متفرق شعراء
اُسے دیکھ کر تو قمر مسکرا دے
جو گلیوں سے گزرے نگر مسکرا دے
اُداسی بھری ہر نظر مسکرا دے
ثمر مسکرا دے شجر مسکرا دے
میرے پیارے آقا کی مسکان ایسی
اسے دیکھ کر تو قمر مسکرا دے
وہ دِین مُحَمّد کی شمشیر کوئی
ہے ظلمت کی آندھی میں تنویر کوئی
لکھے جب وہ ہاتھوں سے تحریر کوئی
ہر اک حرف زیر و زَبَر مسکرا دے
اسے دیکھ کر تو قمر مسکرا دے
خِلافت کی نعمت تو ہے جاودانی
پیمبر کی کرتی ہے یہ ترجمانی
فرشتے بھی کرتے ہیں جب پاسبانی
ہر اِک گام ہر اِک سفر مسکرا دے
اسے دیکھ کر تو قمر مسکرا دے
دعاؤں کا اک بے کراں وہ سمندر
کہ سائے میں اس کے بنے ہے مقدر
ہمیں ہو خدارا زیارت میسر
نگاہوں میں جس کی سِحر مسکرا دے
اسے دیکھ کر تو قمر مسکرا دے