خطبہ عید الاضحی سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ10؍جولائی 2022ء
’’خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی راہ یہ ہے کہ اس کے لئے صدق دکھایا جائے۔‘‘(حضرت مسیح موعودؑ)
جو اس (خدا)کی طرف جھکتا ہے، اس کے حکموں پر عمل کرتا ہے، اس کی رضا کی خاطر ہر قربانی کے لیے تیار ہوتا ہے وہ سچے وعدوں والا اس سے اپنے پیار کا اظہار بھی کرتا ہے
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی غلامِ صادق ہے جس نے اعلان کیا کہ میں وہی مسیح موعود اور مہدی معہود ہوں جس کے آنے کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی۔ یہی وہ اللہ تعالیٰ کا پہلوان ہے جس نے نہ صرف اسلام کی خوبصورت تعلیم پیش کر کے اسلام کا حسن لوگوں کو بتایا بلکہ ہر مخالفت کو چیلنج دیا کہ کوئی اَور دین اور مذہب نہیں ہے جو اسلام جیسی خوبصورت تعلیم پیش کر سکے
’’اللہ تعالیٰ عمل کو چاہتا اور عمل ہی سے راضی ہوتا ہے اور عمل دکھ سے آتا ہے لیکن جب انسان خدا کے لئے دکھ اٹھانے کو تیار ہو جاوے توخدا تعالیٰ اس کو دکھ میں بھی نہیں ڈالتا۔‘‘(حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام)
کیا یہ دعا مسلمانوں سے تقاضا نہیں کرتی کہ اگر اس شہر کی طرف منسوب ہوتے ہیں، اگر ربِ کعبہ کی عبادت کرتے ہیں، اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانیوں اور خانہ کعبہ کے قیام کے مقصد کو پورا کرنے کی خواہش رکھتے ہیں تو پھر اپنے دلوں میں بھی امن و سلامتی اور پیار و محبت کے شہر بسائیں
پس اگر ہم صبر، دعا، صدق و وفا کے ساتھ اس کے در پر جھکے رہیں گے تو یقینا ًوہ دوڑتا ہوا ہماری طرف آئے گا اور دشمن جو اپنی طاقت کے زعم میں ہم پر ظلم روا رکھے ہوئے ہے اسے ملیا میٹ کر دے گا
کیا آج وہ سچے وعدوں والا خدا ہمیں چھوڑ دے گا؟ یقینا ًنہیں۔ آج بھی وہ اپنے پر ایمان اور یقین رکھنے والوں اور مظلوموں کی مدد کو آئے گا
واقفین نَو جو اس وقت جماعتی خدمت میں آ گئے ہیں انہیں بھی اپنے اندر اسماعیلی صفات پیدا کرنی ہوں گی تبھی اللہ تعالیٰ ان کے لیے ہمیشہ بھلائی اور بہتری کے راستے کھولتا رہے گا
عیدِ قربان کی مناسبت سے احمدیوں کو تقویٰ اختیار کرنے نیز واقفینِ نَو اور ان کے والدین کو اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی تلقین
مظلوم احمدیوں، اسیرانِ راہِ مولیٰ و شہیدانِ احمدیت اور ان کے اہلِ خانہ نیز واقفینِ زندگی کے لیے دعا کی تحریک
خطبہ عید الاضحی سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ10؍جولائی 2022ءبمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، (سرے) یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾
آج ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے عید الاضحی یعنی قربانی کی عید منا رہے ہیں۔ اس قربانی کی یاد میں عید جو ہزاروں سال پہلے باپ بیٹے اور ماں نے دی تھی۔
یہ کوئی وقتی قربانی نہیں تھی بلکہ مسلسل کئی سالوں پر پھیلی ہوئی قربانی تھی
اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیوی اور لاڈلے بیٹے کو ایک بے آب و گیاہ جگہ میں چھوڑ دیا۔ صرف اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم تھا۔ اور بیوی کو جب پتہ چلا کہ ہمیں اس جگہ اللہ تعالیٰ کی خاطر چھوڑے جا رہے ہیں تو اس کے ایمان کا بھی کیا اعلیٰ معیار تھا۔ بڑے یقین سے اور عزم سے کہا کہ پھر جاؤ۔ اگر اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ سب کچھ ہے تو پھر خداتعالیٰ ہمیں ضائع نہیں کرے گا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ضائع نہیں کیا۔ وہیں پانی کا بھی انتظام کر دیا، بلکہ مستقل انتظام کر دیا جو آج تک چل رہا ہے۔ خوراک کا بھی انتظام کر دیا بلکہ ایک شہر اس ریگستان میں آباد کر دیا اور پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق ہر ضرورت کی چیز وہاں مہیا کر دی۔ دنیا کے ہر قسم کے پھل اور نعمتیں وہاں جمع کر دیے۔
