خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 21؍اکتوبر2022ء
اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجموعی لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اس دورے کو ہر لحاظ سے اپنے فضلوں سے نوازا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ آئندہ بھی نوازتا رہے
اللہ تعالیٰ کرے کہ مسجدوں سے یہ تعلق اور عبادتوں کی فکر ان میں دائمی ہو جائے اور ہمیشہ رہنے والی ہو اور مسجدیں ہمیشہ آباد رہیں۔ جس طرح اخلاص و وفا کے نظارے افراد جماعت نے دکھائے ہیں وہ ہمیشہ ان میں قائم رہیں
خواہش اور دعا ہے کہ یہ عبادت گاہ ہمارے ماضی اور مستقبل کے درمیان ایک پل کا کام کرے (میئر زائن)
یہ مسجد متعصبین کے بارے میں مومنوں کی دعاؤں کی فتح کی علامت ہے… میری دلی تمنا ہے کہ یہ مسجد نہ صرف اس شہر بلکہ چاروں اطراف کے لیے امید کی کرن بن جائے (آنریبل جوئس میسن، ممبر الینوئے (ILLINOIS) جنرل اسمبلی)
امام جماعت کا یہ پیغام کہ معاشرے میں متعصب شخص کی کوئی جگہ نہیں، بہت ہی شاندار پیغام تھا … اور مجھے امام جماعت کی یہ بات بہت پسند آئی ہے کہ ہمارے پاس جو ہتھیار ہے وہ دعا کا ہتھیار ہے (ایک مہمان)
آپ کی مسجد ہماری کمیونٹی کے لیے امید اور دوستی کا ذریعہ ہے (ایک مہمان)
امام جماعت کے خطاب کا محور باہمی اتحاد تھا (ڈاکٹر جیسی راڈریگز)
میں آپ کے ماٹو ’محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں‘ کے بارے میں جانتا تھا لیکن آپ لوگوں کو دیکھ کر اس پر مزید یقین بڑھ گیا۔ امام جماعت احمدیہ دو خوبیوں کو فروغ دینے کے لیے وقف ہیں جس میں پہلی مذہبی آزادی اور دوسری بین المذاہب مکالمہ و مخاطبہ ہیں (پروفیسر ڈاکٹر رابرٹ ہنٹ)
ظلم و ستم کی جاری داستان کے باوجود امام جماعت نے دوسروں سے انتقامی تشدد کرنے سے منع فرمایا جو ایک بہت عظیم عمل ہے (آنریبل مائیکل مک کال)
مجھے جو چیز یہاں سب سے زیادہ نمایاں لگی وہ امام جماعت کا خطاب تھا کہ کس طرح مذہبی اختلاف اور مختلف نظریات کے باوجود ہم سب آپس میں ایک دوسرے سے منسلک ہیں (ایک مہمان خاتون)
مجھے ذاتی طور پر اس جماعت سے کوئی خوف نہیں ہے اور دوسروں کے خوفزدہ ہونے کی بھی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی کیونکہ یہ جماعت تو بہت محبت کرنے والی، احساس کرنے والی اور ہمیشہ خدمت خلق کرنے والی جماعت ہے (ایک مہمان خاتون)
میں اس بات کو بہت سراہتا ہوں کہ یہاں کس طرح حکمت کے ساتھ امن، اتحاد اور انصاف کے بارے میں بات کی گئی ہے (ایک مہمان)
حالیہ دورۂ امریکہ کے احمدیوں اور دیگر احباب پر اثرات، غیروں کے تاثرات اور دورے کے نتیجے میں نازل ہونے والے بے شمار الٰہی افضال کا ایمان افروز تذکرہ
امریکی اور انٹرنیشنل ذرائع ابلاغ میں دورے کی وسیع تشہیر
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 21؍اکتوبر2022ء بمطابق 21؍اخاء 1401 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
گذشتہ دنوں جیساکہ آپ جانتے ہیں مَیں
امریکہ کی بعض جماعتوں کے دورہ پر
تھا۔ ایم ٹی اے کے ذریعہ سے بھی اور جماعتی الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ سے بھی خبریں پہنچتی رہی ہیں۔ یہ دورہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے خیر و خوبی سے ہوا۔ بہرحال اس کے علاوہ دوسرے دنیاوی چینل بھی اس کی کافی کوریج دیتے رہے ہیں۔
ہر لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نظارے دیکھنے میںآئے ہیں۔
اپنوں پر بھی اس دورے کا نیک اثر قائم ہوا اور غیروں پر بھی۔ ایک خادم نے اپنے ایک دوست کو کہا کہ میرے ذہن میں جماعت اور خلافت کے متعلق کچھ باتیں پیدا ہو رہی تھیں، کچھ تحفظات تھے جو اب اس دورہ کی وجہ سے بالکل ختم ہو گئے ہیں۔ اس طرح کے بہت سے مثبت تاثرات ہیں۔ پھر لوگوں کے، بچوں ، عورتوں، مردوں کے ملاقات کے بعد جو جذباتی تاثرات ہوتے تھے ان کی اپنی ایک لمبی فہرست ہے۔ وہ رپورٹوں میں آپ پڑھتے رہے ہوں گے۔ پھر زائن میں بھی، ڈیلس میں بھی اور بیت الرحمٰن میری لینڈ میں بھی
نمازوں پر عورتوں، بچوں اور مردوں کی جو حاضری
ہوتی تھی وہ کافی تعداد میں ہوتی تھی اور جس طرح وہ میرے آتے جاتے وقت اپنے جذبات کا اظہار کرتے تھے اس سے صاف نظر آ رہا ہوتا تھا کہ ان کے دلوں میں خلافت سے محبت کا تعلق ہے اور اخلاص و وفا ہے۔ پڑھے لکھے لوگ بھی، امیر لوگ بھی، دنیاوی لحاظ سے مصروف لوگ بھی نماز کے لیے کئی کئی گھنٹے لائن میں آ کر لگ جاتے تھے تاکہ مسجد میں جگہ مل جائے۔ یہ نہیں کہ فارغ لوگ ہیں جو آ گئے۔ ان میں بھی یہ تبدیلی اس بات کا اظہار ہے یا یہ رویہ، یہ اظہار اس بات کا اظہار ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دین اور جماعت کی محبت ان کے دلوں میں ہے۔ خلافت سے تعلق ان کے دلوں میں ہے۔ گیارہ بارہ سال کی عمر کے بچے پانچ چھ گھنٹے لائن میں لگ جاتے تھے کیونکہ چیکنگ اور کووڈ ٹیسٹ کی وجہ سے دیر لگ جاتی تھی لیکن کبھی کسی نے بھی ، نہ مہمانوں نے ، نہ اپنوں نے ،کوئی اعتراض نہیں کیا۔ بلکہ اپنوں نے بھی
نظام کی مکمل اطاعت اور اخلاص و وفا کے نمونے
دکھائے۔ اور زائن میں بلکہ ایک مہمان نے بھی اس بات کو دیکھا اور کہا کہ مَیں نے دیکھا کہ کتنا smooth نظام چل رہا تھا کہ باقاعدہ چیکنگ ہو رہی تھی، دیر لگ رہی تھی لیکن اس کے باوجود کوئی اعتراض نہیں تھا ۔ ایک گیارہ بارہ سال کے لڑکے کے ماں باپ مجھے کہنے لگے کہ ہمارا بیٹا جب سے آپ آئے ہیں مسجد میں آنے کے لیے پانچ چھ گھنٹے پہلے آ کر لائن میں لگ جاتا ہے اور کسی چیز کی پروا نہیں ہے حالانکہ پہلے یہ اس فکر سے نمازوں میں کبھی نہیں آیا۔ بہرحال بچوں میں، لڑکوں میں، لڑکیوںمیں، سب میں مَیں نے خوشی اور اظہار کا تعلق دیکھا۔ یہ جماعت پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ حاضری جو ہر جگہ نمازوں پر ہوتی تھی وہ انتظامیہ کی توقعات سے بہت بڑھ کر ہوتی تھی۔
