بنیادی مسائل کے جوابات (قسط43)
(امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے پوچھےجانے والے بنیادی مسائل پر مبنی سوالات کے بصیرت افروز جوابات)
٭…تناسخ کے عقیدے کے متعلق جماعت احمدیہ کا کیا موقف ہے؟
٭…کیاحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد کوئی شرعی نبی یا اگر اسلام خاتم الادیان ہے تو غیر شرعی نبی آ سکتا ہے یا آپؑ کا کوئی خلیفہ آپؑ کی پیروی میں نبی بن سکتا ہے؟
سوال:ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ مختلف ثقافتوں کے لوگوں، مسلمان علماء،بعض اسلامی فرقوں نیز کئی دوسرے مذاہب نے تناسخ کے بارہ میں اپنے خیالات کا اظہار کیا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ عدل قائم کرنے کی غرض سے انسان کو دوبارہ دنیا میں لاتا ہے، تاکہ وہ مختلف تجارب جیسے غربت و امارت اور بیماری و صحت وغیرہ سے گزر سکے۔ کیونکہ یہ عدل نہیں ہے کہ انسان کی روح صرف ایک ہی تجربہ سے گزرے۔ اس بارےمیں جماعت احمدیہ کا موقف کیا ہے اور کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور کسی خلیفہ نے اس بارےمیں کچھ فرمایا ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ 06؍ستمبر 2021ء میں اس سوال کے بارہ میں درج ذیل ارشادات فرمائے۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب:تناسخ کا عقیدہ دراصل آخرت کی زندگی جو کہ دائمی زندگی ہے اس کو نہ سمجھنے اور نہ ماننے، نیزخدا تعالیٰ کی ذات، اس کی صفات خصوصاً صفت خالقیت، مالکیت اور اللہ تعالیٰ کے رحم سے متعلق مختلف عادات از قسم اس کا کرم، عفو، درگذر اوررحم وغیرہ سے عدم واقفیت کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ تناسخ کے عقیدہ کی رو سے خدا تعالیٰ مجبور ہے کہ وہ کسی انسان کو ہمیشہ کے لیے نجات دے۔ وہ اس بات پر قادر نہیں کہ اگر ایک شخص اپنی آوارگی اور بدچلنی کے زمانہ سے تائب ہو کر اپنے اسی پہلے جنم میں نجات پانا چاہے تو اُس کو اس کی توبہ اور پاک تبدیلی کی وجہ سے نجات عنایت کرسکے بلکہ اُس کے لیے تناسخ کے اصول کی رُو سے کسی دوسری جُون میں پڑ کر دوبارہ دنیا میں آنا ضروری ہے خواہ وہ انسانی جُون کو چھوڑ کر کتا بنے یا بندر بنے یا سؤر بنے۔اسی طرح اس باطل عقیدہ کی رو سے کسی انسان کا پاکیزگی کی راہوں پر چلنا بھی ناممکن ہے، کیونکہ اس عقیدہ کو ماننے کے نتیجہ میں کیا معلوم کہ دوبارہ ہونے والے تناسخی جنم میں جس عورت سے اس کی شادی ہوئی ہے، وہ پہلے جنم میں اس کی ماں یا بہن یا دادی ہو۔ علاوہ ازیں اس عقیدہ کے اور بھی کئی لغو اور بیہودہ پہلو ہیں۔
سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے تناسخ کے غیر اسلامی اور خدا تعالیٰ کی ذات و صفات کے سراسر خلاف عقیدہ کے ردّ میں اپنی متعدد تصانیف(جن میں اسلامی اصول کی فلاسفی، چشمہ معرفت، آریہ دھرم، قادیان کے آریہ اور ہم، شحنۂ حق، لیکچر لاہور، لیکچر سیالکوٹ وغیرہ شامل ہیں) میں بہت تفصیل کے ساتھ مدلل بحث فرمائی ہے۔حضور علیہ السلام کی ان تصانیف میں سے اسلامی اصول کی فلاسفی، چشمہ معرفت، قادیان کے آریہ اور ہم، لیکچر لاہور اور لیکچر سیالکوٹ کا عربی زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے اور یہ کتب عربی ترجمہ کےساتھ آن لائن بھی میسر ہیں، وہاں سے آپ تناسخ کے عقیدہ کا ردّ بیان فرمودہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام پڑھ سکتی ہیں۔ بطور نمونہ حضور علیہ السلام کا ایک ارشاد درج ذیل ہے۔حضور فرماتے ہیں: ’’دوسرا پہلو جو آریہ مت مخلوق کے متعلق پیش کرتا ہے۔ اُن میں سے ایک تو تناسخ ہے۔ یعنی بار بار رُوحوں کا طرح طرح کی جونوں میں پڑ کر دنیا میں آنا۔ اس عقیدہ میں سب سے پہلے یہ امر عجیب اور حیرت انگیز ہے کہ باوجود دعویٰ عقل کے یہ خیال کیا گیا ہے کہ پرمیشر اس قدر سخت دل ہے کہ ایک گناہ کے عوض میں کروڑہا برس تک بلکہ کروڑہا اربوں تک سزا دیئے جاتا ہے حالانکہ جانتا ہے کہ اُس کے پیدا کردہ نہیں ہیں اور اُن پر اس کا کوئی بھی حق نہیں ہے بجز اس کے کہ بار بار جونوں کے چکر میں ڈال کر دُکھ میں ڈالے۔ پھر کیوں انسانی گورنمنٹ کی طرح صرف چند سال کی سزا نہیں دیتا؟ ظاہر ہے کہ لمبی سزا کے لئے یہ شرط ہے کہ سزا یافتوں پر کوئی لمبا حق بھی ہو مگر جس حالت میں تمام ذرّات اور ارواح خود بخود ہیں کچھ بھی اُس کا اُن پر احسان نہیں بجز اس کے کہ سزا کی غرض سے طرح طرح کی جونوں میں اُن کو ڈالے۔ پھر وہ کس حق پر لمبی سزا دیتا ہے۔ دیکھو اسلام میں باوجودیکہ خدا فرماتا ہے کہ ہر ایک ذرّہ اور ہریک رُوح کا میں ہی خالق ہوں اور تمام قوتیں ان کی میرے ہی فیض سے ہیں اور میرے ہی ہاتھ سے پیدا ہوئے ہیں اور میرے ہی سہارے سے جیتے ہیں۔ پھر بھی وہ قرآن شریف میں فرماتا ہے۔اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّکَ ؕ اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیۡدُ۔(ھود:108)یعنی دوزخی دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے لیکن نہ وہ ہمیشگی جو خدا کو ہے بلکہ دُور دراز مدّت کے لحاظ سے۔ پھر خدا کی رحمت دستگیر ہوگی کیونکہ وہ قادر ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اور اس آیت کی تصریح میں ہمارے سیّد ومولیٰ نبی کریمﷺ کی ایک حدیث بھی ہے۔ اور وہ یہ ہے یأتی علٰی جھنّم زمانٌ لیس فیھا احدٌ ونسیم الصبا تحرک ابوابھا۔ یعنی جہنم پر ایک وہ زمانہ آئے گا کہ اُس میں کوئی بھی نہ ہوگا۔ اور نسیم صبااُس کے کواڑوں کو ہلائے گی۔ لیکن افسوس کہ یہ قومیں خدا تعالیٰ کو ایک ایسا چڑچڑا اور کینہ ور قرار دیتی ہیں کہ کبھی بھی اُس کا غصّہ فرو نہیں ہوتا اور بیشمار اربوں تک جونوں میں ڈال کر پھر بھی گناہ معاف نہیں کرتا … دوسرا پہلو تناسخ کے بطلان کا یہ ہے کہ وہ حقیقی پاکیزگی کےبرخلاف ہے۔ کیونکہ جب ہم ہرروز دیکھتے ہیں کہ کسی کی ماں فوت ہو جاتی ہے اور کسی کی ہمشیرہ اور کسی کی پوتی۔ تو پھر اس پر کیا دلیل ہے کہ اس عقیدہ کے قائل اس غلطی میں مبتلا نہ ہو جائیں کہ ایسی جگہ نکاح کرلیں جہاں نکاح کرنا وید کی رو سے حرام ہے۔ ہاں اگر ہر ایک بچہ کے ساتھ اُس کے پیدا ہونے کے وقت میں ایک لکھی ہوئی فہرست بھی ہمراہ ہو جس میں بیان کیا گیا ہو کہ وہ پہلی جون میں فلاں شخص کا بچہ تھا تو اس صورت میں ناجائز نکاح سے بچ سکتے تھے۔ مگر پرمیشر نے ایسا نہ کیا۔ گویا ناجائز طریق کو خود پھیلانا چاہا۔ پھر ماسوا اس کے ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ اس قدر جونوں کے چکر میں ڈالنے سے فائدہ کیا ہے۔ اور جب کہ تمام مدار نجات اور مکتی کا گیان یعنی معرفتِ الٰہی پر ہے تو یوں چاہئے تھا کہ ہرایک بچہ جو دوبارہ جنم لیتا پہلا ذخیرہ اس کے گیان اور معرفت کا ضائع نہ ہوتا۔ لیکن ظاہر ہے کہ ہرایک بچہ جو پیدا ہوتا ہے خالی کاخالی دنیا میں آجاتا ہے اور ایک آوارہ اور فضول خرچ انسان کی طرح تمام پہلا اندوختہ برباد کر کے مفلس نادار کی طرح منہ دکھاتا ہےاور گو ہزار مرتبہ اس نے وید مقدس کو پڑھا ہو ایک ورق بھی ویدکا یاد نہیں رہتا۔ پس اس صور ت میں جونوں کے چکر کے رُو سے نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی کیونکہ ذخیرہ گیان اور علم کا جوہزار مصیبت سے ہر ایک جون سے جمع کیا جاتا ہے وہ ساتھ ساتھ برباد ہوتا رہتا ہے نہ کبھی محفوظ رہے گا اور نہ نجات ہوگی۔ اول تو حضرات آریہ کے اصولوں کی رُو سے نجات ہی ایک محدود میعاد تھی۔ پھر اُس پر یہ مصیبت کہ سرمایہ نجات کایعنی گیان جمع ہونے نہیں پاتا۔ یہ بدقسمتی روحوں کی نہیں تو اَور کیا؟‘‘(لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 170تا 172)
سوال:ایک دوست نے قرآن کریم کی آیت سُنَّۃَ اللّٰہِ فِی الَّذِیۡنَ خَلَوۡا مِنۡ قَبۡلُ وَ لَنۡ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبۡدِیۡلًا۔(سورۃ الاحزاب:63) اورآیت فَہَلۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَّا سُنَّتَ الۡاَوَّلِیۡنَ فَلَنۡ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبۡدِیۡلًا وَ لَنۡ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَحۡوِیۡلًا۔(سورۃ الفاطر:44)سے استدلال کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ خدا تعالیٰ کے بعض قانون قطعی اور مستقل ہیں جن میں اس کا مستقل نبی یا تابع نبی بھیجنے کا قانون بھی شامل ہے۔ تو کیاحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے 622سال کے بعدحضرت موسی علیہ السلام یا آنحضرت ﷺ کی طرح کوئی شرعی نبی اور اگراسلام خاتم الادیان ہے تو کیا کوئی غیر شرعی نبی آ سکتا ہے یا آپ کا کوئی خلیفہ آپ کی پیروی میں نبی بن سکتا ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ 09 ستمبر 2021ء میں اس سوال کے بارہ میں درج ذیل ہدایات سے نوازا۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب:پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ نے قرآن کریم کی جن آیات سے خدا تعالیٰ کے کسی مستقل یا تابع نبی کے بھیجنے کی سنت کے قطعی اور دائمی ہونے کا استدلال کیا ہے وہ ان آیات سے نہیں ہوتا کیونکہ سورۃ الاحزاب کی آیات میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے مقابلہ پر مخالفین اسلام ،خصوصاً منافقین کی ناکامی اور تباہی کے مضمون کو بیان کر کے فرماتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے جو پہلی الٰہی جماعتوں کے حق میں بھی جاری ہوئی اور اب بھی جاری ہو گی کہ مخالفین و منافقین اسلام ذلیل و رسوا ہوں گے اور اہل اسلام کو کامیابی عطاء ہوگی۔ اور سورۃ الفاطر کی آیات میں یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ انبیاء کی بعثت سے قبل لوگ بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں کہ اگر ان کے پاس خدا کی طرف سے کوئی ڈرانے والا آیا تو وہ ضرور پہلے لوگوں سے زیادہ ہدایت پانے والے ہوں گے۔ لیکن جب خدا تعالیٰ اپنے کسی فرستادہ کو ان کے پاس بھجواتا ہے تو وہ اس کے خلاف کمر بستہ ہو جاتے، تکبر کے ساتھ اسے دھتکارتے اور اس کے خلاف ہر طرح کی سازشیں کرتے ہیں۔ایسی صورت میں پھر اللہ تعالیٰ بھی ان مخالفین کےخلاف اپنی پہلی سنت کو جاری کرتا ہے اور انہیں طرح طرح کے عذابوں میں مبتلا کر کے ناکام و نامراد کر دیتا ہےا ور پنے فرستادوں کو فتح و نصرت سے سرفراز فرماتا ہے۔
