نظامِ شوریٰ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشادات کی روشنی میں (قسط6)
نمائندگانِ شوریٰ اور اطاعتِ خلافت
’’پھر ایک اور بات جس کی طرف نمائندگان شوریٰ اور دوسرے کارکنان کو توجہ دلانی چاہتا ہوں، وہ خلیفۂ وقت کی اطاعت ہے۔ جیسا کہ مَیں پہلے بھی بتا آیا ہوں کہ شوریٰ کے فیصلوں پر عملدرآمد کروانا نمائندگان شوریٰ اور عہدیداران کا کام ہے۔ اور کیونکہ یہ فیصلے خلیفہ ٔوقت سے منظور شدہ ہوتے ہیں اس لئے اگر ان پر عملدرآمد کروانے کی طرف پوری توجہ نہیں دی جا رہی تو غیر محسوس طریقے پر خلیفۂ وقت کے فیصلوں کو تخفیف کی نظر سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اطاعت کے دائرے کے اندر نہیں رہ رہے ہوتے جبکہ جن کے سپر د ذمہ داریاں کی گئی ہیں ان کو تو اطاعت کے اعلیٰ نمونے دکھانے چاہئیں جو کہ دوسروں کے لئے باعث تقلید ہوں،نمونہ ہوں۔ پس یہ جو خدمت کے موقعے ملے ہیں ان کو صرف عزت اور خوشی کا مقام نہ سمجھیں کہ یہ بڑی خوشی کی بات ہے اور بڑی عزت کی بات ہے ہمیں خدمت کا موقع مل گیا۔ اس کے ساتھ جب تقویٰ کے اعلیٰ معیار قائم ہوں گے تب یہ عزت اور خوشی کی بات ہو گی اور تب یہ عزت اور خوشی کے مقام بنیں گے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ24؍مارچ2006ء،خطباتِ مسرور جلد چہارم صفحہ165)
تجویز کے سارے پہلوؤں کو دیکھتے ہوئے اپنی رائے دیں
’’شوریٰ کی بحث کے دوران جب اپنی رائے دینا چاہتے ہیں تو رائے دینے سے پہلے اس تجویز کے سارے اچھے اور برے پہلوؤں کو دیکھتے ہوئے اپنی رائے دیں نہ کہ کسی دوسرے رائے دینے والے کے فقرہ کو اٹھا کر جوش میں آ جائیں۔ سمجھ بوجھ رکھنے والی شرط بھی اسی لئے رکھی گئی ہے کہ ہوش و حواس میں رہتے ہوئے رائے دیں۔ اور دوسری بات یہ کہ اظہار رائے کے وقت کسی کے جوشِ خطابت سے متاثر ہو کر اس طرف نہ جھک جائیں۔یا اپنی کسی پسندیدہ شخصیت کی رائے سن کر اس پر صاد نہ کر دیں، اس کی بات نہ مان لیں۔ بلکہ رائے کو پرکھیں اور اگر معمولی اختلاف ہو تو بلاوجہ کج بحثی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن اگر واضح فرق ہو، آپ کے پاس زیادہ مضبوط دلیلیں ہوں یا دوسرے کی دلیل زیادہ اچھی ہو تو ضروری نہیں وہاں کسی رائے دینے والے سے تعلق کا اظہار کیا جائے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ24؍مارچ2006ء،خطباتِ مسرور جلد چہارم صفحہ165)
خلیفۂ وقت کا دست و بازو بن کر عملدرآمد میں جُت جائیں
جب یہ جماعتوں کو عملدرآمد کے لئے بھجوا دیا جاتا ہے تو امانت کا حق اور تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ خلیفۂ وقت کا دست و بازو بن کر اس پر عملدرآمد میں جت جائیں، نہ سستیاں دکھائیں اور نہ توجیہیں نکالنے کی کوشش کریں۔ اگر اس طرح کریں گے تو پھر آپ کے فیصلوں میں کبھی برکت نہیں پڑے گی۔ اور عہدیداران کی دوسری باتیں بھی بے برکت ہو جائیں گی۔(خطبہ جمعہ فرمودہ24؍مارچ2006ء،خطباتِ مسرور جلد چہارم صفحہ166،165)
