خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 08؍جولائی2022ء
سوال نمبر1:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے یہ خطبہ کہاں ارشاد فرمایا؟
جواب:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ خطبہ مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکےمیں ارشاد فرمایا۔
سوال نمبر2: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےخطبہ کے عنوان کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب:فرمایا:حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ کی مہمات کا جو باغیوں کے خلاف تھیں ذکرچل رہا ہے۔
سوال نمبر3:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت مہاجرؓ کے تعارف میں کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: آپؓ کا نام مُہَاجِربن ابو امیہؓ بن مغیرہ بن عبداللہ تھا۔ حضرت مُہَاجِربن ابوامیہ اُمّ المومنین حضرت اُمّ سلمہؓ کے بھائی تھے۔ آپؓ غزوۂ بدر میں مشرکین کی طرف سے شامل ہوئے اور اس دن آپؓ کے دو بھائی ہشام اور مسعود قتل ہوئے۔ آپؓ کا اصل نام ولید تھا جس کو نبی اکرم ﷺ نے تبدیل کر دیا تھا۔ایک روایت میں ہے کہ مُہَاجِر غزوۂ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے۔ جب رسول اللہ ﷺ اس غزوہ سے واپس تشریف لائے تو آپ ﷺ ان سے ناراض تھے۔ ایک روز حضرت اُمّ سلمہؓ آنحضورﷺ کا سر دھو رہی تھیں تو انہوں نے عرض کیا کہ مجھے کوئی بھی چیز کس طرح فائدہ پہنچا سکتی ہے جبکہ آپؐ میرے بھائی سے ناراض ہیں؟ جب حضرت اُمّ سلمہؓ نے آپ ﷺ میں کچھ نرمی اور شفقت کے آثار دیکھے تو انہوں نے اپنی خادمہ کو اشارہ کیا اور وہ مُہَاجِرکو بلا لائی۔ مُہَاجِر مسلسل اپنا عذر بیان کرتے رہے یہاں تک کہ رسول اللہﷺ نے ان کا عذر قبول فرما لیا اور ان سے راضی ہو گئے اور ان کو کِندَہ کا عامل مقرر فرما دیا مگر وہ بیمار ہو گئے اور وہاں نہ جا سکے تو انہوں نے زیاد کو لکھا کہ وہ ان کی خاطر ان کا کام بھی سرانجام دیں۔ پھر جب انہوں نے بعد میں شفا پائی تو حضرت ابوبکرؓنے ان کی امارت کے تقرر کو پورا کیا اور انہیں نجران سے لے کر یمن کے آخری حدود تک حاکم مقرر کیا اور قتال کا حکم دیا۔
سوال نمبر4:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے اسودعنسی کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:اَسْوَد عنسی یمن کے قبیلہ بنو عَنْس کا سردار تھا۔ سیاہ فام ہونے کی وجہ سے اَسْوَد کہلاتا تھا۔ایک روایت میں اس کا نام عَبْھَلَہ بن کَعْب کی بجائے عَیھَلَہ بن کَعب بن عَوف عنسی بیان ہوا ہے۔ اَسْوَد عنسی کا لقب ذُوالخِمَار تھا کیونکہ وہ ہر وقت کپڑا لپیٹے ہوئے رہتا تھا۔اور بعض کے نزدیک اس کا لقب ذُوالخُمار یعنی نشہ میں مست رہنے والا بھی ملتا ہے۔