چودھری محمد علی صاحب(نمبر12)
(گذشتہ سے پیوستہ )جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے ہماری پارٹی سات طلبہ پر مشتمل تھی لیکن دو یا شاید تین آدمی ہمارے ساتھ بطور خدمت گار گئے تھے۔ وہی ہمارے لیے کھانا تیار کرتے اور دیگر ضروریات کا خیال رکھتے چنانچہ انہیں کسی بھی نئی منزل کے لیے ہماری روانگی سے کئی گھنٹے پہلے روانہ کردیا جاتا۔ انہیں بتا دیا جاتا تھا کہ ہمارا اگلا پڑائو کہاں ہوگا چنانچہ وہ وہاں پہنچ کر کھانا تیار کرلیتے۔ ہم وہاں پہنچتے تو سفر کی تھکان سے برا حال ہوتا اور اکثر اوقات سخت بھوک لگی ہوتی۔ منزل پر پہنچتے ہی گرم گرم کھانا مل جاتا تو طبیعت ہشاش بشاش ہو جاتی۔ حسبِ ضرورت خچروں کی خدمات بھی حاصل کرلی جاتیں۔
ہم لوگ ٹینٹوں اور بستروں کے علاوہ خشک راشن بھی ساتھ لے گئے تھے تاہم اتنے لمبے سفر کے لیے گوشت یا سبزی ساتھ رکھنی ممکن نہ تھی چنانچہ ہم ایسی چیزیں حسبِ ضرورت راستہ میں خریدتے تھے۔ گوشت کے لیے ہم بکرا خرید کر خود ذبح کرتے تھے۔ ہم میں سے کوئی بھی بکرا ذبح کرنے کے فن سے آشنا نہ تھا اور بعض لڑکے تو اس کام سے گھبراتے بھی تھے لیکن میں اور صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب مل کر یہ کام بخوشی کرلیتے تھے۔ اب تعداد تو یاد نہیں لیکن اس سفر کے دوران ہم نے کئی بکرے ذبح کیے اور اپنی گوشت کی ضروریات پوری کرتے رہے۔ مجھے یاد ہے ہم روہتنگ پاس اور اس سے کچھ آگے لاہول تک گئے تھے۔ یہ جگہیں اتنی خوبصورت ہیں کہ الفاظ میں ان کا نقشہ کھینچنا آسان نہیں۔ دریائے بیاس روہتنگ پاس کے قریب ہی ایک مقام جسے بیاس کُنڈ کہتے ہیں سے نکلتا ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ ایک قدرتی چشمہ ہے جو نہ جانے کس زمانے سے پانی اگلتا جا رہا ہے۔خدا کی شان دیکھئے وہاں سے یہ دریا سینکڑوں کلومیٹرز کا سفر طے کر کے پنجند کے مقام پر دریائے سندھ میں گرتا تھا اگرچہ سندھ طاس معاہدے کے تحت اب اس دریا کا پانی الا ماشاء اللہ پاکستان میں بالکل نہیں آنے دیا جاتا۔
یوں ہی یاد آگیا ہے کہ الفضل چوبیس اپریل ۱۹۸۹ء میں چودھری محمد علی کی ایک نظم شائع ہوئی تھی جو اَب ’’اشکوں کے چراغ‘‘میں شامل ہے۔ اس نظم کا ایک شعر ہے
رہزن کا یوں پڑائو ہے رادھا کے کُنڈ پر
جنگل میں جس طرح ہوں گوالے پڑے ہوئے
یہ نظم حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی نظر سے بھی گزری۔ اگرچہ یہ نظم کسی اور پس منظر میں کہی گئی ہے تاہم اس شعر میں ’’رادھا کے کُنڈ‘‘یا رادھا کُنڈ کا ذکر ہے۔ رادھا کُنڈ ضلع مَتھرا کے ایک چھوٹے سے قصبے کا نام ہے جو اپنے ایک مقدس تالاب کی وجہ سے مشہور ہے۔ چونکہ اپنے سفر منالی و لاہول کے دوران ہم بیاس کُنڈ بھی گئے تھے لہٰذا میرا قیاس ہے کہ کُنڈ کے لفظ سے حضور کا ذہن بیاس کُنڈ اور وہاں سے لاہول کی طرف چلا گیا۔
حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمدصاحب کا ذکر ہوا ہے تو آپ کو بتاتے چلیں کہ بطور خلیفۃ المسیح الرابع حضورؒ نے چودھری محمد علی کے نام اپنے مختلف خطوط میں اس سفر کا بارہا ذکر کیا ہے۔ آپ اپنے خط مرقومہ ۸؍مئی ۱۹۸۹ء از لندن میں موصوف کے کسی شعر سے متاثر ہوکر رقمطراز ہیں’’اس کلام کو دیکھ کر مجھے وہ سفر یاد آگیا جو آپ کے ساتھ غالباً ۱۹۴۵ء میں تبت کی سرحد کی جانب اختیار کیا تھا۔ لائنگ پاس سے گزر کر لاہول کی وادی میں آپ کی قیادت میں کالج کے طلبہ کے ساتھ میں بھی شامل تھا۔ وہ علاقہ سطح مرتفع ہے جس کی بلندی کم از کم ۱۰ ہزار فٹ بلند ہے لیکن سطح مرتفع سے بھی بلندتر پہاڑوں کی چوٹیاں نکلی ہوئی ایک عجیب رعبناک منظر پیدا کرتی تھیں۔ ‘‘
حضورؒ اپنے ایک اور خط مرقومہ ۱۱؍نومبر ۱۹۸۹ء میں تحریر فرماتے ہیں’’آپ کی اس غزل کا مزاج بہت انوکھا اور پیارا ہے۔ وہ دن یاد آگئے جب لاہول کوہ پیمائی کے لیے آپ کے ساتھ گئے تھے۔ جس طرح آپ ان دنوں ہمیں ڈانٹا کرتے تھے اسی ادا سے اس غزل میں اپنے آپ کو ڈانٹا ہے۔ قصور آپ کا نہیں ہمارا ہی تھا کیونکہ اس سفر میں مجھے یاد ہے
جھگڑے تھے پھول پھول، لڑے تھی کلی کلی‘‘
اس پر بس نہیں حضورؒ کے ایک اَور خط مرقومہ ۶؍فروری ۱۹۹۲ء از لندن میں بھی اس سفر کا حوالہ موجود ہے جب آپ تحریر فرماتے ہیں’’پیار اور خلوص کا جو تحفہ آپ قادیان میرے لیے چھوڑ گئے تھے وہ لندن آکر ملا۔ آپ نے لطف کے کوزوں میں کتنے ہی دریا بند کرکے بھیجے ہیں جو منالی سے کُلّو تک کی سڑک کے ساتھ ساتھ بہتے ہوئے دریائے بیاس کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ آپ بھولے تو نہیں ہوں گے۔ بھول سکتے بھی نہیں۔ کروٹ کروٹ وہ نئی نئی جنت دکھاتا تھا۔ اب بھی دکھاتا ہوگا مگر ہمیں کیا۔ قادیان میں کئی بار خیال آیا کہ آپ ساتھ چلیں تو ایک بار پھر وہاں ہو آئیں۔ آپ کی شاعری کو ایک نیا جنم مل جائے۔ ویسے نئے جنم کی اسے کوئی ضرورت تو نہیں ہے۔‘‘
اس سفر کے دوران پیش آنے والے بہت سے دلچسپ واقعات میں سے ایک واقعہ وہ بھی ہے جب چودھری محمد علی نماز پڑھاتے ہوئے سجدے میں پہنچ کر سو گئے۔دراصل اس دن کی ہائیکنگ نے انہیں اس قدر تھکا رکھا تھا کہ وہ غیرارادی طور پر نیند کی وادی میں جا نکلے۔ مقتدی بھی اتنے تھکے ہوئے تھے کہ جب چودھری محمد علی نے سجدے سے سر نہ اٹھایا تو نیند نے ان پر بھی غلبہ پالیا۔ حضورؒ نے اس واقعہ کا ذکر اپنی مجلسِ عرفان منعقدہ اٹھائیس اپریل ۲۰۰۰ء میں ایک خاتون کے کسی سوال کے جواب میں کیا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ جب آپ اور دیگر طلبہ چودھری محمد علی کے ساتھ کلّو گئے ’’تو بہت تھکے ہوئے تھے۔ چودھری محمد علی صاحب نے جو پہلا سجدہ کیا تو پھر اٹھے ہی نہیں اور اس وقت ہم بھی یہی سمجھے کہ بس سجدہ ہی ہے اور سارے ہی سو گئے۔ اس سجدے سے جب آنکھ کھلی تو کوئی اِدھر گرا ہوا تھا کوئی اُدھر۔‘‘
حضرت خلیفۃ المسیح الثّانیؓ اور قادیان کے بعض بزرگوں کا ذکرخیر
