایا کہ قرآن میں گواہی کی بہت اہمیت بیان کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ دو فرشتے انسان کے تمام اعمال و اقوال کا ریکارڈ رکھ رہے ہوتے ہیں (سورۃ ق18:)۔ نیز سورۃ النسا ء آیت 136 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے مومنو! تم اللہ کی خاطر انصاف سے گواہی دو خواہ تمہیں اپنے نفسو ں کے خلاف یا والدین کے اور اقرباء کے خلاف ہی گواہی کیوں نہ دینی پڑے۔

اسی طرح حدیث میں لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جھوٹی گواہی سب سے بڑے گناہوں میں سے ہے۔ پھر آپ نے بتایا کہ اسلام ہراہم معاملے میں گواہ مقرر کرنے کا ارشاد فرماتا ہے۔ جیسے نکاح کے وقت گواہ، مالی معاملات میں گواہ، یتیم کو اس کا مال واپس کرتے وقت گواہ مقرر کرنا۔ پھر آپ نے اسلام میں عورت کی گواہی کے حوالہ سے ہونے والے اعتراضات کا خلفائے احمدیت کی تشریحات کی روشنی میں جواب دیا اور بتایا کہ حدیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بعض معاملات میں رسول اللہ ﷺ نے ایک عورت کی گواہی بھی قبول فرمائی۔ اور اس گواہی کے مطابق میاں بیوی میں جدائی کا فیصلہ کروا دیا تھا کیونکہ اس عورت نے کہا تھا کہ ان دونوں کو میں نے دودھ پلایا ہے اور یہ دونوں رضاعی بہن بھائی ہیں۔

اس کے بعد ریفریشمنٹ کا وقفہ ہوا جس کے بعد 12 بجکر پانچ منٹ پر دوبارہ اجلاس کی کارروائی کا آغاز کیا گیا۔ ناظم دارالقضاء قادیان مکرم زین الدین حامد صاحب نے وقت کی مناسبت سے خلع و طلاق کے معاملات میں قاضی کے مد نظر رکھے جانے والے امور سے آگاہ کیا۔ آپ نے حدیث کے حوالہ سے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کو حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز میاں بیوی میں علیحدگی ہے۔ نیز خلع سے قبل تحکیم کی کارروائی کرنا بھی قرآنی حکم کے ماتحت ضروری ہے۔ اسی طرح خلفائے کرام کے ارشادات کی روشنی میں یہ بھی بتایا کہ عموماً خلع لینے کی صورت میں عورت کو حق مہر نہیں ملتا لیکن اگر یہ ثابت ہوجائے کہ خاوند بیوی کو رکھنا نہیں چاہتا لیکن اس ڈر سے کہ کہیں حقوق نہ دینے پڑیں طلاق بھی نہیں دیتا تو ایسے شخص کی بیوی اگر خلع کی درخواست دے تو اسے تمام حقوق کے ساتھ خلع دلوایا جائے گا۔

پہلے اجلاس کی اختتامی تقریر صدر صاحب قضاء بورڈ مرکزیہ مکرم سردار محمد رانا صاحب کی تھی۔ آپ نے قضائی کارروائی اور فیصلہ لکھنے کے طریق کے متعلق نہایت تفصیل سے راہنما اصول بیان کئے۔ آپ نے بتایا کہ اگر قاضیانِ سلسلہ عالیہ احمدیہ معیاری فیصلے کریں گے تو پھر قضاء کا ادارہ معتبر سمجھا جائے گا اس لئے یہ تمام قاضیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ احسن طریق سے معیاری فیصلے کریں۔ اس کے لئے آپ نے سب سے پہلے ناظمین دارالقضاء کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی۔ ناظم دارالقضاء کی ذمہ داری ہے کہ فائل کو ترتیب سےمکمل کرے۔ پہلے آرڈر شیٹ بنائی جائے۔ پھر فریقَین سے ثالثی اقرار نامہ پُر کروایا جائے۔ آپ نے فائل مکمل کرنے کے انتظامی طور پر 6 مراحل بیان کئے :