بعض روایت میں اس کا لقب ذُوالحِمَار بیان کیا جاتا ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اَسْوَد کے پاس ایک سدھایا ہوا گدھا تھا۔ یہ جب اس کو کہتا کہ اپنے مالک کو سجدہ کرو تو وہ سجدہ کرتا۔ بیٹھنے کو کہتا تو بیٹھ جاتا۔کھڑے ہونے کو کہتا تو کھڑا ہو جاتا۔بعض کے نزدیک اس کو ذُوالحِمَار اس لیے کہا جاتا تھا کہ وہ کہتا تھا کہ جو شخص مجھ پر ظاہر ہوتا ہے وہ گدھے پر سوار ہوتا ہے۔بہرحال لکھا ہے کہ اَسْوَد نے اپنا لقب رَحْمَانُ الیمَن رکھا جیسے مسیلمہ نے اپنا لقب رَحْمَانُ الَیمامَہ رکھا تھا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اس پر وحی آتی ہے اور اسے دشمنوں کے تمام منصوبوں کا علم قبل از وقت ہو جاتا ہے۔اَسْوَد شعبدہ باز تھا اور لوگوں کو عجیب و غریب شعبدے دکھاتا تھا۔بخاری کی روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس دوران کہ مَیں سویا ہوا تھا رؤیا میں مجھے زمین کے خزانے عطا کیے گئے اورمیرے ہاتھ میں دو سونے کے کڑے رکھے گئے تو مجھ پر گراں گزرا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے مجھے وحی کی کہ مَیں ان دونوں پر پھونک ماروں۔ مَیں نے ان پر پھونک ماری تو وہ غائب ہو گئے۔ مَیں نے اس سے مراد دو جھوٹے لیے جن کے درمیان مَیں ہوں۔ صنعاء والا اَسْوَد عنسی،یمامہ والا مسیلمہ کَذَّاب۔
سوال نمبر5: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےایرانی بادشاہ کسریٰ کو دعوت اسلام دینے،کسریٰ کی گستاخی اور اس کے انجام کی کیا تفصیل بیان فرمائی؟
جواب: فرمایا:اس کے بارے میں حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں کہ’’عبداللہ بن حُذَافہؓ کہتے ہیں کہ جب مَیں کسریٰ کے دربار میں پہنچا تو مَیں نے اندر آنے کی اجازت طلب کی جو دی گئی۔ جب مَیں نے بڑھ کر رسول اللہ ﷺکا خط کسریٰ کے ہاتھ میں دیا تو اس نے ترجمان کو پڑھ کر سنانے کا حکم دیا۔ جب ترجمان نے اس کا ترجمہ پڑھ کر سنایا تو کسریٰ نے غصہ سے خط پھاڑ دیا۔ جب عبداللہ بن حُذَافہ نے یہ خبر آکر رسول اللہ ﷺ کو سنائی تو آپؐ نے فرمایا۔کسریٰ نے جو کچھ ہمارے خط کے ساتھ کیاخدا تعالیٰ اس کی بادشاہت کے ساتھ بھی ایسا ہی کرے گا۔کسریٰ کی اس حرکت کا باعث یہ تھا کہ عرب کے یہودیوں نے ان یہودیوں کے ذریعہ سے جو روم کی حکومت سے بھاگ کرایران کی حکومت میں چلے گئے تھے اور بوجہ رومی حکومت کے خلاف سازشوں میں کسریٰ کا ساتھ دینے کے کسریٰ کے بہت منہ چڑھے ہوئے تھے،کسریٰ کو رسول اللہ ﷺ کے خلاف بہت بھڑکا رکھا تھا۔ جو شکایتیں وہ کر رہے تھے اس خط نے کسریٰ کے خیال میں ان کی تصدیق کر دی اور اس نے خیال کیا کہ یہ شخص میری حکومت پر نظر رکھتا ہے۔‘‘ یعنی آنحضرتﷺکسریٰ کی حکومت پر نظر رکھتے ہیں یہ اس کا خیال تھا۔’’