اللہ تعالیٰ کرے کہ مسجدوں سے یہ تعلق اور عبادتوں کی فکر ان میں دائمی ہو جائے اور ہمیشہ رہنے والی ہو اور مسجدیں ہمیشہ آباد رہیں۔ جس طرح اخلاص و وفا کے نظارے افراد جماعت نے دکھائے ہیں وہ ہمیشہ ان میں قائم رہیں۔
امریکہ جیسے ملک میں لوگوں کا خیال ہے کہ لوگ دین کو بھول جاتے ہیں لیکن مجھے تو اکثریت میں اس طرف توجہ اور فکر نظر آئی ۔ جو مالی قربانیوں میں کمزور ہیں وہ بھی اپنے لیے اور اپنے بچوں ،نسلوں کے لیے دین سے اور خلافت سے جڑے رہنے کے لیے خاص طور پر دعا کی درخواست کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ افرادِ جماعت اور امریکہ کے اخلاص و وفا کو ہمیشہ بڑھاتا رہے۔
اسی طرح لجنہ، خدام، انصار بلکہ بچوں نے بھی اس عرصہ میں بہت محنت سے اپنی ڈیوٹیاں دی ہیں۔ عورتوں، مردوں نے کئی کئی دن جاگ کر تیاریاں کی ہیں۔ حاضری بھی ہر جگہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جیسے مَیں نے کہا کافی زیادہ تھی، ہزاروں میں ہوتی تھی اور ان کی
حاضری بیت الرحمٰن میں تو جلسہ کی حاضری سے بڑھ کر تھی
لیکن بڑے منظّم طریقے سے انہوں نے اپنے کام کو سنبھالا ہے۔ اللہ کرے کہ افراد جماعت امریکہ کے اخلاص و وفا کا یہ معیار ہمیشہ بڑھتا رہے اور اللہ تعالیٰ کرے کہ یہ تبدیلی عارضی نہ ہو بلکہ ہمیشہ کے لیے ہو۔
اس وقت میں
غیروں کے کچھ تاثرات
بیان کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے غیروں کے دلوں پر بھی غیرمعمولی اثر ڈالا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے سینے مزید کھولے اور یہ لوگ سچائی کو پہچاننے والے بھی بن جائیں۔ بہرحال کچھ تاثرات پیش کرتا ہوں۔
زائن میں جو مسجد بنی ہے ’فتحِ عظیم‘، اس کے حوالے سے وہاں جو فنکشن ہوا تھا اس میں 161؍غیر مسلم اور غیر از جماعت مہمانوں نے شرکت کی جن میں کانگریس مین، کانگریس وومن ،میئرز، ڈاکٹرز،پروفیسرز، ٹیچرز،وکلاء، انجنیئرز، سیکیورٹی کے اداروں کے نمائندگان اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے شامل ہوئے تھے۔
زائن کے شہر کے میئر آنریبل بلی میکینی (Billy Mckinney)نے اپنے تاثرات میں بیان کیا کہ میرے لیے جماعتِ احمدیہ مسلمہ کے عالمی راہنما کو مسجد فتح عظیم کے موقع پر زائن شہر میں خوش آمدید کہنا انتہائی اعزاز کی بات ہے۔ پھر کہنے لگے یہاں زائن میں ہمارا ماٹو ’Historic past and dynamic future‘ ہے اور ہمارے شہر کے قلب میں یہ خوبصورت مسجد اس ماٹو کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ پھر کہتے ہیں
خواہش اور دعا ہے کہ یہ عبادت گاہ ہمارے ماضی اور مستقبل کے درمیان ایک پل کا کام کرے۔
یہ جانتے ہوئے کہ یہ مسجد ایسی شاندار ایمان سے بھرپور کمیونٹی کے نمائندوں سے بھری ہوئی ہے مجھے زائن شہر کے مستقبل کے لیے بھی امید دلاتی ہے۔ جب میں اس پیغام کو دیکھتا ہوں جو احمدیہ کمیونٹی ہمارے شہر میں لے کرآئی ہے تو مجھے خوشی ہوتی ہے۔ تو یہ امید غیروں کو بھی ہم سے ہو رہی ہے۔ پھر کہتا ہے کہ یہ ایک ایسی جماعت ہے جو اسلام کے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کرتی ہے جنہوں نے عیسائیوں کے ساتھ عہد کیا تھا۔پھر آگے کہتے ہیں کہ احمدیہ مسلم کمیونٹی کی طرف سے اس شہر میں جو شاندار خدمات سرانجام دی گئی ہیں اور اس شہر کی ترقی اور اس کے لوگوں کی فلاح و بہبود کو بہتر بنانے کے لیے جو کام کیے گئے ہیں ان پر میں آپ کا تہ دل سے شکرگزار ہوں اور ہم اس شہر کی کلید امام جماعت احمدیہ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ چابی دیتے ہیں۔ پھر
انہوں نے شہر کی چابی بھی پیش کی۔
زائن شہر کے میئر کے مزید تاثرات یہ ہیں، کہتے ہیں کہ میں یہاں 1962ء سے مقیم ہوں۔ یہ پروگرام زائن شہر اور جماعت کے لیے ایک تاریخی پروگرام ہے۔ پھر مجھے بھی انہوں نے بڑے جذباتی انداز میں کہا کہ آج تم نے مجھے speechlessکر دیا ہے اور کہنے لگے کہ آپ کی موجودگی کا احساس بہت عمدہ ہے۔
ممبر آف الینوئے (Illinois)جنرل اسمبلی آنریبل جوئس میسن (Joyce Mason)نے اپنے تاثرات میں کہاکہ یہاں زائن میں مسجد فتحِ عظیم کے افتتاح کی اس تاریخی تقریب کا حصہ بننا میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔ زائن احمدیہ مسلم کمیونٹی کے لیے تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ آج اس شہر کے لیے خاص دن ہے۔ زائن ایک ایسی جگہ تھی جس کی بنیاد پچھلی صدی کے آغاز میں الیگزینڈر ڈووی نے رکھی تھی جو اسے ایک تھیوکریٹک شہر بناناچاہتے تھے جس کے دروازے اس کے ماننے والوں کے علاوہ باقی ہر ایک کے لیے بند تھے لیکن آج زائن شہر مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا گھر ہے۔ اور
یہ مسجد متعصبین کے بارے میں مومنوں کی دعاؤں کی فتح کی علامت ہے۔
میں احمدیہ مسلم کمیونٹی کو اس شاندار کامیابی پر مبارکباد پیش کرتی ہوں۔ غیروں کو بھی اس مقابلے کا اچھی طرح پتہ لگ گیا۔ پھر کہتی ہیں کہ امام جماعت احمدیہ امن کے فروغ کے حوالے سے ایک سرکردہ مسلم راہنما ہیں۔ پھر انہوں نے کہا کہ انہوں نے امن کے قیام پر زور دیتے ہوئے دنیا بھر کے قانون سازوں اور دیگر راہنماؤں سے بات کی ہے۔ پھر کہتی ہیں:زائن شہر کی خوش قسمتی ہے کہ امن پسند اور دوسروں کی خدمت کرنے والی جماعت نے یہاںآباد ہونے اور اتنی خوبصورت مسجد بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