اُس زمانے کا قادیان ان بزرگان سے آباد تھا جنہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کا زمانہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور وہ آپ کی پاک صحبت سے براہِ راست فیضیاب ہوئے تھے۔ چودھری محمد علی حضرت مسیح موعوؑد کا زمانہ تو نہ پاسکے لیکن خوش قسمت تھے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثّانیؓ کے دورِ خلافت میں ایک ایسے وقت میں دائرہ احمدیت میں داخل ہوئے جب حضور کے بہت سے اصحاب زندہ تھے۔ مجھے یقین ہے آپ نے ان بزرگان کے علاوہ جماعت کے بعض نامور خدام (جو صحابہ میں شامل نہ تھے) کی صحبت سے خوب خوب استفادہ کیا ہوگا۔
اس باب میں حضرت خلیفۃ المسیح الثّانیؓ کے علاوہ جماعت کے جن بزرگان کا ذکر کیا گیا ہے ان میں حضرت ڈاکٹر میرمحمد اسماعیلؓ، حضرت قاضی محمد عبداللہؓ، حضرت چودھری فتح محمد سیالؓ، مولانا نذیراحمد علی، ملک عبدالرحمٰن خادم، ڈاکٹر قاضی منیراحمد، چودھری انور حسین، چودھری اسداللہ خان اور ڈاکٹر عبدالرشید تبسم شامل ہیں۔ مجھے یقین ہے آپ ان میں سے اکثر بزرگان کے نام و کارہائے نمایاں سے بخوبی واقف ہوں گے لیکن اگر آپ ان میں سے کسی کو نہ پہچانتے ہوں تو چند لمحے توقف فرمائیے، ابھی آپ کو یہ سب معلومات مہیا کردی جائیں گی۔
ان بزرگان کا ذکرِخیرچودھری محمد علی کی زبانی
’’حضرت خلیفۃ المسیح الثّانیؓ کی شخصیت کے بے شمار پہلو ہیں جن کا ذکر ہوتا رہا ہے اور قیامت تک ہوتا رہے گا۔ آپ اپنے مخالفین کا بھی دل سے احترام کرتے تھے اور کوئی ایسی بات پسند نہ فرماتے جو اُن کے ظاہری مقام سے متصادم ہو چنانچہ جب جماعتِ غیرمبائعین کے ایک معروف بزرگ خواجہ کمال الدین فوت ہوئے تو آپ نے خطبہ جمعہ میں اس پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم انہیں معاف کرتے ہیں۔آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ مولانا ظفر علی خان جماعت کے سخت معاندین میں سے تھے تاہم میں انہیں ایک عظیم انسان سمجھتا ہوں۔ ہمارے کٹّر مخالف ہونے کے باوجود وہ احراریوں سے کہا کرتے تھے کہ تم مرزا محمود کا قیامت تک مقابلہ نہیں کرسکتے کیوں کہ اس کے پاس قرآن کے علم کے علاوہ اس کے ایک اشارے پر جان فدا کرنے والی ایک بڑی جماعت موجود ہے۔ وہ کئی لحاظ سے جماعت کے مدّاح تھے اور انہوں نے چودھری ظفراللہ خاں کی طرف سے راجپال کیس میںوکالت پر ان کی بہت تعریف کی تھی۔
بتایا جاتا ہے کہ ملک عبدالرحمٰن خادم نے اپنے ایک دوست کی معیت میں مولانا کی ایک تقریر سنی اور جب وہ تقریر ختم کر کے اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئے تو وہ دونوں ان کے ساتھ چل پڑے اور سارا راستہ ان کی تقریر کو ہدفِ تنقید بنائے رکھا۔عبدالرحمن خادم نے واپس آکر یہ واقعہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکو سنایا۔ اپنی طرف سے تو وہ بڑا معرکہ سر کر کے آئے تھے لیکن حضور یہ بات سن کر بے حد ناراض ہوئے اور فرمانے لگےآپ کو کس نے حق دیا تھا کہ مولانا کے ساتھ کج بحثی کرتے؟ ابھی جائیں اور مولانا سے اپنی گستاخی کی معافی مانگ کر آئیں۔ وہ اُلٹے پائوں مولانا کے گھر گئے اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ مولانا نے اندر سے جھانکا اور دروازہ کھولنے سے انکار کردیا۔ انہوں نے بتایا کہ مجھے حضور نے بھجوایا ہے، میں آپ سے معافی مانگنے آیا ہوں اور اگر آپ مجھے معاف نہیں کریں گے تو میں حضور کو منہ دکھانے کے لائق نہ رہوں گا۔ اس پر مولانا نے دروازہ کھول دیا اور کہنے لگے مجھے مرزا صاحب سے یہی اُمید تھی۔