1۔ جائزہ۔ یعنی منسلکہ مواد (Material) کا ملاحظہ۔
2۔تکمیل۔ دعویٰ میں قانونی سقم یا کمی کی تلافی۔
3۔ رجسڑیشن۔دعویٰ کا اندراج
4۔ جواب۔ جواب دعویٰ بمع اقرار نامہ ثالثی کا ادخال
5۔ تحکیم۔ بصورت عائلی قضیہ، حکمین کی تقرری اور رپورٹ
6۔ تفویض۔ قاضی اوّل کا تقرر بغرض فیصلہ

اس کے بعد آپ نے قاضیوں کو قضائی کارروائی کرنے کے طریق کے متعلق آگاہی دی۔ آپ نے بتایا کہ قضاء کی کارروائی کرنے کے 4 مراحل ہیں :

1۔ تنقیحات بنانا ۔2۔شہادت۔ اظہار (chief examination) اور جرح (cross examination) کا مجموعہ، پہلےمدعی کی شہادت پھر مدعا علیہ کی ۔ دستاویزات پیشکردہ (marked exhibited) ، منسلکہ (annexed) 3۔ بحث۔ زبانی شنوائی فریقین 4۔ فیصلہ محفوظ (reserved) اگر ان مراحل کے مطابق کارروائی کو چلایا جائے تو کئی قسم کی الجھنوں سے بچا جا سکتا ہے۔ آپ نے وقت کی کمی کے باعث اپنی تقریر کو مختصر کرتے ہوئے فرمایا کہ جب کبھی وقت ہوا تو فیصلہ تحریر کرنے اور مسل پڑھنے کے طریق کی بابت بھی مختصراً بیان کر دیا جائے گا۔ اس کے بعد آپ نے دعا کے ساتھ اس اجلاس کا اختتام فرمایا۔

آپ کی اس تقریر کو بہت سراہا گیا اور تمام ملکوں سے آئے ہوئے ممبران قضاء نے برملا اس بات کا اظہار کیا کہ بہت ہی مفید اور کارآمد باتیںنہایت احسن پیرایہ میں ہمیں سمجھا دی گئی ہیں۔ چنانچہ اس کی افادیت کے پیشِ نظر انتظامیہ کی جانب سے ریفریشر کورس کے تیسرے سیشن کے اختتام پر محترم صدر صاحب قضا ءبورڈ مرکزیہ کو یہ لیکچر/ہدایات مکمل کرنے کے لئے درخواست کی گئی جس پر آپ نےفائل پڑھنے کے 3 مراحل بیان کئے ۔ پھر فائل سے استخراج معلومات کرنے کے طریق بتائے یعنی فائل پڑھ کر کس طرح نتیجہ نکالنا ہے ۔ اس کےمتعلق آپ نے بتایا کہ فائل کو پانچ گروپس میں تقسیم کردیں۔ اس سے بآسانی معلومات مل جائیں گی او ر فیصلہ تحریر کرتے وقت دقت کا سامنا نہ ہو گا۔مزید برآں انتہائی جامع انداز میں ’شہادت‘ یا ’گواہی‘ کی تعریف اور اس کی اقسام بیان فرمائیں۔

پہلے اجلاس کے اختتام کے بعد نماز اور کھانے کا وقفہ ہوا۔ تمام حاضرین کے لئے جماعت احمدیہ یوکے کی جانب سے نہایت پر تکلف کھانا پیش کیا گیا جبکہ ریفریشر کورس کے اجلاسوں کے دوران ریفریشمنٹ کا انتظام بھی موجودتھا۔

نماز اور کھانے کے وقفہ کے بعد اس عالمی ریفریشر کورس کا دوسرا اجلاس دوپہر سوا دو بجے مکرم ھبۃالنور فرھاخن صاحب صدر قضاء بورڈ ہالینڈ کی زیرِ صدارت شروع ہوا۔ یہ اجلاس تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ سے زائد وقت تک جاری رہا۔ پروگرام کے مطابق اس اجلاس میں تمام ممالک سے تشریف لانے والے نمائندگان نے اپنے اپنے ملک میں دارالقضاء کا تعارف اور اس کی ملکی قانون سے ہم آہنگی کے موضوع پر روشنی ڈالی۔ اس اجلاس میں تقریباً تمام نمائندگان نے بتایا کہ اللہ کے فضل سے ہمارے ملک میں قائم دارالقضاء ملکی قانون سے مکمل طور پر مطابقت رکھتا ہے اور ہم ہر گز بھی ملکی قانون کے خلاف نہیں جاتے۔ تقریباً تمام ممالک میں ثالثی قانون کو تسلیم کیا جاتا ہے اور ADR یعنی Alternative Dispute Resolution کے طریق کو فروغ دیا جاتا ہے تاکہ حکومت پر کم سے کم بوجھ پڑے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کا ثالثی فیصلہ کا نظام نہایت مضبوط ہو چکا ہے اور بعض ممالک میں جماعت احمدیہ کی قضا کی طرف سے کئے گئے فیصلہ جات کو خاص طور پر اہمیت دی جاتی ہے۔