ہر سال لاکھوں لوگ حج کے لیے وہاں جاتے ہیں اور جہاں عبادت کا فریضہ ادا کرتے ہیں وہاں دنیاوی نعمتوں سے بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ سارا سال عمرے کے لیے بھی لوگ جاتے رہتے ہیں۔ کہاں تو وہ بے آب وگیاہ جگہ تھی اور کہاں لاکھوں لوگوں کے روزگار وہاں مہیا ہیں اور کروڑوں لوگوں کو خوراک وہاں میسر ہے۔
پس یہ ہے اللہ تعالیٰ کے وعدے پورے کرنے کا اظہار کہ ایک وعدہ کیا اور ایک نشان کے طور پر اس کی چمک دکھلا دی۔ اس میں وہ نبی پید اکیا اپنے وعدے کے مطابق جس پر آج تک کروڑوں لوگ روزانہ درود و سلام بھیجتے ہیں اور قیامت تک بھیجتے چلے جائیں گے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے اس پیارے نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا تھا کہ تُو دنیا کے لیے بشیر اور نذیر کے طور پر بھیجا گیا ہے نہ کہ باقی انبیاء کی طرح صرف محدود علاقے اور زمانے کے لیے، تو پھر ایسے انتظام بھی فرما دیے کہ اس خاتم الانبیاء اور آخری رسولؐ کے پیغام کو بھی دنیا کے ہر ملک میں پہنچا دیا۔ تھوڑے سے عرصہ میں ایک وسیع علاقے پر اسلام کا پیغام پہنچ گیا اور اب دنیا کے ہر کونے میں پہنچا ہوا ہے۔ اس کے ماننے والے دنیا کے ہر کونے میں پیدا کر دیے۔ چار ہزار سال پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی دعاؤں کو قبول کرتے ہوئے جو وعدہ فرمایا تھا اس کو عظیم الشان طریقے پر پورا کیا۔ پس یہ ہیں خدا تعالیٰ کے کام۔
جو اس کی طرف جھکتا ہے، اس کے حکموں پر عمل کرتا ہے، اس کی رضا کی خاطر ہر قربانی کے لیے تیار ہوتا ہے وہ سچے وعدوں والا اس سے اپنے پیار کا اظہار بھی کرتا ہے۔
آج دنیا میں کوئی دین نہیں جس کے ماننے والے اس کے بانی اور نبی کی لائی ہوئی حقیقی تعلیم پر عمل کررہے ہوں۔ کسی نبی پر اتری ہوئی کوئی کتاب نہیں اور احکامات نہیں جو اپنی اصلی حالت میں قائم ہوں۔ کسی نبی پر اتری ہوئی کوئی کتاب نہیں یہ صرف قرآن کریم ہی ہے جس کے بارے میں خدا تعالیٰ نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ فرمایا تھا کہ میں اس کی حفاظت کروں گا اور اسے اپنی اصلی حالت میں قائم رکھوں گا اور آج چودہ سو سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی باوجود مخالفینِ اسلام کی کوششوں کے یہ واحد صحیفہ ہے جو آج بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔ باوجود اس کے کہ اس دوران مسلمانوں کی اکثریت کی عملی حالت میں انحطاط پیدا ہو گیا لیکن قرآن کریم کی حفاظت کرنے والے، اس کی تعلیم پر عمل کرنے والے خدا تعالیٰ پیدا فرماتا رہا اور ہمیشہ پیدا فرماتا رہے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا تھا کہ آپؐ کی شریعت، آپؐ کی تعلیم، آپ پر اتری ہوئی کتاب کی حفاظت کے لیے اللہ تعالیٰ آخری زمانے میں بھی ایک ایسا انسان پیدا کرے گا جو دین کو ثریا سے زمین پر واپس لائے گا۔(صحیح البخاری کتاب التفسیر باب سورۃ الجمعۃ حدیث 4897)اور قرآن کریم کی حکومت، حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت اور خدا تعالیٰ کی حکومت کو دنیا میں قائم کرے گا۔ خدا تعالیٰ کے شریک بنانے والوں کے منہ بھی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم کی روشنی میں دلائل اور براہین سے بند کرے گا اور خدا تعالیٰ کے وجود کے منکرین کے منہ بھی دلائل و براہین سے بند کرے گا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق تکمیلِ اشاعت دین اور اسلام کی برتری تمام ادیان پر ثابت کرنے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق اور عاشقِ صادق کو مبعوث فرمایا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی غلامِ صادق ہے جس نے اعلان کیا کہ میں وہی مسیح موعود اور مہدی معہود ہوں جس کے آنے کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی۔ یہی وہ اللہ تعالیٰ کا پہلوان ہے جس نے نہ صرف اسلام کی خوبصورت تعلیم پیش کر کے اسلام کا حسن لوگوں کو بتایا بلکہ ہر مخالفت کو چیلنج دیا کہ کوئی اَور دین اور مذہب نہیں ہے جو اسلام جیسی خوبصورت تعلیم پیش کر سکے۔
