والدین کی خدمت ایک بڑا بھاری عمل ہے
والدین کی خدمت ایک بڑا بھاری عمل ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ دو آدمی بڑے بدقسمت ہیں۔ ایک وہ جس نے رمضان پایا اور رمضان گزر گیا پر اس کے گناہ نہ بخشے گئے اور دوسرا وہ جس نے والدین کو پایا اور والدین گزر گئے اور اس کے گناہ بخشے نہ گئے۔ والدین کے سایہ میں جب بچہ ہوتا ہے تو اس کے تمام ہم و غم والدین اٹھاتے ہیں۔ جب انسان خود دنیوی امور میں پڑتا ہے تب انسان کو والدین کی قدر معلوم ہوتی ہے۔ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں والدہ کو مقدم رکھا ہے، کیونکہ والدہ بچہ کے واسطے بہت دکھ اٹھاتی ہے۔ کیسی ہی متعدی بیماری بچہ کو ہو۔ چیچک ہو۔ ہیضہ ہو، طاعون ہو، ماں اس کو چھوڑنہیں سکتی۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ نمبر ۲۸۹، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
بٹالہ کے سفر کے دوران حضرت اقدس شیخ عبد الرحمان صاحب قادیانی سے ان کے والد صاحب کے حالات دریافت فرماتے رہے اور نصیحت فرمائی کہ ان کے حق میں دعا کیاکرو ہر طرح اور حتی الوسع والدین کی دلجوئی کرنی چاہیے اور ان کو پہلے سے ہزار چند زیادہ اخلاق اور اپنا پاکیزہ نمونہ دکھلا کر اسلام کی صداقت کا قائل کرو۔ اخلاقی نمونہ ایسا معجزہ ہے کہ جس کی دوسرے معجزے برابری نہیں کرسکتے سچے اسلام کا یہ معیار ہے کہ اس سے انسان اعلیٰ درجے کے اخلاق پر ہو جاتا ہے اور وہ ایک ممیز شخص ہوتا ہے شاید خداتعالیٰ تمہارے ذریعہ ان کے دل میں اسلام کی محبت ڈال دے۔ اسلام والدین کی خدمت سے نہیں روکتا۔ دنیوی امور جن سے دین کا حرج نہیں ہوتا ان کی ہر طرح سے پوری فرماںبرداری کرنی چاہئے۔ دل و جاں سے ان کی خدمت بجا لاؤ۔(ملفوظات جلد دوم صفحہ۴۹۲،ایڈیشن۱۹۸۸ء)