انڈیا، جرمنی، امریکا، کینیڈا، یوکے، ناروے، پاکستان، بنگلہ دیش، سویڈن، ڈنمارک، آسٹریلیا، انڈونیشیا، بیلجئم، ہالینڈاور ماریشس سے آئے ہوئے نمائندگان نے بتایا کہ کس طرح وہ اپنے اپنے ممالک میں ملکی قانون سے ہم آہنگ ہو کر فیصلے کرتے ہیں اور اس طرح افراد جماعت احمدیہ کے ہزاروں بلکہ لاکھوں روپے کی بچت کرتے ہیں۔

اس سیشن میں یہ بھی بتایا گیا کہ کن کن ممالک میں دارالقضاء کتنے عرصہ سے قائم ہے۔ یوکے میں دارالقضاء کا قیام 1977ء میں ہوا اور اس کے پہلے صدر حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب رضی اللہ عنہ صحابی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تھے۔ کینیڈا میں 1983ء سے، امریکہ میں 1984ءسے، جرمنی میں 1990ء سے، ڈنمارک میں 1999ء سے، آسٹریلیا میں 2007ء سے، ماریشس میںفروری 2013ء سے، انڈونیشیا میں جون 2014ء سے اوراسی طرح دیگر ممالک کے نمائندگان نے بھی اپنے اپنے ملک میںنظام قضا ء کے آغاز کی تاریخوں کا ذکر کیا۔

تیسرااجلاس

اس عالمی ریفریشر کورس کا تیسرا اجلاسشام پانچ بجے صدر قضاء بورڈ کینیڈامکرم عبدالرشید یحیٰی صاحب کی زیر صدارت ہوا۔ اس اجلاس کی ابتدا میں پچھلے سیشن کے تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے بعض ممالک کے نمائندگان نے اپنے اپنے ملک میں صیغہ قضاء کا تعارف پیش کیا۔ اس کے بعد ناظم صاحب دارالقضاء ربوہ نے ’’خلفائے احمدیت کے ارشادات کی روشنی میں قاضی صاحبان کے لئے راہنما اصول‘‘ کے عنوان پر تقریر کی جس میں انہوں نے قاضیوں کے فرائض اور ذمہ داریوں سے آگاہ کیا ۔ آپ نے بتایا کہ خلفائے احمدیت کے فیصلہ جات سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح محنت سے ہمارے خلفاء تفصیل کے ساتھ مسل کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد نتیجہ پر پہنچتے ہیں ۔ اس لئے تمام قاضیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ محنت اور توجہ سے فائل پڑھیں اور پھر فیصلے کریں ۔ اسی طرح اس اصول کا بھی قاضیوں کو علم ہونا چاہئے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا ہے کہ ثبوت پیش کرنا مدعی کی ذمہ داری ہے اور اگر مدعی ثبوت پیش نہ کر سکے تو پھر مدعا علیہ مدعی کی بات کو غلط ثابت کرنے کے لئے قاضی کے کہنے پر قسم کھائے گا ۔ اسی طرح قاضی کو ان امور کا بھی خیال رکھنا چاہئے کہ وہ کسی فریق مقدمہ سے علیحدگی میں نہیں مل سکتا ، دعوت نہیں کھا سکتا اور نہ ہی تحفہ لے سکتا ہے ۔ قاضی پر کوئی عہدیدار یا امیر بھی اثر انداز نہیں ہونا چاہئے ۔ نیز قاضی کو غصہ میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہئے وغیرہ۔

اس کے بعد قضاء پاکستان سے آئے ہوئےوفد میں شامل قاضی سلسلہ محترم منصور احمد نور الدین صاحب نے ’’قضائی کارروائی بذریعہ Skype‘‘ کے موضوع پر روشنی ڈالی ۔ جس میں آپ نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ایک مکتوب کا حصہ پیش کیا۔

