نظامِ شوریٰ (قسط3)
سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشادات کی روشنی میں
شوریٰ کو صرف سفارش کا حق ہے، فیصلہ کرنے کا حق صرف خلیفۂ وقت کو ہے
’’خلفاء مشورہ لیتے ہیں تاکہ گہرائی میں جا کر معاملات کو دیکھا جا سکے لیکن ضروری نہیں ہے کہ شور یٰ کے تمام فیصلوں کو قبول بھی کیا جائے اس لئے ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ شوریٰ کی کارروائی کے آخر پر معاملات زیر غور کے بارے میں جب رپورٹ پیش کی جاتی ہے تو اس پر یہ لکھاہوتا ہے کہ شوریٰ یہ سفارش کرتی ہے، یہ لکھنے کا حق نہیں ہے کہ شوریٰ یہ فیصلہ کرتی ہے۔ شوریٰ کو صرف سفارش کا حق ہے۔ فیصلہ کرنے کا حق صرف خلیفۂ وقت کو ہے۔ اس پر کسی کے ذہن میں یہ بھی سوال اٹھ سکتا ہے کہ پھر شوریٰ بلانے کا یا مشورہ لینے کا فائدہ کیا ہے، آج کل کے پڑھے لکھے ذہنوں میں یہ بھی آ جاتا ہے تو جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ آیا ہوں کہ مجلس مشاورت ایک مشورہ دینے والا ادارہ ہے۔ اس کا کردار پارلیمنٹ کا نہیں ہے جہاں فیصلے کئے جاتے ہیں۔ آخری فیصلے کے لئے بہرحال معاملہ خلیفۂ وقت کے پاس آتا ہے اور خلیفۂ وقت کو ہی اختیار ہے کہ فیصلہ کرے، اور یہ اختیار اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا ہے۔ لیکن بہرحال عموماً مشورے مانے بھی جاتے ہیں جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا سوائے خاص حالات کے، جن کا علم خلیفۂ وقت کو ہوتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ بعض حالات میں بعض وجوہات جن کی وجہ سے وہ مشورہ رد کیا گیا ہو ان کو خلیفۂ وقت بتانا نہ چاہتا ہو ایسی بعض مجبوریاں ہوتی ہیں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ12؍مارچ2004ء،خطباتِ مسرور جلد دوم صفحہ198،197)
خلافت کے نظام کا ایک اہم ستون مشاورت ہے
’’مشورہ لینے کا فائدہ ہوتا ہے۔ کیونکہ مختلف ماحول کے، مختلف قوموں کے، مختلف معاشرتی حالات کے لوگ، زیادہ اور کم پڑھے لکھے لوگ مشورہ دے رہے ہوتے ہیں پھر آج کل جب جماعت پھیل گئی ہے، مختلف ملکوں کے لحاظ سے ان کے حالات کے مطابق مشورے پہنچ رہے ہوتے ہیں تو خلیفۂ وقت کو ان ملکوں میں عمومی حالات اور جماعت کے معیار زندگی اور جماعت کے دینی روحانی معیار اور ان کی سوچوں کے بارے میں علم ہو جاتا ہے ان مشوروں کی وجہ سے۔ اور پھر جو بھی سکیم یا لائحہ عمل بنانا ہو اس کو بنانے میں مدد ملتی ہے۔ غرض کہ اگر ملکوں کی شوریٰ کے بعض مشورے ان کی اصلی حالت میں نہ بھی مانے جائیں تب بھی خلیفۂ وقت کو دیکھنے اور سننے سے بہرحال ان کو فائدہ ہوتا ہے۔ مشورہ دینے والے کا بہرحال یہ فرض بنتا ہے کہ نیک نیتی سے مشورہ دے اور خلیفۂ وقت کا یہ حق بھی ہے اور فرض بھی ہے کہ وہ جماعت سے مشورہ لے۔ حضرت عمر ؓ تو فرمایا کرتے تھے کہ ’’لَاخِلَافَۃَ اِلَّا عَنَ مَشْوَرَۃٍ‘‘کہ خلافت کا انعقاد مشورہ اور رائے لینے کے بغیر درست نہیں۔ اور یہ بھی کہ خلافت کے نظام کا ایک اہم ستون مشاورت ہی ہے۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ12؍مارچ2004ء،خطباتِ مسرور جلد دوم صفحہ199،198)
جو بھی شوریٰ کی کارروائی کی صدارت کر رہا ہو وہ خلیفۂ وقت کا نمائندہ ہوتا ہے
’’تمام ممالک کی مجالس شوریٰ کی رپورٹس خلیفۂ وقت کے پاس پیش ہوتی ہیں اور خلیفۂ وقت جائزہ لے کر فیصلہ کرتا ہے لیکن ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ کیونکہ ہر ملک کی مجلس شوریٰ کی صدارت کرنا تو خلیفۂ وقت کے لئے اب ممکن نہیں رہا کہ ہر ملک میں مجلس شوریٰ ہو رہی ہو، وہاں جائے اور صدارت کرے، خلیفۂ وقت کسی کو اپنا نمائندہ مقرر ہ کرتا ہے جو صدارت کر رہا ہوتا ہے۔ تو یہ بات بھی نمائندگان شوریٰ کو یاد رکھنی چاہئے کہ جو بھی شوریٰ کی کارروائی کی صدارت کر رہا ہو وہ خلیفۂ وقت کا نمائندہ ہوتا ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ12؍مارچ2004ء،خطباتِ مسرور جلد دوم صفحہ200)
