احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
’’لالہ بھیم سین صاحب ایک نیک دل اور خوش اخلاق انسان تھے۔
حضرت مسیح موعودؑ سے آپ کو ایک محبت اور وداد کا تعلق تھا‘‘
محترم لالہ بھیم سین صاحب کاحضرت اقدسؑ سے قرآن پڑھنا
محترم لالہ بھیم سین صاحب جیساکہ عرض کیاہےکہ خودفارسی اورعربی کے عالم تھے۔ حضرت اقدسؑ نے اسی سیالکوٹ کے زمانے میں لالہ صاحب کوقرآن کریم بھی پڑھایا تھا۔ تذکرہ کے ایڈیشن چہارم کے سب سے آخری صفحہ پراس کی تفصیل موجود ہے:(مرزاغلام اللہ صاحب انصارساکن قادیان فرماتے ہیں)’’میرے بھائی مرزانظام الدین صاحب نے ذکرکیا کہ جن دنوں حضرت صاحبؑ سیالکوٹ میں نوکرتھےمَیں بھی آپ کے ساتھ تھا۔ مجھے حضرت صاحبؑ پڑھایابھی کرتے تھے۔آپؑ وہاں بھیم سین وکیل کوجوہندوتھا قرآن شریف پڑھایاکرتے تھے اوراس نے تقریباً چودہ پارہ تک قرآن حضرت صاحبؑ سے پڑھا تھا۔‘‘(تذکرہ صفحہ 694) حضرت اقدسؑ نے محترم لالہ بھیم سین صاحب کاذکراپنے کئی نشانات اوررؤیاوکشوف کے ضمن میں بھی فرمایاہے۔چنانچہ حضرت عرفانی صاحبؓ اپنی تصنیف حیات احمدؑ میں بیان فرماتے ہیں:’’سیالکوٹ میں ایک کائستھ صاحب لالہ بھیم سین بھی تھے۔وہ بٹالہ میں آپ کے ہم مکتب تھے۔اور ایک ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر لالہ مٹھن لال صاحب کے رشتہ دار تھے اور اس وجہ سے حضرت مرزا صاحب کے خاندان کے ساتھ انہیں پرانا تعلق تھا۔ لالہ بھیم سین اور حضرت مرزا صاحب ایک ہی مکان میں رہتے تھے۔اور باہم بڑا ربط ضبط تھا۔ لالہ بھیم سین حضرت مرزا صاحب کے اعلیٰ اخلاق اور نیکیوں کے گرویدہ اور معتقد تھے۔
پنجاب میں چیف کورٹ کا نیا نیا افتتاح ہوا تھا۔اور امتحان وکالت کے لیےابتدائی آسانیاں میسر تھیں۔اور بعض اہلکاروں کو قبل از امتحان بھی قانونی پریکٹس کی صاحب ڈپٹی کمشنر کی سپارش پر اجازت دے دی جاتی تھی۔لالہ بھیم سین صاحب بھی اسی قسم کے اہلکاروں میں سے ایک تھے۔چونکہ لالہ مٹھن لال صاحب ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر صاحب سیالکوٹ کے ڈپٹی کمشنر کے ملاقاتی تھے۔انہوں نے باوجودیکہ لالہ بھیم سین لوکل بورڈ میں اہلمد تھے۔ایک سپارشی چٹھی کے ذریعہ ان کو وکالت کی اجازت منگوا دی تھی۔ ہاں شرط یہ تھی کہ اگروہ امتحان میں پاس نہ ہوںتو انہیں اپنے اصلی عہدہ پر واپس ہوجانا پڑے گا۔چنانچہ اس مقصد کے لئے انہوں نے رخصت لے رکھی تھی۔ تیاری امتحان میں مشغول تھے۔اور دن کو باقاعدہ پریکٹس کرتے تھے۔انہوں نے حضرت مرزا صاحب کو بھی تحریک کی۔کہ وہ امتحان وکالت دے دیں۔غرض اس تحریک یا اور اسباب کی بناء پر حضرت مرزا صاحب بھی شامل امتحان ہوئے مگر قبل اس کے جو نتیجہ شائع ہواللہ تعالیٰ نے آپ کو نتیجہ امتحان سے آگاہ فرما دیا۔