ضور انور نے اپنے مکتوب محررہ 14 اگست 2018ء میں محترم صدر صاحب قضا ءبورڈ مرکزیہ کو یہ ارشاد فرمایا کہ:۔

’’قضاء آئندہ کسی مقدمہ کو دونوںفریق کی رضامندی کے ساتھ ویڈیو لنک یاSkype وغیرہ پر سننا چاہے تو سن سکتی ہے ۔ اس کی اجازت ہے لیکن اگر کوئی فریق اس پر اعتراض کرتا ہےتو اس کو براہ راست خود پیش ہونا ہو گا۔ ‘‘

اب جماعت احمدیہ کے افراد مختلف ممالک میںپھیل چکےہیں لہٰذا حضورِ انور کے اس ارشاد کی روشنی میں جدید ایجادات کی سہولیات سے فائدہ اٹھاکر قاضی صاحبان بھی سماعت اور گواہی کے لئے ویڈیو والا طریق اختیار کر سکتے ہیں لیکن اس کے لئے ان امور کویقینی بنایا جائے کہ اس کارروائی کو کوئی فریق ریکارڈ نہ کرے ۔ اور اگر ممکن ہو تو مقررہ جگہ پر آ کر بیان دیا جائے نیز کسی جماعتی عہدہ دار کی موجودگی میں شہادتیں ریکارڈ کروائی جائیں ۔

اس کے بعد صدر صاحب قضا بورڈ مرکزیہ نے احباب کی فرمائش پر اپنی تقریر کا وہ حصہ جو وقت کی کمی کے باعث مکمل نہ ہو سکا تھا پیش کیا ۔اس لیکچر کے اختتام پر صدر قضا بورڈ مرکزیہ نے دعا کے ذریعہ اس کارروائی کا اختتام کیا ۔

دوسرے دن کی کارروائی

مؤرخہ 20 جنوری

اس ریفریشر کورس کے دوران قاضی صاحبان کی راہنمائی کے لیے ایک مجلس سوال و جواب کا اہتمام کیا گیا۔ جس کی صدارت محترم سردار محمد رانا صاحب صدر قضاء بورڈ مرکزیہ پاکستان نے کی ۔ آپ کے ساتھ سوالات کے جواب دینے والے پینل میں مکرم حافظ  راشد جاوید صاحب ، مکرم ظہیر احمد خان صاحب اورمکرم محمد عبدالودود صاحب شامل تھے۔

انٹرنیشنل ریفریشر کورس دارالقضاء کے موقع پرمحترم صدر صاحب دارالقضاء مرکزیہ ربوہ سوالات کے جوابات دے رہے ہیں

قاضی صاحبان کو مختلف نوعیت کےسوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس لئے سوال و جواب کی مجلس کی صورت میں ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا گیا جہاں وہ جماعتی پالیسی اور دارالقضاء سے تعلق رکھنے والے سوالات بلا جھجک پوچھ سکتے تھے۔ چنانچہ یہ مجلس دو گھنٹے جاری رہی جس میں قاضی صاحبان کی طرف سے بہت دلچسپی لی گئی اور متعدد سوالات پوچھے گئے جن کے جوابات کی صورت میں جہاں تمام حاضرینِ مجلس کوعلمی فائدہ پہنچا وہاںبہت سے شاملین نے اپنے تجربات سے بھی لوگوں کو آگاہ کیا۔ پوچھے جانے والے سوالات میں زیادہ تر نظام دارالقضاء کے قواعداور ان کے ملکی قانون سے ہم آہنگی ، خلع و طلاق کے مسائل ،حلف کے مسائل، حکمَین کی کارروائی اور ثالثی اقرار نامہ کی اہمیت وغیرہ شامل تھے۔ اس مجلس کا اختتام مکرم سردار محمد رانا صاحب نے دعا کے ساتھ کروایا۔

انٹرنیشنل ریفریشر کورس دارالقضاء کا دوسرا روز، مجلس سوال و جواب(20؍جنوری 2019ء)

اس کے بعد نماز ظہر و عصر کی تیاری کے لئے وقفہ ہوا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مسجد بیت الفتوح آمد

