دوسرے کے عیب دیکھ کر اسے نصیحت کی جاوے
دیکھو وہ جماعت جماعت نہیں ہو سکتی جو ایک دوسرے کو کھائے اور جب چار مل کر بیٹھیں۔تو ایک اپنے غریب بھائی کا گلہ کریں اور نکتہ چینیاں کرتے رہیں اور کمزوروں اور غریبوں کی حقارت کریں۔ (ملفوظات جلد2صفحہ 264، ایڈیشن 1988ء)
چاہیے کہ جسے کمزور پاوے اسے خفیہ نصیحت کرے۔ اگر نہ مانے تو اس کے لیے دعا کرے اور اگر دونوں باتوں سے فائدہ نہ ہو تو قضاء و قدر کا معاملہ سمجھے۔ جب خدا تعالیٰ نے ان کو قبول کیا ہوا ہے تو تم کو چاہئے کہ کسی کا عیب دیکھ کر سرِ دست جوش نہ دکھلایا جاوے۔ ممکن ہے کہ وہ درست ہو جاوے۔ قطب اور ابدال سے بھی بعض وقت کوئی عیب سرزد ہو جاتا ہے… قرآن کریم کی یہ تعلیم ہرگز نہیں ہے کہ عیب دیکھ کر اسے پھیلاؤ اور دوسروں سے تذکرہ کرتے پھرو بلکہ وہ فرماتا ہے تَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ وَ تَوَاصَوۡا بِالۡمَرۡحَمَۃِ (البلد:18)کہ وہ صبر اور رحم سے نصیحت کرتے ہیں۔ مرحمہ یہی ہے کہ دوسرے کے عیب دیکھ کر اسے نصیحت کی جاوے اور اس کے لیے دعا بھی کی جاوے۔(ملفوظات جلد4صفحہ60،ایڈیشن 1988ء)