خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 23؍ستمبر2022ء
’’ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صحابہ ؓکو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے تم کو بہت حکم دئیے مگر میں نے تم سے مخلص ترین لوگوں کے اندر بھی بعض دفعہ احتجاج کی روح دیکھی مگر ابوبکرؓکے اندر میں نے یہ روح کبھی نہیں دیکھی۔‘‘
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےمناقبِ عالیہ کا ایمان افروز بیان
مکرم سمیع اللہ سیال صاحب وکیل الزراعت تحریکِ جدید انجمن احمدیہ ربوہ اور مکرمہ صدیقہ بیگم صاحبہ کی وفات پر ان کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 23؍ستمبر2022ءبمطابق 23؍تبوک 1401 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ (سرے)، یو کے
(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب
بیان ہو رہے تھے۔ آج بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ آیت اَلَّذِيْنَ اسْتَجَابُوْا لِلّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ مِنْ بَعْدِ مَا اَصَابَهُمُ الْقَرْحُ لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوْا مِنْهُمْ وَاتَّقَوْا اَجْرٌ عَظِيْمٌ (آل عمران:173) کہ وہ لوگ جنہوں نے اللہ اور رسول کو لبیک کہا بعد اس کے کہ انہیں زخم پہنچ چکے تھے ان میں سے ان لوگوں کے لیے جنہوں نے احسان کیا اور تقویٰ اختیار کیا بہت بڑا اجر ہے۔ اس کے بارے میں انہوں نے عروہ سے فرمایا کہ اے میری بہن کے بیٹے! تیرے والد حضرت زبیرؓ اور حضرت ابوبکرؓ ان میں سے تھے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو احد کے دن جو تکلیف پہنچی وہ پہنچی اور مشرکین چلے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اندیشہ ہوا کہ واپس آئیں گے۔ آپؐ نے فرمایا ان کے پیچھے کون جائے گا تو اُن میں سے ستّر آدمیوں نے اپنے آپ کو پیش کیا۔ عروہ کہتے تھے ان میں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت زبیرؓ بھی تھے۔
(صحیح البخاری کتاب المغازی باب الذین استجابوا للّٰہ والرسول، روایت نمبر 4077)
ابوسفیان جب جنگِ احد کے خاتمے کے وقت درے میں تھا اور اس نے کہا آئندہ سال انہی ایام میں بدر کے مقام پر پھر جنگ کا وعدہ رہا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول فرمایا تو ابوسفیان جلدی سے اپنے لشکر کو لے کر مکہ کی طرف روانہ ہو گیا۔ اس سے آگے کے واقعات حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یوں بیان کیے ہیں کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید احتیاط کے خیال سے فوراًستر صحابہؓ کی ایک جماعت جس میں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت زبیرؓ بھی شامل تھے تیار کرکے لشکرِ قریش کے پیچھے روانہ کردی۔ یہ بخاری کی روایت ہے۔ عام مؤرخین یوں بیان کرتے ہیں کہ آپؐ نے حضرت علیؓ یابعض روایات کی رُو سے حضرت سعد بن وقاصؓ کو قریش کے پیچھے بھجوایا اوران سے فرمایا کہ اس بات کاپتہ لاؤ کہ لشکر قریش مدینہ پر حملہ کرنے کی نیت تو نہیں رکھتا اور آپؐ نے ان سے فرمایا اگر قریش اونٹوں پر سوار ہوں اورگھوڑوں کو خالی چلا رہے ہوں تو سمجھناکہ وہ مکہ کی طرف واپس جا رہے ہیں، مدینہ پرحملہ آور ہونے کا ارادہ نہیں رکھتے اور اگر وہ گھوڑوں پر سوار ہوں تو سمجھنا ان کی نیت بخیر نہیں۔ اور آپؐ نے ان کوتاکید فرمائی کہ اگر قریش کالشکر مدینہ کا رخ کرے تو فوراً آپؐ کو اطلاع دی جاوے اور آپؐ نے بڑے جوش کی حالت میں فرمایا کہ اگر قریش نے اس وقت مدینہ پر حملہ کیا تو خدا کی قسم! ہم ان کا مقابلہ کر کے انہیں اس حملہ کا مزا چکھا دیں گے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجے ہوئے آدمی آپؐ کے ارشاد کے ماتحت گئے اوربہت جلد یہ خبر لے کر واپس آ گئے کہ قریش کا لشکر مکہ کی طرف جا رہا ہے۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ 499-500)
حضرت انس بن مالکؓ نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت عمرؓ سے کہا کہ ہمارے ساتھ ام ایمن کی طرف چلیں۔ ہم ان کی زیارت کریںجس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ملنے کے لیے تشریف لے جاتے تھے۔ انہوں نے یعنی حضرت انسؓ نے کہا کہ جب ہم ان کے پاس پہنچے تو وہ رونے لگیں۔ ان دونوں نے کہا کہ آپؓ کیوں روتی ہیں؟ جو بھی اللہ کے پاس ہے وہ اس کے رسولؐ کے لیے بہتر ہے۔وہ کہنے لگیں کہ مجھے معلوم ہے کہ جو بھی اللہ کے پاس ہے وہ اس کے رسولؐ کے لیے بہتر ہے لیکن میں اس لیے روتی ہوں کہ اب وحی آسمان سے منقطع ہو گئی ہے۔ حضرت انس ؓکہتے ہیں کہ اُمّ ایمن نے ان دونوں کو بھی رُلا دیا۔ وہ دونوں بھی ان کے ساتھ رونے لگے۔
(سنن ابن ماجہ، کتاب الجنائز حدیث نمبر 1635)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے لوگو! اللہ نے مجھے تمہاری طرف مبعوث کیا اور تم نے کہا تُو جھوٹا ہے اور ابوبکر نے کہا سچا ہے اور انہوں نے اپنی جان و مال سے میرے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔
(صحیح البخاری کتاب فضائل اصحاب النبیؐ باب قول النبیؐ لو کنت متخذا خلیلا حدیث 3661)
حضرت مصلح موعودؓ اس بات کے بارے میں فرماتے ہیں کہ صرف ’’حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی ایسے تھے جن کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں کہ
تم میں سے ہر ایک نے میرا انکار کیا مگر ابوبکرایسا تھا جس میں مَیں نے کوئی کجی نہیں دیکھی۔‘‘
(خطبات محمودجلد 26 صفحہ 277-278)
