مستورات سے خطاب (قسط نمبر1)
(سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ ۲۸؍ دسمبر۱۹۲۵ءبر موقع جلسہ سالانہ)
حضورؓ نے سورۃ الدھر کے پہلے رکوع کی تلاوت کے بعد فرمایا:
اس سورت میں بلکہ اس رکوع میں جو میں نے پڑھا ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کی زندگی کے ابتدائی، درمیانی و آخیری انجام بتائے ہیںاس لئے یہ رکوع اپنے مضمون کے لحاظ سے کامل رکوع ہے۔
ا للہ تعالیٰ فرماتا ہے ہَلۡ اَتٰی عَلَی الۡاِنۡسَانِ حِیۡنٌ مِّنَ الدَّہۡرِ لَمۡ یَکُنۡ شَیۡئًا مَّذۡکُوۡرًا۔دنیا میں انسان گناہ کا مرتکب تکبر کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اور تکبر اس کی عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے۔وہ باوجود آنکھوں کے نہیں دیکھتا اور باوجود کانوں کے نہیں سنتا۔ اور وہ یہ نہیں جانتا کہ ہر ایک انسان پر ایک زمانہ ایسا آیا ہے، خوا ہ وہ امیر ہو یا غریب، فقیر ہو یا بادشاہ،کہ اس کا ذکر دنیا میں کوئی نہ کرتا تھا۔ہر ایک شخص اپنی زندگی پر غور کر کے دیکھ لے۔ جس کی عمرآج چالیس سال کی ہے اکتالیس سال پہلے اس کو کون جانتا تھا۔ جس کی عمر پچاس سال کی ہے اکاون سال پہلے اس کو کون جانتا تھا۔ پس چاہے کتنا ہی بڑا انسان ہوخیال کرے کہ اس کی زندگی شروع کہاں سے ہوئی ہے۔ دنیا تو پہلے سےآباد چلی آ رہی ہے۔اور جب اس کے پیدا ہونے سے پہلے بھی دنیا آباد تھی اور یہ بعد میں آیا اور اس کےنہ آنے سے پہلے کوئی نقصان نہیں تھا اور دنیا کا کوئی بڑے سے بڑاجابرو فاتح بادشاہ جو گذرا ہے۔ اس کے نہ رہنے اور مر جانے سے دنیا کو کوئی نقصان نہیں ہؤا اور دنیا ویسے ہی آباد چلی آرہی ہے۔ بڑے بڑے بادشاہ جو ایک وقت حکومت کرتے تھے ایک وقت آیا کہ ان کو کوئی جانتا بھی نہ تھا۔ تو انسان کو چاہیے کہ اپنی پیدائش پر غور کرتا رہےاس سے اس میں تکبر نہیں پیدا ہوگا اور وہ بہت سے گناہوں سے بچ جائے گا۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہےاِنَّا خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ اَمۡشَاجٍ ٭ۖ نَّبۡتَلِیۡہِ فَجَعَلۡنٰہُ سَمِیۡعًۢا بَصِیۡرًا۔ہر ایک انسان پر ایسا زمانہ آیا ہے کہ دنیا میں اس کا کوئی مذکور نہ تھا۔ پھر ہم نے اس کو مختلف چیزوں کے خواص سے سمیع اور بصیر انسان بنا دیا۔انسان کیا ہے۔ ان ہی چیزوں یعنی مختلف قسم کے اناجوں، پھلوں، ترکاریوں اور گوشت کا خلاصہ ہے جو ماں باپ کھاتے ہیں۔ بچہ ماں باپ سے ہی پیدا ہوتا ہے اور کبھی کوئی بچہ آسمان سے نہیں گرا۔ دیکھو اگر کسی شخص کی غذا بند کر دی جائے تو اس کے ہاں بچہ پیدا ہونا تو درکنار وہ خود بھی زندہ نہیں رہ سکے گا۔ پس بچہ ماں باپ کی اس غذا ہی کا خلاصہ ہے جو وہ کھاتے ہیں۔
