اقبال اور احمدیت
اقبال کا خاندانی پس منظر اور احمدیت
(جناب جسٹس جاوید اقبال کی کتاب زندہ رود پر شیخ عبد الماجد کا تبصرہ)
علامہ نے بیعت کے واقعہ سے انکار نہیں کیا بلکہ فرمایا کہ وقت وقت کی بات ہوتی ہے
زندہ رود کا تعارف
جناب جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنے والد بزرگوار شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال کی سوانح حیات ’’زندہ رود‘‘کے نام سے تین جلدوں میں شائع کی ہے۔ پہلی جلد 1979ء، دوسری 1982ء اور تیسری 1984ء میں منظر عام پرآئی۔ جلد اول 1908ء تک کے حالات پر مشتمل ہے۔ جلد دوم 1908ء سے 1925ء تک کے حالات سے متعلق اور جلد سوم جو کہ 438 صفحات پر مشتمل ہے،1926ء تا 1938ء کے دور کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ جلدیں یکجائی صورت میں بھی شائع ہوچکی ہیں اور اقبال اکیڈمی پاکستان کی جانب سے ان جلدوں کا فارسی ترجمہ بھی زیور طبع سے آراستہ ہو چکا ہے۔
شیخ اعجاز احمد صاحب کا نوٹ
جب تیسری یعنی آخری جلد کا مسودہ تیار ہو رہا تھا تو علامہ اقبال کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد صاحب کے فرزند اکبر شیخ اعجاز احمد صاحب نے جسٹس جاوید اقبال کو لکھا کہ اس جلد میں چونکہ اس دور کا ذکر بھی آئے گا جس میں علامہ نے احمدیت کی مخالفت کی تھی، یہ مخالفت زیادہ تر 1935-36ءکے دور سے تعلق رکھتی ہے، جس وقت آپ کی عمر 10-12سال کے قریب تھی، اس لیے آپ کو ذاتی طور پر توعلامہ کی طرف سے جماعت احمدیہ کے خلاف محاذ آرائی کی تفاصیل اور مخالفت کے وجود کا علم نہیں ہوسکتا۔ ادھر جماعت کے خلاف چاروں طرف تعصب کی فضا چھائی ہوئی ہے، اس لیے تاریخ کے اس مرحلے کو ضبط تحریر میں لاتے وقت خاص احتیاط کی ضرورت ہے۔ جسٹس جاوید اقبال صاحب نے جواباً لکھا کہ میں توایک غیر جانبدار مؤرخ کی حیثیت سے علامہ کی سوانح لکھنا چاہتا ہوں، اس لیے اگر آپ اپنے نقطہ نظر سے ’’علامہ اقبال اور احمدیت‘‘کے موضوع پرکوئی نوٹ مجھے بھجوا سکیں تو میں اسے آپ ہی کے الفاظ میں شامل کرلوں گا۔ اس پر شیخ اعجاز احمد صاحب نے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے مخلص احمدی ہیں ایک مفصل نوٹ انہیں بھجوا دیا۔ جاوید اقبال صاحب یقیناً شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اس نوٹ کا قریباً 95فیصد من و عن اپنی کتاب میں شائع کردیا۔اس تحقیقی مقالہ میں راقم نے ’’زندہ رود‘‘کے مندرجات میں سے صرف ’’اقبال اور احمدیت‘‘کے موضوع سے واسطہ رکھا ہے۔ اور متعلقہ حصوں پر آزاد ذہن کے ساتھ ’’تبصرہ‘‘کیا ہے۔ تبصرہ کے لیے زیادہ تر ’’زندہ رود جلد سوم‘‘کے باب 20کے 50صفحات (صفحہ 551تا صفحہ 600) اور باب17 کے تین صفحات (صفحہ 398تا 400)راقم کے پیش نظر ہیں۔
(نوٹ) اس ’’تبصرہ‘‘کو راقم کی ذاتی رائے کا درجہ دیا جائے اور ہر جزو میں اسے جماعت احمدیہ کی ترجمانی نہ سمجھا جائے۔ خاکسار شیخ عبد الماجد۔
علامہ اقبال کے والد کا نام شیخ نور محمد اور عرف نتھو تھا۔ ان کا سنہ پیدائش اندازاً 1837ء ہے۔ ان کی وفات 17؍اگست 1930ء کو ہوئی۔ گھر اور محلے برادری میں سب انہیں ’’میاں جی‘‘کہتے تھے۔ میاں جی کو اہل اللہ سے عقیدت تھی۔ شمسی حساب سےبوقت وفات ان کی عمر93سال تھی۔ میاں جی ’’ابتداءً‘‘احمدیہ جماعت میں شامل ہوگئے تھے۔
علامہ اقبال کی والدہ کا نام ’’امام بی بی ‘‘تھا اور محلے برادری میں سب انہیں ’’بے جی‘‘کہتے تھے۔ قرائن سے پتہ لگتا ہے کہ شیخ نور محمد سے آپ کی شادی 1857ءسے کچھ قبل ہوئی ہوگی۔ ’’امام بی بی‘‘کو بھی تحریک احمدیہ کے بانی سے عقیدت تھی۔علامہ کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد کا سنہ پیدائش 1859ء ہے۔ بقول اقبال وہ ’’قامت میں صورت سروبلند‘‘تھے۔ دونوں بھائیوں میں مثالی محبت تھی۔آپ کا شمار بھی ابتدائی احمدیوں میں کیا جاتا ہے۔