صلح حدیبیہ کے موقع پر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قریش مکہ کے درمیان صلح کا معاہدہ ہو رہا تھا اور ابوجندل کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدے کی شرائط کے مطابق واپس کر دیا تو اس وقت صحابہؓ بہت جوش میں تھے۔ اس کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھاہے کہ ’’مسلمان یہ نظارہ دیکھ رہے تھے اورمذہبی غیرت سے ان کی آنکھوں میں خون اتر رہا تھا مگررسول اللہؐ کے سامنے سہم کر خاموش تھے۔ آخر حضرت عمرؓسے نہ رہا گیا۔ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آئے اور کانپتی ہوئی آواز میں فرمایا کیا آپؐ خدا کے برحق رسول نہیں؟ آپؐ نے فرمایا ہاں ہاں ضرور ہوں۔ عمرؓنے کہا کہ کیا ہم حق پر نہیں اور ہمارا دشمن باطل پر نہیں؟ آپؐ نے فرمایا ہاں ہاں ضرورایسا ہی ہے۔ عمرؓنے کہا تو پھر ہم اپنے سچے دین کے معاملہ میں یہ ذلت کیوں برداشت کریں؟ آپؐ نے حضرت عمرؓکی حالت کودیکھ کر مختصر الفاظ میں فرمایا۔ دیکھو عمر! میں خدا کا رسول ہوں اورمیں خدا کے منشا کو جانتا ہوں اوراس کے خلاف نہیں چل سکتا اور وہی میرا مددگار ہے۔ مگر حضرت عمرؓکی طبیعت کا تلاطم لحظہ بہ لحظہ بڑھ رہا تھا۔ کہنے لگے کیا آپؐ نے ہم سے یہ نہیں فرمایا تھا کہ ہم بیت اللہ کاطواف کریں گے؟ آپؐ نے فرمایاہاں میں نے ضرور کہا تھا مگر کیا میں نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ طواف ضرور اسی سال ہو گا؟ عمرؓنے کہا کہ نہیں ایسا تو نہیں کہا۔ آپؐ نے فرمایا تو پھر انتظار کرو تم ان شا اللہ ضرور مکہ میں داخل ہو گے اور کعبہ کاطواف کرو گے۔ مگر اس جوش کے عالم میں حضرت عمرؓکی تسلی نہ ہوئی لیکن چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاص رعب تھا اس لئے حضرت عمرؓوہاں سے ہٹ کر حضرت ابوبکرؓکے پاس آئے اوران کے ساتھ بھی اسی قسم کی جوش کی باتیں کیں۔ حضرت ابوبکرؓنے بھی اسی قسم کے جواب دیئے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دئیے تھے مگر ساتھ ہی
حضرت ابوبکرؓنے نصیحت کے رنگ میں فرمایا دیکھو عمر! سنبھل کر رہو اور رسولِ خدا کی رکاب پر جو ہاتھ تم نے رکھا ہے اسے ڈھیلا نہ ہونے دو کیونکہ خدا کی قسم! یہ شخص جس کے ہاتھ میں ہم نے اپنا ہاتھ دیا ہے بہرحال سچا ہے۔
حضرت عمرؓکہتے ہیں کہ اس وقت میں اپنے جوش میں یہ ساری باتیں کہہ توگیا مگر بعد میں مجھے سخت ندامت ہوئی اورمیں توبہ کے رنگ میں اس کمزوری کے اثر کودھونے کے لئے بہت سے نفلی اعمال بجا لایا یعنی صدقے کئے، روزے رکھے، نفلی نمازیں پڑھیں اورغلام آزاد کئے تاکہ میری اس کمزوری کا داغ دھل جائے۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ 767-768)
اس واقعہ کا تذکرہ حضرت مصلح موعودؓ نے بھی بیان فرمایا ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صحابہ ؓکو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے تم کو بہت حکم دئیے مگر
میں نے تم سے مخلص ترین لوگوں کے اندر بھی بعض دفعہ احتجاج کی روح دیکھی مگر ابوبکرؓکے اندر میں نے یہ روح کبھی نہیں دیکھی۔
چنانچہ صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسا انسان بھی گھبرا گیا اور وہ اسی گھبراہٹ کی حالت میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں گئے اور کہا کہ کیا ہمارے ساتھ خدا کا یہ وعدہ نہیں تھا کہ ہم عمرہ کریں گے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں خدا کا وعدہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ کیا خدا کا ہمارے ساتھ یہ وعدہ نہیں تھا کہ وہ ہماری تائید اور نصرت کرے گا؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ ہاں تھا۔ انہوں نے کہا تو پھر کیا ہم نے عمرہ کیا؟
حضرت ابوبکرؓنے کہا عمر! خدا نے کب کہا تھا کہ ہم اسی سال عمرہ کریں گے؟ پھر انہوں نے کہا کہ کیا ہم کو فتح و نصرت حاصل ہوئی؟ حضرت ابوبکرؓنے کہا کہ خدا اور اس کا رسول فتح و نصرت کے معنے ہم سے بہتر جانتے ہیں
مگر عمرؓکی اس جواب سے تسلی نہ ہوئی اور وہ اسی گھبراہٹ کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! کیا خدا کا ہم سے یہ وعدہ نہ تھا کہ ہم مکہ میں طواف کرتے ہوئے داخل ہوں گے؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ انہوں نے عرض کیا کہ کیا ہم خدا کی جماعت نہیں اور کیا خدا کا ہمارے ساتھ فتح و نصرت کا وعدہ نہیں تھا؟ آپؐ نے فرمایا ہاں تھا۔ حضرت عمرؓنے کہا تو یا رسول اللہؐ! کیا ہم نے عمرہ کیا۔ آپ نے فرمایا کہ خدا نے کب کہا تھا کہ ہم اسی سال عمرہ کریں گے۔ یہ تو میرا خیال تھا کہ اس سال عمرہ ہو گا۔ خدا نے تو کوئی تعیین نہیں کی تھی۔ انہوں نے کہا تو پھر فتح و نصرت کے وعدہ کے کیا معنی ہوئے؟ آپؐ نے فرمایا نصرت خدا کی ضرور آئے گی اور جو وعدہ اس نے کیا ہے وہ بہرحال پورا ہو گا۔ گویا جو جواب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیا تھا وہی جواب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دیا۔‘‘
(خطبات محمود جلد 20صفحہ382)
