دست بکار و دل بیار
جو اللہ تعالیٰ کے عشق میں فنا شدہ ہوتے ہیں انہوں نے گنتی نہیں کی اور نہ اس کی ضرورت سمجھی۔ اہل حق تو ہر وقت خدا کو یاد کرتے رہتے ہیں(حضرت مسیح موعودؑ)
ارشاد باری تعالیٰ
تُسَبِّحُ لَہُ السَّمٰوٰتُ السَّبۡعُ وَالۡاَرۡضُ وَمَنۡ فِیۡہِنَّ وَاِنۡ مِّنۡ شَیۡءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمۡدِہٖ وَلٰکِنۡ لَّا تَفۡقَہُوۡنَ تَسۡبِیۡحَہُمۡ۔ (بنی اسرائیل :45) ترجمہ: اللہ ہی کی تسبیح کرتے ہیں سات آسمان اور زمین اور جو کچھ بھی ان میں ہے اور فی الحقیقت کوئی بھی ایسی چیز نہیں جو خدا تعالیٰ کی تسبیح نہ کر رہی ہو لیکن تم لوگ ان تسبیحوں کو سمجھتے نہیں۔
فرمانِ رسول
حضور نبی اکرم ﷺ نے ایک موقع پر صحابہؓ سے فرمایا: کیا میں تمہارے سب سے بہتر اور تمہارے رب کے نزدیک سب سے پاکیزہ اور سب سے بلند درجے والے کام کی تمہیں خبر دوں؟وہ کام تمہارے لیے سونا چاندی خرچ کرنے سے بہتر ہے وہ کام تمہارے لیے اس سے بہتر ہے کہ تم (میدان جنگ میں) اپنے دشمن سے ٹکراؤ، وہ تمہاری گردنیں کاٹے،اور تم ان کی۔صحابہؓ نے عرض کیا جی ہاں (یارسول اللہ ﷺ ضرور بتائیے) آپ ﷺ نے فرمایا: وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے۔(سنن الترمذی کتاب الدعوات عن رسول اللہ)
کیا کوئی محبوب کانام گن کر لیا کرتا ہے
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’انبیاءعلیہم السلام اور کاملین لوگ جن کو اللہ تعالیٰ کی محبت کا ذوق ہوتاہے اور جو اللہ تعالیٰ کے عشق میں فنا شدہ ہوتے ہیں انہوں نے گنتی نہیں کی اور نہ اس کی ضرورت سمجھی۔ اہل حق تو ہر وقت خدا کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ان کےلئے گنتی کا سوال اور خیال ہی بیہودہ ہے۔کیا کوئی اپنے محبوب کا نام گِن کر لیا کرتا ہے ؟ …. ایک عورت کا قصّہ مشہور ہے کہ وہ کسی پر عاشق تھی۔ اس نے ایک فقیر کو دیکھا کہ وہ تسبیح ہاتھ میں لیے ہوئے پھیر رہا ہے۔ اس عورت نے اس سے پوچھا کہ تو کیا کر رہا ہے اس نے کہا کہ میں اپنے یار کو یاد کرتا ہوں۔ عورت نے کہا کہ یار کو یاد کرنا اور پھر گِن گِن کر؟درحقیقت یہ بات بالکل سچی ہے کہ یار کو یاد کرنا ہو تو پھر گن گن کر کیا یاد کرنا ہے اور اصل بات یہی ہے کہ جب تک ذکر الٰہی کثرت سے نہ ہو وہ لذت اور ذوق جو اس ذکر میں رکھا ہے حاصل نہیں ہوتا۔‘‘(ملفوظات جلد چہارم صفحہ13-14 ایڈیشن1988ء)
فرمایا:ذکرِ الٰہی سے مراد یہ نہیں کہ تسبیح پکڑ لے بلکہ ذکر سے مراد یہ ہے کہ ہر ایک کام شروع کرتے وقت اس کو اس بات کا دھیان ہو کہ آیا یہ کام خدا تعالیٰ کی مرضی کے خلاف تو نہیں۔جب اس طرح انسان کامل بن جاتا ہے تو خدا اس کا بن جاتاہے اور حسب ولی ُّالمومنین اس کوہر موقعہ پر غموم وہموم سے بچا تاہے۔‘‘(ملفوظات جلد چہارم صفحہ461 ایڈیشن 1988ء)