…..حضرت مرزا صاحب نے روٴیا میں دیکھا کہ امتحان کے جو پرچے تقسیم ہوئے ہیںوہ دو قسم کے کاغذات پر ہیں۔ زرد اور سرخ۔ تمام امیدواروں کو زرد رنگ کے پرچے تقسیم ہوئے ہیں۔اور لالہ بھیم سین کو سرخ رنگ کا پرچہ۔ حضرت مرزا صاحب نے اس کی تعبیر یوں کی ہے کہ لالہ بھیم سین پاس ہو جائیں گے گویا سرخروہوں گے اور زرد رنگ سے نا کامی کی تعبیر کی۔امتحان کے کمرہ میں بعض حالات اور واقعات ایسے پیش آئے تھے کہ قریب تھا کہ وہ امتحان منسوخ ہو جائےلیکن آخر جب نتیجہ نکلا تو وہ عین خواب کے مطابق تھا۔لالہ بھیم سین کو حضرت مرزا صاحب کی خوبیوں اور فضائل کا پہلے ہی اعتراف تھا۔اور وہ ان کی روٴیا کو روٴیاءِ صالحہ یقین کرتے تھے۔ اور وہ جانتے تھے کہ حضرت مرزا صاحب ایک مرتاض زندگی بسر کرنے والے بزرگ ہیں۔ اس واقعہ نے انہیں اور بھی معتقد بنا دیا۔‘‘(حیات احمد جلد اول صفحہ 109،108) اس واقعہ کو حضرت اقدس ؑنے خود بھی بیان فرمایا ہے۔اور براہین احمدیہ کے صفحہ 256 [ایڈیشن اول] میں بھی اس کا ذکر کیا ہے۔اور یہ 1868ء کا واقعہ ہے۔لالہ بھیم سین صاحب نے خود اپنے خط کے ذریعہ حضرت مسیح موعوؑد کو قادیان خبر دی تھی کیونکہ آپ سیالکوٹ سے آچکے تھے۔حضرت اقدسؑ نے اپنے نشانات کے ذکر میں تحریر فرمایا:’’اسی طرح ایک مرتبہ خدا نے ہم کو خواب میں ایک راجہ کے مرجانے کی خبر دی۔ اور وہ خبر ہم نے ایک ہندو صاحب کو کہ جو اب پلیڈری کا کام کرتے ہیں بتلائی۔ جب وہ خبر اسی دن پوری ہوئی تو وہ ہندو صاحب بہت ہی متعجب ہوئے کہ ایسا صاف اور کھلا ہوا علم غیب کا کیونکر معلوم ہوگیا۔
پھر ایک مرتبہ جب انہیں وکیل صاحب نے اپنی وکالت کے لئے امتحان دیا تو اسی ضلع میں سے ان کے ساتھ اسی سال میں بہت سے اور لوگوں نے بھی امتحان دیا۔ اس وقت بھی مجھ کو ایک خواب آئی اور میں نے اس وکیل صاحب کو اور شاید تیس یا چالیس اَور ہندوؤں کو جن میں سے کوئی تحصیلدار کوئی سرشتہ دار کوئی محرر ہے بتلایا کہ ان سب میں سے صرف اس شخص مقدم الذکر کا پاس ہوگا اور دوسرے سب امیدوار فیل ہوجائیں گے۔ چنانچہ بالآخر ایسا ہی ہوا۔ اور ۱۸۶۸ء میں اس وکیل صاحب کے خط سے اس جگہ قادیان میں یہ خبر ہم کو مل گئی۔ و الحمد للّٰہ علٰی ذالک۔‘‘(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد1 صفحہ284حاشیہ)
راجہ تیجا سنگھ کی خبر وفات قبل از وقت مل گئی