میری دلی تمنا ہے کہ یہ مسجد نہ صرف اس شہر بلکہ چاروں اطراف کے لیے امید کی کرن بن جائے۔
میں اس کمیونٹی کو نئی مسجد کے افتتاح پر مبارکباد دیتے ہوئے ایوان میں ایک قرار داد پیش کر رہی ہوں۔
پھر ڈاکٹر کترینہ لینٹوس (Katrina Lantos)جو کہ لینٹوس (Lantos)فاؤنڈیشن فار ہیومن رائٹس اینڈ جسٹس کی صدر ہیں ،کہتی ہیں مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جب بھی میں احباب جماعت کے ساتھ ملتی ہوں تو میری روحانیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ پھر کہتی ہیں کہ یہاں زائن میں ہونے والے مباہلہ کے بارے میں سن کر بہت حیرت ہوئی کہ
اس زمانہ میں جبکہ موبائل فون، کمپیوٹر اور دیگر ذرائع مواصلات موجود نہیں تھے اس وقت بھی اس مقابلہ کو اتنی تشہیر ملی۔
ایک نظریہ ڈاکٹر جان ڈووی کا تھا جس کی بنیاد نفرت، باہمی تفریق اور تعصّب پر تھی اور دوسرا نظریہ جو کہ بانی جماعت احمدیہ مرزا غلام احمد صاحبؑ کا تھا جو کہ باہمی عزت اور بردباری پر مشتمل تھا اور ایک ایسی شخصیت کی طرف سے تھا جنہوں نے اس کا نتیجہ کلیةً اللہ کے ہاتھ میں چھوڑ رکھا تھا۔ پھر نتیجةً ہم جانتے ہیں کہ اس مباہلے میں کس کی فتح ہوئی اور یقینا ًیہ مسجد جس کا اب افتتاح ہونے جا رہا ہے جس کا نام ’فتحِ عظیم‘ مسجد رکھا گیا ہے، اس کا مطلب ہے ’ایک عظیم الشان فتح‘ جو کہ اس مباہلہ میں جماعت احمدیہ اور بانی جماعت احمدیہ کے حصہ میںآئی۔ پھر کہتی ہیں کہ لیکن میرے خیال میں ہمیں یہ کہنا چاہیے کہ وہ نہ صرف جماعت احمدیہ بلکہ انسانیت کی بھی فتح تھی کیونکہ اس سے باہمی عزت، محبت اور تحمل کی بھی فتح ہوئی جس کا نمونہ ہم اب اس عظیم الشان جماعت میں دیکھتے ہیں۔ پھر کہتی ہیں کہ آج جس طرح ہم یہاں اس خوبصورت اور پُرامن ماحول میں بیٹھے ہوئے ہیں وہاں ان احمدیوں کو بھی یاد رکھنا ہو گا جو پاکستان میں بیٹھے ہوئے ہیں اور اپنے مذہب کی وجہ سے روزانہ ناقابلِ بیان ظلم و ستم، تشدد اور منافرت کا سامنا کرتے ہیں جو کہ حکومت وقت کی موجودگی میں بھی اپنے آپ کو اکیلا محسوس کرتے ہیں۔
پھر زائن کے سابقہ کمشنر ایموس مونک (Amos Monk)صاحب نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ کہتے ہیں کہ میرے خیال میں آپ کی تعلیمات ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہیں اور دنیا کو اس سے زیادہ آگاہی ہونی چاہیے۔ میرے خیال میں یہ آج کل کی دنیا کا خوبصورت ترین راز ہے۔ میں اپنے سامنے میز پر پڑے بروشر دیکھ سکتا ہوں جس پر عدل، انصاف، خلوص اور محبت کا پیغام ہے۔ یہی تو وہ چیزیں ہیں جس کی دنیا کو ضرورت ہے۔ نفرت ختم کر دیں تو دنیا جنت نظیر ہو جائے گی۔ میرے خیال میں یہ پیغام تمام دنیا کو سننا چاہیے۔ دنیا کے مسائل کا یہی واحد حل ہے۔
پروفیسر کریگ کونسڈائن (Craig Considine)جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر ایک کتاب بھی لکھی ہوئی ہے، پروفیسر ہیں، ویسے بڑے پکے عیسائی ہیں، کہتے ہیں کہ میں اس بات سے بہت جذباتی ہو گیا کہ خلیفۂ وقت مجھے پرانے دوست کی طرح ملے۔
امام جماعت کی تقریر مجھے بہت پسند آئی۔ اس سے اسلام کے بارے میں میرا علم بڑھا ہے۔
جب مجھے اس خطاب کا متن ملے گا تو میں اسے اپنی اگلی کتاب میں استعمال کروں گا۔ پھر کہتے ہیں کہ امام جماعت نے بہت ہی خوبصورت انداز، آسان الفاظ میں یہ مضمون بیان فرمایا ہے کہ ہر کس و ناکس آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ جو تمام انسانی اقدار اپنانے، باہمی احترام،برداشت، وقار اور عزتِ نفس کا خیال رکھنے پر توجہ دلائی ہے یہ مجھے خاص طور پر پسند آیا ہے۔ پھر کہتے ہیں آپ دراصل ہمیں ہم سب کو باہمی محبت کی طرف بلا رہے ہیں۔ انہوں نے وہاں بیٹھ کے خطبہ جمعہ بھی سنا تھا۔ پورا ایک گھنٹہ بیٹھے رہے اور پھر اس کے بعد انہوں نے کہا، مجھے بھی کہنے لگے کہ میں نے ایسا خطبہ پہلے کبھی نہیں سنا۔
الینوئے (Illinois) سے تعلق رکھنے والی ایک مہمان میلوڈی ہال (Melody Hall)کہتی ہیں کہ میں پراڈکٹ ڈویلپمنٹ مینیجر ہوں۔ یہ پروگرام بہت دلچسپ تھا۔ میں نے بہت لطف اٹھایا۔
امام جماعت کا یہ پیغام کہ معاشرے میں متعصب شخص کی کوئی جگہ نہیں، بہت ہی شاندار پیغام تھا۔ آپ کو دیکھنا، آپ کی باتیں سننا، ایک بہت منفرد، اچھا احساس ہے۔ مجھے بہت مزہ آیا اور مجھے امام جماعت کی یہ بات بہت پسند آئی ہے کہ ہمارے پاس جو ہتھیار ہے وہ دعا کا ہتھیار ہے۔
ایک اَور مہمان جیف فینڈر (Geff Fender)نے کہا میں سرٹیفائیڈ پبلک اکاؤنٹنٹ ہوں اور رئیل اسٹیٹ کاکام بھی کرتا ہوں۔ یہ میرا پہلا تجربہ تھا۔ بہت متاثر ہوا ہوں۔ یہاں مسجد کے افتتاح پر آنا میری زندگی کا ایک انمول موقع تھا۔ پھر خطاب کا کہا کہ اس سے بڑا متاثر ہوا ہوں اور آپ لوگوں کے بارے میں بڑی نئی معلومات ملی ہیں۔ پھر کہنے لگے کہ
میرے لیے دعوتِ مباہلہ ایک نئی چیز تھی اور میں اس کے بارے میں مزید پڑھوں گا۔
اس طرح تبلیغ کے راستے بھی کھلتے ہیں۔
ایک ہائی سکول ٹیچر میٹ رینڈر (Matt Render)بھی آئے ہوئے تھے۔ کہتے ہیں کہ مجھے امام جماعت کا پیغام اور جس طرح سمجھا رہے تھے، یہ انداز بہت اچھا لگا۔ میرے جیسے بہت سے لوگ اس پیغام کو آسانی سے سمجھ سکتے تھے۔
ایمرجنسی سروسز سے تعلق رکھنے والی میری لو ہائیل برنڈ یا ہل برنڈ (Mary Lou Hildebrand)بھی اس پروگرام میں شامل تھیں۔ کہتی ہیں میں بہت متاثر ہوئی۔ آپ کے پیغام میں خلوص چھلکتا تھا۔ کوئی تکلف نہیں تھا۔ ہر لحاظ سے سچا اور کھرا انداز تھا۔ اس سے ہر کوئی آپ کے روزمرہ زندگی کا اندازہ کر سکتا ہے۔