اگر ہے تو مقابلے پر لاؤ۔ پھر دیکھو کس طرح براہین و دلائل اور خدا تعالیٰ کی خاص تائیدات کے ساتھ میں اس کو ردّ کر کے دکھاؤں گا۔ اسے ہزیمت اٹھانی پڑے گی۔ ساتھ ہی مسلمانوں کو بھی یہ تلقین فرمائی کہ یہ جنگ و جدل کا نہیں بلکہ پیار محبت سے اسلام کی تعلیم کو پھیلانے کا زمانہ ہے۔ یہ امن و سلامتی اور روشن دلائل کے ساتھ اسلام کی تمام ادیان پر برتری ثابت کرنے کا زمانہ ہے، یہ اعلان کیا کہ یہی زمانہ اسلام کے ضعف کا زمانہ تھا جس میں اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق اُس مردِ میدان نے دنیا میں آنا تھا جس نے اسلام کی تعلیم کی احیائے نَو کرنی تھی۔ آپؑ نے فرمایا کہ
اگر میں نہ آتا تو کوئی اَور آتا لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے کا یہی وقت تھا۔
پس مسلمانوں کو فرمایا کہ تم خوش ہو کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نشأة ثانیہ کے لیے اس شخص کو عین وقت پر بھیج دیا اور بجائے اس جری اللہ کی مخالفت کرنے کے اس کے ساتھ جڑ کر اسلام کی تعلیم کو دنیا میں پھیلاؤ۔ یہ آپؑ نے مسلمانوں کو کہا۔ اپنی خود ساختہ رسومات اور بدعات کو ختم کرو اور اس تعلیم پر عمل کرو جو اسلام کی حقیقی اور اصل تعلیم ہے کہ یہی راستہ مسلمانوں کے لیے بھی راہِ نجات ہے اور یہی راستہ دنیا کے ہر شخص کی بقا کی ضمانت ہے۔لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج مسلمانوں کی اکثریت بجائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کا شکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے اس فرستادے کے ساتھ جڑ کر اسلام کی تعلیم کو دنیا کے طول و عرض میں پھیلانے کے لیے آگے بڑھتے اللہ تعالیٰ کے اس بھیجے ہوئے اور فرستادے کی مخالفت میں کمر بستہ ہیں اور بجائے اس کے کہ اپنے آباء کی قربانیوں کو سامنے رکھتے ہوئے اسلام کے خلاف اٹھنے والے ہاتھوں کو روکنے کی کوشش کرتے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بنتے، مسلمان نہ صرف آپس میں ایک دوسرے کے خون پر تلے ہوئے ہیں بلکہ جو شخص حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمائندگی میں دنیا میں امن اور سلامتی کو قائم کرنے آیا ہے اس کی اس حد تک مخالفت میں بڑھے ہوئے ہیں کہ گذشتہ سوا سو سال سے زیادہ عرصہ سے اس کے ماننے والوں کے قتل کے فتوے دے رہے ہیں، اس پر کفر کے فتوے لگا رہے ہیں، ماننے والوں کو قتل کر رہے ہیں، ان کی جائیدادیں لوٹ رہے ہیں، ان پر معاشی تنگیاں وارد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ کوشش تو کر رہے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ فضل فرماتا ہے، ایک جگہ سے روکتے ہیں دوسری جگہ سے اللہ تعالیٰ نوازتا چلا جاتا ہے۔ ان کے بچوں کو سکولوں اور گلیوں میں تنگ کیا جا رہا ہے ان میں خوف و ہراس پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حتیٰ کہ مُردوں کی قبریں اکھیڑ کر ان کی بے حرمتی کی جا رہی ہے۔ یہ کون سا اسلام ہے جو یہ لوگ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں۔ اسلام تو امن اور سلامتی کا مذہب ہے۔ اسلام تو محبت اور پیار کا مذہب ہے۔ آج کی عید جن کی وجہ سے منائی جا رہی ہے وہ تو اپنی آزادی، اپنی عزت، اپنی جان خدا تعالیٰ کے لیے قربان کرنے کے لیے تیار ہوئے تھے۔ انہوں نے جس شہر کی خواہش کی تھی یا یہ دعا کی تھی کہ یہاں شہر بن جائے تو یہ دعا کی تھی کہ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا (البقرۃ:127) کہ اے میرے رب! اس جگہ کو ایک پُرامن شہر بنا دے تا کہ جو یہاں رہنے والے ہوں، جو یہاں آنے والے ہوں امن اور سلامتی سے رہنے والے اور امن و سلامتی کے پھیلانے کا خیال رکھنے والے ہوں۔ پس