نمائندہ مجلس شوریٰ پورے سال تک کے لئے نمائندہ ہی رہتا ہے
’’نمائندگان شوریٰ کو یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ ان کی ذمہ داری شوریٰ کے اجلاس کے بعدختم نہیں ہو جاتی بلکہ ایک دفعہ کا منتخب کردہ نمائندہ مجلس شوریٰ پورے سال تک کے لئے نمائندہ ہی رہتا ہے تاکہ اصولی باتوں میں مدد کر سکے اور شوریٰ کی کارروائی میں جو فیصلے ہوئے ہیں، جو اصولی باتیں ہوئی ہیں ان پر عمل درآمد کرانے میں تعاون بھی کرے اور پوری ذمہ داری سے مقامی انتظامیہ کی مدد بھی کرے۔ گو فیصلہ سے ہٹی ہوئی بات دیکھ کر جو بھی شوریٰ میں ہوئی ہو۔ ممبران شوریٰ براہ راست تو مقامی انتظامیہ کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کر سکتے ورنہ اس طرح تو ایک ٹکر کی صورت پیدا ہو جائے گی لیکن ان کو توجہ ضرور دلا سکتے ہیں کہ یہ یہ فیصلے ہوئے تھے، اس طرح کارروائی ہونی چاہئے تھی، یہ ہماری جماعت میں نہیں ہو رہی۔ اور جیسا کہ میں نے کہا توجہ کے ساتھ ساتھ عملدرآمد کرانے کے لئے ان سے تعاون بھی کریں اور اگر دیکھیں کہ مقامی انتظامیہ پوری طرح جو شوریٰ کے فیصلے ہوئے ان پر عمل نہیں کر رہی تو پھر نظام جماعت قائم ہے وہ مرکز کو توجہ دلا سکتے ہیں، خلیفۂ وقت کو اس بارے میں لکھ سکتے ہیں۔ تو یہ اطلاع دینا بھی ممبران شوریٰ کا فرض ہوتا ہے کہ سارا سال جب تک وہ ممبر ہیں ان معاملات پر عملدرآمد کرانے میں مدد کریں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ12؍مارچ2004ء،خطباتِ مسرور جلد دوم صفحہ201،200)
شوریٰ کے اجلاس کے دوران بھی دعاؤں میں مصروف رہیں
’’شوریٰ میں جب شامل ہوں تو محض للہ شامل ہوں۔ یعنی جب رائے دیں تو یہ سوچ کر دیں کہ ہم نے اپنی آراء اللہ تعالیٰ کی خاطر دینی ہیں۔ پھر یہ ہے کہ خالی الذہن ہو کر دعا سے شامل ہوں۔ ذاتی باتوں کو دل سے نکال دیں، اور اس مقصد کو حاصل کر نے کے لئے شوریٰ کے اجلاس کے دوران بھی دعاؤں میں مصروف رہیں اور دعاؤں میں لگے رہیں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ12؍مارچ2004ء،خطباتِ مسرور جلد دوم صفحہ202)
اپنی رائے منوانے کی نیت نہ ہو
’’اپنی رائے منوانے کی نیت نہ ہو۔ کسی کی رائے بھی مفید ہو سکتی ہے۔ یہ نہیں ہے کہ جس طرح دنیا کی پارلیمنٹیں، اسمبلیاں ہوتی ہیں وہاں بحث و تمحیص شروع ہو جاتی ہے۔ بحث کرنے کا کوئی حق نہیں۔ رائے دیں اور بیٹھ جائیں۔ اگر آپ کی رائے میں وزن ہو گا، لوگوں کو پسند آئے گی خود اس کے حق میں عمومی رائے بن جائے گی۔ اگر نہیں توآپ کا کام صرف نیک نیتی سے جو بھی ذہن میں بات آئی اس کا اظہار کرنا تھا وہ کر دیا۔ اور اس کے لئے یہ بھی ہے کہ دوسروں کی رائے کو غور سے سنیں۔ آپ نے ایک رائے اپنے ذہن میں بنائی ہے ہو سکتا ہے کہ جب دوسرا اس سے پہلے آ کے اپنی رائے دے دے تو آپ اپنی رائے چھوڑ دیں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ12؍مارچ2004ء،خطباتِ مسرور جلد دوم صفحہ203،202)
رائےخالصتاً اللہ تعالیٰ کے لئے ہونی چاہیے
’’کسی کی خاطر رائے نہ دیں۔ کسی رائے سے صرف اس لئے اتفاق نہ کریں کہ یہ میرے دوست یا عزیز نے رائے دی ہے یا میری جماعت کے فلاں فرد نے یہ رائے دی ہے۔ آزادانہ رائے ہونی چاہئے، خالصتاً اللہ تعالیٰ کے لئے ہونی چاہیے اور پھر یہ ہے کہ کسی حکمت کے تحت کبھی کوئی رائے نہ دیں بلکہ یہ مدنظر ہو کہ جو سوال درپیش ہے اس کے لئے کون سی بات مفید ہے، یہ نہیں کہ فلاں حکمت حاصل کرنی ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ12؍مارچ2004ء،خطباتِ مسرور جلد دوم صفحہ203)
(جاری ہے)