پھر بچہ ہی سے روح پیدا ہوتی ہے عام لوگوں کا خیال ہے کہ بچہ تو ماں باپ سے پیدا ہوتا ہے، روح کہیں آسمان سے آجاتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے پاس پہلے ہی موجود ہوتی ہے۔ مگر یہ خیال روح کی نسبت غلط ہے۔ صحیح یہ ہے کہ روح بھی ماں باپ سے ہی پیدا ہوتی ہے۔اور یہ ایک بے ہودہ اور لغو خیال ہے کہ بچہ تو ماں باپ سے پیدا ہوتا ہے اور روح آسمان سے آتی ہے۔یہ آر یوں کا خیال ہے کہ روح ہمیشہ سے چلی آتی ہے۔ اس طرح خدا روح کا خالق تو نہ ہؤا۔ سورہ دھر میں اللہ تعالیٰ ماں کے پیٹ میں بچہ کے نشوونما کو اس طرح بتاتا ہے کہ جس وقت دنیا میں اس کا کوئی مذکور نہ تھا ہم نے چند چیزوں کے خلاصہ سے اس کو سمیع اور بصیر انسان بنایا۔اور یہ اس غذا ہی کا خلاصہ ہے جو ماں باپ کھاتے تھے۔ بچہ کی پیدائش اور روح کی مثال اس طرح ہے جس طرح جو اور کھجور سے سرکہ بناتے ہیں اور سرکہ سے شراب۔ اس طرح بچہ سے روح پیدا ہو جاتی ہے۔ گلاب کا عطر گلاب کے پھولوں کا ایک حصہ ہے جو خاص طریقہ پر تیار کرنے سے بن جاتا ہے۔پس جس طرح پھول کی پتیوں سے عطر نکل آتا ہے اور سرکہ سے شراب بن جاتی ہے۔اسی طرح بچہ کے جسم سے ہی روح تیار ہوجاتی ہے۔ہمارے ملک میں تو ابھی اس قدر علم نہیں ہے یورپ میں دواؤں سے عطر تیار کرتے ہیں۔ دو ایک دوائیاں ملائیں اور خوشبو بن گئی۔ پس جس طرح پھولوں سے خوشبو اور جَو سے شراب بن جاتی ہے اسی طرح جسم سے روح پیدا ہو جاتی ہے۔پہلے بچے کا جسم پیدا ہوتا ہے اور پھر جسم میں ہی روح پیدا ہوجاتی ہے ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔اِنَّا خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ نُّطۡفَۃٍکہ گوشت، ترکاریاں، پانی، طرح طرح کے پھل، ہر ایک قسم کی دالیں جو ماں باپ کھاتے ہیں ان مختلف قسم کی غذاؤں کا خلاصہ نکال کر ہم نے انسان کو پیدا کیا۔
پھر اِنَّا ہَدَیۡنٰہُ السَّبِیۡلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوۡرًا ہم نے جو سب چیزوں کے نچوڑ سے خلاصہ بن گیا تھا۔ اس پر انعام کیا اور وہ بولتاچا لتا انسان بن گیا۔ پس تم دیکھو کہ تمہاری ابتداء اس طرح پر ہوئی۔ اور پیدائش کے لحاظ سے تمہارے اور گائے، بھیڑ،بکری میں کوئی فرق نہیں۔اگر فرق ہؤا تو احسان سے ہؤا ہے اور وہ یہ کہ اس کی طرف وحی بھیجی، اس پر اپنا کلام اتارا اور اس کے اندر یہ قوت رکھ دی کہ چاہے تو شکر کرے اور چاہے تو انکار کرے۔ ہم نے انسان کو ان حقیرچیزوں سے پیدا کیا اور اس میں یہ قوت رکھ دی کہ چاہے ہماری راہ میں جدوجہد کرکے ہماری رضا کو حاصل کر لے اور چاہے ہمارے نبی کا منکر ہو جائے۔ اس کو جو اقتدار حاصل ہے ہم اس میں دخل نہیں دیتے،ہاں خدا کا کلام اس پر اترا اور اسے بتلایا کہ اس پر چل کر ترقی کر سکتے ہو۔
کوئی کہہ سکتا ہے کہ خدا نے انسان کو یہ قدرت ہی کیوں دی اور اس کو آزادکیوں چھوڑا اس سے اس کی کیا غرض تھی؟ سو معلوم ہوکہ اگر خدا انسان کو یہ قدرت نہ دیتا تو وہ ترقی بھی نہ کرتا۔دیکھو آگ کی خاصیت جلانا ہے۔ آگ میں جو چیز بھی پڑے گی وہ اس کو جلا دے گی۔چاہے وہ چیز آگ جلانے والے کی ہی کیوں نہ ہو۔ دیکھو اگر کسی گھر میں چراغ جل رہا ہو اور وہ گر پڑے اور سارا گھر جل جائے تو کوئی چراغ کو ملامت نہیں کرے گا۔