کیا یہ دعا مسلمانوں سے تقاضا نہیں کرتی کہ اگر اس شہر کی طرف منسوب ہوتے ہیں، اگر ربِ کعبہ کی عبادت کرتے ہیں، اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانیوں اورخانہ کعبہ کے قیام کے مقصد کو پورا کرنے کی خواہش رکھتے ہیں تو پھراپنے دلوں میں بھی امن و سلامتی اور پیار و محبت کے شہر بسائیں۔
ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے کی بجائے رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ کے نمونے پیش کریں۔ دنیا کو سلامتی اور امن کا پیغام دیں۔ زمانے کے امام مسیح موعود اور مہدیٔ معہود جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق آیا اس پر کفر کے فتوے لگانے اور اس کے ماننے والوں پر ظلم و تعدی کرنے کی بجائے آج کے دن کی عید کو امن و سلامتی کے پیغام سے اور مسیح موعود کی بیعت میں آ کر حقیقی عید بنائیں۔ اگر یہ سوچ پیدا نہیں کریں گے تو لاکھ عیدیں منائیں وہ اسلام کی تعلیم کے مطابق منانے والی عیدیں نہیں ہیں۔ جتنے چاہیں حج کر لیں وہ اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے مخالف چلنے والوں کے حج ہیں۔ سوچیں اور غور کریں۔ جس طرح پرانے واقعات میں پہلوں کے حج ان کے ظلم و زیادتی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے حضور مقبول نہ ہونے کی روایات ملتی ہیں کہیں ہماری عبادتوں اور حج کے مناسک باوجود سب کوششوں کے صرف اس ظلم و زیادتی کی وجہ سے جو آجکل مسلمان کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے حضور مقبول ہونے سے رہ تو نہیں جائیں گے۔ سوچیں، غور کریں! کہیں کلمہ پڑھنے والے اور خدائے واحد اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے کو حج اور دوسری عبادات سے روکنا انہیں خدا تعالیٰ کی پکڑ میں لانے والا نہ بنا دے۔ اور اب تو
پاکستان میں باقاعدہ انتظامیہ کی طرف سے بھی بعض جگہ اعلان کیا گیا ہے کہ عید کے تین دن کوئی احمدی کسی جانور کو ذبح نہیں کر سکتا چاہے قربانی کے لیے ہو یا کسی بھی مقصد کے لیے ہو کیونکہ اگر احمدی قربانیاں کرتے ہیں تواس طرح اسلامی شعائر کی بے حرمتی ہوتی ہے۔ نعوذ باللہ۔
یہ قربانی صرف ان نام نہاد مسلمان علماء کا حق ہے، صرف ان لوگوں کا حق ہے جن پر یہ علماء مسلمان ہونے کی مہر ثبت کریں۔ ان لوگوں کے لیے اس مہر کی کوئی حقیقت نہیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک شخص کو مسلمان بنانے اور کہنے کی مہر ہے۔ بہرحال
جب ایسے حالات اپنےانتہا کو پہنچتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی لاٹھی بھی چلتی ہے اور پھر وہ ہر ایک سے چاہے وہ بڑا عالم ہے نام نہاد عالم یا سب سے بڑا لیڈر ہے یا کوئی بہت بڑا افسر ہے جو بھی ظلم و تعدی میں بڑھتا ہے اسے پیس کر رکھ دیتی ہے، اس کا قلع قمع کر دیتی ہے۔
ہم احمدی تو قربانی کرنے والے ہیں۔ ان عیدوں اور اپنی تاریخ سے ہم نے قربانیوں کے سبق سیکھے ہیں اور جان، مال، وقت اور عزت کو قربان کرنے کے ہم نے عہد بھی کیے ہیں لیکن
