رسول اللہﷺ کا بیان فرمودہ جوامع الکلم کا شاہکارخطبہ
نبی کریم ﷺ کے خطبات نہایت سادہ اور مختصر ہوا کرتے تھے۔ لیکن یہ خطبات فصاحت اور بلاغت میں بھی بےنظیر ہوتے تھے۔ غزوہ حنین کے موقعہ پر دیا جانے والاخطبہ ہو یا خطبہ حجۃ الوداع ہو یہ تمام خطبات نہ صرف جوامع الکلم کا بہترین نمونہ ہیں بلکہ اثر انگیزی میں بھی اعجازی شان رکھتے ہیں کہ پتھر سے پتھر دل بھی یہ خطبات سن کر موم ہو جاتے
نبی کریم ﷺ کی ایک خصوصیت
کتب احادیث اور سیرت النبی ﷺکی کتب میں نبی کریم ﷺ کے فضائل و مناقب کے ابواب میں بہت سی ایسی خصوصیات کا ذکر ملتا جو صرف نبی کریم ﷺ سے ہی خاص ہیں کہ ان میں دوسرا کوئی شریک نہیں۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ فُضِّلْتُ عَلَی الْاَنْبِیَاءِ بِسِتٍ۔ اُعْطِیْتُ بِجَوَامِعِ الْکَلِمِ، وَ نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، وَاُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَائِمُ، وَجُعِلَتْ لِیَ الْاَرْضُ مَسْجِدًاوَّطُہُوْرًا، وَاُرْسِلْتُ اِلَی الْخَلْقِ کَافَّۃً وَ خُتِمَ بِیَ النَّبِیُّوْنَ۔ ( صحیح مسلم کتاب المساجد ومواضع الصلوٰۃ حدیث نمبر1167۔مشکوٰۃ المصابیح، باب فضائل سید المرسلین، حدیث نمبر5501)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ مجھے چھ باتوں میں دوسرے انبیاء پر فضیلت بخشی گئی ہے۔مجھے جوامع الکلم عطا کیے گئے ہیں، رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی ہے، اموال غنیمت میرے لیے حلال کر دیے گئے ہیں، ساری زمین میرے لیے مسجد اور پاکیزہ بنا دی گئی ہے، میں سب لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہو ں اور میرے ساتھ نبیو ں کو ختم کیا گیا ہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ کی دوسری روایت میں: بُعِثْتُ بِجَوَامِعِ الْکَلِمِ کے الفاظ ہیں یعنی مجھے جوامع الکلم کے ساتھ بھیجا گیا ہے۔(صحیح بخاری کتاب الاعتصام بالکتاب باب قول النبی ؐبعثت بجوامع الکلم، کتاب الرؤیا باب المفاتیح فی الید۔ صحیح مسلم کتاب المساجد ومواضع الصلوٰۃ حدیث نمبر1168)
ان ا حادیث مبارکہ میں درج فضیلتو ں میں سے سب سے پہلی فضیلت یہ بیان ہو ئی ہے کہ ’’مجھے جوامع الکلم عطا کیے گئے ہیں۔‘‘ نبی کریم ﷺ تو امی محض یعنی ا ن پڑھ تھے اور لکھنا پڑھنا نہ جانتے تھے۔ آپ ﷺ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خود قرآن مجید میں بصراحت اس بات کو جا بجا بیان فرمایا ہے۔جیسے فرمایا: اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیِّ (الاعراف:158)ترجمہ: وہ لوگ جو اس رسول کی اتباع کرتے ہیں جو نبی ہے اور امی ہے۔ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ (الاعراف:159 )ترجمہ: پس اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ جو نبی بھی ہے اور امی بھی ہے۔ وَمَا کُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِہٖ مِنْ کِتٰبٍ وَّلاَ تَخُطُّہٗ بِیَمِیْنِکَ(العنکبوت: 49)ترجمہ: اور اس قرآن کے نازل ہونے سے پہلے تو کوئی کتاب نہ پڑھتا تھا، نہ لوگو ں کو سناتا تھا اور نہ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتا تھا۔
پس نبی کریم ﷺ کا باوجود امی محض ہونے کے یہ فرمانا کہ مجھے جوامع الکلم عطا کیے گئے ہیں آپ ﷺ کے علمی اعجاز کی نشاندہی کرتا ہے جو اللہ تعا لیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کو عطا کیا گیا تھا۔ یہ اعجاز آپ ﷺ کو دو طرح سے حاصل ہوا تھا۔ یعنی قرآن کریم کی صورت میں اور طرز خطابت کی صورت میں۔ جیسا کہ بعض حدیث کے شارحین نے لکھاہے۔صحیح بخاری کی شرح فتح الباری میں اس حدیث کی شرح میں امام زہریؒ کے حوالے سے لکھا ہے کہ
اَنَّہُ ﷺ کَانَ یَتَکَلَّمُ بِالْقَوْلِ الْمُوْجِزِ، اَلْقَلِیْلِ اللَّفْظِ، اَلْکَثِیْرِ الْمَعَانِیِّ۔ وَجَزَمَ غَیْرَ الزُّہْرِیِّ بِأَنَّ الْمُرَادَ بِجَوَامِعِ الْکَلِمِ :اَلْقُرْآنُ، بِقَرِیْنَۃِ قَوْلِہِ : بُعِثْتُ؛ وَالْقُرْآنُ ھُوَالْغَایَۃُ فِیْ اِیْجَازِاللَّفْظِ وَاتِّسَاعِ الْمَعَانِی۔( فتح الباری شرح صحیح بخاری لامام احمد بن علی بن حجر العسقلانی الجزء الثالث عشر صفحہ261 سن اشاعت2001ء)یعنی نبی کریم ﷺ نہایت مختصر کلام فرمایا کرتے تھے کہ جس میں الفاظ کم اور معنی زیادہ ہو تے تھے۔ اور امام زہری ؒ کے علاوہ بعض کا خیال ہے کہ جوامع الکلم سے مراد قرآن کریم ہے اور اس کی تائید نبی کریم ﷺ کے اس قول سے بھی ہو تی ہے جس میں آپؐ نے فرمایا کہ میں جوامع الکلم کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہو ں۔ اور قرآن کا یہ اعجاز تو بڑا نمایاں ہے کہ اس کے الفاظ تو مختصر ہیں لیکن معنی میں بہت زیادہ وسعت ہے۔
اسی طرح صحیح مسلم کی شرح فتح الملہم میں لکھا ہے کہ’’جَوَامِعِ الْکَلِمِ؛ اَیْ:اَنَّہُ کَانَ یَتَکَلَّمُ بِالْقَوْلِ الْمُوْجِزِ، اَلْقَلِیْلِ اللَّفْظِ، اَلْکَثِیْرِ الْمَعَانِی۔ وَجَزَمَ بَعْضُہُمْ بِأَنَّ الْمُرَادَ بِجَوَامِعِ الْکَلِمِ :اَلْقُرْآنُ، بِقَرِیْنَۃِ قَوْلِہِ فِی الطَّرِیْقِ الْآخَرِ : بُعِثْتُ بِجَوَامِعِ الْکَلِم؛ وَالْقُرْآنُ ھُوَ الغَایَۃُ فِی اِیْجَازِ اللَّفْظِ وَاتِّسَاعِ الْمَعَانِی۔ ‘‘(فتح الملہم شرح صحیح مسلم جز رابع، صفحہ12 حاشیہ نمبر 523 شائع کردہ دار احیاء التراث العربی، بیروت لبنان 2006ء)یعنی جوامع الکلم سے یہ مراد ہے کہ نبی کریم ﷺ نہایت مختصر کلام فرمایا کرتے تھے کہ جس میں الفاظ کم اور معنی زیادہ ہو تے تھے۔ اوربعض کا خیال ہے کہ جوامع الکلم سے مراد قرآن کریم ہے اور اس کی تائید نبی کریم ﷺ کے اس قول سے بھی ہو تی ہے جس میں آپؐ نے فرمایا کہ میں جوامع الکلم کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہوں۔اور قرآن کا یہ اعجاز تو بڑا نمایاں ہے کہ اس کے الفاظ تو مختصر ہیں لیکن معنی میں بہت زیادہ وسعت ہے۔
فقہ حنفی کے مشہور امام، عظیم الشان محدّث، شارح مشکوٰۃ المصابیح اور اہل سنت کے مشہور امام علامہ شیخ القاری علی بن سلطان محمد القاری ؒ المعروف ملا علی قاری ؒ(متوفی1014 ہجری،1606 ء)نے مشکوٰۃ المصابیح کی شرح میں یہ لکھا ہے کہ جوامع الکلم کا مطلب یہ ہے کہ مجھے الفاظ کے اختصار کی قوت دی گئی ہے۔چنانچہ میں بہت کم الفاظ میں کثیر معانی کا اظہار کرتا ہو ں۔
شرح السنہ میں کہا گیا ہے جوامع الکلم سے قرآن کریم مراد ہے۔ اللہ تعا لیٰ نے محض اپنے لطف و کرم سے الفاظ میں بے شمار احکام و معانی کو جمع فرمایا ہے۔( مرقات المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح [اردو ترجمہ] از علامہ شیخ القاری علی بن سلطان محمد القاری ؒ، جلد دہم، صفحہ 669 شائع کردہ مکتبہ رحمانیہ)
مشکوٰۃ المصابیح کی ایک اور معروف شرح ’’مظاہر حق جدید‘‘میں جوامع الکلم کے معنی میں یہ لکھا ہے کہ’’مجھے جامع کلمات عطا ہو ئے‘‘کا مطلب یہ ہے کہ دین کی حکمتیں اور احکام، ہدایات کی باتیں اور مذہبی و دنیاوی امور سے متعلق دوسری چیزوں کو بیان کرنے کا ایسا مخصوص اسلوب مجھے عطا فرمایا گیا ہے جو نہ پہلے کسی نبی اور رسول کو عطا ہوا اور نہ دنیا کے کسی بھی بڑے سے بڑے فصیح و بلیغ کو نصیب ہوا۔اس اسلوب کی خصوصیت یہ ہے کہ تھوڑے سے الفاظ کے ایک چھوٹے سے جملہ میں معانی و مفہوم کا ایک گنجینہ پنہاں ہوتا ہے، پڑھیے اور لکھیے تو چھوٹی سی سطر بھی پوری نہ ہو لیکن اس کا فہم اور وضاحت بیان کیجیے تو کتاب کی کتاب تیار ہو جائے۔چنانچہ آنحضرتﷺ کے اقوال و ارشادات میں اس طرح کے کلمات کی ایک بڑی تعداد ہے جن کو ’’جوامع الکلم ‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے، ان میں سے چند کلمات کو بطور مثال یہاں نقل کیا جاتا ہے :
(1) اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اعمال کا مدار نیتوں پر ہے۔