دونوں روایتوں میں صرف فرق یہ ہے کہ ایک یہ بھی روایت ہے کہ حضرت عمرؓ پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے پھر حضرت ابوبکرؓ کے پاس گئے اور حضرت مصلح موعودؓ نے جو بیان فرمایا ہے بات وہی ہے لیکن یہ ہے کہ پہلے حضرت ابوبکرؓ کے پاس گئے پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ دو آدمیوں نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہا۔ ایک آدمی مسلمانوں میں سے تھا اور ایک آدمی یہود میں سے تھا۔ مسلمان نے کہا اس کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں پر فضیلت دی تو یہودی نے کہا اس کی قسم جس نے موسیٰ کو تمام جہانوں پر فضیلت دی۔ اس پر مسلمان نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور یہودی کے منہ پر تھپڑ مارا۔ وہ یہودی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور آپؐ کو بتایا جو اس کے اور مسلمان کے درمیان معاملہ ہوا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسلمان کو بلایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اس کے متعلق دریافت کیا۔ اس نے آپ کو بتایا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا موسیٰ پر مجھے فضیلت نہ دو۔(صحیح البخاری کتاب الخصومات باب ما یذکر فی الاشخاص والخصومۃ بین المسلم والیہود،حدیث نمبر 2411)اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ جس مسلمان نے یہودی کو تھپڑ مارا تھا وہ حضرت ابوبکرؓ تھے۔(عمدۃ القاری جزء 12 صفحہ351 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء) یہ بخاری کی روایت ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ نے اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے اس طرح فرمایا ہے کہ ’’آپؐ غیر مذاہب والوں کے احساسات کا بھی بے حد خیال رکھتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت ابوبکرؓ کے سامنے کسی یہودی نے کہہ دیا کہ مجھے موسیٰؑ کی قسم جسے خدا نے سب نبیوں پر فضیلت دی ہے۔ اس پر حضرت ابوبکرؓنے اسے تھپڑمار دیا۔ جب اس واقعہ کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی تو آپؐ نے حضرت ابوبکرؓجیسے انسان کو زجر کی۔‘‘ ڈانٹا۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’غور کرو مسلمانوں کی حکومت ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر حضرت موسیٰؑ کو ایک یہودی فضیلت دیتا ہے اور ایسی طرز سے کلام کرتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓجیسے نرم دل انسان کو بھی غصہ آ جاتا ہے اور آپ اسے طمانچہ مار بیٹھتے ہیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ڈانٹتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ تم نے ایسا کیوں کیا۔ اسے حق ہے کہ جو چاہے عقیدہ رکھے۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد 6 صفحہ 531) اگر یہ اس کا عقیدہ ہے تو وہ بول سکتا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت ابوبکرؓ کے عشق و محبت کا ذکر
کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تعلق بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشقیہ تھا۔ جب آپ مدینہ میں داخل ہونے کے لئے مکہ سے نکلے تو اس وقت بھی آپ کا تعلق عاشقانہ تھا اور جب آپ کی وفات کا وقت آیا تو اس وقت بھی تعلق عاشقانہ تھا۔ چنانچہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَالْفَتْحُ۔وَرَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا۔ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًاکی وحی قرآنی نازل ہوئی جس میں مخفی طور پر آپؐ کی وفات کی خبر تھی تو آپؐ نے خطبہ پڑھا اور اس میں اس سورت کے نزول کا ذکر فرمایا اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندہ کو اپنی رفاقت اور دنیوی ترقیات میں سے ایک کے انتخاب کی اجازت دی اور اس نے اللہ تعالیٰ رفاقت کو ترجیح دی۔ اس سورت کو سن کر سب صحابہؓ کے چہرے خوشی سے تمتما اٹھے اور سب اللہ تعالیٰ کی تکبیر کرنے لگے اور کہنے لگے کہ الحمد للہ! اب یہ دن آ رہا ہے مگر جس وقت باقی سب لوگ خوش تھے،حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی چیخیں نکل گئیں اور آپؓ بے تاب ہو کر رو پڑے اور آپؓ نے کہا یا رسول اللہؐ! آپ پر ہمارے ماں باپ اور بیوی بچے سب قربان ہوں۔ آپؐ کے لئے ہم ہر چیز قربان کرنے کے لئے تیار ہیں۔
گویا جس طرح کسی عزیز کے بیمار ہونے پر بکرا ذبح کیا جاتا ہے اسی طرح حضرت ابوبکرؓ نے اپنی اور اپنے سب عزیزوں کی قربانی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پیش کی۔
آپؓ کے رونے کو دیکھ کر اور اس بات کو سن کر بعض صحابہؓ نے کہا دیکھو! اس بڈھے کو کیا ہو گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی بندہ کو اختیار دیا ہے کہ خواہ وہ رفاقت کو پسند کرے یا دنیوی ترقی کو۔ اور اس نے رفاقت کو پسند کیا۔ یہ کیوں رو رہا ہے؟ اس جگہ جو اسلام کی فتوحات کا وعدہ پیش کیا جا رہا ہے، حتّٰی کہ حضرت عمرؓجیسے جلیل القدر صحابی نے بھی اس کا اظہار حیرت کیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے اس استعجاب کو محسوس کیا اور حضرت ابوبکرؓکی بیتابی کو دیکھا اورآپ کی تسلی کے لئے فرمایا کہ ابوبکرؓمجھے اتنے محبوب ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ کے سوا کسی کو خلیل بنانا جائز ہوتا تو میں ان کو خلیل بناتا‘‘ پھر آگے فرمایا ’’مگر اب بھی یہ میرے دوست اور صحابی ہیں۔ پھر فرمایا کہ میں حکم دیتا ہوں کہ آج سے سب لوگوں کے گھروں کی کھڑکیاں جو مسجد میں کھلتی ہیں بند کر دی جائیں سوائے ابوبکر کی کھڑکی کے اور اس طرح آپ کے عشق کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے داد دی کیونکہ یہ عشق کامل تھا جس نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بتا دیا کہ اس فتح و نصرت کی خبر کے پیچھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر ہے اور آپؓ نے اپنی اور اپنے سب عزیزوں کی جان کا فدیہ پیش کیا کہ ہم مر جائیں مگر آپؐ زندہ رہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر بھی حضرت ابوبکرؓنے اعلیٰ نمونہ عشق کا دکھایا۔ غرض حضرت ابوبکرؓنے غارِ ثور میں اپنی جان کے لئے گھبراہٹ کا اظہار نہیں کیا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کیااور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو خاص طور پر تسلی دی۔‘‘ (خطبات محمود جلد 16صفحہ814-815 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 18 اکتوبر 1935ء)ہر مقام پر جہاں بھی اظہار کیا وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کی وجہ سے کیا۔