بعض کمزور طبع بھی ہوتے ہیں۔ ان احمدیوں سے بھی میں کہتا ہوں کہ صبر اور دعاؤں سے کام لیں۔ یقیناً یہ دعائیں ایک دن پھل لائیں گی ان شاء اللہ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت ہاجرہ علیہا السلام، حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانیاں بھی پھل لائی تھیں لیکن انہوں نے صبر اور دعا کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا تھا۔ پھر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے آنے والے عظیم رسول اور ان کے صحابہ کی قربانیاں بھی اپنے وقت پر رنگ لائیں اور اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے پورے فرمائے۔ پس
کیا آج وہ سچے وعدوں والا خدا ہمیں چھوڑ دے گا؟ یقینا ًنہیں۔ آج بھی وہ اپنے پر ایمان اور یقین رکھنے والوں اور مظلوموں کی مدد کو آئے گا۔
آج دشمن بےشک اپنی طاقت کے زعم میں ہم پر ظلم و زیادتی کر رہا ہے لیکن خدا تعالیٰ کے سامنے اس کی طاقت کی ذرہ بھر بھی حیثیت نہیں۔ پس ہمارا فرض ہے کہ پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکیں۔ اس کی عبادتوں کے معیار قائم کریں۔ اس کی مخلوق کے حقوق ادا کریں۔ اپنی قربانیوں کو صرف اور صرف خدا تعالیٰ کے حضور پیش کرنے کے لیے تیار رہیں۔ اپنے تقویٰ کے معیار بڑھائیں۔ حقیقت میں اس روح کو حاصل کرنے کی کوشش کریں جو اس عید کے منانے کی روح ہے اور جو اس عید پر قربانیاں کرنے کی روح ہے، تبھی ہم اپنے مخالفین کا مقابلہ کر سکتے ہیں، تبھی ہم اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کر سکتے ہیں اور جذب کرتے ہوئے ان وعدوں کو پورا ہوتے دیکھ سکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے فرمائے تھے۔ قربانیوں کے اس معیار کو حاصل کرنے کا طریق بتاتے ہوئے اور قربانی کا فلسفہ بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں: ’’خدا تعالیٰ نے شریعتِ اسلام میں بہت سے ضروری احکام کے لئے نمونے قائم کئے ہیں چنانچہ انسان کو یہ حکم ہے کہ وہ اپنی تمام قوتوں کے ساتھ اور اپنے تمام وجود کے ساتھ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان ہو۔‘‘ یہ ہے قربانی کا معیار، یہ ہے ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت۔ فرمایا ’’پس ظاہری قربانیاں اسی حالت کے لئے نمونہ ٹھہرائی گئی ہیں۔‘‘ یہ بھیڑ بکریوں کی جو قربانیاں ہیں یہ تو اصل قربانی کا ایک نمونہ ہیں ’’لیکن اصل غرض یہی قربانی ہے۔‘‘فرمایا اصل غرض یہی قربانی ہے ’’جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْ (الحج:38) یعنی خدا کو تمہاری قربانیوں کا گوشت نہیں پہنچتا اورنہ خون پہنچتا ہے ۔… یعنی اس سے اتنا ڈرو کہ گویا اس کی راہ میں مر ہی جاؤ اور جیسے تم اپنے ہاتھ سے قربانیاں ذبح کرتے ہو اسی طرح تم بھی خدا کی راہ میں ذبح ہو جا ؤ۔ جب کوئی تقویٰ اس درجہ سے کم ہے تو ابھی وہ ناقص ہے۔‘‘
(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد23 صفحہ99)
پس یہ ہے ہمارے سوچنے اور جائزے لینے کا مقام۔ بہت سے جلد باز بعض دفعہ لکھ دیتے ہیں کہ ہماری دعائیں اور ہماری قربانیاں قبول نہیں ہو رہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے وعدہ ہے اللہ تعالیٰ کبھی آپ کی جماعت کو نہیں چھوڑے گا اور دعائیں بھی قبول ہوں گی اور قربانیاں بھی قبول ہوں گی۔ ان شاء اللہ۔ لیکن ہم میں سے ہر ایک کو اپنے جائزے بھی لینے چاہئیں کہ کیا ہم نے اپنے تقویٰ کے معیار کو اس حد تک بڑھا لیا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے بیان فرمایا ہے۔ پس ہمیں کسی بھی قسم کی مایوسی اور بے چینی کی بجائے اللہ تعالیٰ کی طرف پہلے سے بڑھ کر جھکنا چاہیے اللہ تعالیٰ سے رحم بھی مانگنا چاہیے کہ جو بھی قربانیاں اور عبادتیں ہیں انہیں اللہ تعالیٰ اپنے رحم اور فضل سے قبول بھی فرمائے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام صدق اور وفاداری کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ
’’خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی راہ یہ ہے کہ اس کے لئے صدق دکھایا جائے۔
حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو قرب حاصل کیا تو اس کی وجہ یہی تھی۔ چنانچہ فرمایا ہے وَاِبْرٰهِيْمَ الَّذِيْ وَفّٰٓى (النجم:38) ابراہیمؑ وہ ابراہیمؑ ہے جس نے وفاداری دکھائی۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ وفا داری اور صدق اور اخلاص دکھانا ایک موت چاہتا ہے۔‘‘ فرمایا ’’جب تک انسان دنیا اور اس کی ساری لذتوں اور شوکتوں پر پانی پھیر دینے کو تیار نہ ہو جاوے اور ہر ذلت اور سختی اور تنگی خدا کے لئے گوارا کرنے کو تیار نہ ہو یہ صفت پیدا نہیں ہو سکتی۔‘‘ فرمایا ’’بت پرستی یہی نہیں کہ انسان کسی درخت یا پتھر کی پرستش کرے بلکہ ہرایک چیز جو اللہ تعالیٰ کے قرب سے روکتی اور اس پر مقدم ہوتی ہے وہ بت ہے۔‘‘ پس ہمیں جائزے لینے چاہئیں کہ کیا ہم اس چیز کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے نفسوں کا جائزہ لیتے ہیں، اس کی اصلاح کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟ پھر فرمایا ’’اور اس قدر بت انسان اپنے اندر رکھتا ہے کہ اس کو پتہ بھی نہیں لگتا کہ میں بت پرستی کر رہا ہوں۔ پس جب تک خالص خدا تعالیٰ ہی کے لئے نہیں ہو جاتا اور اس کی راہ میں ہر مصیبت کی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا صدق اور اخلاص کا رنگ پیدا ہونا مشکل ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کو جو یہ خطاب ملا یہ یونہی مل گیا تھا؟ نہیں۔ اِبْرٰهِيْمَ الَّذِيْ وَفّٰٓىکی آواز اس وقت آئی جبکہ وہ بیٹے کی قربانی کے لئے تیار ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ عمل کو چاہتا اور عمل ہی سے راضی ہوتا ہے اور عمل دکھ سے آتا ہے‘‘ فرمایا عمل دکھ سے آتا ہے ’’لیکن جب انسان خدا کے لئے دکھ اٹھانے کو تیار ہو جاوے تو خدا تعالیٰ اس کو دکھ میں بھی نہیں ڈالتا۔ دیکھو ابراہیم علیہ السلام نے جب اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کے لئے اپنے بیٹے کو قربان کر دینا چاہا اور پوری تیاری کر لی تو اللہ تعالیٰ نے اس کے بیٹے کو بچا لیا۔ وہ آگ میں ڈالے گئے‘‘ ابراہیم علیہ السلام ’’لیکن آگ ان پر کوئی اثر نہ کر سکی۔‘‘ فرمایا اگر کوئی ’’اللہ تعالیٰ کی راہ میں تکلیف اٹھانے کو تیار ہو جاوے تو خدا تعالیٰ تکالیف سے بچا لیتا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد4 صفحہ429-430)
پس اگر ہم صبر، دعا، صدق و وفا کے ساتھ اس کے در پر جھکے رہیں گے تو یقینا ً وہ دوڑتا ہوا ہماری طرف آئے گا اور دشمن جو اپنی طاقت کے زعم میں ہم پر ظلم روا رکھے ہوئے ہے اسے ملیا میٹ کر دے گا۔
پس اس عید پر ہمیں بھی اپنی قربانیوں، وفاؤں اور صدق اور تقویٰ کے معیاروں کے جائزے لینے چاہئیں۔ من حیث الجماعت جتنا زیادہ اپنے جائزے لینے اور اپنی حالتوں کو بہتر کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے اتنی جلدی اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت اور تائید کے نظارے بھی ہم دیکھیں گے۔ پس اس کے لیے بھی
آج خاص طور پر دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے صدق ووفا اور تقویٰ کے معیاروں کو بڑھائے اور ہم وہ بن جائیں جو وہ ہمارے سے توقع رکھتا ہے اور دعا کے ساتھ اپنے عمل بھی اس تعلیم کے مطابق کریں اور صرف علمی طور پر ہی نہیں بلکہ عملی طور پر بھی ہمارا ہر مرد، عورت اور بچہ قربانی کا وہ معیار حاصل کرنے والا ہو جو حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے قائم کیے تھے تبھی ہم اس بیعت کا حق ادا کرتے ہوئے اس کے فیض سے بھی حصہ پانے والے ہوں گے جو حقیقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے جڑنے والوں کو ملنا چاہیے۔