راجہ تیجا سنگھ صاحب (جن کا ذکر اس سوانح میں پہلے بھی آچکا ہے )کی وفات کی اطلاع اللہ تعالیٰ نے آپ کو قبل از وقت دے دی تھی۔اور لالہ بھیم سین کو حضرت نے آگاہ کر دیا تھا۔چنانچہ آپؑ فرماتے ہیںکہ’’انہی وکیل صاحب یعنی لالہ بھیم سین صاحب کو جو سیالکوٹ میں وکیل ہیں(اب فوت ہو چکے ہیں۔ایڈیٹر) ایک مرتبہ میں نے خواب کے ذریعہ سے راجہ تیجا سنگھ کی موت کی خبر پاکر ان کو اطلاع دی کہ وہ راجہ تیجا سنگھ جن کو سیالکوٹ کے دیہات جاگیر کے عوض میں تحصیل بٹالہ میں دیہات مع اس کے علاقہ کی حکومت کے ملے تھےفوت ہو گئے ہیںاور انہوں نے اس خواب کو سن کر بہت تعجب کیااور جب قریب دو بجے بعد دوپہر کے وقت ہواتو مسٹر پرنسب صاحب کمشنر امرتسر ناگہانی طور پر سیالکوٹ میں آگئے اور انہوں نے آتے ہی مسٹر مکنیب صاحب ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ کو ہدایت کی کہ راجہ تیجا سنگھ کے باغات وغیرہ کی جو ضلع سیالکوٹ وغیرہ میں واقع ہیںبہت جلد ایک فہرست طیار ہونی چاہیےکیونکہ وہ کل بٹالہ میں فوت ہو گئے۔تب لالہ بھیم سین نے اس خبر موت پر اطلاع پا کر نہایت تعجب کیاکہ کیونکر قبل از وقت اس کے مرنے کی خبر ہو گئی۔اور یہ نشان آج سے بیس برس پہلے ( آج 1915ء میں 36برس پہلے۔ایڈیٹر) براہین احمدیہ میں درج ہے۔دیکھو صفحہ ۲۵۶‘‘(حیات احمدؑ جلد اول صفحہ111،110)حضرت اقدسؑ نے اپنی ایک اورتصنیف تریاق القلوب میں اس نشان کااس طرح ذکرفرمایاہے :’’انہی وکیل صاحب یعنی لالہ بھیم سین صاحب کو جو سیالکوٹ میں وکیل ہیں ایک مرتبہ میں نے خواب کے ذریعہ سے راجہ تیجا سنگھ کی موت کی خبر پاکر اُن کو اطلاع دی کہ وہ راجہ تیجا سنگھ جن کو سیالکوٹ کے دیہات جاگیر کے عوض میں تحصیل بٹالہ میں دیہات مع اس کے علاقہ کی حکومت کے ملے تھے فوت ہوگئے ہیں اور انہوں نے اِس خواب کو سن کر بہت تعجب کیا اور جب قریب دو بجے بعد دوپہر کے وقت ہوا تو مسٹر پرنسب صاحب کمشنر امرتسر ناگہانی طور پر سیالکوٹ میں آگئے اور اُنہوں نے آتے ہی مسٹر مکنیب صاحب ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ کو ہدایت کی کہ راجہ تیجا سنگھ کے باغات وغیرہ کی جو ضلع سیالکوٹ میں واقع ہیں بہت جلد ایک فہرست طیار ہونی چاہیے کیونکہ وہ کل بٹالہ میں فوت ہوگئے۔ تب لالہ بھیم سین نے اس خبر موت پر اطلاع پاکر نہایت تعجب کیاکہ کیونکر قبل از وقت اس کے مرنے کی خبر ہوگئی۔ اور یہ نشان آج سے بیس برس پہلے کتاب براہین احمدیہ میں درج ہے۔ دیکھو صفحہ ۲۵۶۔‘‘(تریاق القلوب،روحانی خزائن جلد15صفحہ 256-257)