اب میں آپ کی خدمت میں ایک واقعہ عرض کرتا ہوں جس کا تعلق کشمیر کمیٹی سے ہے۔ آپ کو پتا ہے کہ ہم نے کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی مدد اور انہیں ڈوگرہ راج کے ظلم و ستم سے نجات دلانے کے لیے کشمیر کمیٹی کے تحت کتنی عظیم الشان خدمات انجام دی تھیں۔ حضور نے وہاں ہونے والے مظالم کی کچھ تصویریں ایک البم میں لگا رکھی تھیں اور ان پر شیخ محمدعبداللہ اور بعض دیگر کشمیری رہنمائوں کے تصدیقی دستخط کرارکھے تھے۔ درد صاحب نے یہ البم اس تاکید کے ساتھ مجھے دی تھی کہ اسے بحفاظت رکھا جائے۔ ایک بزرگ کو کسی طرح اس البم کا پتا چل گیا چنانچہ انہوں نے مجھ سے باصرار یہ البم مانگی اور میں نے کسی سے پوچھے سنے بغیر یہ البم انہیں دے دی جو اُن سے گم ہوگئی۔ اسی اثنا میں حضورؒنے یہ البم طلب فرمالی۔ البم موجود ہوتی تو حضور کو پیش کرتا۔ ڈرتے ڈرتے بتایا کہ گم ہوگئی ہے۔ حضور نے فرمایا کہ میں نے بہت مشکل سے یہ تصویریں اکٹھی کی تھیں اور میرا ارادہ تھا کہ کسی مناسب وقت پر انہیں لوگوں کے سامنے لایا جائے۔ آپ نے ایک بے حد قیمتی چیز ضائع کردی ہے۔ میں نے سوچا کہ اگر میں ان بزرگ کا نام لے بھی دوں تو البم پھر بھی نہ مل سکے گی، ہاں! حضور کے غصہ کا رخ ضرور دوسری طرف پھر جائے گا چنانچہ میں نے کہاحضور! تلاش کررہے ہیں اور ہم واقعی تلاش کر بھی رہے تھے۔ اگرچہ حضور کو اس البم کی گمشدگی پر بہت افسوس ہوا تاہم آپ نے مجھے سخت سست کہنے کی بجائے میری دلداری فرمائی اور کہا کہ کوشش کرو البم مل جائے، اس میں بعض نادر تصاویر ہیں۔
نہ جانے کیوں اس البم کا ذکر کرتے کرتے میرا ذہن سعید کے حق کی طرف چلا گیا ہے جو حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد کے ذاتی دوستوں میں سے تھے۔ احمدی نہیں تھے۔ گورداسپور میں وکالت کرتے تھے۔ ایک بار انہوں نے میاں صاحب کی دعوت پر کالج کے طلبہ سے خطاب کیا۔ مجھے اس تقریر کی کوئی اور بات تو یاد نہیں رہی البتہ یہ ضرور یاد ہے کہ انہوں نے مختلف قسم کے خراٹوں کی بڑی خوبصورتی سے نقل اتاری تھی جس سے لڑکے بے حد محظوظ ہوئے۔
سعید کے حق کا ایک چھوٹا بھائی تھا، اظہر۔ وہ ایک بار میرے پاس آیا اور بتانے لگا کہ اس نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں عرض کی تھی کہ وہ انگریزی سیکھنا چاہتا ہے، اسے مشورہ دیا جائے کہ وہ کیا کرے۔ حضور نے فرمایا کہ اگر انگریزی سیکھنی ہے تو پروفیسر محمد علی کے پاس چلے جائو۔ اظہر کی یہ بات سن کر مجھے یاد آگیا کہ جب ہم نے حضور کے ایک خطبۂ جمعہ کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا اور یہ ترجمہ شائع ہوکر کسی انگلش میڈیم سکول کی ہماری ایک احمدی طالبہ کی نظر سے گذرا تو اُس نے اِس میں انگریزی کی بہت سی غلطیوں کی نشان دہی کر ڈالی چنانچہ مجھے تو پتا تھا کہ میں کتنے پانی میں ہوں لیکن میں خود پر حضور کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچا سکتا تھا۔
