اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
جولائی2021ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب
پنجاب کے مختلف مقامات پر ہونے والے واقعات کی رپورٹ؛ جولائی2021ء:
مخالفین نے مختلف طریقوں سے احمدیوں کو عید الاضحی کے تہوار کے موقع پر مویشیوں کی قربانی کے حق سے محروم رکھنے کی کوشش کی۔ اس سال یہ فرقہ وارانہ مہم زور پکڑ گئی۔ مخالفین نے ایک مسودہ تیار کیا کہ وہ اپنے ایس ایچ اوز کو اس طرز پرمخاطب کریں تاکہ احمدیوں کے خلاف کارروائی کی جائے جو قربا نی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں یا یہ فریضہ ادا کرتے ہیں۔ سیکرٹری لاہور بار ایسوسی ایشن نے بھی اسی مقصد کی تکمیل کے لیے ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوم کو خط لکھا۔ نتیجۃً، احمدیوں کو قربانی کے سلسلے میں پچھلے سالوں کی نسبت اس سال زیادہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں بعض مقامات پر حکام کی طرف سے صرف ایک ہی سہولت یہ ملی کہ وہ چار دیواری کے اندر احتیاط سے قربانی کر سکتے تھے۔ احمدیہ مرکز کو 25سے زائد مقامات سے رپورٹیں موصول ہوئیں جہاں انہیں اس مذہبی فریضہ کو ادا کرنے میں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ہم ان تمام رپورٹوں کو یہاں بیان نہیں کرتے، سوائے ربوہ میں جو کچھ ہوا اور کچھ دوسرے مقامات کی چند جھلکیاں یہاں تحریر کر دیتے ہیں۔
ربوہ میں ملاّ حسن معاویہ اور اس کے معاون خاص اسامہ رحیم وغیرہ کی سرکردگی میں ملاّ برادری احمدیوں کو قربانی سے روکنے کے لیے چوکس نظر آئے۔ انہوں نے قربانی کرنے والے احمدیوں کی ویڈیو کے ساتھ پولیس کو ایک درخواست بھیجی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ مجوزہ پولیس کیس میں سینئر احمدی قیادت کو ملوث کیا جائے۔ جس کے نتیجے میں حالات کشیدہ ہو گئے اور شہر میں پولیس کی نفری بڑھا دی گئی۔ بالآخر پولیس نے تھانہ چناب نگر میں PPC 298-C کے تحت احمدی الیاس احمدکے خلاف 335؍21ایف آئی آر درج کی۔ ملزمان میں تین یا چار نامعلوم افراد کا بھی ذکر کیا گیا ہے جنہوں نے اسلامی شعائر سے استہزا کیااس طر ح یہ بھی ذکر ہے کہ احمدیوں کی قربانیاںاس علاقے کے مسلمانوں میں شدید اضطراب وتشویش کا باعث بنیں۔ یہ ربوہ میں اس نوعیت کا پہلاکیس تھا۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ ایک احمدی سرور احمد کے خلاف بغیر اجازت قربانی کی کھالیں جمع کرنے پر پولیس کیس بھی درج کیا گیا ۔ یہ مقدمہ پی پی سی 188کے تحت پولیس اسٹیشن چناب نگر میں 26؍جولائی 2021ءکو درج کیا گیا تھا۔ یہ بھی عرض کرنا ضروری ہے کہ صوبے کے حکام صرف (سرکاری) مسلمانوں کو قربانی کی کھالیں جمع کرنے کا لائسنس جاری کرتے ہیں۔
جہاں تک صوبے کے کچھ دوسرے مقامات کا تعلق ہے، اس کا مختصر احوال کہ احمدیوں نے کب مشکلات کا سامنا کیا درج ذیل ہے: 1. پولیس نے احمدیوں کو تھانوں میں بند کر کے ان سے یہ عہد کرنے کا مطالبہ کیا کہ وہ قربانی میں کسی بھی لحاظ سے شامل نہیں ہوں گے۔