چنانچہ اس خط کے معاً بعد کسریٰ نے اپنے یمن کے گورنر کو ایک چٹھی لکھی جس کا مضمون یہ تھا کہ قریش میں سے ایک شخص نبوت کا دعویٰ کر رہا ہے اور اپنے دعوؤں میں بہت بڑھتا چلا جاتا ہے۔ تُو فوراً اس کی طرف دو آدمی بھیج جو اس کو پکڑ کر میری خدمت میں حاضر کریں۔ اِس پر بَاذَان نے جو اس وقت کسریٰ کی طرف سے یمن کا گورنر تھا ایک فوجی افسر اور ایک سوار رسول اللہﷺکی طرف بھجوائے اور ایک خط بھی آپ کی طرف لکھا کہ آپ اس خط کے ملتے ہی فوراً اِن لوگوں کے ساتھ کسریٰ کے دربار میں حاضر ہو جائیں۔ وہ افسر پہلے مکہ کی طرف گیا۔ طائف کے قریب پہنچ کر اسے معلوم ہوا کہ آپ‘‘ﷺ ’’مدینہ میں رہتے ہیں۔ چنانچہ وہ وہاں سے مدینہ گیا۔ مدینہ پہنچ کر اس نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ کسریٰ نے بَاذَان گورنر یمن کو حکم دیا ہے کہ آپ کو پکڑ کر اس کی خدمت میں حاضر کیا جائے۔ اگر آپ اس حکم کا انکار کریں گے تو وہ آپ کو بھی ہلاک کرد ے گا اور آپ کی قوم کو بھی ہلاک کر دے گا اور آپ کے ملک کو برباد کر دے گا۔ اس لئے آپ ضرور ہمارے ساتھ چلیں۔ رسول کریم ﷺ نے اس کی بات سن کر فرمایا۔ اچھا کل پھر تم مجھ سے ملنا۔ رات کو آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اورخدائے ذوالجلال نے آپؐ کو خبر دی کہ کسریٰ کی گستاخی کی سزا میں ہم نے اس کے بیٹے کو اس پر مسلط کر دیا ہے۔چنانچہ وہ اسی سال جمادی الاولیٰ کی دسویں تاریخ پیر کے دن اس کو قتل کر دے گا اور بعض روایات میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا آج کی رات اس نے اسے قتل کر دیا ہے ممکن ہے وہ رات وہی دس جمادی الاولیٰ کی رات ہو۔ جب صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں کو بلایا اور ان کو اس پیشگوئی کی خبر دی۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے بَاذَان کی طرف خط لکھا کہ خد اتعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ کسریٰ فلاں تاریخ فلاں مہینے قتل کر دیا جائے گا۔ جب یہ خط یمن کے گورنر کو پہنچا تو اس نے کہا اگر یہ سچا نبی ہے تو ایسا ہی ہو جائے گا ورنہ اس کی اور اس کے ملک کی خیر نہیں۔ تھوڑے ہی عرصہ کے بعد ایران کا ایک جہاز یمن کی بندر گاہ پر آکر ٹھہرا اور گورنر کو ایران کے بادشاہ کا ایک خط دیا جس کی مہر کو دیکھتے ہوئے یمن کے گورنر نے کہا۔ مدینہ کے نبی نے سچ کہا تھا۔ ایران کی بادشاہت بدل گئی اور اس خط پر ایک اَور بادشاہ کی مہر ہے۔ جب اس نے خط کھولا تو اس میں یہ لکھا ہوا تھا کہ بَاذَان گورنر یمن کی طرف ایران کے کسریٰ شِیرَوَیہ کی طرف سے یہ خط لکھا جاتا ہے۔ مَیں نے اپنے باپ سابق کسریٰ کو قتل کر دیا ہے اس لئے کہ اس نے ملک میں خونریزی کا دروازہ کھول دیا تھا اور ملک کے شرفا کو قتل کرتا تھا اور رعایا پر ظلم کرتا تھا۔ جب میرا یہ خط تم تک پہنچے تو فوراً تمام افسروں سے میری اطاعت کا اقرار لو اور اس سے پہلے میرے باپ نے جو عرب کے ایک نبی کی گرفتاری کا حکم تم کو بھجوایا تھا اس کو منسوخ سمجھو۔ یہ خط پڑھ کر بَاذَان اتنا متاثر ہوا کہ اسی وقت وہ اور اس کے کئی ساتھی اسلام لے آئے اور اس نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے اسلام کی اطلاع دے دی۔