شیخ نور محمد کے صاحبزادے علامہ اقبال 9؍نومبر 1877ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ احمدیت قبول کرنے کے بارے میں آپ کے متعلق دو مختلف آرا ہیں۔ ایک طبقہ کا کہنا ہے کہ آپ نے 1897ء میں قادیان جاکر بیعت کی تھی جبکہ بعض لوگ اس واقعہ کو درست قرار نہیں دیتے ۔
علامہ کے بڑے بھائی کے صاحبزادے شیخ اعجاز احمد (مصنف مظلوم اقبال) 1899ء کے شروع میں پیدا ہوئے۔ علامہ نے ان کا نام ’’اعجاز احمد‘‘رکھا۔ آپ 1931ء کے لگ بھگ بیعت کرکے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔
اقبال کی ارادت مندی
1889ء میں جماعت احمدیہ کا قیام عمل میں آیا۔ لدھیانہ کے مقام پر بیعت اولیٰ ہوئی۔فروری 1892ء میں بانی سلسلہ احمدیہ سیالکوٹ تشریف لے گئے۔ ان دنوں شیخ عطامحمد اور ڈاکٹر اقبال اپنے والد صاحب کی بیعت کی وجہ سے اپنے آپ کو جماعت احمدیہ میں شمار کرتے تھے اور حضرت اقدسؑ سے ارادتمندانہ تعلق رکھتے تھے۔ چنانچہ ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کا بیان ہے کہ (حضرت صاحب کے) سفر سیالکوٹ کے موقع پر اقبال جو مسجد کی ڈیوڑھی کی چھت پر چڑھے بیٹھے تھے مجھے دیکھ کر کہنے لگے۔دیکھو شمع پر کس طرح پروانے گر رہے ہیں۔
اقبال کے خاندان کے افراد کی بیعت مصنف زندہ رودکے مطابق
’’اس بات میں کوئی صداقت نہیں کہ اقبال نے اپنی زندگی کے کسی مرحلہ پر مرزا غلام احمد کی بیعت کی یا احمدیت کے ساتھ ان کا گہرا تعلق رہا۔ اس طرح یہ کہنا بھی درست نہیں کہ اُن کے والد شیخ نور محمد احمدی تھے۔ البتہ ان کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد نے اپنی زندگی کے ایک حصہ میں احمدی مسلک قبول کیا اور کچھ مدت تک جماعت احمدیہ میں شامل رہے۔ مگر بقول ان کے فرزندو دختربعد ازاں احمدیت کو ترک کرکے جماعت سے رشتہ توڑ دیا۔ شیخ عطا محمد، اقبال کی وفات کے تقریباً دو سال بعد 22؍دسمبر 1940ء کو سیالکوٹ میں فوت ہوئے اور انہیں امام صاحب کے معروف قبرستان میں دفنایا گیا۔ ان کے جنازے میں راقم بھی شریک تھا۔ نماز جنازہ شہر کے ایک سنی امام مولوی سکندر خاں نے پڑھائی۔ البتہ شیخ اعجاز احمد اور ان کے چند احمدی احباب نے غالباً شیخ عطا محمد کے گذشتہ مفروضہ عقیدے کے پیش نظر علیحدہ نماز جنازہ پڑھی۔‘‘
اقبال کا احمدیت کے ساتھ گہرا تعلق
اقبال کے خاندان کے افراد کی بیعت کی تفصیلات کا مطالعہ کرنے سے پیشتر راقم عرض کرتا ہے کہ جہاں تک مصنف ’’زندہ رود‘‘کے اس دعویٰ کا تعلق ہے کہ اقبال کا احمدیت سے گہرا تعلق نہیں رہا یا آپ احمدیت سے متاثر نہیں رہے یہ بات محل نظر ہے۔واضح رہے کہ برصغیر کے متعدد مسلم مشاہیر ایسے ہیں جنہوں نے بانی سلسلہ احمدیہ یا احمدیت کی مخالفت نہیں کی یا تعریف کی ہے۔ ان میں مولانا شبلی نعمانی، مولانا حالی، مولانا اکبر غلام رسول مہر، مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا محمد علی جوہر، مولانا عبد الماجد دریابادی وغیرہ شامل تھے۔لیکن ان میں سے کسی کا بھی احمدیت کے ساتھ ایسا تعلق نہیں رہا کہ اس نے اپنے لخت جگر کو دینی تعلیم کے حصول کے لیے سالہا سال تک قادیان بھجوائے رکھا ہو، بانی سلسلہ احمدیہ کو ہندی مسلمانوں میں غالباً سب سے بڑے ’’دینی مفکر‘‘کے طور پر پیش کیا ہو۔ آپ کی جماعت کو ’’اسلامی سیرت کے ٹھیٹھ نمونہ کی حامل جماعت‘‘قرار دیا ہو۔ پھر کسی کا بھی اتنا گہرا تعلق نہیں رہا کہ اس نے اپنے ذاتی یا رفیقہ حیات کے معاملات کے سلسلہ میں شرعی فتوے قادیان سے منگوائے ہوں۔ وفات مسیح کا اقرار کیا ہو اور امت میں نئے مسیحا(New Christ)کی ضرورت کو تسلیم کیا ہو۔ احمدیت کے خلاف محاذ آرائی کے دور میں بھی’’صالح آدمی‘‘قرار دیتے ہوئے اپنے اس عزیز کو اپنے نابالغ بچوں کے اولیاء میں شامل کیا ہو جو کچھ عرصہ پیشتر تحریک احمدیہ میں شامل ہوچکا ہو۔