(2) وَمِنْ حُسْنِ اِسْلاَمِ الْمَرْئِ تَرْکُہُ مَا لاَ یَعْنِیْہِ۔ بے فائدہ بات کو ترک کر دینا آدمی کے اسلام کا حسن ہے۔
(3) اَلدِّیْنُ اَلنَّصِیْحَۃُدین خیر خواہی کا نام ہے۔
(4) اَلْعِدَۃُ دَیْنٍوعدہ بمنزلہ دین(قرض) کے ہے۔
(5) اَلْمُسْتَشَارُ مُؤْتَمَنٌجس سے مشورہ لیا جائے وہ امانتدار ہے۔
….. بعض شارحین نے یہ لکھا ہے کہ’’مجھے جوامع الکلم یعنی جامع کلمات عطا ہوئے ہیں ‘‘ میں جوامع الکلم سے قرآن کریم مراد ہے۔ جس میں اللہ تعا لیٰ کے کلام کا یہ اعجاز نمایاں ہے کہ چھوٹے چھوٹے جملوں میں بڑے بڑے مضمون پنہاں ہیں، لیکن پہلی وضاحت ہی زیادہ مناسب معلوم ہو تی ہے، کیونکہ اسی مضمون کی ایک دوسری روایت میں ’’اِخْتَصَّہُ لِیَ الْکَلَامَ‘‘کے الفاظ بھی نقل کئے گئے ہیں، اس سے اسی قول کی تائید ہو تی ہے کہ یہاں ’’جوامع الکلم ‘‘سے آنحضرت ﷺ کے ارشاد و اقوال مراد ہیں۔‘‘( مظاہر حق جدید شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد 5صفحہ 307-306دارالاشاعت کراچی، مارچ 2002ء)
اللہ تعا لیٰ کی طرف سے اس خصوصیت کے عطا ہونے کی وجہ سے نبی کریم ﷺ کے خطبات نہایت سادہ اور مختصر ہوا کرتے تھے۔ لیکن یہ خطبات فصاحت اور بلاغت میں بھی بےنظیر ہوتے تھے۔ غزوہ حنین کے موقعہ پر دیا جانے والاخطبہ ہو یا خطبہ حجۃ الوداع ہو یہ تمام خطبات نہ صرف جوامع الکلم کا بہترین نمونہ ہیں بلکہ اثر انگیزی میں بھی اعجازی شان رکھتے ہیں کہ پتھر سے پتھر دل بھی یہ خطبات سن کر موم ہو جاتے، آنکھیں بہہ پڑتیں اور دل لرز کر پگھل جاتے تھے۔ صحابہ ؓ کے اس طرح کے بے شمار واقعات کتب حدیث میں جمع کیے گئے ہیں جن کا یہاں دہرانا نفس مضمون کا حصہ نہیں ہے۔
نبی کریم ﷺ کا مبارک خطبہ
رسول اللہ ﷺ نے اپنی حیات مبارکہ کے دوران بے شمار خطبات ارشاد فرمائے جو صحابہ ؓرسول ﷺ نے اپنے سینو ں میں محفوظ کیے اور محدثین عظام نے انہیں کتب احادیث میں محفوظ کرتے ہو ئے امت مسلمہ تک پہنچایا۔انہی خطبات میں سے ایک خطبہ وہ ہے جو نبی کریم ﷺ نے غزوہ تبوک کے موقعہ پرروم کی سرزمین میں ارشاد فرمایا تھا۔ یہ خطبہ جوامع الکلم کا شاہکار ہے اور دنیا اور آخرت کی کامیابی کادستور العمل ہے۔ برکت کی خاطر یہ خطبہ آئندہ سطور میں پیش کیا جا رہا ہے:
حضرت عقبہ بن عامر الجہنی ؓ بیان فرماتے تھے کہ ہم لوگ غزوہ تبوک کے لیے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے۔رسول اللہ ﷺ نے آرام فرمایا۔ جب رات ہو ئی تو آپﷺ بیدار نہ ہو ئے یہاں تک کہ سورج نیزے برابر اونچا ہو گیا۔ جب بیدار ہو ئے تو فرمایا: اے بلال میں نے نہیں کہا تھا کہ ہمارے لیے فجر کا خیال رکھنا؟ بلال نے کہا یا رسول اللہ ﷺ مجھے بھی نیند نے گھیر لیا تھا اور مجھے بھی وہی ذات لے گئی جو آپؐ کو لے گئی تھی۔ پھر رسول اللہ ﷺ اس منزل سے منتقل ہو گئے۔ تھوڑا سا دور جا کر نماز پڑھی پھر بقیہ دن بھی اور اگلی رات بھی چلتے رہے پھر تبوک میں جاکر صبح کی۔پھر آپؐ نے خطبہ ارشاد فرمایا، آپؐ نے اللہ تعا لیٰ کی حمد اور اس کی ثنا کی جس کا وہ اہل ہے اور اس کے بعد فرمایا: اے لوگو! اما بعد! فَاِنَّ اَصْدَقَ الْحَدِیْثِ کِتَابُ اللّٰہِ۔وَاَوْثَقَ الْعَرٰی کَلِمَۃُ التَّقْوٰی۔ وَخَیْرَ الْمِلَلِ مِلَّۃُ اِبْرَاہِیْمَ۔ وَخَیْرَالسُّنَنِ سُنَّۃُ مُحَمَّدٍ۔ وَاَشْرَفَ الْحَدِیْثِ ذِکْرُ اللّٰہِ۔ وَاَحْسَنَ الْقَصَصِ ھَذَاالْقُرْآنُ۔وَخَیْرَ الْاُمُوْرِ عَوَازِمُہَا۔ وَشَرَّالْاُمُوْرِ مُحْدَثَاتُھَا۔ وَاَحْسَنَ الْہُدٰی ہُدَی الْأَنْبِیَاءِِ۔ وَاَشْرَفَ الْمَوْتِ قَتْلُ الشُّہْدَاءِِ۔ وَاَعْمَی الْعَمٰی اَلضَّلاَلَۃُ بَعْدَ الْہُدٰی۔ وَخَیْرَ الْاَعْمَالِ مَا نَفَعَ۔ وَخَیْرَالْہُدٰی مَااتُّبِعَ۔ وَشَرَّ الْعَمٰی عَمَی الْقَلْبِ۔وَالْیَدَ الْعُلْیَا خَیْرٌ مِّنَ الْیَدِ السُّفْلٰی۔وَمَا قَلَّ وَکَفٰی خَیْرٌ مِّمَّا کَثُرَ وَاَلْہٰی۔وَشَرَّ الْمَعْذِرَۃِ حِیْنَ یَحْضُرُ الْمَوْتُ۔وَشَرَّالنَّدَامَۃِ یَوْمُ الْقِیَامَۃِ۔ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ لَّا یَاْتِی الْجُمُعَۃَ اِلَّا دُبُرًا۔ وَمِنْہُمْ لَا یَذْکُرُ اللّٰہَ اِلَّا ھِجْرًا۔ وَمِنْ اَعْظَمِ الْخَطَایَااَللِّسَانُ الْکَذَّابِ۔وَخَیْرَ الْغِنٰی غِنَی النَّفْسِ۔ وَخَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰی۔ وَرَأْسَ الْحِکْمَۃِ مَخَافَۃُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ۔وَخَیْرَ مَا وَقَرَ فِیْ الْقُلُوْبِ الْیَقِیْنُ۔وَالْاِرْتِیَابَ مِنَ الْکُفْرِ وَالنِّیَاحَۃَ مِنْ عَمَلِ الْجَاہِلِیَّۃِ۔وَالْغَلُوْلَ مِنْ حَثَاءِِ جَہَنَّمَ۔ وَالسُّکْرَ کَیٌّ مِّنَ النَّارِ۔ وَالشِّعْرَ مِنْ اِبْلِیْسِ۔ وَالْخَمَرَ جِمَاعُ الْاِثْمِ۔ وَالنِّسَاءَ حَبَائِلُ الشَّیْطَانِ۔وَالشَّبَابَ شُعْبَۃٌ مِّنَ الْجُنُوْنِ۔ وَشَرَّ الْمَکَاسِبِ کَسْبُ الرِّبَا۔ وَشَرَّ الْمَاَکِلِ مَالُ الْیَتِیْمِ۔ وَالسَّعِیْدَمَنْ وُّعِظَ بِغَیْرِہٖ۔ وَالشَّقِیَّ مَنْ شَقَی فِیْ بَطْنِ اُمِّہٖ۔ وَاِنَّمَا یَصِیْرُاَحَدُکُمْ اِلَی مَوْضَعِ اَرْبَعَِ اَذْرَعٍ۔ وَالْاَمْرَاِلَی الْاٰخِرَۃِ وَمَلَاکَ الْعَمَلِ خَوَاتِمُہٗ۔ وَشَرَّالرَّوَایَارَوَایَاالْکَذِبِ۔