ڈاکٹر جیسی راڈ ریگز(Jesse Rodriguez) بھی اس پروگرام میں شریک تھے۔ یہ Benton علاقہ کے سکولوں کے سپرنٹنڈنٹ ہیں، کہتے ہیں کہ
امام جماعت کے خطاب کا محور باہمی اتحاد تھا۔
بہت شاندار پیغام تھا۔ آپ نے کہا تمام مذاہب اہمیت رکھتے ہیں اور ہم سب اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ بہت ہی اچھا تھا۔
پھر ایک مقامی ہائی سکول کے پرنسپل زیک لیونگ سٹون (Zach Livingstone)کہتے ہیں کہ امام جماعت کی باتیں اپنے اندر ایک خاص جاذبیت رکھتی ہیں۔ خصوصاً انسانی حقوق اور خدمتِ انسانیت کے لیے کوششیں نہایت متاثر کن ہیں۔ آپ کا لوگو ’محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں‘ تمام قوموں، تمام مذاہب اور خاص طور پر تمام زائن شہر میں گونجتا ہے۔ اس پیغام کی اشد ضرورت ہے۔
وبائی حالات کے بعد ہماری فیملیز اور طلبہ میں بہت جذباتی اور معاشی زوال آیا ہے اور ہمیں ان مسائل سے باہر نکلنے کے لیے اس پیغام کی اشد ضرورت ہے۔
ایک اَور مہمان شامل ہوئے۔ انہوں نے زائن مسجد کے سنگ بنیاد کے موقع پر اینٹ بھی رکھی تھی۔ کہتے ہیں کہ آج ایک خوبصورت دن تھا۔ مجھے پچھلے سال اس مسجد کے سنگ بنیاد رکھنے میں شامل ہونے کی توفیق ملی تھی۔ میں بہت خوش تھا کہ میں اسے مکمل ہوتا دیکھوں گا۔
آپ کی مسجد ہماری کمیونٹی کے لیے امید اور دوستی کا ذریعہ ہے۔
زائن کی پولیس کے چیف ایرک (Eric)صاحب کہتے ہیں بڑا اچھا پروگرام تھا۔ سب لوگوں کی طرف سے محبت اور خلوص دیکھ کر بہت اچھا لگا۔ یہ پیغام کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کون ہیں۔ اہمیت اس بات کی ہے کہ ایک دوسرے کا خیال رکھنے والے ہیں کیا ہی عمدہ اور خوبصورت پیغام ہے۔
ایک مہمان جینیفر (Jennifer)کہتی ہیں کہ اگر آپ کی جماعت کے اصولوں کی بات کی جائے تو وہ سب سے اعلیٰ ہیں۔ جب آپ زائن شہر میں قدم رکھتے ہیں تو پرانی عمارت پر ایک ماٹو ’محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں‘ کا پیغام دکھائی دیتا ہے اور اس کی گونج آپ کے ساتھ رہتی ہے۔ یہ آواز آپ کے ساتھ رہتی ہے اور یہی زائن شہر کی اصل روح ہے۔
پھر ایک اَور مہمان چیری نیل (Cheri Neal)صاحبہ جو زائن ٹاؤن شپ کی سپروائزر ہیں کہتی ہیں انتظامات سے میں بہت حیران ہوئی۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ آپ اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوئے۔
پھر ایک اَور مہمان نے کہا یہ جان کر بہت اچھا لگا کہ ہمارے درمیان آپ جیسے راہنما موجود ہیں جو کہ لاکھوں لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور لوگوں کو آپس میں جوڑتے ہیں۔ اس موضوع پر بات کرتے ہیں کہ ہم سب ایک ہیں اور ہر مذہب کی اہمیت ہے۔ یہ پیغام بہت اچھا اور پُراثر ہے۔
خاتون مہمان گلوریا (Gloria)صاحبہ کہتی ہیں: زائن کی تاریخ بہت معلوماتی تھی۔ اگرچہ میں یہاں پر رہتی ہوں لیکن اس جگہ کے بارے میں کافی چیزیں ایسی تھیں جو میں نہیں جانتی تھی۔ پھر ایک مہمان نے کہا۔ میں نے اس تقریب سے بھرپور لطف اٹھایا اور اس پیغام نے مجھے بہت متاثر کیا ہے۔
میں آپ کے ماٹو ’محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں‘ کے بارے میں جانتا تھا لیکن آپ لوگوں کو دیکھ کر اس پر مزید یقین بڑھ گیا۔
مجھے بہت ساری چیزوں نے متاثر کیا ہے۔ اور پھر کہنے لگے امام جماعت نے جو یہ کہا کہ قرآن مجید ہی ایک وہ کتاب ہے جو تمام مذاہب کی حفاظت کرتی ہے میں نے یہ نئی بات سیکھی ہے۔ مجھے پہلے اس بات کا علم نہیں تھا۔
پھر ایک انڈین پروفیسر شوبھانہ شنکر (Shobana Shankar)صاحبہ، ان کی میرے سے ملاقات بھی ہوئی تھی، اسٹیٹ یونیورسٹی آف نیویارک کی پروفیسر ہیں۔ عبدالسلام ریسرچ سنٹر اٹلی سے بھی ریسرچ کر چکی ہیں۔ کچھ عرصہ یہ گھانا میں بھی رہی ہیں۔ انہوں نے اظہار کیا کہ آپ گھانا میں تھے۔ آپ کا کام زندہ ہے۔ یہ مجھے باتوں میں کہیں کہا۔ پروفیسر نے بتایا کہ افریقہ میں اس کی کئی پروفیسرز سے بات ہوئی ہے جو کہ احمدیہ گرلز سکول سے تعلیم یافتہ ہیں۔ یہ لڑکیوں کے لیے بہترین سکول ہیں۔ یہ افریقہ میں جماعت کی تعلیمی خدمات اور تاریخ کو اجاگر کرنا چاہتی ہیں اور مغربی افریقی احمدیوں پر ایک کتاب لکھنا چاہتی ہیں۔ پروفیسر نے یہ کہا کہ مقامی زبان اور ترجمہ کرنے والوں سے استفادہ کرنے میں جماعت کی معاونت چاہیے تو بہرحال ان کو میںنے کہا تھا جہاں بھی آپ کو مدد کی ضرورت ہو گی ان شاء اللہ ہم مدد کر دیں گے اور مَیں نے کہا بلکہ گھانا کے علاوہ باقی ملکوں کو بھی آپ کو شامل کرنا چاہیے۔
پھر
ڈیلس (Dallas)میں بیت الاکرام مسجد کا افتتاح
ہوا۔ اس تقریب میں بھی 140؍غیر مسلم اور غیر از جماعت مہمانوں نے شرکت کی۔ ان میں سیاست دان، ڈاکٹرز، پروفیسرز، ٹیچرز ،وکلاء، انجنیئرز، سیکیورٹی کے اداروں کے نمائندگان اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے مہمان شامل تھے۔
ایلن (Allen)شہر کی سٹی کونسل کے ممبر کارل کلیمن شِک (Carl Clemencich)جنہوں نے شہر کی چابی بھی پیش کی تھی انہوں نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا آج مسجد بیت الاکرام کے افتتاح کی تاریخی تقریب میں شامل ہونا بڑے اعزاز کی بات ہے۔ میں میئر اور ایلن (Allen)شہر کی تمام سٹی کونسل کی طرف سے جماعت احمدیہ کو اس زبردست کامیابی پر مبارکباد دیتا ہوں۔ میئر دو دن پہلے مجھے مل کے گئے تھے۔ مسجد میں آئے تھے اور ملے تھے اور معذرت کر رہے تھے کہ میں ملک سے باہر جا رہا ہوں اس لیے حاضر نہیں ہو سکوں گا اور اپنا نمائندہ بھیجوں گا۔ وہ میئر صاحب بھی اچھے ملنسار آدمی تھے۔