- پولیس نے احمدیوں کو دھمکی دی کہ اگر وہ قربانی کی پابندیوں پر عمل کرنے میں ناکام رہے تو ایف آئی آر درج کی جائے گے۔
- چند ملاؤں کی قیادت میں چالیس افراد نے راہوالی میں ڈی ایس پی سے رابطہ کیا اور احمدیوں کو قربانی سے روکنے کا مطالبہ کیا۔
- پولیس نے پیر محل میں مطالبہ کیا کہ احمدی اسٹامپ پیپر پر ایک حلف نامہ دیں کہ وہ قربانی نہیں کریں گے۔
- لاہور کے ایڈووکیٹ طیب قریشی نے چیف سیکرٹری، سیکرٹری داخلہ اور انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب کو احمدیوں کو قربانی سے روکنے کے لیے درخواست بھیجی۔
- پولیس نے لاہور میں ایک احمدی کی رہائش گاہ پر کچھ مویشیوں کا نوٹس لیا، اور اسے قربانی سے باز رہنے کو کہا۔ جس پر اسے مویشیوں کو کہیں اَور منتقل کرنا پڑا۔
- گلشن پارک میں ایک پڑوسی نے ایک احمدی کے گھر ایک بھیڑ دیکھی۔ اس نے احمدی کو PPC 298-C کا حوالہ دے کر دھمکی دی اور کہا کہ وہ اسے قربانی نہیں کرنے دے گا۔
- فیروزہ چک میں مخالفین نے ایک فلیکس لگائی جس میں درج ذیل پیغام دیا گیا: اگر آپ کو کوئی قادیانی قربانی کرتا ہوا نظر آئے تو ہمیں فوراً بتائیں۔ اس کے کاروبار کا بھی بائیکاٹ کریں۔
- دوالمیال کی پولیس نے احمدیوں سے تحریری طور پر کہا کہ وہ قربانی صرف چار دیواری کے اندر ہی کریں گے، اور کسی مسلمان کو گوشت نہیں دیں گے چاہے وہ مانگے۔
- دھیروکے، ڈسٹرکٹ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں، ڈی ایس پی نے فیصلہ دیا کہ اگر احمدی چار دیواری کے اندر قربانی کرتے ہیں، تو کسی کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان میں، مہذب شہریوں کو پولیس کی طرف سے ایسے بلایا جانا ایک پریشان کن امر ہے۔
چک 261 ر ب ادھوالی، ضلع فیصل آباد میں اپنا دفاع کرنے پر پانچ احمدیوں کوحراست میں لےلیا گیا
25؍جولائی 2021ء: احمدیوں کی مخالفت یہاں وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ پولیس نے مقامی کونسل کے اہلکاروں کے ساتھ مل کر گزشتہ ماہ احمدیہ مسجد کی بے حرمتی کی اور اس کے مینار گرائے۔انہوں نے اسے چھپانے کے لیے محراب کے سامنے دیوار کھڑی کر دی۔ انہوں نے چار احمدیوں کے گھروں سے مقدس تحریرات کو بھی مٹا دیا۔ 25؍جولائی کو شام 7بجے کے قریب درجنوں مخالفین جماعت احمدیہ کےمقامی صدر رفیق احمد کے گھر کے باہر آئے، احمدی مخالف نعرے لگائے، گیٹ پر ڈنڈے مارے، گولیاں برسائیں، اور مکینوں کو باہر نکلنے کا چیلنج دیا۔ رفیق احمد ولد نوید احمد باہر آئے اور ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے ہوا میں چند گولیاں چلائیں۔ اسی دوران، مخالفین میں سے ایک زخمی ہوگیا تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ اسے زخمی کرنے کا ذمہ دار کون ہے۔ خوش قسمتی سے، چوٹ شدید نہیں تھی ۔