خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۸؍نومبر۲۰۲۲ء
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
٭… واقعہ افک میں حضرت عائشہؓ پر الزام لگانے والےمنافقین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظروں میں حضرت ابوبکر ؓکا مقام گرانا چاہتے تھے
٭… اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق خلافت کا سلسلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جاری رہنا تھا جو حضرت مسیح موعود ؑکے بعدبھی جاری ہے
٭… حضرت ابوبکر صدیق ؓفہم قرآن اور سیّد الرسلؐ فخر بنی نوع انسان کی محبت میں تمام لوگوں سے ممتاز تھے ۔آپؓ سچے یگانہ خدا کے رنگ میں رنگین تھے
٭… حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خواص و مناقب بارگاہ ربّ العزت سے مجھ پر ظاہر ہوئے ہیں
٭…مکرم محمد داؤد ظفر صاحب مربی سلسلہ رقیم پریس یوکے کے جنازہ حاضر کے ساتھ دو مرحومین محترمہ رقیہ شمیم بیگم صاحبہ اہلیہ مولانا کرم الٰہی ظفر صاحب مرحوم آف سپین اور محترمہ طاہرہ حنیف صاحبہ اہلیہ صاحبزادہ مرزا حنیف احمد صاحب کا نماز جنازہ غائب
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۸؍نومبر۲۰۲۲ء بمطابق ۱۸؍نبوت۱۴۰۱ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزنے مورخہ ۱۸؍نومبر۲۰۲۲ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔
تشہد،تعوذ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت و زندگی کے واقعات بیان ہورہے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں حضرت ابوبکر ؓ کا جو مرتبہ تھا اس بارے میں پہلے بھی بیان ہوچکا ہےجس سے پتا چلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپؓ کو اپنا جانشین نامزد کرنا چاہتے تھے بلکہ یہ اشارہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ابوبکرؓ کو ہی آپؐ کے بعد خلیفہ اور جانشین بنائے گا۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری میں فرمایا کہ اپنے والد ابوبکرؓ کو میرے پاس بلاؤ تاکہ میں ایک تحریر لکھ دوں کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ کوئی اور یہ نہ کہے کہ میں زیادہ حقدار ہوں لیکن اللہ اور مومن سوائے ابوبکرؓ کے کسی اور کا انکار کریں گے۔
حضور انور نے واقعہ افک کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس واقعہ میں ایک مختصر حصہ یہ ہے کہ جس سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓپر ایسا الزام لگایا گیا کہ گویا پہاڑ ٹوٹ پڑا لیکن ان کے والدین کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق اور اُن کا احترام بیٹی کے پیار سے کہیں بڑھا ہوا تھا۔اپنی بیٹی کو اسی حالت میں رہنے دیا جس حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مناسب سمجھا۔حضرت مصلح موعود ؓنے اس بارے میں بیان فرمایا کہ ہمیں غور کرنا چاہیے کہ وہ کون کون لوگ تھے جن کو بدنام کرنا منافقوں اور اُن کے سرداروں کےلیے فائدہ مند ہوسکتا تھا۔ حضرت عائشہؓ پر الزام لگا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ سے دشمنی نکالی جاسکتی تھی کیونکہ حضرت عائشہ ؓ ایک کی بیوی تھیں اور ایک کی بیٹی۔ یہ دو وجود ایسے تھے کہ ان کی بدنامی سیاسی اور اخلاقی لحاظ سے بعض لوگوں کے لیے فائدہ مند ہوسکتی تھی۔حضرت عائشہ ؓکی بدنامی سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا تھا۔یہ خیال ہوسکتا تھا کہ حضرت عائشہؓ کی سوتوں نے حضرت عائشہ ؓکو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظروں میں گرانےاور اپنا مقام بنانے کے لیے کوئی حصہ لیا ہو لیکن تاریخ شاہد ہے کہ ایسا کچھ نہیں تھا۔ایک بیوی کے متعلق ذکر آتا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس سے اس بارے میں پوچھا تو اُس نے کہا کہ میں نے تو سوائے خیر کے عائشہؓ میں کچھ چیز نہیں دیکھی۔