پروگرام کے مطابق حضورِ انور ایدہ اللہ الودود بروح القدس نماز ظہر و عصر سے قبل مسجد بیت الفتوح میں  رونق افروز ہوئے۔ اور سب احباب نے مسجد بیت الفتوح میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اقتدا میں نمازظہر و عصر باجماعت ادا کیں۔

نمازوں کے معاً بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز طاہر ہال میں تشریف لائے اور آخر وہ لمحات آ گئے جس کا ہر ایک کو انتظار تھا کہ حضور انور دارالقضاء کی صد سالہ جوبلی کے موقع پر بنفس نفیس رونق افروز ہو کر اسے ایک نئی زندگی بخش دیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ یقینًا قارئین حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے اس موقع پر خطاب کو دیکھ کر اور پڑھ کر اس بات کا ادراک حاصل کر سکتے ہیں کہ خلافتِ احمدیہ کے وجود میں ہر معاملہ پر احسن رنگ میں رہنمائی موجود ہے۔

اختتامی تقریب

اس اختتامی اجلاس کی کارروائی کا آغاز تلاوتِ  قرآنِ کریم سے ہوا جس کی سعادت محترم محمد الیاس منیر صاحب قاضی سلسلہ جرمنی کو حاصل ہوئی۔ اردو ترجمہ مکرم ظہیر احمد خان صاحب نے پیش کیا۔ اس کے بعد محترم صدر صاحب قضاء  بورڈ مرکزیہ سردار محمد رانا صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت سے عالمی ریفریشر کورس دارالقضاء کی درج ذیل مختصر رپورٹ پیش کی:

’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ سیّدی ایّدکم اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز۔ پیارے حضور!اللہ تعالیٰ کے فضل سے، حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی بے پناہ شفقت سےدارالقضاء کو اپنے سو سال پورے ہونے پر یہ انٹرنیشنل ریفریشر کورس منعقد کرنے کی توفیق ملی ۔ الحمد للہ علی ذالک ۔

پیارے آقا! اس ریفریشر کورس میں اللہ کے فضل سے 15 ممالک سے 114نمائندگان کو شمولیت کی توفیق ملی ۔ یوکے سے 22 ، کینیڈا سے 11، ڈنمارک سے 3، ہالینڈ سے 4، ناروے سے 3، پاکستان سے 9، سویڈن سے 2، جرمنی سے 29، بنگلہ دیش سے 1، امریکہ سے 21، آسٹریلیا سے 2، انڈونیشیا سے 3، بیلجئمسے 2، بھارت سے 1اور ماریشس سے1 نمائندہ شامل ہوا ۔

اس پروگرام کی تیاری اور منعقد کرنے میں دارالقضاء  یوکے نے جس محنت سے اور محبت سے اور لگن سے انتظام کیا اس کیلئے ہم ان کے از حد ممنون ہیں ۔ فجزاہ اللہ احسن الجزاء۔

سیدی! آج ہم اس پروگرام کے اس حصہ میں  ہیں  جس کا سب کو انتظار تھا اور ہم سب کے یہاں آنے کا عملاً مقصد بھی یہی تھا کہ ہم اپنے پیارے امام ایدہ اللہ تعالیٰ سے براہ راست کسب فیض کریں۔ ہم اپنے مولیٰ کے شکر گزار ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ سعادت نصیب کی کہ آج حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ من حیث آیۃ اللہ ہم میں رونق افروز ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضور کی صحت اور عمر میں برکت عطا کرے۔ اور حضور سے درخواست گزار ہیں کہ ہمارے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں خلیفہ وقت کی منشاء کے عین مطابق بہترین رنگ میں خدمت کی توفیق عطا فرمائے اور قضاء کو عدل و انصاف کا بہترین ادارہ بنا دے ۔ آمین۔ ‘‘