ایک واقعہ جو مجھے اس وقت یاد آرہا ہے اس کا تعلق دارالضیافت سے ہے جہاں کسی نہ کسی حوالے سے معززین کی آمدورفت جاری رہتی تھی اور ان کی مہمان نوازی کے لیے اچھی کراکری کی ضرورت پیش آتی رہتی تھی چنانچہ حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ کے زمانہ میں یہ ضرورت پوری کرنے کے لیے اعلیٰ قسم کی کچھ کراکری خریدی گئی۔ اس کراکری کو خاص خاص مواقع پرنکالا جاتا تھا چنانچہ مجھے اب بھی یاد ہے ایسے ہی کسی موقع پر دارالضیافت میں ایک گول میز لگی ہوئی تھی اور اس پر یہ کراکری سجی ہوئی تھی اور بیرے نہایت صاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس تھے۔ یہ منظر دارالضیافت کے عام منظر سے بالکل مختلف تھا اس لیے مجھے آج تک نہیں بھولا۔ جہاں تک میرا اندازہ ہے، یہ کراکری بہت خاص مہمانوں کی قادیان آمد کے موقع پر نکالی جاتی تھی۔
ایک بار جب حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ وفات پا چکے تھے اور دارالضیافت کا چارج حضرت قاضی محمد عبداللہؓ، صحابی حضرت مسیح موعوؑدکے پاس تھاایک معزز مہمان قادیان آئے۔ انہیں ناشتہ پیش کیا جانا تھا۔ میں کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت بابا رحم دین،ؓ باورچی جن کا قدرے تفصیلی ذکر بعد میں آئے گا ایک ہاتھ میں چائے کی کیتلی اور دوسرے ہاتھ میں بالٹی پکڑے چلے آرہے ہیں۔ بالٹی میں پرچ پیالیاں تھیں۔ مجھے محسوس ہوگیا کہ کوئی غلط بات ہونے جا رہی ہے۔ اس وقت تک مجھے چیزوں کی اتنی سمجھ تو نہیں تھی لیکن لوگوں کے پاس بیٹھ بیٹھ کر کچھ نہ کچھ ہوش آچکی تھی چنانچہ میں ملّا کی دوڑ مسجد تک کے مصداق فوراً حضرت مرزا بشیر احمد کے پاس پہنچ گیا۔میں نے آپ کو بتایا کہ معزز مہمان کو ناشتہ دینا ہے لیکن ناشتہ اس قسم کا آیاہے۔ میاں صاحب کو عام طور پر غصہ نہیں آتا تھا لیکن میری بات سن کر آپ سیخ پا ہوگئے۔ آپ نے اسی وقت حضرت قاضی محمد عبداللہ کے نام ایک چٹھی لکھی۔ میں سمجھتا ہوں اس معاملے میں قاضی صاحب بالکل بے قصور تھے اور اگر کوئی قصور تھا تو ان کے نائب کا جس نے بے پروائی کا مظاہرہ کیا تھا۔ بہرحال میاں صاحب نے جو کچھ لکھا اس کا مفہوم یہ تھا کہ میر صاحب نے دارالضیافت کے لیے جو کراکری خریدی تھی اور اسے بڑی حفاظت سے رکھا گیا تھا معلوم ہوتا ہے آپ نے اس کا اچار ڈال کر الماری میں رکھ چھوڑا ہے۔ اگر آپ نے اسی وقت اس کو صاف کرکے نہ بھیجا تو میں خود آکر الماری کا تالا توڑ کر یہ کراکری نکالوں گا۔
ہمیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ہم یہ خط حضرت قاضی صاحب کے پاس کیسے لے کر جائیں۔ ادھرناشتہ کا وقت بھی ہو رہا تھا۔ کیا کرتے؟ طوعاًو کرہاً یہ خط قاضی صاحب کو پہنچایا گیا۔ قاضی صاحب نے خط پڑھتے ہی وہ برتن نکلوا کر بھجوا دئیے لیکن انہیں یہ بات بہت دیر تک یاد رہی اور وہ کئی بار جتلاتے بھی رہے کہ انہیں میری وجہ سے شرمندگی اٹھانا پڑی تھی۔
میرا خیال ہے قادیان کے بزرگان کا ذکر حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیلؓ کے قدرے تفصیلی ذکر کے بغیر نامکمل رہے گا۔ آپ ایک بڑے عالم اور بے حد خوبصورت انسان تھے۔ صوفی تھے لیکن بہت پائے کے منتظم بھی۔ انہیں اپنی زندگی کے آخری ایام میں ایک ایسی بیماری لاحق ہوگئی تھی جس کی وجہ سے انہیں پسینہ نہیں آتا تھا چنانچہ گھبراہٹ شروع ہوجاتی اور وہ ہروقت ٹہلتے رہتے۔ شاید اسی وجہ سے وہ اپنی قمیص بھی گیلی رکھتے اور چارپائی بھی۔
ایک بار مجھے ملیریا ہوگیا۔ آپ نے مجھے دیکھا اور نسخہ لکھ کر دے دیا۔ میں نے چلتے چلتے پوچھامیر صاحب! اس میں کوئی میٹھی دوا بھی ہے؟ فرمانے لگےتمہارا کیا خیال ہے مربّے اور چٹنیاں صرف حکیموں کے پاس ہی ہوتی ہیں؟ آپ نے نسخہ میرے ہاتھ سے پکڑا اور اس میں سیرپ مِیناڈیکس کا اضافہ کردیا اور مجھے دیکھئے میں نے ایک ہی رات میں اس کی پوری بوتل خالی کردی۔تعلیم الاسلام کالج قادیان میں آم کے بہت درخت تھے۔ ایک بار چھٹیوں کے موسم میں ہم ایک درخت کے نیچے چارپائیاں ڈال کر آم چوس رہے تھے کہ اچانک میر صاحب ادھر آنکلے۔ ہم نے انہیں آم پیش کرتے ہوئے کہا بہت میٹھا ہے، کھا کر دیکھیں۔ فرمانے لگےمیاں! اگر میٹھا ہونا ہی آم کی صفت ہے تو پھر آم نہ کھائو، گڑ کھائو۔
جماعت کی طرف سے نہر پر پکنک منائی جاتی تو بالعموم حضرت میرمحمداسماعیل صاحبؓ ہی اس کے انچارج ہوتے۔ وہ اس پروگرام کی جزئیات قبل از وقت طے کرتے اوربار بار سب کے علم میں لاتے تاکہ وہاں پہنچ کر کسی قسم کا کوئی کنفیوژن نہ ہو۔ کسی سفر پر جانا ہوتا تو وہ اس کی تفصیلات بھی سفر سے پہلے طے کرلیتے اور شرکائے سفر کو بالوضاحت سمجھا دیتے کہ سفر کے دوران کس کس نے کیا کیا ذمہ داری ادا کرنی ہے۔
آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور جو ہدیۂ نعت پیش کیا ہے اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔
بہ درگاہِ ذی شان خیرُالانام
شفیعُ الوریٰ، مرجع خاص و عام
بصد عجز و منّت، بصد احترام
یہ کرتا ہے عرض آپ کا اِک غلام
کہ اے شاہِ کونین، عالی مقام
علیک الصّلوٰۃُ علیک السّلام
غالباً پارٹیشن سے پہلے کی بات ہے۔ میں نے ایک شخص کی اپنی زبان سے یہ واقعہ سنا ہے کہ وہ خود یا اس کا کوئی عزیز بیمار ہوگیا۔ ظاہری علامات کے مطابق اس کا آپریشن ہونا چاہیے تھا۔ میرصاحب نے اسے دیکھا لیکن کسی وجہ سے آپریشن سے معذوری ظاہر کی۔ وہ یہاں سے مایوس ہوکر ولایت چلا گیا۔ وہاں کے ڈاکٹروں نے دیکھا تو کہا کہ وہ یہ آپریشن نہیں کرسکتے البتہ میرصاحب کا نام لیتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں ایک ڈاکٹر ہے جو یہ آپریشن کرتا ہے۔ مریض نے بتایا کہ وہ تو ان سے مل کر آیا ہے لیکن انہوں نے اس آپریشن سے معذوری ظاہر کی ہے۔ ڈاکٹروں نے کہا اس کا مطلب ہے یہ آپریشن واقعی نہیں ہو سکتا۔ یہ تھی ڈاکٹر میرمحمد اسماعیل کی پیشہ ورانہ مہارت!
