فتح مکہ، امن عالم کی حقیقی عملی تصویر
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بین الاقوامی معاملات میں اپنے عمل سے ایسی مثالیں قائم کیں کہ جن پر اگر آج بھی اقوام عالم عمل کریں تو دنیا میں دیرپا امن قائم ہو سکتا ہے
عرب کی تپتی دھوپ میں سن 622 عیسوی میں دو افراد کا سفر اس زمانے کے لوگوں کے نزدیک توشاید ایک معمولی سا واقعہ ہو، مگر تاریخ سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ اس سفر نے دنیا کی تاریخ کی ایسی کایا پلٹی جس کی نظیر دنیا میں نظر نہیں آتی۔یہ سفر اس عظیم ہستی نے اپنے سب سے قریبی ساتھی کے ساتھ اختیار کیا جس کے متعلق خدا تعالیٰ نے اپنی مقدس کتاب میں یہاں تک فرمایا کہ اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَسَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا کہ خداتعالیٰ اور اس کے فرشتہ نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔پس اے مومنو تم بھی اس پر درود اور خوب خوب سلام بھیجو۔ (الاحزاب،33) آنحضرت ﷺ کی ہجرت کے حیرت انگیز واقعہ سے پہلے تیرہ سال کے طویل عرصہ کی بے انتہا قربانیوں کی ایک دردناک داستان ہے، جس میں اس مقدس اور بے پناہ رحم دل ہستی کو تکالیف پہنچانے میں آپ ﷺ کے مخالفین نے کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اس پاک وجود کوکبھی پتھر مار مار کر لہو لہان کیا گیا، تو کبھی گلا گھونٹ کر مارنے کی کوشش کی گئی۔آپ کے خلاف جھوٹی افواہیں پھیلائیں گئیں، آپ کے اہل خانہ کو تین سال تک ایک وادی میں بے سرو سامان قید رکھا گیا اور بھوک سے بلکتے بچوں کی آوازیں بھی اِن سفاک دشمنوں کے دل نرم نہ کر سکیں۔ جب ایک بار آپ پر عبادت کے دوران اونٹ کی آلائشیں رکھ دی گئیں تا کہ آپ اس کے بوجھ سے سجدہ سے نہ اٹھ پائیں تو آپ ﷺ کےایک ساتھی نے ان آلائشوں کو آپ سے اٹھاتے ہوئے دشمنوں کو کوستے ہوئے کیا خوب کہا…اے لوگو تم اس شخص کو اس لئے تکلیف دیتے ہو کہ وہ تمہیں اللہ کی طرف بلاتا ہے…..مختصر یہ کہ اس طویل عرصہ کے بعد، جب ظلم کی تمام حدیں پار کی گئیں تو اس صبر کے پیکر نے اپنے ماننے والوں کو حکم دیا کہ وہ یثرب کی دور دراز بستی کی طرف ہجرت کر جائیں تاکہ وہاں پر خدائے واحد کی عبادت اور اپنے دین کی تبلیغ میں امن سے مشغول ہوں۔آپ ﷺ کو اس فیصلے سے پیدا ہونے والے تغیرات کا بخوبی اندازہ تھا اور آپؐ جانتے تھے کہ مسلمانوں کے اہل یثرب کی پناہ میں آنے سے مکہ اور یثرب کے سیاسی تعلقات پر کیا اثرات پڑ سکتے ہیں۔ روایات کے مطابق بیعت عقبہ ثانیہ کے موقع پر حضرت عباسؓ اور حضرت اسعد ؓبن زرارہ نے اہل یثرب کو اس طرف توجہ دلائی کہ بیعت کے بعدتمام عرب کی دشمنی مول لو گے۔ جب ان تمام نتائج کو اچھی طرح جانتے ہوئے انہوں نے آپﷺ اور صحابہ کااپنے ہاں آنابخوشی قبول کیا تو آپ نے ان سے بیعت لی۔ آپ ﷺ نے مدینہ پہنچتے ہی سب سے پہلے اہل مدینہ کے تمام گروہوں کے ساتھ ایک معاہدہ میثاق مدینہ طے کیا جس میں تمام شہریوں کے حقوق کی حفاظت کی ضمانت دی گئی تھی۔ اس معاہدہ کی دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں یہود اور مسلمانوں کو ایک امت کہا گیا ہے، نیز مدینہ کے غیر مسلم شہریوں پر کسی قسم کا جزیہ عائد نہیں کیا گیا۔ یعنی اہلیان مدینہ کو ایک قوم تسلیم کیا گیا جس میں ہر کسی کے حقوق کی حفاظت کو یقینی بنایا گیا۔ یہ بات آجکل کے ان نام نہاد علماء کے نظریہ کی سختی سے نفی کرتی ہے جو یہ مشہور کرتے ہیں کہ ایک اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہریوں پر جزیہ عائد کیا جانا چاہیئے یا یہ کہ وہ دوسرے درجہ کے شہری ہیں وغیرہ۔
سیاسی لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ ہجرت کا واقعہ اپنے اندر ایک غیر معمولی تبدیلی لے کر آیا۔ کفار مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسطرح ان کے چنگل سے نکل کر مدینہ میں رہائش اختیار کرنا اپنے مفادات کے خلاف دیکھا۔ چنانچہ اگلے سالوں میں بار بار مدینہ کی طرف لشکر کشی کی۔ اگر اس زمانہ میں مسلمانوں اور کفار مکہ کے درمیان تین بڑی جنگوں کے جغرافیہ کو دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ تینوں جنگیں مدینہ کے پاس بلکہ عین مدینہ میں ہوئیں۔ چنانچہ بدرکی جنگ مدینہ سے تقریبا 100 کیلومیٹر کے فاصلہ پر ہوئی جبکہ وہاں سے مکہ کا فاصلہ تقریباً 300 کیلومیٹرہے۔ احد کی جنگ شہر سے متصل احد کے پہاڑ کے دامن میں ہوئی۔آجکل یہ جگہ مدینہ شہر کا حصہ ہے۔ اسی طرح خندق کی جنگ میں تو دشمن کی عددی برتری کے سامنے مسلمان شہر کے گرد ایک طویل خندق کھودنے پر مجبو ر ہوئے تاکہ اپنے دفاع کی کچھ صورت نکال سکیں۔یہاں پر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اس تمام عرصہ میں مسلمانوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ نہیں ہوا۔ جنگ خندق کے وقت تقریباً تین ہزار جنگجو شمار کیے گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے 6ہجری میں عمرہ کی نیت سے مکہ کا قصد کیا تو اس کے نتیجہ میں اہل مکہ اور آپ کے درمیان صلح حدیبیہ کا معاہدہ طے ہوا جس میں دس سال کی جنگ بندی کا عہدکیا گیا تھا۔ اس عہد کے مطابق عرب کے قبائل کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ مسلمانوں یا قریش میں سے کسی ایک کے حلیف بن جائیں۔امن کے ان سالوں میں جہاں آپ نے ایک طرف مختلف بادشاہوں کو اسلام کی دعوت دی تو دوسری طرف تبلیغ کے ذریعہ اسلام کو تمام عرب میں پھیلا دیا۔ دو سال کے امن کے بعد حدیبیہ کے معاہدہ کوسن 8 ہجری میں اہل مکہ نے اپنے حلیف بنو بکر کو مسلمانوں کے حلیف بنو خزاعہ پر حملہ کرنے میں مدد کرکے توڑ دیا۔ مگر معاہدہ توڑنے کے بعد ان پر ایسا خوف طاری ہوا کہ مکہ کا سردار ابو سفیان خود مدینہ تجدید عہد کے لیے پہنچا۔بنو خزاعہ اس سے پہلے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بطور حلیف مدد کی التجا کر چکے تھے۔ چنانچہ اس خلاف ورزی کی وجہ سے اب اس معاہدہ کی تجدید کا کوئی جواز نہ بنتا تھا۔ اس واقعہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کیونکہ معاملہ اب صرف مسلمانوں تک محدود نہیں تھا بلکہ مسلمانوں کا حلیف قبیلہ بنو خزاعہ اس تنازعہ میں فریق تھا اس لیے ان کے ساتھ کیے گئے عہد کی پاسداری نہایت ضروری تھی۔ اس سے ایک طرف تو دشمن کو یہ پیغام دیا گیا کہ عہد کے توڑنے سے ان کو اس کے نتائج بھگتنا پڑیں گے ورنہ تو قوموں کے درمیان عہد و پیمان کی کوئی وقعت ہی نہ رہے گی۔ دوسری طرف تمام حلیف قبائل کو یہ پیغام دینا بھی تھا کہ بوقت ضرورت مسلمان معاہدہ کی ضرور پاسداری کرتے ہیں۔ بین الاقوامی امور میں یہ اصول امن کو برقرار رکھنے کے لیے نہایت ضروری ہیں۔ نہ کہ آجکل کی سیاسی چال بازیوں کی طرح طاقتور ممالک پہلے دوسری اقوام سے معاہدے کرتے ہیں اور پھر اپنے مفاد کی خاطر جب چاہیں اس معاہدہ کو کلعدم قرار د ے دیتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ سال پہلے امریکہ نے ایران کے ساتھ ایک معاہدہ میں کیا۔ پہلی حکومت نے معاہدہ طے کیا اور جب حکومت بدلی تو نئے حکمرانوں نے یکطرفہ طور پر ہی اس معاہدہ کو ختم کر دیا۔ اس تمام عمل سے دنیا کے باقی ممالک کو یہ پیغام پہنچا کہ ایسے ممالک سے معاہدہ کرنے کاکوئی فائدہ ہی نہیں کیونکہ یہ خود اس کی پاسداری نہیں کرتے۔ اس طرح عالمی طور پر تناؤمیں اضافہ ہوا ہے۔ مختصر یہ کہ 8 ہجر ی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو مکہ کی طرف لشکر کشی کا حکم دیا اور نہایت رازداری سے مکہ کے قریب مر الظہران کے مقام پر پڑاؤ ڈالا۔ رات کو ابو سفیان کا جائزہ لینے کے لیے نکلا اور حضرت عباس کی پناہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس کو حکم دیاکہ اگلے روز ابو سفیان کو ایسی جگہ پر کھڑا کرو جہاں سے وہ اسلامی لشکر کو دیکھ سکے۔ جب ایک کے بعد دوسرا دستہ ابو سفیان سے پاس سے گزرتا تو وہ اس عظیم لشکر کو دیکھ کر حیران رہ جاتا۔ اس سے ایک مقصد یہ بھی تھا کہ اس کو یقین ہو جائے کہ اس لشکر کے ساتھ جنگ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خون خرابے کے امکان کو مزید کم کرنے کی کوشش کی۔آپ نے مسلمان فوج کو چار حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے مکہ کی چار مختلف اطراف سے داخل ہونے کا حکم دیا۔ اس کے پیچھے بھی یہی حکمت تھی کہ اس طرح دشمن مکمل گھر جانے کی وجہ سے جنگ کرنے کی جرات ہی نہیں کرے گا۔ اس کے ساتھ ہی آپ نے یہ ہدایت بھی دی کہ جنگ نہ کرو،صرف مجبوری میں اگر مکہ میں سے کوئی حملہ کرے تو جواب دو۔ نیز منادی کروائی کہ جو کوئی ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو وہ امن میں ہے، جو کوئی اپنے ہتھیار ڈال دے وہ امن میں ہے اور جو کوئی اپنا دروازہ بند کر ے وہ امن میں ہے اور جو کوئی کعبہ میں جائے وہ بھی امن میں ہے اور جو بلال کے جھنڈے تلے جمع ہو وہ بھی امن میں ہے۔ غرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حتی المقدور کوشش کی کہ فتح مکہ کے وقت کسی قسم کی جنگ نہ ہو اور پر امن طریق سے شہر پر قبضہ ہو جائے۔ پھر آپ نے اس بات کا خیال رکھا کہ اشتعال نہ پھیلے باوجود اس کے کہ مسلمان کفار مکہ کے ظلم و ستم کو نہ بھولےتھے اور طبعی طور پر ان میں جوش پایا جاتا تھا۔ چنانچہ جب انصار کا دستہ حضرت سعد بن عبادہ کی قیادت میں ابو سفیان کے پاس سے گزرا تو آپؓ سے رہا نہ گیا اور جوش میں کہہ دیا کہ آج تو بدلے کا دن ہے۔جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا تو آپ نے ناراضگی کا اظہار کیا اور حضرت سعد سے ان کا جھنڈا لے کر ان کے بیٹے کو دے دیا۔دنیا کے دستو ر کے مطابق تو یہی ہوتا چلا آ رہا تھا کہ فاتح مغلوب قوم کے ساتھ وہ ظالمانہ سلوک کرے جس سے وہ دوبارہ اٹھنے کے لائق ہی نہ رہے۔ اسی طرف قرآن کریم کی سورۃ نمل میں ملکہ سبا کے مکالمہ میں اشارہ ہے کہ قَالَتۡ اِنَّ الۡمُلُوۡکَ اِذَا دَخَلُوۡا قَرۡیَۃً اَفۡسَدُوۡہَا وَجَعَلُوۡۤا اَعِزَّۃَ اَہۡلِہَاۤ اَذِلَّۃً ۚ وَکَذٰلِکَ یَفۡعَلُوۡنَ یعنی اس نے کہا کہ جب بادشاہ کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اس میں فساد برپا کر دیتے ہیں اور اس کے باشندوں میں سے معززلوگوں کو ذلیل کر دیتے ہیں اور وہ اسی طرح کیا کرتے ہیں۔(سورۃ نمل، 35)لیکن سرکار دو دعالم نے دنیا کے دستو ر کو بدل ڈالا۔ فتح مکہ نہ تو معزز لوگوں کی تذلیل کے لیے تھا، نہ ہی اس بستی کو تباہ کرنے کے لیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر کوشش کی کہ پرا من طریق سے شہر پر قبضہ ہو۔ نہ کسی قسم کا اشتعال، نہ ہی کسی قسم کی تباہی۔آپ نے اپنے عمل سے امن عالم کے لیے ایسی مثال قائم کی جس کی نظیر نہیں ملتی۔ آج کے دور میں بھی جب افواج کسی ملک پر قبضہ کرتی ہیں تو دشمنی میں اس کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی سعی کرتی ہیں اور اس کے سابقہ سربراہوں سے ذلت آمیز سلوک کرنا گویا اپنا فرض سمجھتی ہیں بلکہ اس کی تشہیر بھی بڑے پیمانے پر کی جاتی ہے۔اس طرح دائمی امن کی بجائے باہمی دشمنی کی ایسے بیج بوئے جاتے ہیں جو لمبے عرصہ تک ممالک کے درمیان بد امنی کو موجب بنتے رہتے ہیں۔دنیا کی تاریخ میں ایسے کئی واقعات محفوظ ہیں۔ اگر نئے زمانے کو دیکھا جائے تو جنگ عظیم کے دوران برلن کے شہر پر روسی افواج کا قبضہ اس کی بد ترین مثال ہے۔اس میں شک نہیں کہ نازی جرمنی نے روس کی جنگ کے دوران روسی عوام پر بے انتہاء ظلم کئے۔ لیکن جب روسی افواج نے موقع ملنے پر آخر کار برلن شہر پر شدید لڑائی کے بعد قبضہ کیا تو عام شہریوں پر جو ظلم ڈھائے ان کی بھی مثال نہیں ملتی۔ انہیں مظالم کی وجہ سے جرمن عوام الناس روسی فوج کی آمد کا سن کر مغربی علاقوں میں بھاگنے کی کوشش کرتے تھے۔ روسی علاقوں سے اس طرح لاکھوں جرمنوں نے امریکی یا انگریزی فوج کے زیر تسلط علاقوں میں پناہ لی۔