حضرت مصلح موعودؓ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمرؓاور حضرت ابوبکرؓکی کسی بات پر تکرار ہو گئی۔ یہ تکرار بڑھ گئی۔ حضرت عمرؓکی طبیعت تیز تھی۔ اس لئے حضرت ابوبکرؓنے مناسب سمجھا کہ وہ اس جگہ سے چلے جائیں تاکہ جھگڑا خواہ مخواہ زیادہ نہ ہو جائے۔ حضرت ابوبکرؓنے جانے کی کوشش کی تو حضرت عمرؓ نے آگے بڑھ کر حضرت ابوبکرؓکا کرتہ پکڑ لیا کہ میری بات کا جواب دے کر جاؤ۔ جب حضرت ابوبکرؓ اس کو چھڑا کر جانے لگے تو آپ کا کرتہ پھٹ گیا۔ آپ وہاں سے اپنے گھر کو چلے آئے لیکن حضرت عمرؓ کو شبہ پیدا ہوا کہ حضرت ابوبکرؓرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس میری شکایت کرنے گئے ہیں۔ وہ بھی پیچھے پیچھے چل پڑے تا کہ میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنا عذر پیش کر سکوں لیکن راستے میں حضرت ابوبکرؓ حضرت عمرؓکی نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ حضرت عمرؓیہی سمجھے کہ آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں شکایت کرنے گئے ہیں۔ وہ بھی سیدھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جا پہنچے۔ وہاں جا کر دیکھا تو حضرت ابوبکرؓ موجود نہ تھے لیکن چونکہ ان کے دل میں ندامت پیدا ہو چکی تھی اس لئے عرض کیا یارسول اللہؐ! مجھ سے غلطی ہوئی کہ میں ابوبکرؓسے سختی سے پیش آیا ہوں۔ حضرت ابوبکرؓکا کوئی قصور نہیں میرا ہی قصور ہے۔ جب حضرت عمرؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت ابوبکرؓکو جا کر کسی نے بتایا کہ حضرت عمر ؓرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ کی شکایت کرنے گئے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓکے دل میں خیال پیدا ہوا کہ مجھے بھی اپنی براءت کے لئے جانا چاہئے تا کہ یک طرفہ بات نہ ہو جائے اور میں بھی اپنا نکتہ نظر پیش کر سکوں۔ جب حضرت ابوبکرؓرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں پہنچے تو حضرت عمرؓعرض کر رہے تھے کہ یا رسول اللہؓ! مجھ سے غلطی ہوئی کہ میں نے ابوبکرؓسے تکرار کی اور ان کا کرتہ مجھ سے پھٹ گیا۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات سنی تو غصہ کے آثار آپؐ کے چہرہ پر ظاہر ہوئے۔ آپؐ نے فرمایا
اے لوگو! تمہیں کیا ہو گیا ہے جب ساری دنیا میرا انکار کرتی تھی اور تم لوگ بھی میرے مخالف تھے اس وقت ابوبکرؓ ہی تھا جو مجھ پر ایمان لایا اور ہر رنگ میں اس نے میری مدد کی۔
پھر افسردگی کے ساتھ فرمایا کیا اب بھی تم مجھے اور ابوبکرؓکو نہیں چھوڑتے؟ آپؐ یہ فرما رہے تھے کہ حضرت ابوبکرؓداخل ہوئے۔‘‘
اس کی اگلی تفصیل حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ جب داخل ہوئے تو انہوں نے کیا رویہ اختیار کیا اس کی تمہید حضرت مصلح موعود ؓ باندھ رہے ہیں کہ ’’یہ ہوتا ہے سچے عشق کا نمونہ کہ بجائے یہ کہ عذر کرنے کے کہ یا رسول اللہؐ! میرا قصور نہ تھا عمرکا قصور تھاآپؓ نے جب دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں خفگی پید اہو رہی ہے آپؓ سچے عاشق کی حیثیت سے یہ برداشت نہ کر سکے کہ میری وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہو۔ آتے ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور عرض کیا یا رسول اللہؐ! عمرؓکا قصور نہیں تھا میرا قصور تھا۔ دیکھو حضرت ابوبکرؓکس قدر سچے عاشق تھے کہ آپؓ یہ برداشت نہ کر سکے کہ آپؓ کے معشوق کے دل کو تکلیف ہو۔ آپ یہ دیکھ کر کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمرؓپر ناراض ہوئے ہیں۔‘‘ حضرت ابوبکرؓ اس پر ’’خوش نہیں ہوئے۔ عام طور پر لوگوں میں یہ عادت ہوتی ہے کہ جب وہ اپنے مد مقابل کو جھاڑ پڑتی دیکھتےہیں‘‘ ڈانٹ پڑتی دیکھے ’’تو خوش ہوتے ہیں کہ خوب جھاڑ پڑی لیکن اس سچے عاشق نے یہ پسند نہ کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو تکلیف ہو خواہ کسی وجہ سے ہو۔ آپؓ نے کہا میں مجرم بن جاتا ہوں لیکن میں اپنے معشوق کا دل رنجیدہ نہیں ہونے دوں گا اور نہایت لجاجت سے عرض کیا یا رسول اللہؐ! عمرؓکا قصور نہیں تھا میرا قصور ہے۔‘‘ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’اگر حضرت ابوبکرؓرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کے ملال کو دُور کرنے کی خاطر مظلوم ہونے کے باوجود ظالم ہونے کا اقرار کرتے ہیں تا آپؐ کے دل کو تکلیف نہ پہنچے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک مومن بندہ اپنے خدا کی خوشنودی کے لئے وہ کام نہ کرے جو اسے خدا تعالیٰ کی رضا کے قریب کر دے۔‘‘
(خطبات محمود جلد27 صفحہ313تا 314)
مومن کی بھی یہی نشانی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے کام کرے اور کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو۔ اس حوالے سے اپنی مثال دی ہے۔
پھر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک جگہ فرماتے ہیں: ’’حضرت عمرؓایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تورات کا ایک نسخہ لے کر آئے اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہؐ! یہ تورات ہے۔ آپؐ ان کی بات سن کر خاموش ہو گئے مگر حضرت عمرؓنے تورات کھول کر اسے پڑھنا شروع کر دیا۔ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر ناپسندیدگی کے آثار ظاہر ہوئے۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بات دیکھی تو وہ حضرت عمرؓپر ناراض ہوئے اور انہوں نے کہا کیا تمہیں نظر نہیں آتا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے بُرا منا رہے ہیں!