پولیس نے زخمی حملہ آور کے بھائی محمد وسیم کی شکایت پر چھ احمدیوں نوید احمد، رفیق احمد، نصیر احمد، ثناء اللہ، نیاز حسین اور علی حسین کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 149,148,324 اور 7-ATA کے تحت مقدمہ درج کیا۔ محمد امین جو کہ ایک غیر احمدی دوست تھے اور اگرچہ ان کا ایف آئی آر میں نام نہیں ہے، احمدیوں کے ساتھ تعاون کرنے پر حراست میں لے لیے گئے۔ نوید احمد کو سمن آباد جبکہ دیگر چار احمدیوں کو فیکٹری ایریا تھانہ فیصل آباد میں حراست میں رکھاگیا۔ یہ سارا معاملہ پہلے سے پلان کیا گیا تھا جس کا مقصد نوید احمد کو گرفتار کرنا تھا کیونکہ انہوں نے مذہبی شدت پسندوں کے دباؤ میں آنے سے انکار کر دیا تھا۔ مخالفت کے پیش نظر احمدیوں کو دوسری جگہوں پر منتقل ہونا پڑا۔ پولیس نے احمدیوں کے گھروں پر چھاپے مارے۔ احمدیوں نے اعلیٰ حکام سے شکایت کی ہے کہ ایک درمیانی درجے کا پولیس افسر اُن سے دشمنی رکھتا ہے اور TLP کارکنوں کے ساتھ مل کر احمدیوں کے خلاف کارروائیاں کر رہا ہے۔ احمدیوں نے پولیس سے درخواست کی ہے کہ جس طرح مخالفین نے ان کے گھروں پر حملہ کیا، انہیں ہراساں کیا اور تشدد شروع کیا، ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔
چک 84 ج ب، ضلع فیصل آباد میں ایک اور احمدیہ مسجد کو پولیس نے جزوی طور پر مسمار کر دیا
29؍جولائی 2021ء: ادھوالی سے تعلق رکھنے والے ٹی ایل پی (تحریک لبیک) کے تین یا چار نوجوانوں کا ایک گروپ اس گاؤں میں آیا اور مقامی لوگوں کو احمدیہ مسجد سے مینار اور کلمہ ہٹانے کے لیے مشتعل کیا۔ مقامی عمائدین نے تعمیل کرنے سے انکار کر دیا اور کہاکہ وہ چک84 کے معاملات میں مداخلت نہ کریں۔ تقریباً پندرہ دن بعدیہ شرپسند چند مقامی لوگوں کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے جنہوں نے احمدیہ مسجد کےمینار وغیرہ ہٹانے کے لیے پولیس کو درخواست دی ایس ایچ او نے انہیں بلوا بھیجا اور کہا کہ وہ آگے بڑھ کر خود ہی یہ کام کر دیں۔ تاہم انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد ایس ایچ او نے خود ایسا کرنے پر رضامندی ظاہر کی، لیکن انہی دنوں میں اس کا تبادلہ کہیں اَور ہو گیا۔ 29؍جولائی کو، 15 افراد پر مشتمل پولیس کا دستہ یہاں پہنچا۔ اس نے احمدیہ مسجد کا تالا توڑا۔ احمدیوں کے گھروں کے باہر سادہ کپڑوں میں کچھ پولیس اہلکار تعینات کیے تاکہ احمدیوں کو باہر نہ آنے دیا جائے۔ اس کے بعد پولیس نے مسجد کے چاروں میناروں کو گرا دیا، اندر لکھا ہوا کلمہ مٹا دیا اور باہر لگا کلمہ اٹھا لیا۔ کچھ ہی ہفتوں کے دوران میں یہ فیصل آباد پولیس کی جانب سے تحریک لبیک کے ایماپر کی جانے والی تیسری کارروائی ہے۔
احمدیوں کا ملکیتی سکول انتظامیہ نے سیل کر دیا