اس کے بعد صدر صاحب قضاء بورڈ یوکے مکرم ڈاکٹر زاہد خان صاحب نے تمام احباب کا جنہوں نے اس ریفریشر کورس کو کامیاب بنانے کے لیے سعی کی تھی شکریہ ادا کیا۔ آپ نے کہا کہ عالمی ریفریشر کورس کے موقع پر ہمیں تفصیلی راہنمائی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طرف سے دی گئی جس کے لئے ہم حضور انور کے ممنون احسان ہیں۔ تمام ممالک سے آنے والے وفود نےصدر صاحب قضاء بورڈ مرکزیہ کے لیکچرز سے بھی بہت فائدہ اٹھایا۔ اسی طرح ہم امیر صاحب یوکے، صدر صاحب انصار اللہ یوکے اور صدر صاحب خدام الاحمدیہ یوکے کے بھی شکر گزار ہیں جنہوں نے بہت اہتمام سے ہر مرحلہ میں ساتھ دیا۔ اسی طرح خاکسار اپنی انتظامی کمیٹی اور سیکرٹری ضیافت یوکے کا بھی شکرگزار ہے۔ اسی طرح ظہیر احمد خان صاحب کا بھی خاکسار شکر گزار ہے جنہوںنے بہت سے کاموں سے میری فکر مندی دور کر دی۔

اس رپورٹ کے بعد سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ممبر پر رونق افروز ہوئے۔ یہ محفل ایک تاریخ ساز حیثیت رکھتی تھی کیونکہ یہ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ دارالقضاء  نے انٹرنیشنل ریفریشر کورس کا انعقاد کیا اور حضرت خلیفۃالمسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس میں بنفس نفیس شرکت فرما کر تمام ممالک کے قاضی صاحبان کو براہ راست اپنی نصائح سے نوازا اور ان کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی۔

تشہد اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا :اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ میں قضاء کے ادارے کو قائم ہوئے ایک سو سال ہو گئے ہیں اور آج آپ یہاں اس لئے جمع ہیں کہ سو سال پورے ہونے پر اس بات پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ اس نے ہمیں سو سال تک اس ادارے کو چلانے کی توفیق عطا فرمائی اور ہمیں اس کا حصہ بنایا یا ہمیں توفیق عطا فرمائی کہ اس میں خدمت کر سکیں، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق قضاءکے نظام کو چلانے کی اپنی تمام تر صلاحیتوں اور استعدادوں کے ساتھ کوشش کریں۔

حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز انٹرنیشنل ریفریشر کورس دارالقضاء سے اختتامی خطاب فرما رہے ہیں

حضورِ انور نے فرمایا کہ پاکستان اور ہندوستان میں تو قضاء کا نظام جب سے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اس کو باقاعدہ قائم فرمایا تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ ہندوستان میں شاید کچھ عرصہ حالات کی وجہ سے اس میں تسلسل نہ رہا ہو، تعطل ہو گیا ہو لیکن بہرحال جماعتی ادارے تو خلافت سے وابستہ ہیں اس لئے اِن کی عمر اُن کے قیام سے ہے نہ کہ کسی ملک کے قیام یا مسائل کا شکار ہونے پر کسی وقفے یا تسلسل نہ رہنے سے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے بہت سے ممالک میں قضاء کا نظام قائم ہو چکا ہے جیسا کہ ابھی رپورٹ میں بھی پیش ہوا کئی ممالک یہاں نمائندگی کر رہے ہیں۔ کہیں دو تین سال سے یہ نظام جاری ہے، کہیں دس پندرہ سال سے، بیس سال سے یا پچیس سال سے اور پھر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان سے باہر ملکوں میں قضاء کے نظام کو جب قائم فرمایا تو اس وقت آخری بورڈ پاکستان میں ہی رکھا اور اسی طرح مرکزی قضاء کے دفتر سے تمام دنیا کی قضاء کے شعبہ کا رابطہ بھی ہے اور رہنمائی بھی ہے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ مجھے پتہ لگا ہے کل صدر صاحب قضاء بورڈ ربوہ نے بڑی تفصیل سے رہنمائی فرمائی ہے اور لوگوں نے اسے پسند بھی کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ تمام قاضی اس رہنمائی کو اپنے اپنے ملکوں میں قضاء کی کارروائی کا حصہ بنانے والے بھی ہوں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ قاضی کی ذمہ داری بہت زیادہ ہے اور اسے ہر فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر انصاف کے اعلیٰ معیار پر اپنی تمام تر صلاحیتوں اور استعدادوں اور عقل پر رکھ کر کرنا چاہئے ۔لیکن پانچ رکنی بورڈ کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کیونکہ خلیفہ وقت نے اپنے فیصلے کا اختیار پانچ رکنی بورڈ کو دیا ہے۔ پس اگر اس بات کو قاضی یا ممبران قضاء بورڈ اپنے سامنے رکھیں تو ان کے دل ہر وقت اللہ تعالیٰ کے خوف اور خشیت سے پُر رہیں گے اور انہیں اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ وہ کسی بھی معاملے کو کبھی سرسری نہ دیکھیں۔