اقبال کے والد شیخ نور محمد کی بیعت
اقبال کے والد شیخ نور محمد کی بیعت کے بارےمیں شیخ اعجاز احمد لکھتے ہیں کہ’’میں نے خاندان کی بزرگ خواتین یعنی بے جی (علامہ کی والدہ صاحبہ) بھابی جی (میری والدہ صاحبہ) اور دونوں پھوپھیوں خصوصاً کریم بی سے سنا ہوا ہے کہ انیسویں صدی کی آخری دہائی میں سلسلہ احمدیہ سے ہمارے خاندان کے گہرے تعلقات تھے۔ ابا جان تو سلسلہ میں شامل ہونے والے ابتدائی حضرات میں سے تھے اور میاں جی (علامہ کے والد صاحب) بھی جماعت میں شامل ہوگئے تھے۔ میاں جی کے بانی سلسلہ کے پہلے جانشین حضرت مولانا حکیم نور الدین ؓکے ساتھ دوستانہ مراسم تھے۔ یہاں تک کہ ایک مرتبہ جب ان کی اہلیہ محترمہ بھی ان کےساتھ سیالکوٹ تشریف لائیں تو وہ ہمارے گھر ’’بے جی‘‘کے پاس ٹھہریں۔ حضرت مولانا حکیم نور الدینؓ نے بے جی کے درد گروہ کا کامیاب علاج بھی کیا تھا۔ 1902ء میں جب ہماری منجھلی پھوپھی طالع بی کا انتقال ہوا تو سیالکوٹ کے احمدی حضرات ان کے جنازہ میں شامل نہ ہوئے۔ اس پر ’’میاں جی‘‘نے حضرت میر حامد شاہ جو مولانا میر حسن کے رشتہ دار اور سیالکوٹ کے احمدیوں کے سرکردہ بزرگ تھے کی زبانی حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو پیغام بھیجا کہ ’’میں عمر رسیدہ ہوں۔ آپ کے ساتھ اس قدر تیز نہیں چل سکتا‘‘برادری میں ان کے وسیع تعلقات تھے۔ انہوں نے محسوس کیا ہوگا کہ وہ غیر احمدیوں کا جنازہ نہ پڑھنے والے قاعدہ کی پابندی نہ کرسکیں گے۔ ممکن ہے انہیں اس مسئلہ پر شرح صدر بھی نہ ہو۔ اس لیے جماعت سے علیحدگی اختیار کرلی۔ ان کے متعلق صرف یہی کہنا کہ وہ احمدی نہ تھے۔ نامکمل بات ہوگی۔ ہاں یہ کہنا درست ہوگا کہ وہ ابتدا میں جماعت میں شامل ہو گئے تھے لیکن 1903ء میں جماعت سے الگ ہوگئے۔‘‘
’’اقبا ل اور قادیانی‘‘کے مصنف نعیم آسی صاحب کی تحقیق بھی یہی ہے کہ ’’حضرت علامہ کے گردوپیش حتیٰ کہ ان کے والد شیخ نور محمد… مرزا غلام احمد سے متاثر تھے بلکہ شیخ نور محمد صاحب نے تو مرزا صاحب کی بیعت بھی کی ہوئی تھی۔‘‘
اقبال کی والدہ صاحبہ کی عقیدت
شیخ اعجاز احمد ہی کا فرمان ہے۔ ’’پھر یہ بھی ہمارے خاندان کی حضرت بانی سلسلہ احمدیہ سے عقیدت کا ہی اثر تھا کہ ’’بے جی‘‘جنہیں ابا جان کے ہاں اولاد نرینہ کی بڑی خواہش تھی، نے ابا جان سے حضرت صاحب کو دعا کے لیے خط لکھوایا کہ اللہ تعالیٰ انہیں اولاد نرینہ عطا کرے اور جب 1899ء کے شروع میں راقم الحروف (شیخ اعجاز احمد) پیدا ہوا تو چچا جان (علامہ اقبال) نے نومولود کانام ’’اعجاز احمد‘‘رکھا۔ظاہر ہے علامہ نومولود کو ’’احمد‘‘کی دعاؤں کا اعجاز سمجھتے تھے۔شیخ اعجاز احمد صاحب کی ایک تحریر کے مطابق (جو راقم کے پاس محفوظ ہے) اکتوبر 1904ءمیں جب حضور سیالکوٹ تشریف لائے اور سید حامد شاہ صاحب کے ہاں فروکش ہوئے تو باوجود اس کے کہ میاں جی جماعت سے علیحدگی اختیار کرچکے تھے۔ بے جی مجھے دُعا کی غرض سے حضرت صاحب کے پاس لے گئیں۔ (خلاصہ)
علامہ کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد کی بیعت
مصنف زندہ رود نے علامہ کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد(1858-1940ء)کے متعلق جو کچھ لکھا ہے وہ مندرجہ ذیل شہادتوں کی بنا پر نظرثانی کے لائق ہے۔
-1-مولانا عبد المجید سالک فرماتے ہیں:’’شیخ عطا محمد نے بیاسی سال کی عمر پائی۔ 1940ءمیں انتقال فرمایا۔شیخ صاحب احمدی عقائد رکھتے تھے۔
2-.-’’ملفوظات اقبال‘‘کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ شیخ عطا محمد، عمرکے آخری دور میں بھی علامہ کو احمدیت میں شامل ہونے کی تحریک کیا کرتے۔ حدیث نبوی ہے۔