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ کے بعد اب کچھ ذکر مولوی نذیر احمد علی کا جو افریقہ میں ہمارے مربی رہے اور جنہوں نے اپنے فرائضِ منصبی کی ادائیگی کے دوران وہیں وفات پائی۔ وہ بعض دیگر مربیان کے ہمراہ سفرِافریقہ پر روانہ ہوئے توقادیان کے مردانہ تعلیمی اداروں کی طرف سے ان کے اعزاز میں ناشتے کی ایک دعوت دی گئی جس میں تعلیم الاسلام کالج کی نمائندگی کا اعزاز مجھے حاصل ہوا۔ میں اس دعوت کے بارے میں دو باتیں بیان کرنا چاہتا ہوںاول اس موقع پر موصوف نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا آج ہم اللہ تعالیٰ کے لیے جہاد کرنے افریقہ جارہے ہیں۔ ہم میں سے کوئی اگر وہاں فوت ہوجائے تو آپ لوگ سمجھ لیں کہ دنیا کا کوئی دُور دراز حصہ ہے جہاں تھوڑی سی زمین احمدیت کی ملکیت ہے۔ احمدی نوجوانوں کا فرض ہے کہ وہاں پہنچیں اور اس مقصد کو پورا کریں جس کی خاطر اس زمین پر ہم نے قبروں کی شکل میں قبضہ کیا ہوگا۔ ہماری قبروں کی طرف سے یہی مطالبہ ہوگا کہ اپنے بچوں کو ایسے رنگ میں ٹریننگ دیں کہ جس مقصد کے لیے ہماری جانیں صرف ہوئیں اسے وہ پورا کریں۔
نہ جانے قبولیتِ دعا کی یہ کون سی گھڑی تھی کہ چند سال بعد مولوی صاحب کی وفات افریقہ میں ہی ہوئی اور تدفین بھی۔ سیرالیون کے شہر بو میں ان کی قبر آج بھی مرجع خلائق ہے۔
دوم ایک بات جو بالکل ذاتی نوعیت کی ہے یہ ہے کہ اس موقع پر حاضرین کو سبز چائے پیش کی گئی۔ مجھے یاد ہے یہ چائے ایک دیگ میں تیار کی گئی تھی۔ سبز چائے پینے کا میرا زندگی میں یہ پہلا موقع تھا اس لیے چائے کا یہ کپ اور اس سے ملنے والا سرور مجھے اب تک یاد ہے۔
قادیان میں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کے ایک صحابی ’’فلاسفرصاحب‘‘کے نام سے پہچانے جاتے تھے۔ ایک بار حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ عصر کے بعد سیر کے لیے خدام کی معیت میں تشریف لے جا رہے تھے کہ فلاسفر صاحب راستہ میں مل گئے۔ وہ اس وقت عمر رسیدہ ہو چکے تھے اور لمبا سا چوغہ پہنے رکھتے تھے۔ انہیں قرآن کریم کا بہت سا حصہ حفظ تھا لیکن وہ جس طرح اس کا اطلاق کرتے اس سے بعض دفعہ غلط تاثر پیدا ہوتا تھا چنانچہ ان پر پابندی لگ گئی اور دارالضیافت میں ان کا داخلہ بند ہوگیا۔ حضور وہاں سے گذرے تو وہ کہنے لگےاچھا میاں! ہُن تاں لنگ گیا ایں۔ واپس آویں گا تے ویکھاں گا کیویں لنگدا ایں۔ ہم فکرمند ہوگئے کہ فلاسفر صاحب خدانخواستہ کوئی ناپسندیدہ صورتِ حال نہ پیدا کردیں۔ جب حضور واپس تشریف لائے تو وہ راستہ روک کر کھڑے ہوگئے اور پوچھنے لگےمیاں توں میرے نال ناراض ایں؟ آپ نے کہا آپ تو حضرت مسیح موعودؑ کے صحابی ہیں، میں آپ کے ساتھ کیسے ناراض ہوسکتا ہوں؟ وہ کہنے لگے یہ بات ہے تو لنگرخانہ کا دروازہ مجھ پر کیوں بند کردیا ہے ؟ حضور نے پوچھاکس نے بند کیا ہے؟ آپ کے لیے یہ دروازہ بند نہیںہوسکتا۔ حضور چلے گئے تو فلاسفر صاحب اپنا مسئلہ حل ہونے پر خوشی سے نعرے مارنے لگے۔ (باقی آئندہ)