سوال نمبر6: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےاسود عنسی کے قتل کے واقعہ کی کیا تفصیل بیان فرمائی؟
جواب: فرمایا:اَسْوَد عنسی نے پہلے اہلِ نجران پر حملہ کر کے حضرت عَمرو بن حَزْمؓ اور حضرت خالد بن سعیدؓ کو وہاں سے نکال دیا۔ اس کے بعد اس نے صَنْعَاء پر چڑھائی کی۔ وہاں حضرت شَھْر بن بَاذَانؓ نے اس کا مقابلہ کیا لیکن وہ شہید ہو گئے۔ حضرت معاذ بن جبلؓ ان دنوں صنعاء میں ہی تھے مگر اس صورتحال کے پیش نظر حضرت ابوموسیٰؓ کے پاس مَآرِب چلے گئے جہاں سے وہ دونوں حَضْرَمَوت چلے گئے۔ اس طرح اَسْوَد عنسی یمن کے تمام علاقے پر قابض ہو گیا۔اَسْوَد عنسی نے حضرت شَھْرِ بن بَاذَانؓ کی شہادت کے بعد ان کی بیوی سے زبردستی شادی بھی کر لی تھی جس کا نام ’’مَرزُبَانَہ‘‘یا بعض کتب کے مطابق ’’آزاد‘‘تھا۔ اسی اثناء میں حَضْرَمَوت اور یمن کے مسلمانوں کی طرف رسول اللہ ﷺ کا خط پہنچا جس میں ان کو اَسْوَد عنسی کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ جِشْنَسْ دَیلَمِی کہتے ہیں کہ وَبَرْ بن یحَنِّسْرسول اللہ ﷺ کا خط لے کر ہمارے پاس آئے… وَبْرَہ بن یحَنِّسْبیان کرتے ہیں کہ اس خط میں آپ ﷺ نے ہمیں حکم دیا تھا کہ ہم اپنے دین پر قائم رہیں اور لڑائی یا حیلے سے اَسْوَد کے خلاف جنگی کارروائی کریں نیز ہم آپ ﷺ کے پیغام کو ان لوگوں کو بھی پہنچائیں جو اس وقت اسلام پر راسخ ہوں اور دین کی حمایت کے لیے آمادہ ہوں۔جِشْنَسْ دَیلَمِی بیان کرتے ہیں کہ ہمیں ایک بات معلوم ہوئی کہ اَسْوَد اور قَیس بن عَبْدِ یغُوْث کے درمیان کچھ پرخاش پیدا ہو چکی ہے۔ آپس میں پھوٹ پڑ گئی ہے یا کم از کم کچھ رنجشیں پیدا ہو گئی ہیں لہٰذا ہم نے سوچا کہ قَیس کو اپنی جان کا خطرہ ہے…..جِشْنَسْ دَیلَمِیکہتے ہیں کہ ہم نے قَیس کو اسلام کی دعوت دی اور اس کو آنحضرت ﷺ کا پیغام پہنچایا تو اسے ایسا محسوس ہوا کہ گویا ہم آسمان سے اترے ہیں۔ اس لیے اس نے فوراً ہماری بات مان لی اور اسی طرح ہم نے دوسرے لوگوں کے ساتھ بھی خط و کتابت کی۔ مختلف قبائلی سردار بھی اَسْوَد کے مقابلے کے لیے تیار ہو چکے تھے۔ انہوں نے ہم سے خط کے ذریعہ مدد کا وعدہ کیا۔