پھر میئر کے یہ نمائندے کہتے ہیں کہ ہم جماعت احمدیہ کی خدمات کو سراہتے ہیں جس میں غرباء کے لیے کھانا تقسیم کرنا، ضرورت مندوں کے لیے کپڑے جمع کرنا اور بہت سے دیگر مواقع پر اس علاقے کے ضرورت مند رہائشیوں کی مدد کرنا شامل ہے۔ پھر کہتے ہیں
یہ ایلن شہر کی خوش قسمتی ہے کہ ایک امن پسند اور انسانیت کی خدمت کا جذبہ رکھنے والی کمیونٹی نے اس شہر کو اپنایا اور اس شہر میں یہ خوبصورت مسجد بنائی۔
میری خواہش ہے کہ یہ مسجد نہ صرف اس شہر کے لیے بلکہ اس تمام علاقے کے لیے ایک امید کی کرن ثابت ہو۔ ایلن (Allen)شہر جو ہے یہ بھی ڈیلس (Dallas)کے بالکل ساتھ ہی جڑتا شہر ہے۔ اب تقریباً اس کا حصہ ہی بن چکا ہے۔ آخر میں انہوں نے میئر اور ایلن (Allen)شہر کی کونسل کی طرف سے شہرکی چابی بھی پیش کی۔
پروفیسر ڈاکٹر رابرٹ ہنٹ (Dr Robert Hunt) تقریب میںشامل تھےجو کہ سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی پرکنز سکول آف تھیولوجی (Southern Methodist University, Perkins School of Theology) میں گلوبل تھیولوجیکل(Global Theological) شعبہ کے ڈائریکٹر ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں جماعت احمدیہ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے میتھوڈسٹ یونیورسٹی سے مجھے اور میرے ساتھیوں کو آج کے تاریخی پروگرام میں شمولیت کی دعوت دی۔ یہ ہمارے لیے بہت فخر کی بات ہے۔ اور پھر کہتے ہیں جماعت کے سربراہ،
امام جماعت احمدیہ دو خوبیوں کو فروغ دینے کے لیے وقف ہیں جس میں پہلی مذہبی آزادی اور دوسری بین المذاہب مکالمہ و مخاطبہ ہیں۔
ان دونوں خوبیوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے کیونکہ مذاہب کے اندر اگر باہمی افہام و تفہیم نہ ہو اور باہمی احترام نہ ہو تو تفرقہ کی آواز کو تقویت ملتی ہے اور میں یہ بات اس بنیاد پر کرتا ہوں کہ میری آدھی بالغ زندگی ایسے ممالک میں گزری ہے جہاں میں خود مذہبی اقلیت میں تھا۔ پھر کہا کہ تاریخ گواہ ہے کہ جماعت احمدیہ کو ظلم کا نشانہ بنایا گیا اور اسی وجہ سے یہ جماعت مذہبی آزادی کی کاوشوں میں صفِ اول پر رہی اور یہی چیز ہے کہ جب تک ہم ایک دوسرے کے ساتھ احترام اور کھلی ذہنیت کے ساتھ پیش نہ آئیں ہم تفرقہ بازی پر قابو نہیں پا سکتے اور منفی افکار کو معاشرے سے ختم نہیں کر سکتے۔
پھر ریپبلکن (Republican)کانگریس مین آنریبل مائیکل مک کال (Michael McCaul)نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ کہتے ہیں کہ دنیا کے تین مذاہب یہودیت، عیسائیت اور اسلام حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اپنی تاریخ جوڑتے ہیں اور پھر مجھے انہوں نے کہا کہ آپ کا اعتقاد ہے کہ حضرت ابراہیم سے وابستہ یہ تینوں مذاہب امن کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ اس بات کا تجربہ جماعت احمدیہ سے زیادہ کس کو ہو سکتا ہے۔ پھر کہنے لگے مجھے امام جماعت کے ساتھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور جماعت احمدیہ کی تعلیم نئے عہد نامہ و انجیل کے بارے میں بات کرنے کا موقع ملا۔ ان سے بات ہوتی رہی اور کتاب ’’مسیح ہندوستان میں‘‘، یہ بھی ان کے پاس تھی، کہتے ہیں میں نے آدھی پڑھ لی ہے اور پڑھ رہا ہوں۔ بڑی دلچسپ ہے اور مزید ریسرچ کروں گا۔ کہتے ہیں اس کتاب سے حضرت عیسیٰ کے بارے میں بھی بہت ساری نئی باتیں مجھے پتہ لگ رہی ہیں۔ اچھے پڑھے لکھے ہیں اور مذہب سے دلچسپی رکھنے والے ہیں۔ بہرحال کہتے ہیں کہ نئے عہد نامہ اور انجیل کے بارے میں بات کرنے کا موقع ملا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم جماعتِ احمدیہ سے امن، رحمدلی اور محبت کے بارے میں بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ میری پرورش کیتھولک ہوئی ہے۔ میں اب امریکی کانگریس میں احمدیہ کاکس(Ahmadiyya Caucus)کا چیئرمین ہوں۔ ہماری جماعت کے حق میں بولنے والے آواز اٹھانے والے جو لوگ ہیں یہ اس کمیٹی کے چیئرمین ہیں۔ پھر کہتے ہیں خاص طور پر دنیا میں امن پھیلانے اور قوموں میں اتحاد قائم کرنے، عدم تشدد، انتہا پسندی کا خاتمہ، غربت کے خاتمہ، اقتصادی مساوات، عالمی انسانی حقوق کے لیے اور عالمی مذہبی آزادی کے لیے آپ کی کوششوں کو سراہتا ہوں۔ پھر کہتے ہیں متعدد احمدی مسلمانوں کو ٹارگٹ کر کے قتل کیا گیا۔ اس
ظلم و ستم کی جاری داستان کے باوجود امام جماعت نے دوسروں پر انتقامی تشدد کرنے سے منع فرمایا جو ایک بہت عظیم عمل ہے۔
پھر کہتے ہیںکہ امام جماعت نے بار بار دنیا کے راہنماؤں کو سمجھایا کہ حقیقی اور دیرپا امن کے لیے انصاف ضروری ہے۔ مظلوم قوموں کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی۔ اس طرح کے خیالات کا اظہار انہوں نے کیا۔ کافی لمبے اظہارات ہیں۔
ایک مہمان ٹام بیری (Tom Berry)کہتے ہیں کہ میں امام جماعت کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ ان کا پیغام، مہمان نوازی، باہمی میل جول سب کچھ بہت خوب تھا۔ بلاشبہ یہ ایک نعمت ہے کہ عقیدے یا مذہب سے قطع نظر ایک دوسرے کی زیادہ سے زیادہ بھلائی کے لیے کام ہو۔ زندگی کی قدر ہو۔ زندگی سے پیار ہو۔ انسانوں کا احترام ہو۔ انسانوں سے محبت ہو۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایسے معاشرے میں کسی ایک فرد یا ادارے کی اجارہ داری نہیں ہے۔ سب کو مل کر کام کرنا چاہیے۔ یہی خلیفہ کا پیغام تھا۔ یہ پیغام ایسا ہے کہ روزانہ سونے سے قبل اور صبح اٹھنے کے بعد دہرانا چاہیے اور اسی پیغام کو پھیلانا چاہیے۔ یہی پیغام ہمیں اپنے بچوں کو سمجھانا چاہیے تاکہ جب ہم نہیں ہوں گے تو وہ اس پیغام کو جاری رکھیں۔ میںآپ کا پھر شکریہ ادا کرتا ہوں۔