ان کی بات سن کر حضرت عمرؓکو بھی توجہ پیدا ہوئی اور انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ کو دیکھا اور جب انہیں بھی آپؐ کے چہرہ پر ناراضگی کے آثار دکھائی دئیے تو انہوں نے معذرت کی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے معافی طلب کی۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد6 صفحہ 253)
حضرت مصلح موعودؓ نے یہ واقعہ ایک آیت کی تفسیر میں بیان فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی حضرت عمرؓ کے تورات کی اس آیت پڑھنے پر تھی جو اسلامی تعلیم سے مختلف ہے، اس کی وجہ سے تھی نہ یہ کہ تورات کیوں پڑھی۔ اگر کسی کو اس کی تفسیر پڑھنے میں دلچسپی ہے تو تفسیر کبیر جلد6میں سورہ نور کی آیت تین کے ضمن میں اس کی باقی تفصیل بھی لکھی ہوئی ہے۔ وہاں سے دیکھ سکتے ہیں۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی متابعت صحابہؓ جس طرح کیا کرتے تھے اس کا ثبوت حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک واقعہ سے مل سکتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل عرب نے زکوٰة دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی ٰعنہ ان کے خلاف جنگ کرنے کے لئے تیار ہو گئے۔ اس وقت حالت ایسی نازک تھی کہ حضرت عمرؓجیسے انسان نے مشورہ دیا کہ ان لوگوں سے نرمی کرنی چاہئے مگر حضرت ابوبکرؓنے جواب دیا۔
ابوقحافہ کے بیٹے کی کیا طاقت ہے کہ وہ اس حکم کو منسوخ کر دے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دیا ہے۔ خدا کی قسم! اگر یہ لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اونٹ کا گھٹنا باندھنے کی ایک رسی بھی زکوٰة میں دیا کرتے تھے تو میں وہ رسّی بھی ان سے لے کر رہوں گا اور اس وقت تک دم نہیں لوں گا جب تک وہ زکوٰة ادا نہیں کرتے۔‘‘
یہ بخاری کی روایت ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ ’’اگر تم اس معاملہ میں میرا ساتھ نہیں دے سکتے تو بیشک نہ دو۔ میں اکیلا ہی ان کا مقابلہ کروں گا۔ کس قدر اتباعِ رسولؐ ہے کہ نہایت خطرناک حالات میں باوجود اس کے کہ اکابر صحابہ لڑائی کے خلاف مشورہ دیتے ہیں پھر بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حکم کو پورا کرنے کے لئے وہ ہر قسم کا خطرہ برداشت کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح لشکر اسامہ کو روک لینے کے متعلق بھی صحابہؓ نے بہت زور لگایا مگر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اگر دشمن اتنا طاقتور ہو جائے کہ وہ مدینہ پر فتح پائے اور مسلمان عورتوں کی لاشیں کتے گھسیٹتے پھریں تب بھی میں اس لشکر کو جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بھجوانے کے لئے تیار کیا تھا روک نہیں سکتا۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد8 صفحہ 108-109)
حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میرے پاس بحرین کا مال آیا تو میں تمہیں اتنا اتنا اور اتنا دوں گا۔ ہاتھ کے اشاروں سے بتایا۔ مگر وہ مال اس وقت آیا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے تھے۔ جب بحرین کا مال آیا تو حضرت ابوبکرؓ نے منادی کو حکم دیا، اعلان کروایا اور اس نے اعلان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ جس کا کوئی قرضہ یا وعدہ ہو وہ ہمارے پاس آئے۔ یہ سن کر یہ کہتے ہیں کہ میں بھی ان کے پاس گیا اور میں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ایسا ایسا وعدہ فرمایا تھا تو حضرت ابوبکرؓ نے تین لَپ بھر کر دیے۔ علی بن مدینی کہتے تھے کہ سفیان دونوں ہاتھ اکٹھے کر کے لَپ بھرتے کہ یوںاٹھا کے تین دفعہ اس طرح دیا تھا۔
(صحیح البخاری کتاب فرض الخمس باب ومن الدلیل علیٰ ان الخمس لنوائب المسلمین حدیث نمبر3137 مترجم اردو نظارت اشاعت ربوہ جلد 5 صفحہ485-486)
حضرت ابوسعید خدریؓ نے بیان کیا کہ جب بحرین سے مال آیا تو میں نے حضرت ابوبکرؓ کے منادی کو یہ آواز دیتے ہوئے سنا کہ جس شخص سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی وعدہ کیا ہو تو وہ آئے۔ لوگ حضرت ابوبکرؓ کے پاس آئے تو وہ انہیں دیتے تھے۔ پھر حضرت ابوبشیر مازنیؓ آئے۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوبشیر! جب ہمارے پاس کچھ آئے تو ہمارے پاس آنا۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے انہیں دو یا تین لَپ بھر کر دیا جس کو انہوں نے چودہ سو درہم میں پایا۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد، ذکر من قضی دین رسول اللّٰہؐ و عداتہ، جلد2 صفحہ243 دارالکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
لَپ کا مطلب ہے کہ دونوں ہاتھوں سے پورا بھر کے۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ صحابہ کرامؓ سے محو گفتگو تھے کہ تھوڑی دیر کے بعد آپؓ نے اپنے غلام سے کہا کہ پانی پلاؤ۔ غلام کچھ دیر کے بعد مٹی کے برتن میں پانی لایا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے برتن کو پکڑا اور پیاس بجھانے کے لیے اپنے منہ کے قریب کیا ہی تھا کہ آپ نے دیکھا کہ برتن تو شہد سے بھرا ہوا ہے جس میں پانی بھی ملا ہوا ہے۔ آپ نے وہ برتن رکھوا دیا اور وہ پانی نہیں پیا۔ پھر غلام کی طرف دیکھا اور اس سے پوچھا کہ یہ کیا ہے۔ غلام نے کہا کہ پانی میں شہد ملایا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ برتن کی طرف غور سے دیکھنے لگے۔
چند لمحات ہی گزرے تھے کہ آپؓ کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب بہنے لگا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ ہچکیاں باندھ باندھ کر رونے لگے۔ روتے روتے۔ آپؓ کی آواز اَور بلند ہو گئی اور آپؓ پر شدید گریہ طاری ہو گیا۔