ہم نے جواب میں لکھا کہ جب تک ہم آخری فیصلہ کر کے ان کو جواب نہ دیں وہ اپنی جگہ سے حرکت نہ کریں کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے پیغام کے موصول ہونے کی وجہ سے اَسْوَد کے خلاف کارروائی کرنا ضروری ہو گیا تھا۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے نجران کے تمام باشندوں کو اَسْوَد کے معاملہ کے متعلق لکھا تھا۔انہوں نے آپ کی بات مان لی۔ جب یہ اطلاع اَسْوَد تک پہنچی تو اسے اپنی ہلاکت نظر آنے لگی۔ جِشْنَسْ دَیلَمِی کہتے ہیں کہ مجھے ایک ترکیب سوجھی۔ مَیں اَسْوَد کی بیوی آزاد کے پاس گیا جو شَہْرِ بن بَاذَان کی بیوہ تھی اور اس سے اَسْوَد نے شَھْرِ بنِ بَاذَان کو قتل کرنے کے بعد شادی کر لی تھی۔ میں نے اسے اَسْوَد کے ہاتھوں اس کے پہلے خاوند حضرت شَھْرِ بنِ بَاذَان کی شہادت، اس کے خاندان کے دیگر افراد کی ہلاکت اور خاندان کو پہنچنے والی ذلت اور مظالم یاد دلائے اور اسے اَسْوَد کے خلاف اپنی مدد کے لیے کہا تو وہ بڑی خوشی سے تیار ہو گئی اور اس نے کہا کہ بخدا! مَیں اَسْوَد کو اللہ کی تمام مخلوق میں سب سے بُرا سمجھتی ہوں۔ یہ اللہ کے کسی حق کا احترام نہیں کرتا اور نہ اللہ کی کسی حرام کردہ شے سے اجتناب کرتا ہے۔ پس جب تمہارا ارادہ ہو مجھے مطلع کرنا۔ مَیں اس معاملہ کی تدبیر کروں گی اور آخر کار ایک مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ اَسْوَد عنسی کی اسی بیوی کی تائید کے ساتھ اَسْوَد عنسی کو ایک رات اس کے محل میں داخل ہو کر قتل کر دیا گیا اور جب صبح ہوئی تو قلعہ کی دیوار پر کھڑے ہو کر اس امتیازی نشان کے ساتھ آواز لگائی گئی کہ مرتد باغی اَسْوَد اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے تو مسلمان اور کافر قلعہ کے ارد گرد جمع ہو گئے۔ پھر انہوں نے صبح کی اذان دی اور کہا اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ۔ یعنی مَیں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اَسْوَد عنسی جھوٹا ہے پھر اس کا سر ان لوگوں کے سامنے پھینک دیا۔ اس طرح یہ فتنہ تین ماہ تک اور ایک قول کے مطابق چار ماہ کے قریب بھڑک کر ٹھنڈا ہو گیا اور تمام عُمال اور امراء وغیرہ اپنے اپنے علاقوں میں حسبِ معمول مصروف عمل ہو گئے اور حضرت معاذ بن جبل ان لوگوں کی امامت کراتے تھے۔ اَسْوَد عنسی کے قتل، اس کی فوج کی شکست اور اس کے فتنے کے اختتام کی خبر آنحضرتﷺ کو جب بھیجی گئی تو اس سے پہلے آپؐ کا وصال ہو چکا تھا۔
سوال نمبر7: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےعمروبن معدی کرب اور قیس بن عبد یغوث کی بغاوت اور حضرت ابوبکرؓ کے حسن سلوک کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: عَمرو بن مَعْدِی کَرِب نے اپنی بہادری اور طاقت کے زعم میں اسلامی حکومت کے خلاف بغاوت کر دی تھی اور قَیس بن عَبْدِ یغُوْث کو بھی ساتھ ملا لیا تھا۔