ان اللّٰہ یبعث لھذہ الا مۃ علی راس کل مأۃِ سنۃٍ من یجد دلھا دینھا۔(یعنی اللہ تعالیٰ ہر صدی کے سر پر اس امت کے لیے مجدد مبعوث کیا کرے گا جو اس کے دین کی تجدید کیا کرے گا) 36-1935ءمیں شیخ عطا محمد صاحب کی طرف سے مرزا صاحب کی صداقت کے حق میں اس حدیث کا پیش کرنا اور علامہ اقبال کی طرف سے اس پر جرح کے لیے دیکھئے (صفحہ 65)
-3- شیخ اعجاز احمد صاحب (اپنے بھائی اور بہن، شیخ عطا محمد صاحب کے فرزند اور دختر جنہوں نے احمدیت قبول نہیں کی۔ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) لکھتے ہیں:’’اس روایت (کہ ابا جان نے بعد ازاں احمدیت کو ترک کرکے جماعت سے رشتہ توڑ دیا) کے راوی کوئی بھی ہوں اور یہ روایت بیان کرنے کی وجہ ان کی واقعات سے لاعلمی یا ان کی معاشرتی مجبوریاں اور مصلحتیں کچھ بھی ہوں۔ یہ روایت درست نہیں اور دستاویزی شہادت کے خلاف ہے۔ ابا جان جماعت احمدیہ میں ابتدائی شامل ہونے والوں میں تھے۔ وہ ان 313دوستوں میں سے ہیں جن کے نام بانی سلسلہ نے اپنی کتاب’’ضمیمہ انجام آتھم‘‘میں درج کئے ہیں…ان کی کیش بکس سےحضور کا دستخطی21؍دسمبر 1907ء کا ایک مکتوب بھی حفاظت سے رکھا ہوا ملا اور حضور کی شبیہ مبارک تو وفات تک ان کے کمرے کی زینت رہی۔‘‘شیخ اعجاز احمد مزید لکھتے ہیں کہ ان کے پاس ان کے والد صاحب کا 1929ء کا خط بھی موجود ہےکہ’’میں خود بھی تو مرزائی ہوں۔ لیکن مجھ میں ان میں صرف جنازہ کے سوال کا فرق ہے۔‘‘آپ فرماتے ہیں: ’’میرے عزیزوں میں سے جو چاہے یہ خط… دیکھ سکتا ہے۔‘‘(مظلوم اقبال صفحہ 187-188)
خاکسار عرض کرتا ہے کہ 1931ء کے لگ بھگ شیخ اعجاز صاحب نے بھی بیعت کرلی۔ چودھری ظفر اللہ خاں صاحب نے جب اس بیعت کے بارے میں شیخ عطا محمد صاحب سے ذکر کیا تو آپ بہت خوش ہوئے اور چودھری صاحب سے فرمایا:چودھری صاحب ! اونے میرے پچھے ای آناں سی۔ (یعنی جو مسلک میں نے قبول کیا ہے اس نے بھی وہی مسلک قبول کرنا تھا) شیخ عطا محمد صاحب کی بیعت کے بارے میں الفضل کی خبر کا متن شیخ عطا محمد صاحب نے خود بیان کیا کہ انہوں نے بانی سلسلہ احمدیہ کے ہاتھ پر ابتدائی زمانہ میں بیعت کی تھی۔ پھر بیعت خلافت بھی کرلی۔ یہ خبرروزنامہ الفضل کی 10؍اپریل 1934ء کی اشاعت میں شائع شدہ ہے۔
خبر کا متن یہ ہےاحباب جماعت یہ سن کر خوش ہوں گے کہ تھوڑا ہی عرصہ ہوا،جناب ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کے بھتیجے جناب شیخ اعجاز احمد صاحب بی اے سب جج نے حضرت امام احمدیہ کی بیعت کرکے جماعت احمدیہ میں داخل ہونے کا شرف حاصل کیا۔ اب ان کے والد جناب شیخ عطا محمد صاحب گورنمنٹ پنشنر سیالکوٹ نے بیعت کا حسب ذیل خط تحریر فرمایا ہے۔(سیدنا حضرت امام جماعت احمدیہ) جناب والا۔ کمترین حضرت بانی سلسلہ کے ابتدائی زمانہ کابیعت شدہ ہے۔ خدا کے فضل اور حضرت بانی سلسلہ کی دُعاؤں کی برکت سے بیعت پر ثابت قدم ہے۔ بلکہ بعض نشانات نے میرے ایمان کو زیادہ محکم کردیاہے۔ چودھری ظفر اللہ خاں صاحب نے مجھے بتلایا کہ خلافت کی بیعت بھی ضروری ہے۔ بوجہ پیرانہ سالی و نقاہت،حاضری سے مجبور ہوکر یہ عریضہ خدمت اقدس میں ارسال ہے۔ براہ نوازش قدیمانہ مجھے اپنی بیعت کے سلسلہ میں لے لیویں۔ میں صدق دل سے آپ کی بیعت خلافت کرتا ہوں۔
نیازمند۔ شیخ عطا محمد
ظاہر ہے کہ شیخ عطا محمد صاحب تو ازخود اقرار فرما رہے ہیں کہ میں ابتدائی زمانے سے لےکر اب 1934ء تک احمدیت پر نہ صرف ثابت قدم ہوں بلکہ بعض نشانات کی وجہ سے میرا ایمان پہلے سے زیادہ مستحکم ہوگیا ہے۔ مگر مصنف زندہ رود،یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ’’کچھ مدت تک جماعت میں شامل رہنے کے بعد شیخ صاحب نے احمدیت کو ترک کرکے جماعت سے رشتہ توڑ دیا۔‘‘
شیخ عطا محمد صاحب کی نماز جنازہ