اسی طرح کوئی شخص آگ کو کبھی کوئی الزام نہیں دیتا۔کیونکہ جانتے ہیں کہ آگ کی خاصیت جلانا ہے۔ لیکن اگر کوئی انسان کسی کو بلاوجہ انگلی بھی لگائے تو لوگ اس کو ملامت کریں گے۔ کیونکہ اس میں یہ بھی مقدرت ہے کہ کسی کو ایذاء نہ پہنچائے۔ اسی طرح دیکھو مکان بھی انسان کو سردی سے بچاتا ہے مگر کبھی کسی انسان نے مکان کا شکریہ ادا نہیں کیا۔اس کے مقابلہ میں کوئی انسان کسی کو ایک کرتا دے دیتا ہے تو اس کا احسان مانتا ہے۔کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کو اختیار تھا۔چاہے دیتا چاہے نہ دیتا تو آگ اگر بچہ کو جلا دے تو بھی کوئی آگ کی مذمت نہیں کرے گا اور انسان اگر انگلی بھی لگائے تو اسے برا بھلا کہیں گے۔اس کی کیا وجہ ہے یہی کہ آگ کو اختیار نہیں مگر انسان کو اختیار تھا۔ چاہے دکھ دیتا چاہے نہ دیتا۔اسی طرح پانی کا کام ہے ڈبونا۔سمندر میں کئی انسان ڈوبتے رہتے ہیں ۔مگر کبھی کوئی سمندر کو ملامت نہیں کرتا ۔کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ قانون ہے۔ اس میں سمندر کو اختیار نہیں۔ پھر سارے انعام اختیار کے ساتھ وابستہ ہیں۔ انسان کو اس لیے بھی اختیار دیا گیا کہ اس کو انعام دیا جائے۔اور جو انعام کے قابل ہو سکتا ہے وہی سزا کا بھی مستحق ہو سکتا ہے۔بعض دفعہ بچہ زمین پر گر پڑتا ہے تو زمین کو پیٹتا ہے۔عورتیں کہتی ہیں ۔آؤ زمین کو پیٹیں اس نے کیوں تمہیں گرایا۔ مگر یہ محض ایک تماشا ہوتا ہے جو بچہ کے بہلانے کے لیے ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے انسان کو اختیار اس لئے دیا کہ چا ہے بڑھ چڑھ کر انعام لے جائے چاہے سزا کا مستحق ہو جائے۔کئی مسلمان مرد اور عورتیں کہتی ہیں کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بنانا تھا بنا دیا ہمیں کسی کوشش کی ضرورت نہیں۔ اگر یہ صحیح ہے تو بتلاؤ پھر اب خدا کا کیا حق ہے کہ ہم میں سے کسی کو سزا دے یا انعام۔ دیکھو آگ کا کام خدا نے جلانا اور پانی کا کام ڈبونا رکھا ہے۔ اب اگر کوئی کسی چیز کے جلنے پر آگ کو یا ڈبونے پرپانی کو مارے تو چوہڑی چمار ی بھی کہے گی یہ پاگل ہے۔مگر تم میں سے بہت سی عورتیں جو کہتی ہیں اگر ہماری تقدیر میں جہنم ہے توجہنم میں ڈالے جائیں گے اور اگر بہشت ہے تو بہشت میں جائیں گے کچھ کوشش کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ دیکھو پانی یا آگ کو مارنے والی عورت کو تمام پاگل کہتے ہیں اس لیے کہ آگ یا پانی کا جو کام تھا اس نے وہی کیا۔ پھر خدا اگر انسان کو ایک کام کرنے کے لیے مجبور بنا کر پھر سزا دیتا تو کیا نعوذباللہ لوگ اسے پاگل نہ کہتے کیونکہ اس آدمی نے تو وہی کام کیا جو اس کی تقدیر میں تھا پھر چور،ڈاکو،جواری سب انعام کے قابل ہیں کیونکہ انہوں نے وہی کام کیا جو ان کے مقدر میں تھا اور جس کام کے لیے وہ پیدا کیے گئے تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ اس کی تردید فرماتا ہے اور کہتا ہے اگر جبر ہوتا تو کافر نہ ہوتے۔ کیا تم میں سے کوئی ایسا ہے جو مار مار کے لوگوں سے کہے کہ مجھ کو گالیاں دو یا میرے بچہ کو مارو۔ جب تم میں سے کوئی ایسا نہیں کرتا تو خدا نے جو زبان دی،کان دیے تو کیا اس لیے کہ مجھ کو اور میرے رسولوں کو گالیاں دو۔ جب دنیا میں کوئی کسی کو اپنے ساتھ برائی کرنے کے لئے مجبور نہیں کرتا تو خدا تعالیٰ کیوں لوگوں کو برے کاموں کے لئے مجبور کرنے لگا۔ اگر اس نے مجبورہی کرنا ہوتا تو سب کو نیکی کے لئے مجبور کرتا۔ پس یہ غلط خیال ہے اور خدا اس کو رد کرتا ہے۔
عورتوں میں یہ مرض زیادہ ہوتا ہے۔ کسی کا بیٹا بیمار ہوجائے تو کہتی ہے تقدیر یہی تھی۔ کوئی اور بات ہو جائے تو تقدیر کے سرتھوپ دیتی ہے۔ میں کہتا ہوںاگر ہر بات تقدیر سے ہی ہوتی ہے اور انسان کا اس میں کچھ دخل نہیں ہوتا تو ایک عورت روٹی کیوں پکاتی ہے تقدیر میں ہوگی تو خود بخود پک جائے گی۔رات کو لحاف کیوں اوڑھتی ہے اگر تقدیر میں ہوگا تو خود بخود سب کام ہوجائے گا مگر ایسا کوئی نہیں کرتا۔ایک دفعہ میں لاہور سے قادیان آرہا تھا اسی گاڑی میں پیر جماعت علی شاہ صاحب لاہور سے سوار ہوئے۔حضرت صاحب ایک دفعہ سیالکوٹ گئے تو انہوں نے یہ فتویٰ دیا تھا کہ جو کوئی ان کے وعظ میں جائے یا ان سے ملےوہ کافر ہو گا اور اس کی بیوی کو طلاق ہو جائے گی کیونکہ یہ مسئلہ ہے کہ جب مرد کافر ہو جائے تو اس کی بیوی کو طلاق ہو جاتی ہے۔ایک دفعہ ایک احمدی ان کے وعظ میں گیا اور ان سے کہا آپ نے میری شکل دیکھ لی ہے۔ میں احمدی ہوں۔ اس لیے آپ اب کافر ہوگئے اورآپ کی بیوی کو طلاق ہوگئی۔اس پر سب لوگ اس کو مارنے لگ گئے۔خیر انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کہاں جائیں گے؟میں نے کہا۔بٹالہ۔ انہوں نے کہا کیا خاص بٹالہ۔ یا کسی اَور جگہ۔میں نے کہا بٹالہ کے پاس ایک گاؤں ہے وہاں۔ انہوں نے کہا اس اس گاؤں کا کیا نام ہے۔؟میں نے کہا قادیان۔ کہنے لگے۔وہاں کیوں جاتے ہو۔ میں نے کہا میرا وہاں گھر ہے۔کہنے لگے کیا تم میرزا صاحب کے رشتہ دار ہو۔ میں نے کہا میں ان کا بیٹا ہوں۔ ان دنوں ان کا کسی احمدی کے ساتھ جھگڑا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ میں اس احمدی سے کہوں کہ مقدمہ چھوڑ دے۔ مگر انہوں نے پہلے غرض نہ بتائی اور کچھ خشک میوہ منگوا کر کہاکھاؤ۔میں نے کہا مجھ کو نزلہ کی شکایت ہے کہنے لگے جو کچھ تقدیر الٰہی میں ہوتا ہے وہی ہوتا ہے۔ میں نے کہا اگر یہی ہے تو آپ سے بڑی غلطی ہوئی ۔نا حق سفر کی تکلیف برداشت کی۔ اگر تقدیر میں ہوتا تو آپ خود بخود جہاں جانا تھاپہنچ جاتے اس پر خاموش ہوگئے۔تو تقدیر کے متعلق بالکل غلط خیال سمجھا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ہم کسی کو مومن یا کافر نہیں بناتے بلکہ وہ خود ہی شکرگزار بندہ یا کافر بنتا ہے۔ اور ہم نے جب اس کو مقدرت دے دی تو حساب بھی لینا ہے۔دیکھو جس نوکر کو مالک اختیار دیتا ہے کہ فلاں کا م اپنی مرضی کے مطابق کر،اس سے محاسبہ بھی کرتا ہے۔
(باقی آئندہ)