مختصر یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر فاتح اور مفتوح کے درمیان تلخی اور مزید دشمنی کو جڑ سے ہی اکھاڑ دیا ورنہ عربوں میں تو اپنے قبائلی تفاخر کی وجہ سے دہایوں خانہ جنگی جاری رہتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو خود کسی قسم کے تفاخر کا اظہار کیا نہ ہی مسلمانوں کو اس کی اجازت دی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے تو سورۃ الفتح کی تلاوت فرما رہے تھے۔ اور خدا تعالیٰ کے آگے جذبات شکر سے انکساری میں آپ کا سر جھکا ہوا تھا۔ فتح کے بعد آپ نے خداتعالیٰ کے گھر کا طواف کیا اور اس کو بتوں سے پاک کیا۔ جب آپ کعبہ سے باہر تشریف لائے تو اہل مکہ آپ کے سامنے تھے۔ وہی لوگ جنہوں نے 13 سال تک آپ اور آپ کے ماننے والوں پر ظلم کی انتہا کر دی۔آپ نے جب ان سے فرمایا کہ تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے توان کے اس جواب پر کہ وہ سلوک جو یوسف نے اپنے بھائیوں سے کیا تھا آپ نے فرمایا تا للہ لا تثریب علیکم الیوم خدا کی قسم آج تمہیں کوئی سرزنش نہیں کی جائے گی۔ آپ نے اس عام ایمنسٹی سے آئندہ کی باہمی دشمنی یا لڑائی کی صورت کو ختم کر دیا۔ ورنہ انتقام کے جوش میں آج بھی فاتح اقوام اپنے دشمنوں پر طرح طرح کے الزامات لگا کران پر مقدمات چلاتے اور ان کو سخت سے سخت ترین سزا دلوانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں تاکہ ہمیشہ کے لیئے وہ عبرت کا نشان بنیں۔نتیجتاً اقوام کی باہمی دشمنی ختم نہیں ہوتی اور موقع ملنے پر ہر قوم دوسری قوم سے اس سے زیادہ ظلم کے ساتھ انتقام لیتی ہے۔ فتح مکہ کے روزمحض چند لوگوں کو سزا دینے کا قصد کیا گیاتھا جن کے ظلم نہایت بھیانک تھے۔ ان میں سے بھی اکثر مکہ سے بھاگ گئے تھے یا پھر دوسرے مسلمانوں کی سفارش پر ان کو بھی آپ نے معاف کر دیا جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب کے قاتل ہبار کے ساتھ سلوک کیا۔
فتح مکہ کے موقع پر اہل مکہ کے اموال کی بھی مکمل حفاظت کی گئی جبکہ دستور یہی تھا کہ فاتح افواج قبضہ کے بعد شہر کو عام لوٹ مار کا نشانہ بناتی تھیں جس میں عام شہریوں کا قتل عام کیا جاتا یا انہیں غلام بنا دیا جاتا۔آج بھی ممالک کی فتح کے وقت فاتح فوج سب سے پہلے ایسے ملک کی دولت پر قبضہ کرتی ہے جیسا کہ عراق کی جنگ کے بعد ہوا۔ فتح مکہ میں ایسا نہیں کیا گیااپنے عمل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ بین الاقوامی تنازعات میں بھی کوشش یہی کرنی چاہیئے کہ ملک کے اموال یا عام عوام کا نقصان کم سے کم ہو تاکہ دیرپا امن برقرار رہے۔ ورنہ اقوام کی دشمنی کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہو جائے۔