’’شیخ عطا محمد صاحب کی نماز جنازہ ایک سنی امام نے پڑھائی۔‘‘زندہ رود کے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے شیخ اعجاز احمد نے حقیقت حال کی یوں وضاحت کی ہے۔’’یہ درست ہے کہ ابا جان کے جنازہ کے ساتھ ہماری برادری کے کئی اشخاص اور ابا جان کے کئی ذاتی دوست تھے۔ جاوید کا اس وقت لڑکپن تھا۔ اس لیے انہوں نے یہ بات نوٹ نہ کی ہو یا انہیں یاد نہ رہی ہو کہ میرے چھوٹے بھائی امتیاز مرحوم نے مجھے کہا کہ یہ لوگ ابا جان کا جنازہ پڑھنا چاہتے ہیں۔ لیکن اپنے امام کے پیچھے۔کیا اس میں آپ کو کوئی اعتراض ہے۔ میرے نزدیک یہ کوئی قابل اعتراض بات نہ تھی اور میں نے بخوشی اجازت دے دی بلکہ کہا کہ وہ لوگ پہلے جنازہ پڑھ لیں بعد میں ہم پڑھ لیں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا۔‘‘شیخ صاحب مزید لکھتے ہیں’’یہاں یہ غلط فہمی بھی دور کردوں کہ احمدیوں میں جنازہ کسی کے گزشتہ یا مفروضہ عقیدے کے پیش نظر نہیں پڑھا جاتا۔‘‘
علامہ اقبال کی بیعت
اقبال نے بانی سلسلہ احمدیہ کے ہاتھ پر قادیان جاکر بیعت کی تھی یا نہیں ؟ کوئی عقائد کا مسئلہ نہیں ہے۔ اس واقعہ کے بارےمیں دو آرا بھی ہوسکتی ہیں بلکہ ہیں۔ جس طبقہ کے نزدیک اقبال نے بیعت کی تھی۔ اس کی طرف سے عام طور پر درج ذیل شواہد پیش کیے جاتے ہیں۔
-1-مؤرخ احمدیت مولانا شیخ عبد القادر (سابق سوداگرمل) مربی مرحوم اپنی تصنیف’’لاہور تاریخ احمدیت‘‘مطبوعہ 1966ء میں بانی سلسلہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والے لاہور کے ایک بزرگ بابو غلام محمد صاحب (وفات 1946ء)کی ایک روایت درج کرتے ہیں کہ بابو صاحب نے بیان کیا۔
( ا)- مارچ 1897ء میں ہم لاہور کے کافی نوجوانوں نے جو سارے کے سارے تعلیم یافتہ تھے… ارادہ کیا کہ حضرت مرزا صاحب کو قادیان جاکر دیکھنا چاہیے کیونکہ باہر تو انسان تصنع سے بھی بعض کام کرسکتا ہے لیکن اگر گھر میں جاکر اسے دیکھا جائے تو اصل حقیقت سامنے آجاتی ہے۔ خیر ہم حضرت اقدس کے دعویٰ کی حقیقت معلوم کرنے کے لیے عازم قادیان ہوگئے۔ ہم میں سے ہر شخص نے الگ الگ اعتراضات سوچ لیے تھے جو وہ کرنا چاہتا تھا۔ مولوی محمد علی صاحب، خواجہ کمال الدین صاحب، ڈاکٹر محمد اقبال صاحب، مولوی غلام محی الدین صاحب قصوری، چوہدری شہاب الدین صاحب، مولوی سعد الدین صاحب بی اے ایل ایل بی وغیرہ بھی اس قافلہ میں شامل تھے (خواجہ کمال الدین صاحب 1894ءمیں بیعت کرکے سلسلہ عالیہ میں داخل ہوچکے تھے)… جب ہم قادیان پہنچے تو گول کمرہ میں ہمارے لیے ملاقات کا انتظام کیا گیا۔حضور جب تشریف لائے تو آتے ہی ایک تقریر کے رنگ میں ہمارے ایک ایک اعتراض کو لےکر اس کا جواب دینا شروع کیا حتیٰ کہ ہم سب کے اعتراضات کا مکمل جواب آگیا۔ تب ہم ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر تعجب کرنے لگے کہ یہ کیسے ہوا؟ جب باہر نکلے تو بعض نے کہا کہ یہ سچ سچ مامور من اللہ ہے اور بعض نے کہا۔ یہ جادو گرہے۔ چودھری شہاب الدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب وغیرہ نے کہا کہ یہ ضرورسچا ہے۔ ہم توبیعت کرتے ہیں۔چنانچہ مولوی محمد علی صاحب، چودھری سرشہاب الدین صاحب، ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب اور مولوی غلام محی الدین صاحب قصوری اور خاکسار نے بیعت کرلی۔ بعض اور لوگوں نے بھی بیعت کی تھی مگر ان کے نام مجھے یاد نہیں رہے … چودھری سرشہاب الدین صاحب اب بڑے آدمی ہیں مگر میرے ساتھ اسی طرح بے تکلفی سے باتیں کرتے ہیں۔ مجھے جب بھی ان سے ملنے کا موقع ملتا ہے۔ یہی کہتے ہیں کہ میں حضرت صاحب کو اب بھی نبی مانتا ہوں۔ گو اپنے اعمال کی وجہ سے نظام سلسلہ میں داخل نہیں۔
(ب)اقبالیات کے عظیم سکالر جناب بشیر احمد ڈار صاحب لکھتے ہیں:’’ایک روایت کے بموجب اقبال نے … مرزا غلام احمد کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔
(ج) خواجہ نذیر احمد صاحب چیئرمین سول اینڈ ملٹری بورڈ آف ڈائریکٹرز نے 54-1953ء کی تحقیقاتی عدالت (منیر انکوائری) کے سامنے شہادت دیتے ہوئے بتایا کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے صدر مرزا بشیر الدین محمود احمد تھے اور علامہ اقبال کمیٹی کے ممبران میں شامل تھے۔ جب ان دونوں کے درمیان باہمی اختلاف پیدا ہوئے تو میرے والد خواجہ کمال الدین،اقبال سے ملنے ان کی رہائش گاہ پر گئے۔اس ملاقات میں مَیں بھی ہمراہ تھا۔ والد صاحب نے علامہ سے (دوستانہ بے تکلفی میں۔ ناقل) کہا:اوئے یار! تیری بیعت دا کی ہویا۔علامہ نے جواباً کہا:او ویلا ہور سی۔ اے ویلا ہوراے۔
یعنی علامہ نے بیعت کے واقعہ سے انکار نہیں کیا بلکہ فرمایا کہ وقت وقت کی بات ہوتی ہے۔ جب میں نے بیعت کی تھی وہ اور وقت تھا۔ اب حالات بدل چکے ہیں۔یہ واقعہ 1933ء کا ہے۔
(د) قادیان جاکر بیعت کرنے والے گروہ کے ایک رکن مولوی غلام محی الدین صاحب (لاہور کے ممتاز ایڈووکیٹ) تھے۔ جو خواجہ نذیر احمد صاحب کے دوستوں میں تھے۔ 1953ء کی اینٹی احمدیہ تحقیقاتی عدالت میں ہی خواجہ صاحب نے اپنی شہادت کے دوران اپنےدوست غلام محی الدین صاحب قصوری کے حوالے سے بیان کیا کہ اقبال نے قصوری صاحب کے ہمراہ 1893ء میں قادیان جاکر بانی سلسلہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ (یہ علامہ کے لڑکپن کا دور تھا)… عدالت میں بیان دینے کے بعد جب خواجہ صاحب کی بار میں قصوری صاحب سے ملاقات ہوئی تو قصوری صاحب نے بیعت کے سنہ کی تصحیح فرمادی اور بتایا کہ علامہ نے میرے ہمراہ 1893ء میں نہیں بلکہ 1897ء میں قادیان جاکر بیعت کی تھی۔اس پر خواجہ صاحب نے اگلے دن نہایت صاف گوئی اور راستبازی سے کام لیتے ہوئے عدالت کے ریکارڈ میں درخواست دےکر سنہ کی تصحیح کرادی۔
مصنف زندہ رود نے اس شہادت پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’’گواہ نے پہلے تو کہا کہ یہ بیعت 1893ء میں ہوئی تھی۔ پھر کہا کہ 1897ء میں ہوئی تھی۔ مصنف کے نزدیک گواہ کی تضاد بیانی کی وجہ سے اس کی شہادت قابل اعتماد نہیں۔ لیکن مندرجہ بالا وضاحت کے بعد مصنف کی طرف سے دیا گیا تاثر وزنی دکھائی نہیں دیتا۔‘‘مصنف زندہ رود نے گواہ کی شہادت پر تنقید کرتے ہوئے مزید لکھا ہے’’بعد ازاں گواہ نے اپنی شہادت کے کسی اور حصہ میں بتایا کہ اقبال 1930ء تک مرزا غلام احمد کو مجدد مانتے رہے۔ پھر کہا کہ اس نے اپنے بیان میں یہ کہیں بھی نہیں کہا کہ اقبال احمدی تھے۔‘‘
اس ضمن میں گواہ نے کیا بیان دیا ؟ آیئے اس دور کے اخبارات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
کیا اقبال 1931ء تک قادیانی رہے؟
گواہ (خواجہ نذیر احمد صاحب)نے ازخود اپنی اگلی پیشی میں تحقیقاتی عدالت کو بتایا کہ ان کے بعض سابقہ بیانات کی اخبارات میں رپورٹنگ غلط شائع ہوئی ہے۔ عدالتی کارروائی میں اس کی تصحیح کردی جائے۔ مثلاً ملاحظہ ہو ’’اقبال کے 1931ء تک احمدی ہونے کے بارےمیں ‘‘خواجہ صاحب کا بیان’’آج چیف جسٹس محمد منیر اور مسٹر جسٹس ایم آر کیانی کے روبرو جرح شروع ہوتے ہی گواہ نے 4؍نومبر1953ء کے پاکستان ٹائمز لاہور میں شائع شدہ عدالتی کارروائی کی طرف اشارہ کیا۔ جس کا عنوان تھا۔’’اقبال 1931ء تک قادیانی تھے۔‘‘گواہ نے کہا کہ میری گواہی کو غلط پیش کیا گیا ہے کیونکہ میں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ علامہ اقبال قادیانی تھے۔ میں نے یہ کہا تھا کہ علامہ اقبال نے بیعت کی تھی۔‘‘
اس ضمن میں مصنف نے بجائے اخبارات کی غلط رپورٹنگ پر تنقید کرنے اور خواجہ صاحب کی جانب سے عدالت میں اس کی شکایت کا اظہار کرنے کےیہ تاثر دیا ہے کہ گویا گواہ اپنے سابقہ بیانات سے منحرف ہوتا رہا۔
لڑکپن کی بیعت