پھر ایک مسلمان مہمان سلطان چودھری صاحب تھے۔ کہتے ہیںکہ امام جماعت نے جو تمام دنیا کے لیے امن کا پیغام دیا ہے یہ میرے خیال میں ایک بہترین پیغام ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ
یہ بہت ضروری ہے کہ مسلمانوں کے خلاف اس خوف کو دور کیا جائے کہ وہ یہاں قبضہ کر لیں گے۔
انہوں نے واضح کیا ہے کہ چونکہ مسلمانوں کو ختم کرنے کی کوئی سازش نہیں کر رہا، کوئی کوشش نہیں کر رہا اس لیے مسلمانوں کے لیے کسی جنگی مہم کا کوئی جواز نہیں ہے۔
نارتھ پریسبٹیرین چرچ (North Presbyterian Church)سے ایک مہمان خاتون بیورلی میکارڈ (Beverly McCord)صاحبہ آئی تھیں۔ کہتی ہیں خلیفہ کو دیکھ کر، ان کی باتیں سن کر بہت سکون ملا۔ کسی کو عالمی امن کے لیے اس طرح کوشش کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ بہت اچھا احساس ہے۔ اگر لوگ اپنی خودغرضی،کسی پڑوسی پر غلبہ پانے یا کسی دوسرے کے علاقے پر قبضہ کرنے یا کسی پر ظلم کرنے کے ایجنڈے کے بجائے اس پیغام کو سنیں تو دنیا میں امن ہو سکتا ہے۔
کاش! ہم امن کو فروغ دینے والی مزید تقاریر سن سکیں اور لوگوں کو یاد دلاتے رہیں کہ انہیں ہمیشہ امن کی پیروی کرنی چاہیے اور کام کرنا چاہیے۔
کولن (Collin)کاؤنٹی پولیس ڈیپارٹمنٹ سے بھی ایک شخص لیرائے (LeRoy)صاحب شامل ہوئے تھے۔ کہتے ہیں یہ خوبصورت پروگرام تھا جس سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ احمدیہ مسلم کمیونٹی نے حقیقتاً ایک شاندار کام کیا ہے۔
پھر ایک مسلمان مہمان ڈاکٹر حلیم الرحمان صاحب بھی تھے۔ کہتے ہیں یہ بالکل ناقابل یقین تھا۔ مجھے تقریب، انتظامات، مہمان نوازی، پنڈال بہت اچھا لگا۔ کہتے ہیں میں اس احترام کا مستحق نہ تھا جو ان لوگوں نے مجھے دیا ہے۔ یہ سب ماحول دیکھ کر آپ کی عزت افزائی سے میری آنکھیں نم ہو گئی ہیں۔ مجھے بہترین انسانوں کے مابین وقت گزارنے کا موقع ملا۔ حقیقی انسان جو کہ اسلام کی حقیقی تعلیمات پر عمل پیراہیں۔
یہاں بیٹھ کے تو یہ بیان دیتے ہیں۔ پاکستان جائیں تو مولوی جینے نہ دیں۔
ایک مہمان ایبی کرکنڈل (Abby Kirkendall) کہتی ہیں کہ میں نے ایسی مذہبی جماعت دیکھی جس کی عبادت کا طریقہ تو ہم سے مختلف ہے لیکن ہماری اقدار ایک جیسی ہیں۔ میرے لیے ایک شاندار تجربہ تھا۔ یہ میرے لیے باعثِ فخر تھا کہ میں امام جماعت جو مذہبی راہنما ہیں کو ایسی اقدار کے بارے میں بات کرتے ہوئے دیکھ رہی تھی جو کہ سب کمیونٹیز کو اپنے اندر سمو لینی چاہیے۔ پھر کہتی ہیں
یہاں آ کر مجھے خدا کی موجودگی کا احساس ہو رہا تھا
اور عقائد سے قطع نظر جہاں آپ کو خدا کی موجودگی کا احساس ہو وہاں آپ کو امن اور سکون ملتا ہے جو آج یہاں تمام افراد کو بلا امتیاز مذہب اور قوم اور ملت ملا اور یہی چیز ہے جس کی ضرورت تمام کمیونٹیز کو ہے۔
پھر ایک خاتون وکٹوریہ صاحبہ کہتی ہیں
مجھے جو چیز یہاں سب سے زیادہ نمایاں لگی وہ امام جماعت کا خطاب تھا کہ کس طرح مذہبی اختلاف اور مختلف نظریات کے باوجود ہم سب آپس میں ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔
میرے خیال میں یہ ایک ایسی چیز ہے جس کا آجکل بین المذاہب ڈائیلاگ میں فقدان نظر آتا ہے اور کسی کو اتنی حکمت اور دانائی کے ساتھ اس بارے میںبات کرتے ہوئے دیکھ کر بہت خوشی محسوس ہوئی کہ اپنے مذہبی عقائد میں اختلافات کے باوجود تمام بنی نوع انسان ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور ہمیں کس طرح آپس میں امن کے ساتھ ایک دوسرے کا احساس کرتے ہوئے رہنا چاہیے۔
پھر ایک مہمان خاتون تھیں میری میکڈرمٹ (Mary McDermott)کہتی ہیں۔ یہ وہاں مسجد ڈیلس میں ہماری ہمسائی ہیں۔ ان کی بہت بڑی زمین ہے۔ انہوں نے پارکنگ کے لیے جگہ بھی دی تھی۔ کہتی ہیں میں پہلے کبھی بھی زمین کے اس گرد آلود قطعہ سے اتنی خوش نہ ہوئی جتنا اس پروگرام کے لیے دینے پر ہوئی ہوں۔ بہت شریف النفس اور اعلیٰ اخلاق کی خاتون تھیں۔ اپنی جگہ دے دی انہوں نے بلکہ صاف کروا کے، ٹھیک کر کے، لیول کر کے دی۔
پھر ایک خاتون بیورلی میکارڈ(Beverly McCord)تھیں جن کا میں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں۔ وہ کہتی ہیں مجھے ہمیشہ عالمی مذہبی راہنماؤں کو سننا اچھا لگتا ہے جو کہ لوگوں کو مسلسل امن کی ضرورت، باہمی اختلافات کے تدارک اور محبت کی طرف بلاتے رہتے ہیں۔ مجھے ہمیشہ ایسے پیغام سن کر خوشی ہوتی ہے۔
مجھے ذاتی طور پر اس جماعت سے کوئی خوف نہیں ہے اور دوسروں کے خوفزدہ ہونے کی بھی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی کیونکہ یہ جماعت تو بہت محبت کرنے والی، احساس کرنے والی اور ہمیشہ خدمت خلق کرنے والی جماعت ہے۔
اگر کسی کو کوئی خوف ہو تب بھی اس جماعت کی خدمت خلق اور فلاحی کاموں کو دیکھ کر فوراً دور ہو جاتا ہے۔
پھر جوشُوَا(Joshua)نامی ایک مہمان تھے۔ کہتے ہیں آج کی اس افتتاحی تقریب میں مجھے اور دیگر سینئر پادری حضرات کو دعوت دی گئی ہےکہ اس تقریب میں شامل ہوں اور لوگوں سے بات چیت کا موقع ملے۔
میں اس بات کو بہت سراہتا ہوں کہ یہاں کس طرح حکمت کے ساتھ امن، اتحاد اور انصاف کے بارے میں بات کی گئی ہے۔
اس بات کا احساس بھی ہوا کہ ایسے لوگ بھی ہیں جن کا تعلق مختلف تہذیب و تمدن سے ہے لیکن وہ بھی ہماری زندگیوں میں خدا کی موجودگی اور انسانوں میں باہمی ہمدردی کا پرچار کرتے ہیں اور کیونکہ ہمارے اعمال کا ایک دوسرے پر بھی اثر ہوتا ہے اس لیے اس طرح مل بیٹھنا اور کھانے کھانا اور باتیں کرنا ضروری ہوتا ہے۔ کہتے ہیں میں اپنی اہلیہ کو بتا رہا تھا کہ یہاں میزبانی بہت عمدہ تھی۔ یہاں پہنچتے ہی ہر چیز آرگنائزڈ لگی۔