لوگ متوجہ ہوئے اور تسلی دینے لگے کہ اے خلیفہ رسول !آپ کو کیا ہو گیا ہے۔ آپؓ اس قدر شدید کیوں رو رہے ہیں؟ ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں آپ سسکیاں بھر کر کیوں رو رہے ہیں لیکن حضرت ابوبکر صدیقؓ نے رونا بند نہ کیا بلکہ آس پاس کے تمام لوگوں نے بھی آپ کو دیکھ کر رونا شروع کر دیا اور رو رو کر وہ خاموش بھی ہو گئے لیکن حضرت ابوبکرؓ مسلسل روتے جا رہے تھے۔ جب آپ کے آنسو ذرا تھمے تو لوگوں نے آپ سے رونے کا سبب پوچھا کہ اے خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ رونا کیسا ہے۔ آخر کس چیز نے آپ کو رلایا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنے کپڑے کے کنارے سے آنسو پونچھتے ہوئے اور اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے فرمایامیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الموت کے ایام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا۔ میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ اپنے ہاتھ سے کچھ چیز دُور کر رہے ہیں لیکن وہ چیز مجھے نظر نہیں آ رہی تھی۔ آپؐ کمزور آواز میں فرما رہے تھے کہ مجھ سے دُور ہو جاؤ، مجھ سے دُور ہو جاؤ۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا مگر کچھ نظر نہیں آیا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ کسی چیز کو اپنے سے ہٹا رہے تھے جبکہ آپ کے پاس کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا یہ درحقیقت دنیا تھی جو اپنی تمام آرائش و نعمت کے ساتھ میرے سامنے آئی تھی۔ میں نے اس سے کہا تھا کہ دُور ہو جاؤ۔ ایک کشفی کیفیت آپؐ پر طاری ہوئی تھی۔ پس وہ یہ کہتی ہوئی دور ہو گئی کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے چھٹکارا پا لیا تو کیا ہوا۔ جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آئیں گے وہ مجھ سے کبھی نہیں بچ سکیں گے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے پریشانی میں اپنا سر ہلایا اور غمزدہ آواز میں فرمایا لوگو! مجھے بھی اس شہد سے ملے پانی کی وجہ سے ڈر لاحق ہوا کہ کہیں اس دنیا نے مجھے آ گھیرا نہ ہو اس لیے میں سسکیاں بھر کر رویا۔(حضرت ابوبکر صدیقؓ کے 100 قصے صفحہ 68 تا 70 بیت العلوم لاہور)(حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء، ذکر الصحابۃ من المھاجرین، ابوبکر الصدیقؓ جلد1 صفحہ30-31،مکتبۃ الایمان المنصورہ2007ء)اتنی خشیت تھی اللہ تعالیٰ کی۔
فتوحات عراق میں ایک قیمتی چادر حاصل ہوئی۔ حضرت خالدؓ نے اہلِ لشکر کے مشورہ سے اس چادر کو حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس بطور تحفہ بھجوایا اور لکھا کہ اسے آپ لے لیجیے۔ آپؓ کے لیے روانہ کیا جا رہا ہے لیکن
حضرت ابوبکرؓ نے اسے لینا گوارا نہیں فرمایا اور نہ اپنے رشتہ داروں کو دیا بلکہ اسے حضرت امام حسین ؓکو مرحمت فرما دیا۔
(سیدنا صدیق اکبرؓ کے شب وروز صفحہ 107 مکتبۃ الحرمین لاہور 1437ھ)
باقی ان شاء اللہ آئندہ بیان ہو گا۔
اس وقت میں
دو مرحومین کا ذکر
کرنا چاہتا ہوں اور بعد میں ان کا جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا ان شاء اللہ۔
پہلا ہے
محترم سمیع اللہ سیال صاحب جو تحریک جدید میں وکیل الزراعت تھے،
نواسی (89) سال کی عمر میں بقضائے الٰہی فوت ہوئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ ان کے والد رحمت اللہ سیال صاحب تھے۔ سمیع اللہ سیال صاحب کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے والد رحمت اللہ سیال صاحب کے ذریعہ ہوا تھا۔ انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے دَور میں 1938ء میں بیعت کی تھی۔ اس وقت سمیع اللہ سیال صاحب کی عمر چار سال کی تھی۔ جب بیعت کا علم ان کی والدہ کو ہوا تو انہوں نے اپنے خاوند کو چھوڑ دیا اور ان کو ساتھ لے کر چلی گئیں۔ جب یہ واقعہ حضرت خلیفة المسیح الثانی ؓکی خدمت میں پیش ہوا تو حضورؓ نے آپ کے والد صاحب سے فرمایا کہ آپ مقدمہ کریں اور بچہ واپس لیں۔ چنانچہ مقدمہ کر کے بچہ واپس لے لیا گیا۔ اس طرح آپ اپنے والد صاحب کی کفالت میں آ گئے اور انہوں نے ہی آپ کی پرورش کی۔
سمیع اللہ سیال صاحب کے والد صاحب فسادات کے دوران مشرقی پنجاب میں شہید ہو گئے تھے۔ اس کے بعد آپ کے سب غیر احمدی رشتہ داروں نے ان کو واپس لانے کی کوشش کی، جماعت سے دور ہٹانے کی کوشش کی لیکن آپ نے احمدیت نہ چھوڑی۔ 1949ء میں تعلیم الاسلام ہائی سکول سے میٹرک کیا۔ 1954ء میں تعلیم الاسلام کالج سے بی اے کیا۔ پھر 1956ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے شماریات کیا۔ ان کے دو بیٹے ہیں؛ ایک کینیڈا میں ڈاکٹر ہیں اور دوسرے افتخار اللہ سیال صاحب تحریکِ جدید ربوہ میں واقفِ زندگی ہیں۔ 1949ء میں سیال صاحب نے وقف کیا اور دیگر واقفین زندگی کے ساتھ ان کا ٹیسٹ ہوا، انٹرویو ہوا اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خود پرچہ ترتیب دیا۔ بعد ازاں حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر آپ نے مزید تعلیم کے لیے تعلیم الاسلام کالج لاہور میں داخلہ لیا جہاں سے آپ نے پہلےبی ایس سی اور بعد ازاں ایم ایس سی سٹیٹسٹکس (Statistics)کی ڈگری حاصل کی۔ 1953ء میں آپ کا دفاتر میں ابتدائی تقرر ہوا۔پھر مختلف دفاتر میں کام کرتے رہے۔ 1960ءسے 63ء تک سیرالیون میں خدمت کی توفیق پائی۔ 1983ء میں حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے آپ کو وکیل الزراعت اور صنعت و تجارت مقرر فرمایا۔ 88ءسے 99ء تک بطور وکیل الدیوان اور 99ء سے 2012ء تک وکیل الزراعت اور صنعت و تجارت کے طور پر خدمت کی توفیق ملی اور 2012ء سے وفات تک آپ وکیل الزراعت تھے۔ ان کا خدمت کا عرصہ 69 سال پر محیط ہے۔ اس کے علاوہ بھی انجمن کی اور تحریک کی بہت ساری کمیٹیوں کے ممبر تھے اور بعض رجسٹرڈ کمپنیوں کے ڈائریکٹر تھے۔ اسی طرح خدام الاحمدیہ میں بھی مہتمم کے طور پر ان کو بڑا لمبا عرصہ مختلف شعبوں میں کام کرنے کی توفیق ملی۔