حدیث میں صریح طور پر آتا ہے کہ صحابہؓ باتیں کیا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر کسی کا کوئی مقام ہے تو وہ ابوبکرؓ کا ہی مقام ہے۔ عبداللہ بن ابی بن سلول نے جب دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس کی بادشاہت کے امکان جاتے رہےتو وہ کچھ اور تو کر نہیں سکتا تھا لہٰذا اس کی خواہش تھی کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوں اور مَیں مدینہ کا بادشاہ بنوں۔اس لیے اُس نے اپنی غرض کو پورا کرنے کے لیے حضرت عائشہؓ پر الزام لگادیا تاکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہؓ سے نفرت پیدا ہو اور حضرت ابوبکرؓ کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی نگاہ میں جو اعزاز ہے وہ کم ہوجائے اور ان کے آئندہ خلیفہ بننے کا امکان نہ رہے۔چنانچہ اسی اَمر کا اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں ذکر فرمایا ہے کہ اِنَّ الَّذِیۡنَ جَآءُوۡ بِالۡاِفۡکِ عُصۡبَۃٌ مِّنۡکُمۡ ؕلَا تَحۡسَبُوۡہُ شَرًّا لَّکُمۡ ؕ بَلۡ ہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ۔ یقیناً وہ لوگ جو جھوٹ گھڑ لائے تم ہی میں سے ایک گروہ ہے۔ اس (معاملہ) کو اپنے حق میں بُرا نہ سمجھو بلکہ وہ تمہارے لیے بہتر ہے۔یعنی فرمایا کہ یہ الزام تمہاری بہتری اور ترقی کا موجب ہوجائے گا۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ سورہ نور کے شروع سے لےکر اس کے آخر تک کس طرح ایک ہی مضمون بیان کیا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہ ؓپر لگنے والے الزام کے معاً بعد ہی خلافت کا ذکرکیا اور فرمایا کہ خلافت بادشاہت نہیں ہے وہ تو نُورِ الٰہی کو قائم رکھنے کا ایک ذریعہ ہے۔اس لیے اس کا قیام اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔اس کا ضائع ہونا تو نُورِنبوت اور نُورِ الوہیت کا ضائع ہونا ہے۔پس وہ اس نور کو ضرور قائم کرے گااور نبوت کے بعد بادشاہت ہرگز قائم نہیں ہونے دے گااور جسے چاہے گا خلیفہ بنائے گا بلکہ وہ وعدہ کرتا ہے کہ مسلمانوں سے ایک نہیں بلکہ متعدد لوگوں کو خلافت پر قائم کرکے نُور کے زمانے کو لمبا کردے گا۔بہرحال اس واقعہ سےاور پھر بعد میں اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت سے بھی ثابت ہوگیا کہ نبوت کے فوراً بعد خلافت کا جو سلسلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق جاری رہنا تھا وہ جاری رہا اور پھر اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے سے وہ نظام پھر قائم ہوا۔
حضرت ابوبکر ؓکےانکسار اور تواضع کے بارے میں حضرت سعید بن مسیّب ؓروایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چند اصحاب کے ہمراہ ایک مجلس میں بیٹھے تھے کہ ایک شخص ابوبکر ؓسے جھگڑپڑا اورآپؓ کو تین مرتبہ تکلیف پہنچائی لیکن آپؓ خاموش رہے اور تیسری مرتبہ کے بعد آپؓ نے بدلہ لیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُٹھ کھڑے ہوئے۔ حضرت ابوبکرؓ کے پوچھنے پر آپؐ نے فرمایا کہ آسمان سے ایک فرشتہ اُترا جو اس بات کی تکذیب کررہا تھا جو وہ شخص تیری نسبت بیان کررہا تھا۔ جب تُو نے بدلہ لیا تو شیطان آگیا اور میں اس مجلس میں نہیں بیٹھنے والا جس میں شیطان پڑگیا ہو۔ آپؐ نے فرمایا کہ اے ابوبکر!