ذکر کی مجالس
حضرت ابو ہریرہ ؓبیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ کے کچھ بزرگ فرشتے گھومتے رہتے ہیں او ر اُنہیں ذکر کی مجالس کی تلاش رہتی ہے ،جب وہ کوئی ایسی مجلس پاتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہو رہا ہو تو وہاں بیٹھ جاتے ہیں اور پروں سے اس کوڈھانپ لیتے ہیں ،ساری فضا ان کے اس سایہ برکت سے معمور ہو جاتی ہے جب لو گ اس مجلس سے اٹھ جاتے ہیں تو وہ بھی آسمان کی طرف چڑھ جاتے ہیں۔وہاں اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے حالانکہ وہ سب کچھ جانتا ہے ،کہاں سے آئے ہو ؟ وہ جواب دیتے ہیں ،ہم تیرے بندوں کے پاس سے آئے ہیں جو تیری تسبیح کر رہے تھے ،تیری بڑائی بیان کر رہے تھے ،تیری عبادت میں مصروف تھے اور تیری حمد میں رطب اللسان تھے اور تجھ سے دعائیں مانگ رہے تھے۔اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ مجھ سے کیا مانگتے ہیں؟ اس پر فرشتے عرض کرتے ہیں کہ وہ تجھ سے تیری جنت مانگتے ہیں۔اللہ تعالیٰ اِس پر کہتا ہے ،کیا انہوں نے میری جنت دیکھی ہے؟ فرشتے کہتے ہیں ، نہیں اے میرے ربّ اُنہوں نے تیری جنت دیکھی تو نہیں۔اللہ تعالیٰ کہتا ہے اُن کی کیا کیفیت ہو گی اگر میری جنت کو دیکھ لیں۔ پھر فرشتے کہتے ہیں ،وہ تیری پناہ چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس پر کہتا ہے وہ کس چیز سے میری پناہ چاہتے ہیں ؟ فرشتے اِس پر کہتے ہیں ،تیری آگ سے وہ پناہ چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے ، کیاانہوں نے میری آگ دیکھی ہے ؟ فرشتے کہتے ہیں ، دیکھی تو نہیں۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے ان کا کیا حال ہوتا اگر وہ میری آگ کودیکھ لیں۔پھر فرشتے کہتے ہیں ،وہ تیری بخشش طلب کرتے ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ کہتا ہے ،میں نے انہیں بخش دیااور انہیں وہ سب کچھ دیا جو انہوں نے مجھ سے مانگا ، اور میں نے ان کو پناہ دی جس سے انہوں نے میری پناہ طلب کی۔اس پر فرشتے کہتے ہیں ، اے ہمارے ربّ! ان میں فلاں غلط کار شخص بھی تھا ،وہ وہاں سے گزر رہا تھا اوران کوذکر کرتے ہوئے دیکھ کر تماش بین کے طور پر ان میں بیٹھ گیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ،میں نے اس کو بھی بخش دیا کیونکہ یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کے پاس بیٹھنے والا بھی محروم اور بدبخت نہیں رہتا۔ (مسلم کتاب الذکر باب فضل مجالس الذکر)
جانور توخدا کا ذکر کریں اورمیں سو رہوں