ان کی اہلیہ امة الحفیظ سیال صاحبہ کہتی ہیں کہ چونسٹھ سالہ ازدواجی زندگی میں مَیں نے دیکھا کہ بہت نیک، ہمدرد، متوکل، پیار کرنے والے تھے۔ ہر کام میں اپنے پر دوسرے کو ترجیح دیتے تھے اور خلیفہ وقت کے احکامات کو ہر بات پر ترجیح دیتے تھے۔ کہتی ہیں جب میری شادی ہوئی تو انہوں نے شروع میں ہی مجھے یہ بات سمجھا دی کہ میں ایک واقفِ زندگی ہوں اور ایک واقفِ زندگی کی بیوی بھی واقفِ زندگی ہوتی ہے۔ پھر کہتی ہیں کہ غرباء پرور تھے۔ مہمان نوازی بھی ہمارے گھر میں بہت زیادہ ہوتی تھی۔
ان کے بیٹے افتخار اللہ سیال کہتے ہیں کہ جماعت سے وفاداری اور محبت بچپن سے ہی ان میں بہت زیادہ تھی۔ 1947ء کے فسادات میں جب ان کے والد شہید ہو گئے تو وہ بالکل اکیلے رہ گئے اور جیساکہ بیان ہوا ہے ان کے رشتہ داروں میں سے صرف ان کے والد احمدی تھے اور والدہ بھی چھوڑ کر چلی گئی تھیں۔ رشتہ داروں نے ان کو کہا کہ تم احمدیت چھوڑ دو ہم تمہارے تمام دنیاوی اور تعلیمی اخراجات اٹھائیں گے لیکن احمدیت سے محبت اور احمدیت کی سچائی پر یقین ہونے کی وجہ سے انہوں نے جواب دیا، کہا کہ اگر میں بھوکا بھی مر جاؤں گا پھر بھی احمدیت نہیں چھوڑوں گا اور پھر ہمیشہ اپنے اس ایمان پر قائم رہے۔ اس بات کی شدید خواہش تھی کہ وقف کا یہ سلسلہ آگے ان کی نسل میں بھی جاری رہے۔ تو کہتے ہیں چنانچہ جب میں نے وقف کیا تو بڑے خوش ہوئے اور یہاں لندن آئے ہوئے تھے تو حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒکو خود بتایا۔ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے بڑی خوشی کا اظہار کیا کہ اصل وقف یہی ہے کہ یہ سلسلہ آگے اولاد میں بھی جاری ہو۔ دینی یا دنیاوی مشکلات آتی تھیں تو خدا کے آگے جھک جاتے اور اس مشکل کے حل کے لیے بہت پُرسوز دعائیں کرتے۔
پھر ان کے ایک بیٹے لکھتے ہیں: مَیں نے انہیں پوری زندگی تہجد کا ایک بھی ناغہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ غریبوں کی ہر ممکن امداد کرنے والے تھے۔ کہتے ہیں ان کی وفات کے بعد بہت سے لوگوں نے مجھے آ کے خاص طور پر ذکر کیا کہ ہمیں جب کوئی کسی قسم کی رقم کی ضرورت ہوتی فوراً سیال صاحب کے پاس جاتے اور ہمیشہ وہ ہماری امداد کرتے۔ بعض اوقات گھروں میں کوئی مسئلہ درپیش ہوتا اور جماعتی خدمت کا بھی اس وقت موقع ہوتا تو اس وقت وہ جماعت کے کام کی طرف نکل جاتے اور اپنے گھریلو مسائل کو اللہ کے سپرد کر دیتے۔ان کے بیٹے کہتے ہیں کہ ہمیشہ مجھے جماعت سے محبت اور خلافت کا وفادار رہنے کا درس دیا اور خلیفۂ وقت کی زبان سے نکلے ہر لفظ پر بڑا حد تک یقین تھا۔ اس سلسلہ میں وہ بیان کرتے تھے کہ جب ابتدا میں وقف کے سلسلہ میں حضرت خلیفة المسیح الثانی ؓکی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس وقت ابھی چرچل اسّی سال کی عمر میں دوبارہ وزیراعظم بنا تھا تو حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے ان سے کہا کہ اگر چرچل اسّی سال کی عمر میں وزیر اعظم بن سکتا ہے تو تم جماعت کی خدمت اتنے عرصہ تک کیوں نہیں کر سکتے۔ تو اس بات سے کہتے ہیں میں نے اس وقت بھی نتیجہ نکالا تھا کہ ہم جتنے بھی لوگ اس گروپ میں شامل واقف زندگی ہیں، کم از کم اسّی سال کی عمر تو ہماری ضرور ہو گی اور اللہ تعالیٰ اسّی سال تک خدمت کی توفیق دے گا۔چنانچہ چودھری حمید اللہ صاحب اور مصلح الدین صاحب ان کے ساتھی تھے،سب نے اسّی سال سے زائد عمر پائی۔
ان کی بہو کہتی ہیں کہ میری چھوٹی عمر میں ہی میرے والد وفات پا گئے تھے اور سسر کے روپ میں مجھے ان سے باپ کا پیار ملا۔ بائیس سال میں نے اپنی شادی شدہ زندگی میں ہمیشہ ان سے شفقت اور باپ کا پیار ہی دیکھا۔ احمدیت کے سچے شیدائی اور خلافت سے گہری محبت کرنے والے،غریب پرور، مہمان نواز، سچے انسان تھے۔ اٹھتے بیٹھتے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر شکر ادا کرتے۔ میرے بچوں کی تربیت میں بھی بہت کردار ادا کیا۔ انہیں قرآن کریم کا ترجمہ سیکھنے اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلا م پڑھنے کی طرف توجہ دلاتے رہے اور پھر ٹیسٹ بھی لیتے تھے۔ کہتی ہیں جب بھی بچے دادا جان کے ساتھ بیٹھتے تو ہمیشہ جماعت کی تاریخ اور خلفاء کی شفقت اور محبت کے واقعات بیان کرتے۔ چھوٹے سے چھوٹا بچہ بھی اگر گھر میں آ جاتا تو اسے بھی بغیر تواضع اور مہمان نوازی کے گھر سے نہ جانے دیتے۔
باسل صاحب نائب وکیل الزراعت لکھتے ہیں کہ سمیع اللہ سیال صاحب انتہائی ہمدرد وجود تھے۔ خلافت سے بے پناہ محبت اور عشق تھا۔ دفتر میں کارکنان کی مالی امداد بھی کرتے تھے۔ ہمیشہ خلیفۂ وقت کے ساتھ تعلق میں رہنے کی تلقین کرتے تھے۔ کہتے ہیں ہمیشہ یہی درس دیا کہ جماعت کے ایک ایک پیسے کی حفاظت کرنی ہے اور جیساکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ یہ فکر نہیں کہ پیسہ کہاں سے آئے گا اصل یہ فکر ہے کہ پیسے کو سنبھالنے والے کہاں سے آئیں گے۔ وہ ملتے رہیں۔
(ماخوذ از الوصیت، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 319)
پھر کہتے ہیں کہ جب بھی کوئی واقفِ زندگی یا کارکن یا کوئی احمدی ملنے کے لیے آتا تو یہی کہتے کہ جماعت کی خدمت میں بہت ہی برکت ہے اور جو خدمت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے بے انتہا نوازتا ہے اور اللہ تعالیٰ خود ہی ان کی ضروریات پوری کرتا چلا جاتا ہے۔ اپنی مثال دیتے ہیں کہ میں کچھ بھی نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے بےشمار دیا اور یہ صرف وقف کی برکت ہے۔