فتح مکہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ سے پہلے کسی وقت بھی مکہ کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہیں کی۔ اگر آپ چاہتے تو مکہ کے اندر ایسے گروہوں یا لوگوں سے رابطہ کر کے اپنے مفادات کی خاطر ساز باز کر سکتے تھے، جس سے مکہ کے اندر خانہ جنگی اور انتشار کی صورت پیدا ہو جاتی، جیسا کہ آجکل بھی بین الاقوامی سیاست میں ایک عام سی بات سمجھا جاتا ہے۔ ہر طاقت اپنے حریف کو کمزور کرنےکے لیے اس ملک کے اندر ایسے عناصر سے روابط پیدا کر کے یا مدد دے کر ملک میں انتشار اور بد امنی پھیلانے کی کوشش کرتی ہے تا دشمن اندرونی طور پر نہایت کمزور ہو جائے۔ ایسی صورت میں اس ملک پر قبضہ کرنا نسبتاً آسان ہو جاتا ہے۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی موقع پر ایسا نہیں کیا۔ جب ابو سفیان فتح مکہ سے ایک دن پہلے رات کو آپ کے پاس آیا تو آپ اس وقت بھی دوسرے سرداران قریش کو بھی اپنے پاس بلا سکتے تھے اور اپنی شرائط پر ان سے معاہدہ کر سکتے تھے۔ مگر آپ نے مکہ کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہیں کی، کیونکہ اس سے امن برقرار نہ رہتا اور اندرونی خانہ جنگی ہو سکتی تھی۔ جب ایک سردار یہ سمجھے کہ اسے اس کے حق سے زبردستی اور سازش سے ہٹایا گیا ہے تو وہ نئے سربراہ کو تسلیم نہ کرتا اور یہ اندرونی دشمنی آئندہ شہر میں بدامنی کا سبب بنتی رہتی۔ آپ نے اپنے عمل سے ایسے خدشہ کا سد باب کیا اور ابو سفیان سے نہایت عزت سے پیش آئے اور اعلان کروایا کہ جو کوئی ابو سفیان کے گھر میں پناہ لے اس کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ یہی حسن سلوک تھا کہ حنین کی جنگ میں جب کہ دشمن کے حملہ میں صرف چند لوگ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہ گئے تو ان میں ایک ابو سفیان بھی تھا جس نے آپ کی سواری کی لگام تھامی ہوئی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے شدید حملہ کے باوجود نہیں ہٹا۔ حضرت مصلح موعود اس روایت کو اس طرح بیان کرتےہیں عباس ؓ نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حیرت سے ابو سفیان کی طرف دیکھتے ہوئے دیکھا تو کہا یا رسول اللہ یہ آپ کے چچا کا بیٹا اور آپ کا بھائی ہے آج آپ اس سے خوش ہو جائیں۔جس پر آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس کی وہ تمام دشمنیاں معاف کرے جو کہ اس نے مجھ سے کی ہیں۔ ابو سفیان کہتے ہیں کہ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف مخاطب ہوئے اور فرمایا اے بھائی! تب میں نے جوش محبت سے آپ کے اس پاؤں کو جو خچر کی رکاب میں تھا چوم لیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عفو، رحم اور حسن سلوک تھا جس سے آپ لوگوں کے دلوں پر راج کرتے تھے۔ بڑے سے بڑا دشمن بھی آپ کے سلوک اور رحم سے آپ کا جانثار بن جاتا۔ غرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بین الاقوامی معاملات میں اپنے عمل سے ایسی مثالیں قائم کیں کہ جن پر اگر آج بھی اقوام عالم عمل کریں تو دنیا میں دیرپا امن قائم ہو سکتا ہے۔
اللھم صلی علی محمد و علی آل محمد و بارک وسلم انک حمید مجید۔