پس ان آیات سے آپ جو استدلال کر رہے ہیں وہ درست نہیں ہے۔ لیکن اس کےساتھ ہمارا ایمان ہے کہ دنیا کی ہدایت اور اصلاح کے لیے جب بھی کسی نبی یا مصلح کی ضرورت ہوتی ہےتو اللہ تعالیٰ انسانیت پر رحم کرتے ہوئے کسی نہ کسی نبی یا مصلح کو ضرور دنیا کی ہدایت کے لیے مبعوث کرتا چلا آیا ہے اور اس کا یہ رحم آئندہ بھی جاری رہے گا لیکن اس کے اس رحم کا اظہار کس طرح ہو گا؟یہ وہی بہتر جانتا ہے۔ جہاں تک قرآن کریم اور احادیث نبویہﷺ سے اس بارےمیں راہنمائی کے حصول کاتعلق ہے تو ہمارے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ نے اپنے بعد اپنی امت میں دو دفعہ خلافت علی منہاج النبوۃ کے قیام کی بشارت دی ہے۔ پہلی مرتبہ کے قیام کے بعد آپ نےاس نعمت کے اٹھائے جانے کا ذکر فرمایا ہے لیکن دوسری مرتبہ اس نعمت کے قیام کی خوشخبری دینے کے بعد آپ نے خاموشی اختیار فرمائی،جس سے اس نعمت کے قیامت تک جاری رہنے کا استدلال ہوتا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد6 صفحہ 285، مسند النعمان بن بشیرؓ)
پھر آنحضور ﷺ کے غلام صادق اوراس زمانہ کے حکم وعدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ سے خبر پا کر قرآن کریم کی مختلف آیات، احادیث نبویہﷺ اور دیگر مذاہب کی تاریخ سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ انسانی نسل کی عمر سات ہزار سال ہے۔ آنحضورﷺ کی بعثت پانچویں ہزار سال میں ہوئی اور اب ہم اس سلسلہ کے ساتویں ہزار سال میں سے گزر رہے ہیں۔ چنانچہ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:’’ہمارا عقیدہ جو قرآن شریف نے ہمیں سکھلایا ہے یہ ہے کہ خدا ہمیشہ سے خالق ہے اگر چاہے تو کروڑوں مرتبہ زمین و آسمان کو فنا کر کے پھر ایسے ہی بنادے اور اُس نے ہمیں خبر دی ہے کہ وہ آدم جو پہلی اُمّتوں کے بعد آیا جو ہم سب کا باپ تھا اس کے دنیا میں آنے کے وقت سے یہ سلسلہ انسانی شروع ہوا ہے۔ اور اس سلسلہ کی عمر کا پورا دور سات ہزار برس تک ہے۔ یہ سات ہزار خدا کے نزدیک ایسے ہیں جیسے انسانوں کے سات دن۔ یاد رہے کہ قانون الٰہی نے مقرر کیا ہے کہ ہر ایک امت کے لئے سات ہزار برس کا دور ہوتا ہے۔ اسی دَور کی طرف اشارہ کرنے کے لئے انسانوں میں سات دن مقرر کیے گئے ہیں۔ غرض بنی آدم کی عمر کا دَور سات ہزار برس مقرر ہے۔ اور اِس میں سے ہمارے نبی ﷺ کے عہد میں پانچ ہزار برس کے قریب گزر چکا تھا۔ یا بہ تبدیل الفاظ یوں کہو کہ خدا کے دنوں میں سے پانچ دن کے قریب گزر چکے تھے جیسا کہ سورۃ والعصر میں یعنی اس کے حروف میں ابجد کے لحاظ سے قرآن شریف میں اشارہ فرما دیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے وقت میں جب وہ سورۃ نازل ہوئی تب آدم کے زمانہ پر اسی قدر مدت گزر چکی تھی جو سورہ موصوفہ کے عددوں سے ظاہر ہے۔ اِس حساب سے انسانی نوع کی عمر میں سے اب اس زمانہ میں چھ ہزار برس گزر چکے ہیں اور ایک ہزار برس باقی ہیں۔ قرآن شریف میں بلکہ اکثر پہلی کتابوں میں بھی یہ نوشتہ موجود ہے کہ وہ آخری مرسل جوآدم کی صورت پر آئے گا اور مسیح کے نام سے پکارا جائے گا ضرور ہے کہ وہ چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہو جیسا کہ آدم چھٹے دن کےآخر میں پیدا ہوا۔ یہ تمام نشان ایسے ہیں کہ تدبّر کرنے والے کے لئےکافی ہیں۔ اور اِن سات ہزار برس کی قرآن شریف اور دوسری خدا کی کتابوں کے رو سے تقسیم یہ ہے کہ پہلا ہزار نیکی اور ہدایت کے پھیلنے کا زمانہ ہے اور دوسرا ہزار شیطان کے تسلّط کا زمانہ ہے اور پھر تیسرا ہزار نیکی اور ہدایت کے پھیلنے کا اور چوتھا ہزار شیطان کے تسلّط کا اور پھر پانچواں ہزار نیکی اور ہدایت کے پھیلنے کا(یہی وہ ہزار ہے جس میں ہمارے سیّد و مولیٰ ختمی پناہ حضرت محمد ﷺ دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث ہوئے اور شیطان قید کیا گیاہے) اور پھر چھٹا ہزار شیطان کے کھلنے اور مسلّط ہونے کا زمانہ ہے جو قرونِ ثلاثہ کے بعد شروع ہوتا اور چودھویں صدی کے سر پر ختم ہو جاتا ہے۔ اور پھر ساتواں ہزار خدا اور اس کے مسیح کا اور ہر ایک خیر وبرکت اور ایمان اور صلاح اور تقویٰ اور توحید اور خدا پرستی اور ہر ایک قسم کی نیکی اور ہدایت کا زمانہ ہے۔ اب ہم ساتویں ہزار کے سر پر ہیں۔ اِس کے بعد کسی دوسرے مسیح کو قدم رکھنے کی جگہ نہیں کیونکہ زمانے سات ہی ہیں جو نیکی اور بدی میں تقسیم کیےگئے ہیں۔ اس تقسیم کو تمام انبیاء نے بیان کیا ہے۔ کسی نے اجمال کے طور پر اور کسی نے مفصّل طور پر اور یہ تفصیل قرآن شریف میں موجود ہے جس سے مسیح موعود کی نسبت قرآن شریف میں سے صاف طور پر پیشگوئی نکلتی ہے۔ اور یہ عجیب بات ہے کہ تمام انبیاء اپنی کتابوں میں مسیح کے زمانہ کی کسی نہ کسی پیرایہ میں خبر دیتے ہیں اور نیز دجّالی فتنہ کو بھی بیان کرتے ہیں۔ اور دنیا میں کوئی پیشگوئی اس قوت اور تواتر کی نہیں ہوگی جیسا کہ تمام نبیوں نے آخری مسیح کے بارہ میں کی ہے۔‘‘(لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد20 صفحہ 184 تا 186)
ایک اور جگہ آپ فرماتے ہیں:’’تمام نبیوں کی کتابوں سے اور ایسا ہی قرآن شریف سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے آدم سے لے کر اخیر تک دنیا کی عمر سات ہزار برس رکھی ہے اور ہدایت اور گمراہی کے لیے ہزار ہزار سال کے دَور مقرر کئے ہیں۔ یعنی ایک وہ دَور ہے جس میں ہدایت کا غلبہ ہوتا ہے اور دوسرا وہ دَور ہے جس میں ضلالت اور گمراہی کا غلبہ ہوتا ہے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا خدا تعالیٰ کی کتابوں میں یہ دونوں دَور ہزار ہزار برس پر تقسیم کئے گئے ہیں۔…پھر ہزار پنجم کا دَور آیا جو ہدایت کا دَور تھا۔ یہ وہ ہزار ہے جس میں ہمارے نبی ﷺ مبعوث ہوئے اور خدا تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے ہاتھ پر توحید کو دوبارہ دنیا میں قائم کیا۔ پس آپؐ کے منجانب اللہ ہونے پر یہی ایک نہایت زبردست دلیل ہے کہ آپؐ کا ظہور اُس سال کے اندر ہوا جو روزِ ازل سے ہدایت کے لئے مقرر تھا اور یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہتا بلکہ خدا تعالیٰ کی تمام کتابوں سے یہی نکلتا ہے اور اِسی دلیل سے میرا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا بھی ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ اس تقسیم کی رُو سے ہزار ششم ضلالت کا ہزار ہے اور وہ ہزار ہجرت کی تیسری صدی کے بعد شروع ہوتا ہے اور چودہویں صدی کے سر تک ختم ہوتا ہے۔ اس ششم ہزار کے لوگوں کا نام آنحضرت ﷺ نے فیج اعوج رکھا ہے اور ساتواں ہزار ہدایت کا ہے جس میں ہم موجود ہیں۔ چونکہ یہ آخری ہزار ہے اس لئے ضرور تھا کہ امام آخر الزمان اس کے سرپر پیدا ہو اور اس کے بعد کوئی امام نہیں اور نہ کوئی مسیح۔ مگر وہ جو اس کے لئے بطور ِظل کے ہو۔ کیونکہ اس ہزار میں اب دنیا کی عمر کا خاتمہ ہے جس پر تمام نبیوں نے شہادت دی ہے اور یہ امام جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مسیح موعود کہلاتا ہے وہ مجدّد صدی بھی ہے اور مجدّد الف آخر بھی۔ اِس بات میں نصاریٰ اور یہود کو بھی اختلاف نہیں کہ آدم سے یہ زمانہ ساتواں ہزار ہے۔ اور خدا نے جو سورہ والعصر کے اعداد سے تاریخ آدم میرے پر ظاہر کی اس سے بھی یہ زمانہ جس میں ہم ہیں ساتواں ہزار ہی ثابت ہوتا ہے۔ اور نبیوں کا اِس پر اتفاق تھا کہ مسیح موعود ساتویں ہزار کے سر پر ظاہر ہوگا اور چھٹے ہزار کے اخیر میں پیدا ہوگا کیونکہ وہ سب سے آخر ہے جیسا کہ آدم سب سے اوّل تھا۔‘‘(لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ207 تا 208)
پس یہ اس سلسلہ کا وہ آخری ہزار سال ہے جس میں خدا تعالیٰ نےآنحضورﷺ کی پیشگوئیوں کے عین مطابق آپ کے روحانی فرزند اور غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خاتم الخلفاء کے طور پر مبعوث فرمایا۔ آنحضورﷺ کی پیشگوئیوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات سے یہی مستنبط ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے چونکہ یہ آخری ہزار سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ قائم ہونے والی خلافت احمدیہ حقہ اسلامیہ کا دور ہے۔ اس لیے اگر کسی وقت دنیا کی اصلاح کے لیے کسی مصلح کی ضرورت پڑی تو اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی کے متبعین میں سے کسی ایسے شخص کو دنیا کی اصلاح کے لیے کھڑا کرے گا جو وقت کا خلیفہ ہو گا لیکن خلیفہ سے بڑھ کر مصلح کا مقام بھی اسے عطا ہو گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس مقام پر فائز فرمایا تھا۔ چنانچہ آپ اس موعود خلافت کے مقام کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’پھر صرف خلافت کا سوال نہیں بلکہ ایسی خلافت کا سوال ہے جو موعود خلافت ہے۔ الہام اور وحی سے قائم ہونے والی خلافت کا سوال ہے۔ایک خلافت تو یہ ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ لوگوں سے خلیفہ منتخب کراتا ہے اور پھر اسے قبول کر لیتا ہے مگر یہ ویسی خلافت نہیں۔ یعنی میں اس لئے خلیفہ نہیں کہ حضرت خلیفہ اوّل کی وفات کے دوسرے دن جماعت احمدیہ کے لوگوں نے جمع ہو کر میری خلافت پر اتفاق کیابلکہ اس لئے بھی خلیفہ ہوں کہ خلیفہ اوّل کی خلافت سے بھی پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خدا تعالیٰ کے الہام سے فرمایا تھا کہ میں خلیفہ ہوں گا۔ پس میں خلیفہ نہیں بلکہ موعود خلیفہ ہوں۔ میں مأمور نہیں مگر میری آواز خداتعالیٰ کی آواز ہے کہ خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ اس کی خبر دی تھی۔ گویا اس خلافت کا مقام ماموریت اور خلافت کے درمیان کا مقام ہے اور یہ موقع ایسا نہیں ہے کہ جماعت احمدیہ اسے رائیگاں جانے دے اور پھر خداتعالیٰ کے حضور سُرخرو ہو جائے۔جس طرح یہ بات درست ہے کہ نبی روز روز نہیں آتے اسی طرح یہ بھی درست ہے کہ موعود خلیفےبھی روز روز نہیں آتے۔‘‘(رپورٹ مجلس مشاورت 1936ء، خطابات شوریٰ جلد دوم صفحہ 18)
٭… ٭… ٭