حضرت شیخ سعدی ؒ فر ماتے ہیں کہ میں ایک قافلہ کے ساتھ سفر کر رہا تھا۔ صحرا میں سفر کرنے والے قافلوں کی روایت کے مطابق ہمارا کارواں ساری رات سفر کرتا رہا اور صبح کے آثار ظاہر ہوئے تو آرام کے لیے مناسب مقام پرپڑاؤ کیا۔سب مسافر سونے کی تیاری کرنے لگے لیکن ایک شخص نے اچانک نعرہ مارا اور تیزی سے صحرا کی طرف روانہ ہوگیا۔دن چڑھے وہ واپس آیا تو میں نے پو چھا کہ میاں !یہ تیرا کیا حال ہوا؟مجھے تو تیری حرکت بہت ہی عجیب لگی۔اس شخص نے جواب دیا تم نے نہیں دیکھا کہ سپیدہ صبح نمودار ہوتے ہی چرند پرند خدا کی حمدوثنامیں نغمہ سرا ہوگئے بلبلیں باغوںمیں ،چکورپہاڑوں پر،مینڈک پانی میں اور چوپائے جنگل میں شور کررہے ہیں۔ پس مجھے یہ بات مروت سے بعید معلوم ہوئی کہ جانور تو خدا کی یاد میں مشغول ہوں اور میں پڑا سورہوں۔(حکایات گلستا ن سعدی)
دنیا کے کام کرتے ہوئے بھی ذکرِ الٰہی کر سکتے ہیں
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’میں کالج میں پرنسپل تھا تو جب امتحان کے پرچے بھجوائے جاتے تھے تو کئی سودستخط کرنے ہوتے تھے اچھے پندرہ بیس منٹ لگ جاتے تھے ایک کلرک تیز کام کرنے کے لئے پاس کھڑا ہوا ورقے الٹتا تھا مجھے خیال آیا میں نے اسے کہا کہ دیکھو میں ساتھ ساتھ تحمید اور تسبیح بھی کرتا ہوں جو آسانی سے سو، ڈیڑھ سو دفعہ ہو جاتی ہے۔ دستخط بھی کرتا جاتا ہوں۔ دستخط کرتے وقت سبحان اللہ کہنا دستخط کرنے میں روک تو نہیں وہ تو مسل (Muscle) کی عادت ہے کرتا ہےبڑی تیزی سے۔ میں اپنے دستخط کرتا ہوں تو تم بھی ذکر کرو، تم اپنا وقت کیوں ضائع کر رہے ہو تم ورقے الٹا رہے ہو ساتھ تسبیح و تحمید پڑھو۔ اب مجھے تعداد یاد نہیں لیکن جس وقت دستخط ختم ہوگئے تو وہ کلرک مجھے کہنے لگا کہ آپ نے تو عجیب نسخہ بتایا میں اتنی دفعہ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمپڑھ چکا ہوں اور وہ بڑا خوش اور ایکسائیٹڈ (Excited) تھا کہ اس وقت اس پہ کوئی دھیلہ خرچ نہیں آتا۔ ایک منٹ آپ کی زندگی کا زائد خرچ نہیں ہوتا۔ دنیا کا کوئی کام ایسا نہیں کہ اگر آپ خداتعالیٰ کو وہ کام کرتے ہوئے یاد رکھیں تو اس کام میں نقص پیدا ہو جائے۔ ہے ہی کوئی نہیں۔ صرف عادت کی بات ہے۔ عادت ڈالیں اور اللہ تعالیٰ کے زیادہ سے زیادہ پیار کو حاصل کریں۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 12؍اکتوبر1979مطبوعہ خطبات ناصر جلد 8صفحہ401)
ساری کائنات خدا کی حمد کرتی ہے
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ساری کائنات بھری ہوئی ہے خدا کی حمد اور تسبیح کرنے والوں سے …. ہواؤں میں بھی ہیں،خشکی کے اوپر بھی ،زمین پر چلنے والوں میں بھی اور سمندر کی گہرائیوں تک بھی ہیں اور دن رات وہ جلوہ افروزیاں ہو رہی ہیں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 7؍دسمبر1990ء مطبوعہ خطبات طاہر جلد9صفحہ743)