راقم عرض کرتا ہے۔ لڑکپن کی بیعت تھی۔ نہ بعد میں قصوری صاحب نے نبھائی نہ علامہ نے۔ البتہ اقبال نے 1897ء سے 1933ء تک 35سال جماعت احمدیہ سے سلسلہ موانست و مواخات قائم کیےرکھا۔لڑکپن میں بیعت کرنا اور پھر عمر بھر اس بیعت کو نبھانا دراصل دو الگ الگ امور ہیں۔ جنہیں اقبال کے معاملہ میں یکجا کر دینے سے غلط فہمی پیدا کردی گئی ہے۔
سوال یہ ہےکہ علامہ اقبال کی بیعت کے متعلق اس زبردست اور ملک گیر چونکا دینے والے عدالتی بیان پر مصنف زندہ رود یا حلقہ اقبال کے کسی سرکردہ رکن کی طرف سے قصوری صاحب پر جرح کرکے ان کے بیان کو غلط ثابت کیا گیا؟ جواب نفی میں ہے۔کیا مختلف مکاتیب فکر کے متعدد علماء اور دانشوروں نے جو عدالت میں پیش ہوتے رہے یہ گواہی غلط ثابت کردکھائی ؟ جواب ہے۔ نہیں۔راقم کی نظر میں قصوری صاحب کا بیان بہت وزن رکھتا ہے کیونکہ وہ 1897ء میں بیعت کرلینے کے بعد خود علامہ کی طرح احمدیت سے وابستہ نہیں رہے تھے۔ ان کو حقیقت کے خلاف بیان دینے کا کوئی فائدہ نہ تھا۔
اقبال نے بیعت نہیں کی
اس کے مقابل مصنف زندہ رود کا موقف یہ ہے کہ اس بات میں کوئی صداقت نہیں کہ ’’اقبال نے اپنی زندگی کے کسی مرحلہ پر مرزا غلام احمد کی بیعت کی۔‘‘اپنے موقف کی تائید میں مصنف فرماتے ہیں کہ مرزا غلام احمد کے ایک مخلص مرید سید حامد شاہ نے 1902ء میں اقبال کو مرزا غلام احمد کی بیعت کے لیے لکھا جس کا جواب اقبال نے ایک نظم کے ذریعے دیا۔ علامہ فرماتے ہیں۔
تنکے چن چن کے باغ الفت کے
آشیانہ بنا رہا ہوں میں
ایک دانہ پہ ہے نظر تیری
اور خرمن کو دیکھتا ہوں میں
تو جدائی پہ جان دیتا ہے
وصل کی راہ سوچتا ہوں میں
مصنف لکھتے ہیں:اس نظم کے مطالعہ سے عیاں ہے کہ وہ احمدیت کو ملت اسلامیہ میں ایک علیحدگی پسند تحریک سمجھ کر ’’ناپسندیدگی‘‘کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔راقم عرض کرتا ہے کہ علامہ کے لڑکپن کی بیعت کا واقعہ1897ء کا ہے اور بیعت کا پیغام پانچ سال بعد 1902ء کا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ پیغام بھجوانے والے کو یہ احساس ہو کہ چونکہ علامہ نے عملی رنگ میں جماعت کے ساتھ روابط نہیں رکھے اور اب لڑکپن کا دور بھی نہیں رہا۔ اب آپ کا ذہنی شعور پختہ ہوچکا ہے، آپ کے والد صاحب کے جماعت سے روابط میں بھی سرد مہری آرہی ہے۔ اس صورت حال میں علامہ کو نئے سرے سے بیعت کا پیغام بھجوانا چاہیے۔ واللہ اعلم۔ راقم کا خیال ہے کہ اگر غلام محی الدین قصوری صاحب کو بھی اس دور میں جب وہ برصغیر کے ممتاز ایڈووکیٹس میں شمار ہونےلگے تھے، بیعت کا پیغام بھیجا جاتاتو وہ بھی بیعت کرنے پر آمادگی کا اظہار نہ کرتے لیکن اس سے ان کے 1897ء والے بیعت کے واقعہ کو تو کالعدم قرار نہیں دیا جاسکتا۔
بہرحال 1902ء میں حالات بہت کچھ بدل چکے تھے۔ علامہ ایم اے کرچکے تھے۔ اور نیشنل کالج میں استاد مقرر ہوچکے تھے۔ کچھ عرصہ پیشتر ملکہ وکٹوریہ کی وفات پر غایت درجہ پر درد و پراثر مرثیہ لکھ کر انگریزوں سے زبردست خراج تحسین حاصل کرکے شہرت پاچکے تھے۔ آپ کے والد صاحب کی احمدیت سے وابستگی کا گراف بھی نیچے گر چکا تھا۔
وجہ کچھ بھی ہو ایک بات طے ہے کہ علامہ کا جماعت کو علیحدگی پسند تحریک سمجھنا کسی وقتی اور عارضی جذبے کے تحت تھا کیونکہ بعد کے 30سالہ واقعات یا علامہ کے بیانات ظاہر کرتے ہیں کہ علامہ کی تمام غلط فہمیاں دور ہوچکی تھیں اور آپ صرف اسی تحریک کو ایک ’’پسندیدہ ‘‘یا ’’اسلامی تحریک‘‘سمجھنے لگے تھے۔ علماء کی شدید مخالفتوں کے باوجود آپ کا رجحان ’’قادیان‘‘کی طرف تھا۔
1905ء سے 1908ء تک علامہ کا قیام انگلستان میں رہا۔1909ء میں علامہ ہمیں جماعت احمدیہ لاہور کے جلسہ سیرت النبی ﷺ کے مقرریں میں نظر آتے ہیں۔
1910ء میں علی گڑھ میںعلی الاعلان جماعت احمدیہ کو ’’مسلم کردار کا طاقتور مظہر‘‘قرار دیتے ہیں۔
