دنیا ہمیشہ رہنے کی جگہ نہیں
آپ سب صاحبوں کو معلوم ہے کہ اللہ جلّ شانہٗ نے قرآن شریف میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حدیث میں بھی فرمایا ہے کہ ایک زمانہ ایساگزرا ہے کہ انسان، حیوان، چرند، پرند، زمین، آسمان اور جو کچھ زمین و آسمان میں ہے کسی چیز کا نام و نشان نہ تھا۔ صرف خدا ہی تھا۔ یہ اسلام کا عقیدہ ہے۔ وَلَمْ یَکُنْ مَّعَہٗ شَيْـئٌ۔ یعنی خدا کے ساتھ اَور کوئی چیز نہ تھی۔ ہم کو اُس نے قرآن اور حدیث کے ذریعہ خبر دی ہے کہ ایک زمانہ اَور بھی آنے والا ہے جبکہ خدا کے ساتھ کوئی نہ ہو گا۔ وہ زمانہ بڑا خوفناک زمانہ ہے۔ چونکہ اس پر ایمان لانا ہر مومن اور مسلمان کا کام ہے ۔ جو شخص اس پر ایمان نہیں لاتا۔ وہ مسلمان نہیں کافر ہے۔ اور بے ایمان ہے جس طرح سے بہشت، دوزخ، انبیاء علیہم السلام اور کتابوں وغیرہ پر ایمان لانے کا حکم ہے ویسا ہی اُس ساعت پر ایمان لانا لازم ہے۔ جبکہ نفخِ صور ہو کر سب نیست و نابود ہو جائیں گے۔ یہ سنت اللہ اورعادت اللہ ہے۔
آخرت کے وجود پر تین دلائل
اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کے سمجھانے کے لیے تین طریق اختیار فرمائے ہیں۔ ایک یہ کہ انسان کو عقل دی ہے کہ اگر وہ اس سے ذرا بھی کام لے اور غور کرے تو یہ امر نہایت صفائی سے ذہن میں آسکتا ہے کہ انسان کی مختصر سی زندگی دو عدموں کے درمیان واقع ہے۔ کبھی بھی ہمیشہ کے لیے باقی نہیں رہ سکتی ۔ قیاس سے مجہولات کا پتہ لگ سکتا ہے۔ اور انسان معلوم کرسکتا ہے مثلاً اگر ہم غور کریں کہ ہمارے باپ دادے کہاں ہیں۔ اور اسی ایک بات کو سوچیں تو ہمیں یہ مان لینا پڑے گا کہ ہم سب کو بھی اسی راستہ پر چلنا ہو گا جس پر وہ گئے ہیں۔ نادان ہے وہ انسان جس کے سامنے ہزار ہا نمونے ہوں اور پھر بھی وہ ان سے سبق حاصل نہ کرے۔ اور عقل نہ سیکھے۔ عموماً دیکھا گیا ہے اور یہ ایک مانی ہوئی بات ہے کہ ہر گاؤں اور شہر میں زندہ لوگوں سے قبریں روز بروز زیادہ ہوتی جا رہی ہیں۔ اور بعض پرانے لوگوں کی قبریں مخفی اور بعض ظاہر ہوتی ہیں۔ پھر بسا اوقات دیکھا گیا ہے کہ جب کسی شہر میں کنواں کھو دا جاتا ہے تو اس کی مٹی میں سے ہڈیاں نکلتی ہیں۔ گویا عام طور پر زمین کے نیچے ہر جگہ قبر یں ہی قبریں موجود ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ وہ ظاہراً طور پر نمودار نہ ہوں۔ جس سے انسان کے نابود شدہ طبقہ کا پتہ لگتا ہے۔
دوسری دلیل اس زمانہ کے وجود پر یہ ہے کہ جس طرح پر کھیت میں سبزہ نکلتا ہے جو بہت خوشنما معلوم ہوتا ہے مگر پھر ایک زمانہ اس پر آتا ہے کہ وہ رفتہ رفتہ زرد ہو کر خشک ہونے لگتا ہے۔ اور پھر اس پر ایک دوسری حالت آتی ہے کہ وہ گرنے لگتا ہے تو اس وقت جب اس طرح نقصان ہونے لگتا ہے تو بونے والا کسان اسے خود ہی کاٹ ڈالتا ہے تا ایسا نہ ہو کہ وہ اس طرح پر اُڑ اُڑ کر ضائع جائے۔ایسا ہی دنیا خدا تعالیٰ کا کھیت ہے۔ جس طرح زمیندار مصلحت اور انجام بینی سے کبھی اپنے کھیت کو کچا ہی کاٹ لیتا ہے اورکبھی ذرا پختہ ہونے پر کاٹتا ہے۔ اسی طرح سے ہم انسان بھی پرورش پا کر خداوندی مشیت اور ارادے کے موافق ٹھیک اپنے اپنے وقت پر کاٹے جاتے ہیں۔ زمیندار کے فعل سے سبق اور عبرت حاصل کرنی چاہیے کیونکہ انسان کی زندگی کا بھی ٹھیک یہی طرز ہے۔ جس طرح سے بعض دانے اگنے بھی نہیں پاتے بلکہ زمین کے اندر ہی اندر ضائع ہو جاتے ہیں اسی طرح بعض بچے شکمِ مادر ہی میں ضائع ہو جاتے ہیں پھر بعض دانے پیدا ہونے کے چند روز بعد ضائع ہو جاتے ہیں ۔ ٹھیک اسی قانون اور عمل کے موافق انسان بھی بچہ، جوان اور بوڑھا ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کی مرضی کی درانتی اسے وقتاً فوقتاً مصلحتِ الٰہی سے کاٹتی رہتی ہے۔ کبھی بچے مرتے ہیں جن کو کہتے ہیں کہ اٹھرا سے مرتے ہیں۔ صحیح البدن، توانااور تندرست جوان بھی مرتے ہیں۔ پھر عمر رسیدہ ہو کر پیر ناتوان بھی آخر مر جاتے ہیں۔ غرض یہ سلسلہ قطع و برید کا دنیا میں ایسا جاری ہے جو ہر آن انسان کو سبق دیتا رہتا ہے کہ دنیا ہمیشہ رہنے کی جگہ نہیں۔ پس یہ بھی ایک دلیل اس زمانہ کی آمد پر ہے۔
علاوہ ازیں اس زمانہ کی حقیقت کو سمجھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک اَور دلیل بھی پیش کی ہے اور وہ انبیاء علیہم السلام کے قہری معجزات ہیں جن کے باعث ایک ہی وقت میں دنیا کے تختے الٹ دیے گئے۔ اور خلقت کا نام و نشان تک مٹا دیا گیا ۔ انسان اللہ تعالیٰ کے قہر کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جب چاہے اسے نابود کر دے۔ اسی امر کو اللہ تعالیٰ نے دلیل کے رنگ میں پیش کیا ہے ۔ بعض امراض اس ہیبت اور شدت سے پھیلتی ہیں کہ جن لوگں نے ان کا دورہ دیکھا ہو گا وہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ قیامت کا نمونہ ہوتا ہے ۔
منجملہ ان ہیبت ناک امراض کے ایک طاعون بھی ہے جو اس وقت ہمارے ملک میں پڑی ہوئی ہے۔ اورجس نے کراچیؔ اوربمبئیؔ میں بہت کچھ صفائی کر دی ہے۔ اور اب پہاڑ پر سے (پالم پوؔر) و نیز کلکتہؔ سے طاعون پھیلنے کی متوحش خبریں موصول ہوئی ہیں۔ غرض یہ ایک بڑا بھاری خطرہ ہے جو اس وقت سامنے ہے۔ اس لیے میری اس تقریر کرنے سے غرض صرف یہ ہے کہ چونکہ انسان کو بڑے بڑے ابتلا پیش آتے رہتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ …الخ(البقرہ:156) یعنی ہم تمہیں آزماتے رہیں گے کبھی ڈر سے اور کبھی مالوں میں نقصان کرنے سے اور کبھی ثمرات کو تلف کرنے سے۔
اتلافِ ثمرات سے مراد تفاسیر میں اولاد بھی لکھی ہے اور اسی میں کوششوں کا ضائع ہونا بھی شامل ہے۔ مثلاً حصولِ علم کی کوشش۔ تجارت میں کامیابی کی کوشش۔ زمینداری کی کوشش۔ غرض ان کوششوں کا ضائع ہونا ایک بڑی مصیبت ہوتی ہے۔ انسان کو ہر وقت خیال ہوتا ہے کہ کامیاب ہو جائوں ۔ مگر خدا تعالیٰ کے علم میں اس کی مصلحت کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ وہ ناکام رہے۔ یا کھیتی پیدا نہیں ہوتی یا تجارت میں کامیاب نہیں ہوتا۔
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 246-243)
٭…٭…٭