نسرین حئی صاحبہ کہتی ہیں کہ ہمارے خاندان کے اہم افراد میں سے تھے۔ میری والدہ اور والد ہمیشہ ان کی بہت عزت کرتے تھے۔ ان کی کوئی بیٹی نہیں تھی۔ میں جب سات یا آٹھ سال کی ہوئی تو انہوں نے اور پھوپھو نے مجھے adoptکیا۔ اس کے بعد میں شادی تک ان کے پاس رہی۔ دونوں نے مجھے ہمیشہ اپنی بیٹی کی طرح رکھا اور بچپن سے میری ہر خواہش کا خیال رکھا۔ بہترین تعلیم دلوائی۔ میری شادی مربی سلسلہ سے کروائی۔
محمود طاہر صاحب سیکرٹری فضل عمر فاؤنڈیشن کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک دفعہ بتایا کہ جب میں نے بی اے کر لیا اور ابتدائی تقرر ہوا تو حضرت مصلح موعود ؓکی ہدایت پر مجھے ایم اے کرنے کے لیے بھیجا جانے لگا۔ اس وقت دفتر میں کسی نے حضرت مصلح موعودؓ سے اس خدشہ کا اظہار کیا کہ اس کو آپ ایم اے کروا رہے ہیں۔ یہ ایم اے کر کے کہیں دوڑ نہ جائے اور کہیں دنیاوی نوکری نہ اختیار کر لے۔ اس پر حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا سیال بے وفا نہیں ہوتے۔
عمران بابر صاحب واقفِ زندگی نگران جائیداد تحریک جدید کہتے ہیں کہ مجھے پندرہ سال ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ بڑے مضبوط اعصاب کے مالک تھے۔ جماعتی کام کے حوالے سے کبھی بھی سرکاری افسر سے ملنے یا بات کرنے سے نہیں جھجکتے تھے۔ اور ٹرین میں سفر کرنے کا موقع ملا۔ سفر کے دوران تبلیغ ضرور کرتے تھے اور اونچی آواز میں کیا کرتے تھے تا کہ قریب موجود سب افراد سن لیں۔
لقمان صاحب وکیل المال اوّل کہتے ہیں کہ خلافت کی آواز پر خود بھی لبیک کہنے والے تھے۔ دوسروں کو بھی توجہ دلاتے تھے۔ ہمیشہ جب تحریک جدید کا اعلان ہوتا تو فوراً آتے اور اپنا چندہ وغیرہ ادا کرتے، وعدہ لکھواتے۔
شیخ حارث صاحب ہیں تحریکِ جدید میں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب وقف کیا تو آپ نے میری ہر مرحلے پر راہنمائی کی۔ بہت ہی محبت اور شفقت کا سلوک فرماتے تھے۔ بہت نڈر اور دبنگ واقف زندگی تھے۔ سلسلہ کے اموال کی بچت کے دھنی تھے اور پھر یہ حارث صاحب ہی لکھتے ہیں کہ 2015ء میں انجنیئر جاوید صاحب چیئرمین پاکستان انجنیئرنگ کونسل اسلام آباد سے خصوصی طور پر ربوہ کے دورہ پر آئے۔ ان کی ملاقات دیگر بزرگان کے علاوہ سیال صاحب سے کروائی گئی۔ اس مختصر ملاقات میں آپ نے تبلیغ کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا اور انہیں بڑے اچھے رنگ میں تبلیغ کی۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے رحم اور مغفرت کا سلوک فرمائے۔ جو وقفِ زندگی بیٹا ہے اسے بھی وقف نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ خلافت اور جماعت سے ان کی اولاد کو جوڑے رکھے اور ان کے لواحقین کو سکون عطا فرمائے۔
اگلا ذکر ہے
محترمہ صدیقہ بیگم صاحبہ اہلیہ علی احمد صاحب مرحوم معلم وقف جدید
کا جن کی گذشتہ دنوں پچاسی سال کی عمر میں وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ عبدالہادی طارق صاحب ان کے بیٹے مربی سلسلہ ہیں اور جامعہ احمدیہ گھانا میں استاد ہیں۔ پھیروچیچی قادیان کے نزدیک ان کی پیدائش ہوئی تھی۔ ان کے والد عبدالرحمٰن صاحب جوانی میں ہی 1944ء میں وفات پا گئے تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے ان کی بیوہ والدہ نواب بی بی صاحبہ اور بچوں کو کفالت میں لے لیا اور قادیان بلا لیا تو حضرت نواب امة الحفیظ بیگم صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انہیں اپنے بنگلے میں رکھ لیا اور مربی صاحب کہتے ہیں کہ خاکسار کی نانی حضرت نواب امة الحفیظ بیگم صاحبہ ؓکی خدمت کی توفیق پاتی رہیں۔ اس طرح پھر تقسیمِ ہند کے بعد کہتے ہیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میری نانی کو ان کے بچوں کے ساتھ ناصر آباد فارم سندھ بھجوا دیا جہاں یہ پلے بڑھے۔
حضرت میاں اللہ دتہ صاحب ؓصحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بہو تھیں۔ ایک واقفِ زندگی کی بیوی تھیں، ایک واقفِ زندگی کی والدہ تھیں۔ آپ نے اپنے واقف زندگی خاوند کے ساتھ وقف کی پوری روح سے واقف زندگی جیسی زندگی گزاری اور ہر قسم کے نامساعد حالات میں اپنے واقف زندگی شوہر کا ساتھ دیا۔ زندگی بھر کبھی کسی سے مطالبہ یا تقاضا نہیں کیا۔ بےشمار خوبیوں کی مالک تھیں جن میں نمایاں طور پر عاجزی، خداترسی، درویشی، مہمان نوازی، نرم مزاجی، سادگی، قناعت، ستر پوشی، صبر،بے پناہ حوصلہ شامل تھا۔ زندگی بھر کبھی کسی سے کوئی شکوہ اور شکایت نہیں کی اور نہ ہی کبھی کسی کی برائی سنی اور نہ برائی کی۔ ہمیشہ اپنوں اور پرایوں سے محبت اور خلوص کا سلوک کیا۔ پنجگانہ نمازوں کے علاوہ باقاعدہ تہجد کا انتظام رکھا۔ اسی طرح تلاوت قرآن کریم باقاعدہ کرنے والی تھیں اور آخری ایام میں خرابی صحت کے باعث جب نماز صحیح طرح ادا نہ ہو سکتی تھی تو یہی دعا کیا کرتی تھیں کہ مولیٰ اتنی صحت اور ہمت دے دے کہ تیری عبادت صحیح طرح کر سکوں۔
پسماندگان میں ان کی دو بیٹیاں اور تین بیٹے شامل ہیں۔ جیساکہ میں نے کہا ہےایک بیٹے عبدالہادی طارق صاحب گھانا میں مربی سلسلہ ہیں اور وہاں میدان عمل میں ہونے کی وجہ سے اپنی والدہ کے جنازے میں شامل نہیں ہو سکے۔
اللہ تعالیٰ ان سب کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے، ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور مرحومہ سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے، درجات بلند فرمائے۔