1911ء میں اپنے لخت جگر کو دینی تعلیم و تربیت کے لیے قادیان بھجواتے ہیں۔
جس طبقہ کو اقبال کی بیعت کے واقعہ سے اتفاق نہیں اس کی جانب سے اقبال کا یہ شعر بھی پیش کیا جاتا ہے۔
مینار دل پہ اپنے خدا کا نزول
یہ انتظار مہدی و عیسیٰ بھی چھوڑ دے
اور کہا جاتا ہے کہ علامہ تو کسی مسیح یا مہدی کے آنے کے قائل ہی نہ تھے۔ اس ضمن میں ہمیں یہ بات پیش نظر رکھنا ہوگی کہ علامہ کی بیعت کا سنہ 1897ء بتایا جاتا ہے اور یہ غزل 1905ء یعنی سات سال بعد کی ہے۔1897ءمیں اقبال کے لڑکپن کا دور تھا۔ اس عمر میں مذہبی مسائل کی باریکیوں پر گہری نظر نہیں ہوتی۔اس لیے 1897ءکے حالات کا 1905ء یا اس کے بعد کے حالات پر اطلاق کرنا چنداں مناسب نظر نہیں آتا۔اقبال کی بیعت یا عدم بیعت کے بارے میں قارئین کے سامنے دونوں پہلو آگئے ہیں۔ خود فیصلہ کر لیجیے۔ کونسا پہلو زیادہ وزنی ہے۔
احمدیہ لٹریچر اور افراد خاندان کی بیعت
مصنف زندہ رود نے اس طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ اقبال یا اقبال کے خاندان کے افراد کی بیعت کے متعلق احمدیہ جماعت کے نقادوں نے۔ ’’اقبال کی زندگی میں یہ باتیں نہ کہی تھیں۔‘‘راقم دریافت کرتا ہے کہ کیا شیخ عطا محمد صاحب کی زندگی میں غیر احمدی نقادوں میں سے کسی نے یہ بیان دیا کہ آپ نے کچھ مدت جماعت میں رہنے کے بعد احمدیت سے اپنا رشتہ توڑ لیا ؟ جواب ہے نہیں۔
اسی طرح اقبال کی بیعت کا مسئلہ تو زیادہ تر اس وقت زیر بحث آیا جب اینٹی احمدیہ تحقیقاتی عدالت (1953ء) میں خواجہ نذیر احمد صاحب نے اپنا بیان ریکارڈ کرایا کہ علامہ نے1897ءمیں مولوی غلام محی الدین قصوری کے ہمراہ قادیان جاکر بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ باقی افراد خاندان کی بیعت کا ذکر نہ صرف اقبال کی زندگی میں کیا گیا بلکہ اقبال کو مخاطب کرکے کیا گیا۔ چنانچہ جب 1935ء میں علامہ نے احمدیت کے خلاف مضامین لکھے تو حضرت امام جماعت احمدیہ نے اپنے خطبات میں اصولی طور پر ان کا نہایت معقول جواب دیا۔ پھر یہ خطبات الفضل اخبار میں شائع ہوئے۔ حضور نے اپنے خطبہ میں علامہ کے ایک الزام کے رد میں فرمایا:’’اگر یہ الزام کوئی ایسا شخص لگاتا جسے احمدیوں سے واسطہ نہ پڑا ہوتا تو میں اسے معذور سمجھ لیتا۔لیکن سر محمد اقبال معذور نہیں کہلا سکتے۔ان کے والد صاحب مرحوم احمدی تھے۔ ان کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد صاحب احمدی ہیں۔ ان کے اکلوتے بھتیجے شیخ اعجاز احمد صاحب سب جج احمدی ہیں … ان کے بڑے بھائی صاحب حال ہی میں کئی ماہ ان کے پاس رہے ہیں بلکہ جس وقت انہوں نے یہ اعلان شائع کیا ہے اس وقت بھی سر محمد اقبال صاحب کی کوٹھی وہ تعمیر کروا رہے تھے۔کیا سر محمد اقبال صاحب نے ان کی رہائش کے ایام میں انہیں منافق پایا تھا یا خود اپنی زندگی سے زیادہ پاک زندگی ان کی پائی تھی۔ ان کے سگے بھتیجے شیخ اعجاز احمد صاحب ایسے نیک نوجوان ہیں کہ اگر سر محمد اقبال غور کریں تو یقیناً انہیں ماننا پڑے گا کہ ان کی اپنی جوانی اس نوجوان کی زندگی سے سینکڑوں سبق لے سکتی ہے۔ پھر ان شواہد کی موجودگی میں ان کا کہنا کہ احمدی منافق ہیں اور وہ ظاہر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا اظہار کرتے ہیں لیکن دل سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں کہاں تک درست ہو سکتا ہے۔‘‘(ڈاکٹرسر محمد اقبال اور احمدیہ جماعت، الفضل 18؍جولائی1935ءبحوالہ انوار العلوم جلد13صفحہ587تا588)
علامہ اس دور میں احمدیت کے خلاف لمبے چوڑے بیانات دے رہے تھے۔ مگر چونکہ اپنے والد محترم اور اپنے بڑے بھائی کی بیعت کا انکار نہیں کرسکتے تھے۔ اس لیے اس ضمن میں خاموشی ہی کو مصلحت جانا۔ اور پھر زندگی بھر اس معاملہ میں زبان نہ کھولی۔
٭…٭…٭