عید الاضحیٰ سے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس ارشاد کو بھی ہمیں ہمیشہ سامنے رکھنا چاہیے جس میں آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’یہ عید الضحیٰ پہلی عید سے بڑھ کر ہے اور عام لوگ بھی اس کو بڑی عید تو کہتے ہیں مگر سوچ کر بتلاؤ کہ عید کی وجہ سے کس قدر ہیں جو اپنے تزکیہ ٔنفس اور تصفیۂ قلب کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور روحانیت سے حصہ لیتے ہیں اور اس روشنی اور نور کو لینے کی کوشش کرتے ہیں جو اس ضحیٰ میں رکھا گیا ہے۔‘‘ فرمایا ’’…یہ عید جس کو بڑی عید کہتے ہیں ایک عظیم الشان حقیقت اپنے اندر رکھتی ہے اور جس پر افسوس کہ توجہ نہیں کی گئی۔‘‘
(ملفوظات جلد2صفحہ33)
پس ہمیں ہر وقت ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس زمانے میں اسلام کی نشأة ثانیہ کے لیے جس روشنی کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے بھیجا ہے اس سے فیض پانے کے لیے ہمیں اپنے جائزے لیتے رہنا چاہیے اور تزکیۂ نفس اور تزکیۂ قلب کرتے ہوئے یہ دیکھنا چاہیے کہ اسلام کی حقیقی تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کرنے کے ساتھ دنیا میں پھیلانے کے لیے بھرپور کوشش ہم کس حد تک کر رہے ہوں گے۔ اگر ہم یہ کر رہے ہوں گے تو ہماری قربانیاں بھی مقبول ہوں گی اور ہم ضحیٰ سے بھی فیض پا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔
عید الاضحیٰ کے حوالے سے ایک اور بات بھی میں مختصراً کہنا چاہتا ہوں جس کے بارے میں اکثر ملاقاتوں میں لوگ سوال کرتے ہیں۔ اب ورچوئل ملاقاتیں ہو رہی ہیں وہاں بھی، انفرادی طور پر بھی جو
واقفین نو کی تربیت کے بارے میں ہے کہ کس طرح کی جائے۔
اس بارے میں بے شمار جگہ مختلف موقعوں پر خطبات اور تقریروں میں مَیں بتا چکا ہوں لیکن مختصراً آج پھر اس طرف توجہ دلا دوں۔
یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل اور احسان ہے کہ حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی اس تحریک پر والدین نے لبیک کہا اور بڑی تعداد میں لڑکے اور لڑکیاں وقف کیں ۔ اب بھی کر رہے ہیں اور ان شاء اللہ کرتے بھی چلے جائیں گے۔ یہ نمونہ ان شاء اللہ اس وقت تک قائم رہے گا جب تک جماعت میں اخلاص و وفا کے نمونے قائم رہیں گے جب تک وَاِبْرٰهِيْمَ الَّذِيْ وَفّٰٓى کے ارشاد پر مخلصینِ جماعت کی نظر رہے گی، جب تک جماعت میں نظامِ خلافت قائم رہے گا اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق یہ تاقیامت قائم رہنا ہے تو اولاد کو وقف کرنے کا طریق بھی جاری رہے گا۔ ان شاء اللہ۔ لیکن
والدین کو جو اپنے بچوں کو دین کی خاطر وقف کرنے کے لیے پیش کر رہے ہیں یا کر چکے ہیں انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ وقف ایک قربانی چاہتا ہے اور اس قربانی کا معیار کیا ہے۔ یہ وہ معیار ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے پیش کیا۔
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیٹے سے کہا کہ میں نے تجھے خواب میں گلے پر چھری پھیرتے دیکھا ہے تو بیٹے سے پوچھا کہ اے اسماعیل! بتا تیرا کیا ارادہ ہے؟ تو بیٹے نے جس کی تربیت بزرگ اور تقویٰ میں بڑھے ہوئے ماں باپ نے کی تھی فوراً جواب دیا کہ اے میرے باپ! تُو اپنی رؤیا پوری کر، تُو مجھے ان شاءاللہ صبر کرنے والوں اور قربانی کرنے والوں میں سے پائے گا۔ پس وقف کرتے وقت والدین کی یہ سوچ ہونی چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کو وقف کے لیے پیش کر رہے ہیں تو ان کی تربیت بھی اسی نہج پر ہو اور ان کے لیے دعائیں بھی ہوں تا کہ ہمارے بچوں کا جواب بھی اسماعیل والا جواب ہو۔ والدین صرف دوسروں کی دیکھا دیکھی یا وقتی جوش کے تحت بچوں کو وقف نہ کریں۔ اپنے جائزے لیں کہ کیا ہم اس نہج پر بچوں کی اٹھان کر سکتے ہیں کہ ان کا جواب حضرت اسماعیل علیہ السلام والا جواب ہو۔ اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب والدین کے اپنے عملی نمونے نیکی اور تقویٰ کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والے ہوں ورنہ پھر بچے بڑے ہو کر کہتے ہیں کہ آپ نے ہمیں وقف کیا تھا۔ ہم اس کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہم تھوڑے سے الاؤنس میں جماعت کی خدمت کر کے گزارا نہیں کر سکتے۔ فلاں فلاں پابندی اس کے ساتھ ہم کام نہیں کرسکتے اس لیے ہم وقف نہیں کرتے۔
اگر وقف کرتے وقت ماں باپ کی نیت نیک بھی ہو لیکن بعد میں ان کی عملی اور روحانی حالت میں کمزوری ہو اور بچوں کی تربیت میں وہ اپنا کردار ادا نہ کر رہے ہوں تو بچے کبھی اس قربانی کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
پس اس لحاظ سے واقفین نو بچوں کے ماں باپ کو اورجو ماں باپ اپنے بچوں کو وقف کرنا چاہتے ہیں انہیں اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ کیا وہ اس معیار کو حاصل کرنے والے ہیں۔ اسی طرح جو بچے اب جوان ہو کر وقف میں آ گئے ہیں انہیں اگر فکر ہونی چاہیے تو یہ کہ ہم کس طرح اپنی وفا اور قربانی کے معیار کو بڑھائیں نہ یہ کہ ہم کس طرح اپنے گھر کا خرچہ چلائیں۔ اللہ تعالیٰ پر توکل کریں اور تقویٰ میں بڑھیں تو اللہ تعالیٰ خود ضروریات پوری فرما دیتا ہے۔
پس
واقفین نَو جو اس وقت جماعتی خدمت میں آ گئے ہیں انہیں بھی اپنے اندر اسماعیلی صفات پیدا کرنی ہوں گی تبھی اللہ تعالیٰ ان کے لیے ہمیشہ بھلائی اور بہتری کے راستے کھولتا رہے گا۔
اللہ تعالیٰ والدین کو بھی اپنا حق ادا کرنے کی توفیق دے اور وقف نو اولاد کو بھی اپنے وقف کی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے دین کی خاطر قربانیاں کرنے کی توفیق عطا فرماتا رہے۔ زیادہ پڑھ لکھ کر وہ دنیا میں ڈوب جانے والے نہ ہوں بلکہ دین کو ترجیح دیتے ہوئے، اپنے وقف کے عہد کو نبھاتے ہوئے وفا کے ساتھ اپنی خدمات پیش کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ انہیں توفیق دے۔
اب ہم دعا بھی کریں گے۔
دعا میں اسیران کو بھی یاد رکھیں جو حق کے اظہار کی وجہ سے جیلوں میں پڑے ہوئے ہیں، مسیح موعود کو ماننے کی وجہ سے جیلوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جلد ان کی رہائی کے سامان پیدا فرمائے اور ان کے بیوی بچوں کی بھی حفاظت فرمائے۔ ان میں صبر اور حوصلہ پیدا فرمائے۔ شہداء کے بچوں کے لیے بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کی بھی حفاظت فرمائے اور کبھی وہ ضائع نہ ہوں۔ تمام واقفین کے لیے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں خالص ہو کر دین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جو خدمت کر رہے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ بہترین اجر عطا فرمائے۔ ہر احمدی کے تقویٰ میں بڑھنے کے لیے بھی ہمیں دعا کرنی چاہیے، ایک دوسرے کے لیے اور ایک دوسرے کے لیے اللہ تعالیٰ سے وفا کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کے لیے بھی دعا کرنی چاہیے۔ ہر قسم کی قربانیاں کرنے والوں کے لیے دعا کریں۔ مالی قربانیاں کرنے والے بھی ہیں، وقت کی قربانیاں کرنے والے بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو بہترین جزا دے اور اب دعا کرتے ہیں۔ دعا سے پہلے میں سب کو
عید مبارک
بھی کہہ دوں۔ اللہ تعالیٰ عید ہر لحاظ سے سب کے لیے مبارک فرمائے اور ہم حقیقت میں اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہماری جو بھی معمولی قربانیاں یا کوششیں ہیں ان کو قبول فرمائے اور اپنی رضا کی راہوں پر ہمیں چلائے۔
٭٭خطبہ ثانیہ ۔ دعا٭٭