تین باتیں ہیں جو سب برحق ہیں۔کسی بندے پر کسی چیز کے ذریعہ ظلم کیا جائے اور وہ محض اللہ عزّو جل کی خاطر اُس سے چشم پوشی کرے تو اللہ اُسے اپنی نصرت کے ذریعے سے معزز بنادیتا ہے۔پھروہ شخص جو کسی عطیہ کا دروازہ کھولے جس کے ذریعہ اُس کا ارادہ صلہ رحمی کرنے کا ہو تو اللہ اُس کے ذریعےاُسے مال کی کثرت میں بڑھا دیتا ہے۔تیسراوہ شخص جو سوال کا دروازہ کھولے جس کے ذریعے اُس کا ارادہ مال کی کثرت کا ہو تو اللہ اُسے اُس کے ذریعے قلت اور کمی میں بڑھا دیتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت ابوبکر ؓکے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپؓ معرفت تامہ رکھنے والے، عارف باللہ، بڑے حلیم الطبع اور نہایت مہربان فطرت کے مالک تھے اور انکسار اور مسکینی کی وضع میں زندگی بسر کرتے تھے۔ بہت ہی عفو اور درگزر کرنے والے اور مجسم شفقت و رحمت تھے۔ آپؓ اپنی پیشانی کے نور سے پہچانے جاتے تھے۔آپؓ کی رُوح خیرالوریٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی رُوح سے پیوست تھی۔آپؓ فہم قرآن اور سیّد الرسلؐ ، فخر بنی نوع انسان کی محبت میں تمام لوگوں سے ممتاز تھے۔آپؓ سچے یگانہ خدا کے رنگ میں رنگین تھے۔صدق آپؓ کا راسخ ملکہ اور طبعی خاصہ تھااور اسی صدق کے آثارو انوار آپؓ کے ہر قول و فعل میں ظاہر ہوئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ کے خواص و مناقب بارگاہ ربّ العزت سے مجھ پر ظاہر ہوئے ہیں۔
حضرت علی بن ابو طالبؓ نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ یقیناً ہر نبی کو سات نجیب ساتھی دیے گئے اور مجھے چودہ دیے گئے۔ہم نے کہا کہ وہ کون ہیں تو انہوں نےفرمایا کہ میں اور میرے دونوں بیٹےیعنی حضرت علی ؓاور اُن کے دونوں بیٹے اور حضرت جعفر ؓ، حضرت حمزہؓ ،حضرت عمرؓ ، حضرت ابوبکر ؓ ، حضرت مصعب بن عمیرؓ ، حضرت بلالؓ ، حضرت سلمانؓ ، حضرت عمارؓ ، حضرت ،مقدادؓ ، حضرت حذیفہؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تبوک سے واپسی کے بعد علم ہوا کہ مشرکین دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر حج کرتے ہیں اور شرکیہ الفاظ ادا کرتے ہیں اور خانہ کعبہ کا ننگے ہوکر طواف کرتے ہیں تو آپؐ نےاُس سال حج کا ارادہ ترک کردیا۔ آپؐ نے 9؍ہجری میں حضرت ابوبکر ؓکو امیر الحج بنا کر مکہ روانہ فرمایا تھا۔حضرت ابوبکر ؓتین سوساتھیوں کے ساتھ مکہ روانہ ہوئے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے بیس جانور بھی آپؓ کے ساتھ روانہ فرمائےجن کے گلے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے ہاتھ سے قربانی کی علامت کے طور پر گانیاں پہنائیں اور نشان لگائےجبکہ حضرت ابوبکرؓ خود اپنے ساتھ پانچ قربانی کے جانور لےکر گئے۔روایت میں آتا ہے کہ حضرت علی ؓنے سورہ توبہ کی ابتدائی آیات کا اس حج کے موقع پر اعلان کیا تھاجس کی تفصیل حضرت علی ؓ کے ذکر میں پہلے بیان کی جاچکی ہے۔حضرت ابوبکر ؓکا ذکر انشاءاللہ آئندہ بھی ہوگا۔
خطبے کے آخر میں حضور انور نے بعض مرحومین کا ذکر خیر فرمایا اور نماز جنازہ پڑھانے کا اعلان فرمایا۔ان میں ایک جنازہ حاضر تھا جبکہ دو جنازہ غائب تھے۔
حاضر جنازہ مکرم محمد داؤد ظفر صاحب مربی سلسلہ رقیم پریس یوکےکا تھا ۔اس کے ساتھ جنازہ غائب مکرمہ رقیہ شمیم بیگم صاحبہ اہلیہ مولانا کرم الٰہی ظفر صاحب مرحوم آف سپین اور محترمہ طاہرہ حنیف صاحبہ اہلیہ صاحبزادہ مرزا حنیف احمد صاحب کا تھا۔حضور انور نے تمام مرحومین کاذکر خیر فرمایا ،ان کی دینی خدمات کا ذکر فرمایااور ان کی مغفرت اور بلندیٔ درجات کے لیے دعا کی۔
٭…٭…٭