وَکُلَّ مَا ہُوَاٰتٍ قَرِیْبٌ۔وَسِبَابَ الْمُوْمِنِ فِسْقٌ۔وَقِتَالَ الْمُوْمِنِ کُفْرٌ۔وَاَکْلَ لَحْمِہِ مِنْ مَّعْصِیَۃِ اللّٰہِ۔وَحُرْمَۃَ مَالِہِ کَحُرْمَۃِ دَمِہِ۔ وَمَنْ یَتَالٰی عَلَی اللّٰہِ یَکْذِبُہٗ۔ وَمَنْ یَغْفِرْ یُغْفَرلَہٗ۔ وَمَنْ یَعْفُ یَعْفُ اللّٰہُ عَنْہُ۔ وَمَنْ یَّکْظِمُ الْغَیْظَ یَاْجُرُہُ اللّٰہُ۔ وَمَنْ یَصْبِرْ عَلَی الرَّزِیَّۃِیُعَوِّضُہُ اللّٰہُ۔ وَمَنْ یَّتَّبِعَ السَّمْعَۃَ یَسْمَعُ اللّٰہُ بِہِ۔ وَمَنْ یَّصْبِرْ یُضٰعِفُ اللّٰہُ لَہٗ۔ وَمَنْ یَعْصِ اللّٰہَ یُعَذِّبُہُ اللّٰہُ۔ اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِیْ وَلِاُمَّتِیْ، اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِیْ وَلِاُمَّتِیْ، قَالَہَا ثَلاَثاًثُمَّ قَالَ:اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ لِیْ وَلَکُمْ۔( دلائل النبوۃ(اردو ) از امام ابو بکر احمد بن حسین البیہقی ؒ، جلد دوم حصہ پنجم صفحہ: 658-657 شائع کردہ دارالاشاعت کراچی 2009ء) بے شک سب سے زیادہ سچی بات اللہ کی کتاب ہے۔اور سب سے مضبوط کڑا کلمہ تقویٰ ہے(یعنی لا الہ الا اللّٰہ)۔ سب سے بہترین ملت، ابراہیم ؑکی ملت ہے۔ اور تمام طریقوں میں بہترین طریقہ محمد ؐکی سنت ہے۔ سب سے زیادہ شرف و عزت والی بات اللہ کا ذکر ہے۔ اور سب سے خوبصورت بیان و قصہ یہ قرآن ہے۔ تمام امور میں سے بہترین امور ہمت اور سعی پیہم ہیں۔ اور سب سے بد ترین بدعات ہیں۔ اور سب سے بہترین ہدایت انبیاء کی ہدایت ہے۔ اور سب سے زیادہ شرف و عزت والی موت شہداء کی موت ہے۔ اور سب سے بڑا اندھا پن ہدایت کے بعد گمراہی ہے۔ تمام اعمال میں سے بہترین عمل وہ ہے جو نفع مند ہو۔ اور بہترین ہدایت وہ ہے جس کی پیروی کیا جائے۔اور بد ترین اندھا پن دل کا اندھا پن ہوتا ہے۔ اوپر والا (دینے والا)ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے۔ وہ مال جو قلیل ہو مگر ضرورت پوری کرے وہ اس کثیر مال سے بہتر ہے جو غافل کر دے۔ بد ترین معذرت وہ ہو گی جب موت آن پہنچے گی۔ بد ترین شرمندگی اور ندامت قیامت کے دن ہو گی۔ بعض لوگ وہ ہیں جو جمعہ میں سب سے پیچھے(آخرمیں)آتے ہیں۔ بعض ان میں سے ایسے ہیں جو اللہ کا ذکر نہیں کرتے مگر بیہودہ بات کرتے ہیں۔بہت بڑے گناہو ں میں سے ایک(بہت زیادہ جھوٹ بولنے والی) جھوٹی زبان ہے۔بہترین غنی ہونا دل کا غنی ہونا ہے۔بہترین توشہ سفرِ آخرت تقویٰ ہے۔ تما م دانائیوں کی سردار حکمت و دانائی اللہ عز و جل سے ڈرنا ہے۔ سب سے بہترین چیز جو دل میں قرار پاتی ہے وہ یقین ہے۔ اور شک کرنا کفر میں سے ہے۔ اور نوحہ اور بین کرنا جاہلیت کا کام ہے۔ مال غنیمت کی چوری جہنم کا کوڑا کرکٹ ہے۔ اور نشہ جہنم سے داغ دینا ہے۔اور شعر گوئی ابلیس کی چالوں میں سے ہے۔ اور شراب نوشی کئی گناہو ں کا مجموعہ ہے۔ اور عورتیں شیطانی جال ہیں۔ اور جوانی جنون کا ایک شعبہ ہے۔ بد ترین کمائی سود کی کمائی ہے۔ بد ترین کھائی جانے والی چیز یتیم کا مال ہے۔ نیک بخت وہ ہے جو دوسروں سے نصیحت پکڑے۔ اور بد بخت وہ ہے جو اپنی ماں کے پیٹ میں ہی بد بخت تھا۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ تم میں سے ہر ایک چار ہاتھ جگہ (قبر)کی طرف لوٹ جائے گا۔ اور یہ امر انجام کے لحاظ سے آخرت کی طرف لوٹتا ہے۔ اور عمل کا انجام اس کے اختتام سے وابستہ ہوتا ہے۔ بد ترین نظریات جھوٹ پر مبنی نظریات ہو تے ہیں۔ ہر وہ چیز جو آنے والی ہے وہ قریب ہے۔ مومن کو گالی دینا فسق اور اللہ کی نافرمانی ہے۔ اور مومن سے قتال کرنا کفر ہے۔ اور اس کی غیبت کرنا اللہ کی نافرمانی ہے۔ مومن کے مال کی عزت و حرمت اس کے خون کی حرمت جیسی ہے۔ جو شخص اللہ تعا لیٰ کو قسم دیتا ہے وہ اس کی تکذیب کرتا ہے۔ جو شخص معاف کرتا ہے اس کو بھی معاف کیا جاتا ہے۔ جو شخص درگزر کرتا ہے، اللہ اس سے درگزر کرتا ہے۔ اور جو شخص اپنے غصہ کو دبا لیتا ہے اللہ اس کو اجر دیتا ہے۔ جو شخص مصیبت پر صبر کرتا ہے اللہ تعا لیٰ اس کو اس کا بدلہ اور عوض عطا کرتا ہے۔ جو شخص ریا کاری اور شہرت پسندی کے پیچھے جاتا ہے اللہ تعا لیٰ اس کے ساتھ شہرت لگا دیتا ہے۔ اور جو شخص صبر کرتا ہے اللہ تعا لیٰ اسے دہرا اجر دیتا ہے۔ اور جو شخص اللہ کی نافرمانی کرتا ہے اللہ اس کو عذاب دے گا۔ اے اللہ ! مجھے اور میری امت کو معاف کر دے۔ اے اللہ ! مجھے اور میری امت کو معاف کر دے۔یہ بات آپ ﷺ نے تین بار فرمائی اور پھر فرمایاکہ: میں اللہ سے بخشش طلب کرتا ہو ں اپنے لیے بھی اور تم سب کے لیے بھی۔( دلائل النبوۃ(اردو ) از امام ابو بکر احمد بن حسین البیہقی ؒ، جلد دوم حصہ پنجم صفحہ658-657 شائع کردہ دارالاشاعت کراچی 2009ء)
نبی کریم ﷺ کے اس مذکورہ بالامبارک خطبہ میں کم و بیش اٹھاون(58) جملے ہیں اور ہر جملہ اپنی جگہ مکمل اور جامع ہے جس میں بے شمار مضامین پنہاں ہیں۔اور بلا شبہ نبی کریمﷺ کا یہ خطبہ ’’جوامع الکلم ‘‘کا ایک شاہکار خطبہ ہے۔
وَ آخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ، وَ صَلّی اللّٰہ تَعَا لیٰ عَلیٰ حَبِیْبِہِ الْکَرِیْمِ وَ عَلیٰ آلِہٖ وَ اَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْن
٭…٭…٭