پس جب خلیفہ وقت نے اعتماد کر کے اپنے اختیار ایک بورڈ کو تفویض کئے ہیں تو بورڈ کے ہر ممبر کو اس کی اہمیت کا اندازہ ہونا چاہئے اور ہر سماعت کے وقت یہ بات سامنے ہونی چاہئے۔ اسی طرح فیصلے کو آخری شکل دیتے ہوئے بھی ممبران بورڈ کو یہ بات مدّنظر رکھنی چاہئے کہ جو فیصلہ لکھ رہے ہیں یہ صرف عام فیصلہ نہیں جو بورڈ نے لکھ دیا بلکہ بڑی گہرائی میں جا کر ہر چیز کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ لکھنا ہے ۔

انٹرنیشنل ریفریشر کورس دارالقضاء کے اختتامی اجلاس کا ایک منظر

حضورِ انور نے فرمایا کہ قاضیوں کی ذمہ داری کوئی معمولی ذمہ داری نہیں ہے۔ سو سال قضاء کے پورا ہونا بیشک اللہ تعالیٰ کا فضل ہے لیکن اس فضل کا حصہ ہر وہ شخص اس وقت بنے گا جب اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق اس فرض کی انجام دہی کرے گا جو اس کے سپرد کیا گیا ہے۔ حضورِ انو رنے سورۃ النساء کی آیت 136 کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ آیت عمومی طور پر تو ہر ایک کے لئے ہے۔ اس میں مسائل اور معاملات حل کرنے والوں کے لئے لائحہ عمل موجود ہے۔ پہلا حکم ہی اللہ تعالیٰ کی خاطر گواہ بنتے ہوئے انصاف پر مضبوطی سے قائم رہنے کا ہے یعنی تمہارا فیصلہ انصاف کے باریک در باریک پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے اور شریعت اور قانون کے تمام پہلو سامنے رکھتے ہوئے ہو اور پھر اس کے معیار مقرر فرمائے ہیں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ قاضی اس معیار پر اپنے آپ کو پرکھیں کہ اگر وہ کسی مقدمے میں فریق ہوں یا یہ کہ فریق کی جگہ وہ خود ہوں تو اپنے خلاف گواہی دیں گے؟ یعنی سچائی کو قول سدید کی حد تک بیان کریں گے؟ اور یہ کرنے سے کس قدر نقصان برداشت کرنا پڑے گا؟

حضورِ انور نے حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحبؓ کا ایک واقعہ بیان فرمایا کہ کس طرح آپ اپنے بیٹے کے خلاف بھی سچی گواہی دینے کے لئے تیار ہو گئے اور تقویٰ کے اعلیٰ معیار کو قائم فرمایا۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عدل کے تقاضے پورے کرنے کے لئے ہر قسم کے اثر و رسوخ سے بالا ہو کر فیصلہ کرنا ہے۔ اوریہ باتیں اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتیں جب تک تقویٰ کا اعلیٰ معیار نہ ہو، ہر فیصلے کے لئے خدا تعالیٰ سے مدد مانگنے کے لئے دعا نہ کی جائے اور ہر مقدمے کو گہرائی میں جا کر ہر پہلو کو دیکھ کر سماعت نہ ہو۔ فرمایا کہ مقدمے میں جب تک اپنے آپ کو بھی اس معیار کے مطابق پرکھا نہ جائے جس کی اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ہدایت فرمائی ہے تب تک انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوں گے۔ اگر اس طرح ہو گا تبھی انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں گے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ ہمارے قاضی کا معیار صرف قانون جاننا یا شریعت جاننا یا صائب الرائےہونا نہیں ہےبلکہ تقویٰ بھی ایک بہت بڑی شرط ہے اور ہر فیصلہ لکھتے ہوئے خاص طور پر اللہ تعالیٰ سے ایک خاص تعلق پیدا کر کے دعا کی ضرورت ہے۔