یہ دونوں ہر قبیلے میں جاتے اور انہیں مسلمانوں کے خلاف بھڑکا کر عَلم بغاوت بلند کرنے پر آمادہ کرتے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سوائے نجران کے عیسائی باشندوں کے جنہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عہدِمَوَدَّتْ باندھا تھا اور حضرت ابوبکرؓ کے عہد میں بھی اپنے معاہدے پر بدستور قائم رہے، باقی تمام قبائل نے عَمرو بن مَعْدِی کَرِب کا ساتھ دیا اور مسلمانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ خدا کی قدرت کہ اہلِ یمن کو جب حضرت مُہَاجِرؓ کے ایک بڑے لشکر کے ساتھ یمن کی طرف آمد کی اطلاعیں ملنی شروع ہوئیں تو اہلِ یمن شش و پنج میں مبتلا ہو گئے کہ وہ حضرت مُہَاجِرؓ کے لشکر کا سامنا کرنے کی تاب نہیں لا سکیں گے! یہ لوگ ابھی اسی کیفیت میں تھے کہ ان کے سرداروں قَیس اور عَمرو بن مَعْدِی کَرِب میں پھوٹ پڑ گئی اور اس کے باوجود کہ انہوں نے حضرت مُہَاجِرؓ سے مقابلہ کرنے کا عہد کیا تھا وہ دونوں ایک دوسرے کو زک پہنچانے کی کوشش میں مصروف ہو گئے اور آخر عَمرو بن مَعْدِی کَرِب نے مسلمانوں کے ساتھ مل جانے کا فیصلہ کیا اور ایک رات اس نے اپنے آدمیوں کے ساتھ قَیس کی رہائش گاہ پر حملہ کیا اور اسے گرفتار کر کے حضرت مُہَاجِرؓ کے سامنے پیش کر دیا لیکن حضرت مُہَاجِرؓ نے صرف قَیس کو ہی گرفتار کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ساتھ ہی عَمرو بن مَعْدِی کَرِب کو بھی قید کر لیا اور ان دونوں کے حالات حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں لکھے اور ان دونوں کو حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں بھیج دیا۔قَیس اور عَمرو بن مَعْدِی کَرِب حضرت ابوبکرؓ کے پاس لائے گئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے قَیس سے فرمایا:کیا تم اللہ کے بندوں پر ظلم و زیادتی کرتے ہوئے انہیں قتل کرتے رہے ہو اور تم نے مومنین کو چھوڑ کر مشرکوں اور مرتد باغیوں کو دوست بنا لیا ہے۔ اگر اس کا کوئی واضح جرم مل جاتا تو حضرت ابوبکرؓ نے اسے قتل کرنے کا ارادہ کر لیا تھا۔قَیس نے دَاذُوَیہ کے قتل کی سازش اور اس میں شرکت سے صاف انکار کر دیا اور یہ ایسا عمل تھا کہ جو خفیہ طور پر سرانجام دیا گیا تھا اور اس بارے میں قَیس کے خلاف کوئی واضح ثبوت نہ مل سکا۔ لہٰذا حضرت ابوبکرؓنے اسے چونکہ ثبوت کوئی نہیں تھا قتل کرنے سے اعراض کیا اور اس کو چھوڑ دیا۔ پھر دوسرے کی باری آئی اور حضرت ابوبکرؓ نے عَمرو بن مَعْدِی کَرِب سے کہا کہ تمہیں رسوائی محسوس نہیں ہوتی کہ ہر روز تم شکست کھاتے ہو یا تمہارے گرد گھیرا تنگ ہو جاتا ہے۔ اگر تم اس دین کی مدد کرو تو اللہ تم کو بلند مراتب سے نوازے گا۔ پھر آپ ؓ نے اسے بھی آزا د کر دیا اور ان دونوں یعنی عمرو اور قَیس کو ان کے قبائل کے سپرد کر دیا۔ عمرو نے کہا یقیناً مَیں اب امیر المومنین کی نصیحت کو ضرور قبول کروں گا اور ہرگز یہ غلطی دوبارہ نہیں کروں گا۔چونکہ واضح ثبوت نہیں تھے تو دونوں کو ان کی سرداری کی وجہ سے اور ان کے علم کی وجہ سے معاف کر دیا۔