اسی طرح وہاں فورٹ ورتھ (Fort Worth)ایک جگہ ہے ڈیلس (Dallas)سے پچاس پچپن میل کے فاصلے پرہے۔ وہاںبھی گئے تھے۔
ایک چھوٹی سی مسجد، نئی جگہ لی ہے۔
یہ جگہ تو ساڑھے تین ایکڑ ہے۔ بلڈنگ بھی کافی بڑی ہے۔ لیکن اس میں مسجد نہیں بلکہ عمارت خریدی گئی تھی۔ یہ جگہ تو پونے پانچ ایکڑ ہے، ساڑھے تین نہیں ہے۔ اور تیرہ ہزار مربع فٹ کی ایک عمارت بھی یہاں موجود ہے۔ ملٹی پرپز ہال ہیں، دفاتر ہیں، لابیز شامل ہیں۔ بہرحال یہاں ایک گنبد اور دو مینار تعمیر کرنے کا پروگرام ہے تاکہ مسجد کی شکل دے دی جائے۔ یہ اچھی جگہ ہے۔ وہاں احباب جماعت نمازیں بھی پڑھتے ہیں۔ اچھی جگہ ہے۔ مجھے بھی وہاں نماز مغرب عشاء پڑھانے کا موقع ملا۔
ایک مہمان ایبی کرکنڈل (Abby Kirkendall) صاحبہ جن کا پہلے بھی ذکر ہو چکا ہےفورٹ ورتھ میں رہتی ہیں، ڈیلس مسجد کے افتتاح پر آئی ہوئی تھیں۔ کہتی ہیں امام جماعت نے خدا تعالیٰ کی منشا کے مطابق ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر کام کرنے کا پیغام بہت ہی احسن رنگ میں دیا۔ امن اور نیوکلیئر جنگ سے بچاؤ کا پیغام میرے لیے خاص اہمیت رکھتا ہے۔ ان کا یہ پیغام کہ جو بھی اس جنگ کا حصہ بنے گا وہ تباہی میں جاگرے گا، بہت زبردست تھا۔
پھر فورٹ ورتھ سے ہی فرسٹ یونائیٹڈ میتھوڈسٹ چرچ (First United Methodist Church)کی ایک ممبر ہیں، یہ بھی وہاں ڈیلس (Dallas)میں ہی آئی ہوئی تھیں۔ کہتی ہیں کہ پیغام بہت شاندار تھا۔ ہر ایک کو خلیفہ کے اس واضح پیغام کو ضرور سننا چاہیے۔ خلیفہ کے خطاب کا انداز بھی شاندار تھا۔ خطاب سن کر ایک لطف محسوس ہوا۔ میں ان کو دوبارہ بھی سننا چاہوں گی۔
پھر ہائی سکول منسٹری کی ایک ٹیچر ہیں ۔کہتی ہیں کہ خلیفہ کی دو باتوں کا مجھ پر خاص اثر ہوا۔ ایک تو یہ کہ انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ معاشرے کے اندر اسلام کے متعلق واقعی تحفظات موجود ہیں اور بحیثیت ایک ٹیچر ہونے کے میں یہ چیزیں اپنے طلبہ میں گاہے بگاہے دیکھتی رہتی ہوں۔ دوسری چیز جس کو میں نے بہت سراہا وہ خلیفہ وقت کا نیوکلیئر ہتھیاروں کو استعمال کے متعلق متنبہ کرنا تھا۔ آج کل کے حالات میں اس قسم کا پرحکمت پیغام سن کربہت اچھا لگا۔
تو یہ تو تھے بعض لوگوں کے تاثرات ۔ اب بعض اور معلومات ہیں، متعلقہ باتیں ہیں، وہ بھی بیان کر دیتا ہوں۔ یہاں مسجد زائن (Zion)میں ہی جیسا کہ آپ نے ایم ٹی اے میں دیکھ بھی لیا ہو گا،
ڈووی کے مباہلہ کے حوالے سے ایک نمائش
لگائی گئی تھی اور جو اخباروں نے شائع کیا تھا، ان اخباروں کی کٹنگ بھی وہاں تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجموعہ اشتہارات جلد سوم میں بتیس۳۲ اخبارات کے نام لکھے ہیں اور ساتھ تحریر فرمایا ہے ’’یہ اخبار صرف وہ ہیں جو ہم تک پہنچے ہیں۔ اس کثرت سے معلوم ہوتا ہے کہ سینکڑوں اخباروں میں یہ ذکر ہوا ہوگا۔‘‘ چنانچہ جماعت امریکہ نے اس حوالے سے مزید تحقیق کی اور مزید اخبارات تلاش کیے۔ ان بتیس اخبارات کے علاوہ جن کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے مزید ایک سو اٹھائیس اخبارات ایسے ملے ہیں جن میں ڈووی کو دیے جانے والے مباہلے کے چیلنج کا ذکر ہے۔ اس طرح اس زمانے میں ان اخبارات کی کل تعداد 160تک چلی گئی ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں امریکہ کے 160؍اخباروں نے یہ بیان دیا۔
یہ تمام اخبارات ڈیجیٹل صورت میں مسجد فتح عظیم کے ساتھ لگائی جانے والی نمائش میں موجود ہیں اور لوگوں نے آ کے دیکھے۔
پھر زائن مسجد کے افتتاح کی دنیا نے بھی خبریں دیں۔
امریکن نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (Associated Press)نے میرا دورہ زائن جو تھا اور مسجد فتح عظیم کے افتتاح کے حوالے سے مضمون بھی شائع کیا۔ اس کا عنوان تھا کہ Two prophets, century- old prayer duel inspire Zion mosque یعنی زائن کی مسجد کی بنیاد دو نبیوں کے درمیان ایک صدی پرانا مباہلہ ہے۔ اس میڈیا آؤٹ لٹس کی ویب سائٹ کے مطابق تقریباً دنیا کی آدھی آبادی اس کے قارئین ہیں۔ یہ مضمون مجموعی طور پر دنیا کے تیرہ ممالک کے 412؍آؤٹ لٹس اور اخبارات میں شائع ہوا بشمول واشنگٹن پوسٹ، اے بی سی نیوز، ٹورنٹو سٹار، دی ہِل (The Hill) اور بہت سے دوسرے مشہور اخبارات ہیں۔ یہ مضمون بھی ایسوسی ایٹڈ پریس کے ٹاپ دس مضامین میں شامل تھا۔ یہ نہیں کہ توجہ نہیں تھی بلکہ یہ دس اہم مضمونوں میں شامل ہوا۔ مضمون میں یہ بتایا گیا تھا کہ زائن میں 115؍سال پہلے ایک مقدس معجزہ ہوا تھا۔ دنیابھر کے لاکھوں احمدی مسلمان اس پر یقین رکھتے ہیں۔ احمدی اس چھوٹے شہر کو جو شکاگو سے چالیس میل دور مشی گن جھیل کے ساحل پر واقع ہے ایک خاص مذہبی اہمیت دیتے ہیں۔ اس شہر سے احمدیہ جماعت کا لگاؤ ایک صدی سے زیادہ پہلے مباہلہ اور ایک پیشگوئی کے ساتھ شروع ہوا تھا۔ زائن شہر کی بنیاد 1900ءمیں ایک مسیحی تھیوکریسی کے طور پر جان الیگزینڈر ڈووی نے رکھی تھی جو ایک ایونجلسٹ (Evangelist)اور ابتدائی پینٹی کوسٹل (Pentecostal)مبلغ تھا۔ احمدیوں کا عقیدہ ہے کہ ان کے بانی حضرت مرزا غلام احمد صاحب نے ڈووی کے اسلام کے خلاف بدزبانی اور حملوں کے جواب میں اسلام کا دفاع کیا اور اسے صرف دعاؤں کا ہتھیار استعمال کر کے روحانی جنگ میں شکست دی۔ تقریباً تمام زائن کے موجودہ باشندوں کو اس پرانے دور کی مقدس لڑائی کا کوئی علم نہیں ہے لیکن احمدیوں کے لیے یہ مقدس لڑائی وہ ہے جس نے شہر زائن کے لیے ایک ابدی تعلق قائم کیا ہے۔ دنیا بھر سے ہزاروں احمدی مسلمان اس صدی پرانے معجزے کو یاد کرنے کے لیے اور زائن شہر کی تاریخ اور ان کے عقیدے کے ایک اہم سنگ میل، شہر کی پہلی احمدیہ مسجد کے افتتاح کو منانے کے لیے شہر میں جمع ہوئے۔ پھر اس مضمون میں اَور بھی آگے لکھتا ہے۔ اور ڈووی کے بارے میں اس نے اس کی پرانی تاریخ کافی بیان کی ہے۔ پھر کہتا ہے کہ احمدیوں کا عقیدہ ہے کہ ان کے بانی جو 1835ء میں پیدا ہوئے وہ مصلح تھے جن کی خوشخبری بانیٔ اسلام نے دی تھی۔ ان کا عقیدہ یہ بھی ہے مرزا غلام احمدؑ حضرت عیسیٰؑ کے مثیل کے طور پر آمد ثانی ہیں۔ اس کے علاوہ کینیڈا میں دورہ زائن اور مسجد فتح عظیم کے افتتاح کی بڑے وسیع پیمانے پر بہت کوریج ہوئی ہے۔
کینیڈا میں اللہ کے فضل سے نو بڑے اخبارات، چھ آن لائن پبلیکیشنز اور ایک ریڈیو سٹیشن کے ذریعہ دورۂ زائن کی کوریج ہوئی۔ کینیڈا میں آٹھ لاکھ ستاون ہزار لوگوں تک پیغام پہنچا۔ امریکہ، کینیڈا کے علاوہ یوکے، یونان ، سیرالیون، تائیوان، انڈیا، ہانگ کانگ، پیرو، فلپائن، ساؤتھ افریقہ، تنزانیہ اور ویت نام کی آئن لائن اخبارات نے بھی کوریج دی۔
امریکن نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس جس کا میں نے حوالہ دیا اس کا یہ آرٹیکل امریکہ میں دو سو اخبارات میں پرنٹ ہوا اور 176؍آن لائن اخبارات میں شائع ہوا۔
اس کے علاوہ ایم ٹی اے افریقہ کے ذریعہ سے بھی اس فنکشن کی لائیو کوریج دی گئی۔ زائن (Zion)اور ڈیلس (Dallas)میں تقاریب کے موقع پر جو خطابات تھے وہ گیمبیا نیشنل ٹی وی، سیرالیون نیشنل ٹی وی، سینیگال سےٹی وی لائیو نشر ہوئے۔ اس کو لکھوکھہاافراد نے دیکھا۔ کہتے ہیں زائن میں مسجد فتحِ عظیم کی تقریب سے آدھا گھنٹہ قبل ہمارے سٹوڈیوز میں لائیو نشریات کا آغاز ہوا جن کے ذریعہ لوکل زبانوں میں الیگزینڈر ڈووی کے متعلق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کا پس منظر بیان کیا گیا۔ افریقہ بھر میں نیوز رپورٹس کے ذریعہ بھی، ٹی وی ریڈیو اور اخبارات میں کوریج ملی۔ یوگنڈا میں پانچ چینلز اور گھانا ، نائیجیریا، لائبیریا، سیرالیون، روانڈا کے ٹی وی چینلز پر یہ نیوز رپورٹس شائع ہوئیں۔
امیر صاحب سیرالیون لکھتے ہیں کہ ان کے بیس سال پرانے ایک دوست تھے جنہوں نے جلسہ سالانہ یوکے کے موقع پر اس سال بیعت کی تھی۔ جب زائن کا پروگرام دیکھا کہنے لگے کہ جس دن میں نے بیعت کی اس رات مجھے بہت سخت افسوس ہوا کہ بیعت کرنے میں مجھے اتنی دیر کیوں لگی لیکن اگر میں سچ کہوں تو جس دن میں نے زائن کی مسجد کا پروگرام دیکھا میں نے اپنے آپ کو کہا کہ اگر امیر صاحب الیگزینڈر ڈووی والا واقعہ مجھے پہلے سنا دیتے تو شاید میری بیعت بیس سال پہلے ہو جاتی۔
میں کبھی بھی کسی مذہبی واقعہ سے اس طرح قائل نہیں ہوا جیسا کہ زائن کی اس پیشگوئی سے ہوا ہوں۔ میں نے اس زمانے کا سب سے بڑا چیلنج دیکھا ہے
اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ واقعہ ہمارے زمانے میں مغربی میڈیا کی مکمل چھان بین کے تحت ہوا ہے۔ حضرت امام مہدی نے مستقبل کی اس طرح پیشگوئی کی ہے کہ گویا وہ وہاں موجود تھے جہاں سے خدا فیصلے کرتا ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ میرے خیال میں جب بھی ہم غیر از جماعت لوگوں کو تبلیغ کریں ہمیں زائن کی پیشگوئی کا ذکر ضرور کرنا چاہیے کیونکہ یہ ایک بہت مؤثر پیشینگوئی اور دلیل ہے۔ جس دن میں نے بیعت کی اس رات مجھے لگا تھا کہ شاید میں نے صحیح فیصلہ کیا ہے مگر زائن کی پیشگوئی کے بعد میں نے سکون کا سانس لیا اور اس بات پر پورا یقین ہوا کہ میری بیس سالہ حق کی تلاش رائیگاں نہیں گئی۔ میں نے یقیناً درست فیصلہ کیا۔ اس کے علاوہ پھر وہاں جو اور activities تھیں ان میں واشنگٹن میں، مسجد میری لینڈ میں گھانا، سیرالیون کے سفرا ءسے بھی باتیں ہوئیں۔ ان کے ملکوں کے حالات کے بارے میں بھی باتیں ہوئیں۔ ان سے اچھی میٹنگ ہو گئی۔ پھر نومبائعین سے بھی میٹنگ ہوئی۔ پینتالیس کے قریب وہاں نومبائعین آئے ہوئے تھے۔ پرانے امریکن احمدیوں کو بھی تلاش کرنے کا میں نے ان کو کہا تھا۔ ان میں سے بھی چند ایک انہوں نے تلاش کیے تھے اور نئے بیعت کرنے والوں کی وہاںمخالفت بھی ہوئی لیکن ثابت قدم رہے۔
ایک نومبائع نے بیان کیا کہ ان کی فیملی کو علم ہوا تو انہوں نے بہت مخالفت کی۔ اس کے بعد اس کو چھوڑ کے چلے گئے۔ پھر بنگلہ دیش کے ایک احمدی ہیں وہ کہنے لگے کہ مجھے مربی صاحب نے بڑا وقت لگا کر بڑے تحمل سے سمجھایا ہے اور اب مجھے سمجھ آ گئی ہے اور پھر بڑے جوش سے انہوں نے باقی نومبائعین کو کہا کہ میں نے اسلام احمدیت کو اب سمجھا ہے اور میں تمہیں بتا رہا ہوں کہ صحیح اسلام یہی ہے۔ اس لیے کبھی نہ اسے چھوڑنا۔
ایک نومبائع امریکن کرسٹوفر (Christopher)جو عیسائیت سے احمدی ہوئے ہیںا نہوں نے بیعت کے لیے درخواست کی تھی چنانچہ بیعت بھی ہوئی اور بیعت کا بھی وہاں لوگوں پہ اچھا اثر ہوا۔ وہاں رہنے والے جو پرانے احمدی تھے یا بہت سارے نئے لوگ، پاکستانی رفیوجیز (refugees)مختلف ملکوں سے ہو کے وہاں آئے ہوئے ہیں، ان کو بھی بیعت کا موقع مل گیا اور بڑی جذباتی کیفیت اس کی وجہ سے طاری ہوئی۔ بہرحال
اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجموعی لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اس دورے کو ہر لحاظ سے اپنے فضلوں سے نوازا ہے۔ اللہ تعالیٰ آئندہ بھی ہمیشہ نوازتا رہے۔
(الفضل انٹرنیشنل 11؍نومبر2022ءصفحہ5تا10)
٭…٭…٭