حضورِ انور نے اپنے خطاب میں قاضی صاحبان کے لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشعل راہ ارشاد ات بیان فرمائے جن میں جامع نصائح موجود ہیں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ جب انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے فیصلہ کریں گے تو وہ فیصلہ بھی اللہ تعالیٰ کی نظر میں قابل قبول ہوتا ہے۔

حضورِ انو رنے فرمایا کہ یہ قاضی کی ذمہ داری ہے کہ فریقین کی تسلی کروانے کی حتی المقدور کوشش کرے۔ جس فریق کے خلاف فیصلہ ہو اس کے دل میں کچھ اعتراض پیدا ہوتے ہی ہیں لیکن قاضی کی طرف سے شریعت اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے حتی الوسع اپنی تمام صلاحیتوں کے ساتھ انصاف کے فیصلے کرنے کی کوشش ہونی چاہئے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ فیصلے واضح ہوں۔ پس قاضی کے فیصلوں کی ڈرافٹنگ (drafting)اور فریزنگ (phrasing)بھی بہت اہم چیز ہے۔

حضورِ انو رنے فرمایا کہ جہاں نیا نظام قائم ہو رہا ہے ان ملکوں میں خاص طور پر قاضیوں کے ریفریشر کورس کرتے رہنے چاہئیں اور بنیادی باتوں اور فیصلوں کی تحریر کے بارے میں اچھی طرح ہر قاضی کی ٹریننگ بھی ہونی چاہئے۔

اپنے اس بصیرت افروز خطاب کے اختتام پر حضورِ انور نے تمام ممبران دارالقضاء سلسلہ عالیہ احمدیہ کو دعا دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آپ سب کو انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنے فرائض ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ نیز فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سب کو اس ریفریشر کورس سے استفادہ کرنے کی توفیق بھی عطا فرمائے اور سب سے بڑھ کر دعائیں کرنے کی آپ کو توفیق دے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ آپ سے انصاف کے مطابق فیصلے کروائے اور بشری کمزوریوں کی پردہ پوشی فرماتا رہے۔

اس کے بعد حضورِ انور نے دعا کروائی۔ اور پھر کرسی صدارت پر رونق افروز ہو گئے۔ بعد ازاں حاضرینِ تقریب کی خدمت میں پر تکلّف ظہرانہ پیش کیا گیا۔ طعام کے بعد اپنے پیارے آقا کی بابرکت معیت میں تصاویر اتروانے کا مرحلہ آیا۔

انٹرنیشنل ریفریشر کورس دارالقضاء کی اختتامی دعا

خطاب کے بعد پروگرام کے مطابق اس ریفریشر کورس میں شامل تمام ممبران دارالقضاء نے اپنے پیارے آقا کے ساتھ تصاویر بنوانے اعزاز حاصل کیا۔ مختلف ممالک سے آئے ہوئے قاضی صاحبا ن نیز سابق قاضی صاحبان دارالقضاء یو کے وغیرہ نے 9 مختلف گروپس میں اپنے اپنے ملک کی دارالقضاء کی نمائندگی میں تصاویر اتروائیں۔ اس کے بعد ایک تصویر اس ریفریشر کورس کی انتظامیہ کی ہوئی۔ بعد ازاں حضورِ انور کرسی سے اٹھے اور چلنے لگے۔ پھر اچانک رکے اور ازراہِ شفقت فرمایا کہ اب وہ تمام سابقہ قاضی تصویربنوانے کے لئے آ جائیں جو ربوہ میں قاضی رہےہیں۔ اور ساتھ ہی فرمایا کہ مجھے بھی ربوہ میں قاضی رہنے کا موقع ملا تھا۔ یہ حضور انور کی ان بے پناہ شفقتوں میں سے ایک شفقت تھی جس میں ہر شامل ہونے والا خوش نصیب تھا۔ تصاویر کے بعد حضورِ انور واپس مسجد فضل کے لئے روانہ ہو گئے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ممبران دارالقضاء کی یہ سعادتیں قائم رکھے اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ان تمام ہدایات پر عمل کرنے کی توفیق دینے کے ساتھ ساتھ حقیقۃً اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے۔ آمین

(رپورٹ: منصور احمد ضیاء۔ قاضی سلسلہ یو کے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button