سوال نمبر8:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت ابوبکرؓ کی بصیرت اور دوراندیشی کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:حضرت ابوبکرؓ کے متعلق ایک سیرت نگار نے لکھا ہے کہ ابوبکر بڑے دُور اندیش، گہری بصیرت کے مالک اور انجام کار پر نگاہ رکھتے تھے۔جہاں سختی کی ضرورت ہوتی سختی کرتے۔جہاں عفو و درگزر کی ضرورت ہوتی عفو و درگزر سے کام لیتے۔آپؓ قبائل کے بکھرے ہوئے لوگوں کو اسلام کے پرچم تلے جمع کرنے کے حریص اور شوقین تھے۔ آپؓ کی حکیمانہ سیاست یہ تھی کہ مخالف زعمائے قبائل کو حق کی طرف لوٹ آنے کے بعد درگزر کر دیا جائے۔ جس وقت آپؓ نے یمن کے مرتد قبائل کو تابع کیا انہیں اسلامی سلطنت کے سطوت و غلبہ اور مسلمانوں کی عزت و فتح مندی کی قوت اور ان کی عزیمت کی پیش قدمی کا مشاہدہ کرایا تو قبائل نے اعتراف کر لیا اور اسلامی حکومت کے تابع ہو گئے اور خلیفۂ رسول کی اطاعت قبول کر لی۔ ابوبکرؓ نے یہ مناسب سمجھا کہ ان زعمائے قبائل کے ساتھ تالیف کی جائے اور سختی کی بجائے نرمی اور رفق کا برتاؤ کیاجائے۔ چنانچہ ان سے سزائیں اٹھا لیں۔ ان سے نرم گفتگو کی اور قبائل کے اندر ان کے نفوذ و اثر کو اسلام اور مسلمانوں کی بھلائی کے لیے استعمال کیا۔ آپؓ نے ان کی لغزشوں کو معاف کیا۔ ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے۔ قَیس بن عَبْدِ یغُوْث اور عَمرو بن مَعْدِی کَرِب کے ساتھ یہی برتاؤ کیا۔ یہ دونوں عرب کے بہادروں اور عقلمندوں میں سے تھے۔ ان کو ضائع کرنا ابوبکر کو اچھا نہ لگا۔ آپؓ نے اس بات کی کوشش کی کہ انہیں اسلام کے لیے خالص کر لیں اور اسلام اور ارتداد کے درمیان تردد سے ان کو نکال باہر کریں۔ ابوبکر نے عَمرو بن مَعْدِی کَرِب کو رہا کر دیا۔ پھر اس دن کے بعد عمرو کبھی مرتد نہ ہوا بلکہ اسلام قبول کیا اور اچھی طرح مسلم بن کر زندگی گزاری۔ اللہ نے اس کی مدد کی اور اس نے اسلامی فتوحات میں اہم کردار ادا کیا۔ قَیس بھی اپنے کیے پر نادم ہوا۔ ابوبکرؓ نے اسے بھی معاف کر دیا۔ عرب کے ان دونوں سورماؤں کو معاف کر دینے سے بڑے دُوررس اثرات مرتب ہوئے۔ ابوبکرؓ نے اس طرح ان لوگوں کے دلوں کو جوڑا جو ارتداد کے بعد خوف یالالچ میں اسلام کی طرف واپس ہوئے اور آپ نے اَشْعَثْ بن قَیس کو معاف کر دیا۔ اس طرح صدیق ؓ نے ان کے دلوں کو اسیر کیا اور ان کے دلوں کے مالک بن بیٹھے اور مستقبل میں یہ لوگ اسلام کی نصرت اور مسلمانوں کی قوت کا ذریعہ بنے۔یعنی کوئی زبردستی نہیں تھی بلکہ دل سے انہوں نے اسلام قبول کیا اور حضرت ابوبکرؓ کی اطاعت کی۔