فرمایا:’’ایک دفعہ سان فرانسسکو میں بعض لوگوں نے جو بہت بڑے بڑے امیر تھے انہوں نے فیصلہ کیا کہ ہم ہاؤس بوٹ میں رہا کریں زیادہ مزا آئے گا یعنی جس طرح کشمیر میں رواج ہے کہ ڈھل جھیل میں کشتیوں کے گھر بنے ہوئے ہوتے ہیں اس کو ہاؤس بوٹ(House Boat) کہتے ہیں۔انہوں نے بہت عظیم الشان عیاشی کے تمام سامانوں سے مرصع کر کے ایسے کشتیوں کے گھر بنائے اور ان میں رہنے لگے۔ان کو چین نصیب نہ ہوا کیونکہ ساری رات اتنی خوفناک آوازیں آتی تھیں کہ دل دہل جاتے تھے۔اور آوازوں کی قسمیں ایسی تھیں جس سے وہ سمجھتے تھے کہ شاید بجلی والوں نے جو کیبلز بچھائی ہیں ان سے مقناطیسی لہریں اٹھتی ہیں جو بعض دفعہ دوسروں سے ٹکرا کر یہ آواز پیدا کرتی ہیں، بعضوں کا خیال تھا کہ سیورج والوں نے اس طریق پر گندا پانی قریب سے گزارا ہے کہ اس سے یہ گونج پیدا ہو رہی ہے۔چنانچہ مختلف مقدمے بن گئے،کوئی بجلی کی کمپنی پہ بن گیا،کوئی کمیٹی پہ بن گیاکہ تم نے سیورج غلط طریقے سے گزارا ہے اس سے ہماری نیند حرام ہو گئی ہے۔یہ ابھی مقدمے چل ہی رہے تھے کہ ایک سائنسدان نے تحقیق کی اور اس کی وجہ معلوم کر لی۔اس علاقے میں ایک خاص قسم کی مچھلی پائی جاتی ہے جو سارا دن خاموش رہتی ہے اور ساری رات آوازیں نکالتی ہے اور ان آوازوں کے ذریعے مچھلیاں ایک دوسرے کو رات کو پیغام دے رہی ہوتی ہیں کہ ہم یہاں ہیں یہاں آجاؤ۔ چنانچہ اس نے اسی قسم کی آواز ریکارڈ کی یعنی خود بنا کر اور سمندر کے اندر ایک لاؤڈ سپیکر جس پر پانی اثر نہیں کرتا تھا وہ لٹکایا اور کیمرے مقرر کئے جو اس کی تصویریں کھینچیں۔ جب وہ وہی آواز نکالتا تھا تو اس لاؤڈ سپیکر کے گرد بڑی تیزی کے ساتھ وہ مچھلیاں حملہ کرکے آتی تھیں اور اس وقت پتہ چلا کہ یہ ہیں آواز نکالنے والی مچھلیاں۔‘‘(خطبات طاہر جلد9صفحہ739-740)
یہ دعا ہمیشہ کرنی چاہیے
حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرماتے ہیں:’’صرف ظاہری تسبیح پھیرنا ذکرِ الٰہی پر دلالت نہیں کرتا بلکہ دل و دماغ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں ، فضلوں کی سمت کو سامنے رکھ کر اس طرح اللہ کو یاد کرے کہ تقویٰ پیدا ہو …یہ دعا ہمیشہ کرنی چاہئے کہ اے اللہ !ہم ہمیشہ تیرے عبادت گزار اور ذکر کرنے والے رہیں تا کہ دین و دنیا میں بھی ذلیل اور رُسوا نہ ہوں اور آخرت کے عذاب سے بھی بچے رہیں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 26؍ ستمبر 2008ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 17؍اکتوبر 2008ء)
٭…٭…٭