محترم لالہ بھیم سین صاحب کولکھے جانے والے دوخط
محترم لالہ بھیم سین صاحب کو لکھے جانے والے دوخط ہمارے سلسلہ کے لٹریچرمیں محفوظ ہیں ایک خط وہ ہے جو حضرت اقدسؑ نے انہیں 14؍جون 1903ء کولکھا تھا جو مکتوبات احمدجلداول صفحہ87پرمکتوب نمبر22کے طورپر درج ہے۔اس خط میں جو کہ سات صفحات پر مشتمل ہے،اسلام کی سچائی او رقرآن کی حقانیت بالمقابل وید وغیرہ کے مضامین کے ساتھ ساتھ لالہ صاحب کے کچھ سوالات بھی ہیں جن کاجواب دیاگیا ہے۔اورایک دوسراخط جو اس سے کہیں پہلے کا ہے وہ 9 صفحات پر مشتمل ہے او ربزبان فارسی ہے۔ غالب امکان ہے کہ قیام سیالکوٹ کے دوران کاہی ہوگا۔اوراس میں سورت فاتحہ کی خوبصورت تفسیر کرتے ہوئے بت پرستی کی تردید کی گئی ہے۔
یہ خط بھی لالہ بھیم سین کے صاحبزادے لالہ کنورسین صاحب نے محترم عرفانی صاحبؓ کو دیا تھا۔ حضرت عرفانی صاحبؓ اس خط کو درج کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’لالہ بھیم سین صاحب ایک نیک دل اور خوش اخلاق انسان تھے۔حضرت مسیح موعودؑ سے آپ کو ایک محبت اور وداد کا تعلق تھا۔ان کے پرانے کاغذات میں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی ایک تحریر عالی جناب لالہ کنور سین صاحب ایم۔اے پرنسپل لاء کالج لاہور خلف الرشید لالہ بھیم سین آنجہانی کی کرم فرمائی سے مجھے ملی ہے۔جو آپ نے لالہ بھیم سین صاحب کو لکھی تھی۔اس تحریر کے مطالعہ سے معلوم ہو گا کہ حضرت مسیح موعودؑ اپنے مخاطب دوست کی کس قدر عزت اور اعلیٰ درجہ کے اخلاق کی تعریف کرتے ہیں۔اور اس سلسلہ میں آپؑ کس طرح پر ان کو اسلام کے اعلیٰ اور اکمل مذہب ہونے کی طرف توجہ دلاتے ہیں…
یہ خط جہاں تک میں خیال کرتا ہوں (اگرچہ اس پر کوئی تاریخ نہیں )کم و بیش آج سے نصف صدی پیشتر کا ہو گا۔اس سے اندازہ ہو سکتا ہےکہ اس وقت آپؑ کی توجہ تبلیغ اور اظہار الدین کی طرف کس درجہ تک مائل تھی یہ فارسی زبان میں ہے۔اور اصل الفاظ میں مَیں اسے درج کرتا ہوں قبل اس کے کہ اسے درج کروں میں لالہ کنور سین صاحب ایم۔اے کے الفاظ میں اس مضمون کا شانِ نزول لکھ دینا چاہتا ہوں۔
یہ مضمون بقول قبلہ والد ماجد مرزا صاحب نے ان ایام میں اپنے دوست میرے والد صاحب کی خاطر لکھا تھاجبکہ ہر دو صاحب سیالکوٹ میں مقیم تھے اور علاوہ مشاغل قانونی و علمی کے اخلاقی و روحانی مسائل پر بھی غور و بحث کیا کرتے تھے۔اس سے اس زمانہ کے مشاغل کا عام پتہ ملتا ہے بہر حال وہ مضمون یہ ہے۔‘‘ (حیات احمد جلد اول صفحہ 254،253)
(باقی آئندہ)
٭…٭…٭