نصیر آباد، ڈی جی خان: یکم جولائی 2021ء: اس علاقے میں احمدی مخالف سرگرمیاں جاری ہیں۔ یہاں ناصر پبلک سکول ایک احمدی چلا رہے ہیں۔ سکول آٹھویں جماعت تک ہے۔ اس میں 64 احمدی اور 47 غیر احمدی طلبہ داخل ہیں۔ فرقہ پرست مخالفین نے پولیس کو درخواست دی کہ احمدی اسکول میں اپنے مذہب اور عقائد کی تبلیغ کرتے ہیں۔ اس لیے پولیس انکوائری کے لیے اسکول پہنچی۔ انہوں نے غیر احمدی طلبہ سے پوچھا کہ کیا احمدی انہیں اپنے عقائد سکھاتے ہیں؟ اس پر انہوں نے نفی میں جواب دیا۔ اس کے بعد ڈی ایس پی نے فریقین کو طلب کیا۔ انہوں نے شکایت کنندگان سے کہاکہ ہماری انکوائری کے مطابق احمدی طلبہ میں اپنے عقیدے کی تبلیغ نہیں کرتے۔ اس کے بعد یکم جولائی 2021ء کو اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر اسکول پر آئے اور اسکول کو سیل کردیا۔ پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ سکول رجسٹرڈ نہیں ہے۔ انہیں بتایا گیا کہ اسکول کی رجسٹریشن کے لیے آن لائن درخواست دی گئی ہے اور اس پر محکمہ کے ساتھ کارروائی جاری ہے۔ وہ متعلقہ دفتر سے اس کی تصدیق کر سکتے ہے۔ اس پر انہوں نے یہ کہا کہ تم یہاں اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے ہو۔ انہیں بتایا گیا کہ یہ سچ نہیں ہے، پولیس معاملے کرنے کے بعد اسے غلط قرار دے چکی ہے۔ اس پر اس نے جواباً کہا کہ اس کے اعلیٰ افسران نے اسے اسکول کو سیل کرنے کا حکم دیا ہے اور اسی کے مطابق اس نے ایسا کیا۔ اس کے بعد، احمدیوں نے رجسٹریشن ڈیپارٹمنٹ سے رابطہ کیا جنہوں نے درخواست پر کوئی اعتراض نہیں کیا اور یہ کہا کہ درخواست پر کارروائی جاری ہے۔ محکمہ تعلیم سے سکول کھولنے کی درخواست کی گئی ہے۔
مذہب کی بنا پر احمدی سرکاری ملازم کی پوسٹنگ سے انکار
میانوالی 24؍ جولائی 2021: ایک قابل سرکاری ملازم، شوکت حیات مجوکہ کو جو کہ ایک احمدی ہیں، میونسپل کمیٹی میانوالی کا چیف آفیسر مقرر کیا گیا۔ اس پر، جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی)، میانوالی نے ایک مخالفانہ مہم چلائی، جس میں اس تقرری کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے اسے واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا اور کہا گیا کہ اس سے امن و امان میں خرابی کی صورتحال پیدا ہوگی۔ حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مقامی دفتر نے بھی مذکورہ احمدی عہدیدار کی مخالفت کرتے ہوئے اسے گستاخ قرار دیا۔ پی ٹی آئی خواتین ونگ کی ضلعی صدر اور رکن بیت المال پنجاب نے پارلیمانی سیکرٹری لوکل گورنمنٹس اینڈ کمیونٹی ڈویلپمنٹ سے رابطہ کیا اور مطالبہ کیا کہ احمدی عہدیدار کی تعیناتی کا حکم نامہ منسوخ کیا جائے۔ چنانچہ مطالبے کے مطابق احکامات جاری کر دیے گئے۔ پی ٹی آئی کی خواتین ونگ کی صدر نے پارلیمانی سیکرٹری کے اس اقدام کو سراہتے ہوئے انہیں ایک سچا عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم قرار دیا ہے اور ایک ’گستاخ‘کو اہم سرکاری عہدے سے ہٹانے پر ان کا شکریہ ادا کیا ہے۔ یہ اہم سرکاری عہدہ محض سب ڈویژنل کمیٹی کے مینیجر کے سوا کچھ نہیں ہے۔ یہ کہنا درست ہوگا کہ پنجاب میں ایسی سینکڑوں پوسٹیں ہیں۔ تاہم وہ جے یو آئی اور پی ٹی آئی کے لیے اہم ہو گئے جب ایک احمدی کو اس پر تعینات کیا جانا تھا۔
٭…٭…٭