شوریٰ کے دنوں میں اجلاس کے اوقات اور فارغ اوقات دعاؤں میں گزاریں
’’اپنی ذمہ داریوں کے احساس کو اجاگر کریں، اس کو سمجھیں اور خدا سے مدد مانگتے ہوئے شوریٰ کے دنوں میں اپنے اجلاس کے اوقات میں بھی اور فارغ اوقات میں بھی دعاؤں میں گزاریں۔ اور جب اپنی جماعت میں جائیں تو وہاں بھی آپ میں اس تبدیلی کا اثر مستقل نظر آتا ہو۔ یاد رکھیں کہ ہوشیاری، چالاکی یا علم سے نہ احمدیت کا غلبہ ہونا ہے، نہ کوئی انقلاب آنا ہے۔ اگر دنیا میں کوئی تبدیلی پیدا ہونی ہے تو وہ دعاؤں سے اور تقویٰ پر قدم مارتے ہوئے ہونی ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والی ہو گی۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ24؍مارچ2006ء،خطباتِ مسرور جلد چہارم صفحہ166)
ہماری ہر رائے اور مشورہ اور تجویز ہر قسم کے ذاتی مفاد سے بالا ہو کر ہونی چاہیے
’’بحیثیت ممبر مجلسِ شوریٰ، دوران مجلس بھی اور بعد میں بھی اس پہلو کو ہمیشہ مدنظر رکھیں کہ ہمارا ہر عمل خدا تعالیٰ کی خاطر ہے اور ہم اس کے لئے اس کے حضور جوابدہ ہیں۔ ہم پر ہر لمحہ اس کی نظر ہے اور وہ ہمارے ہر فعل کو اور ہر مشورے کو اور ہر رائے کو دیکھ اور سن رہا ہے۔ا س لئے ہماری ہر رائے اور مشورہ اور تجویز ہر قسم کے ذاتی مفاد سے بالا ہو کر ہونی چاہیے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کی تائید اور اس کا فضل چاہیےجو اس کے حضور جھکنے سے ہی حاصل ہوگا۔ اس لئے ان دنوں میں دعاؤں پر زور دیتے ہوئے اس کی مدد چاہیں تاکہ اللہ تعالیٰ ہمارے ہر کام میں برکت عطا فرماتے ہوئے ہمیں ان ترقیات سے نوازے اور ہمیں اپنی زندگیوں میں وہ ترقیات دیکھنی نصیب کرے جن کا اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وعدہ فرمایا ہوا ہے۔‘‘(پیغام برموقع مجلسِ مشاورت جماعتِ احمدیہ پاکستان2007ء،روزنامہ الفضل2؍اپریل2007ء صفحہ3)
یہ ادارہ خلافت احمدیہ کے لئے سلطانِ نصیر کی حیثیت رکھتا ہے
’’دنیا میں حکومتیں اور تنظیمیں اپنے دنیاوی کاموں کے لئے مختلف ناموں کے ساتھ مجالس مشاورت منعقد کرتی ہیں لیکن جماعت احمدیہ کی مجلس شوریٰ قرآن کریم کے حکم شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ (سورت آل عمران :160) کی تعمیل میں منعقد کی جاتی ہے۔ یہ ادارہ خلافت احمدیہ کے لئے سلطان نصیر کی حیثیت رکھتا ہے۔ جیسا کہ اس حدیث سے بھی اشارہ ملتا ہے جس میں یہ فرمایا گیا ہے کہ لَاخِلَافَۃَ اِلَّا بِالْمَشْوَرَۃِ۔ پس مشاورت ہماری جماعت کے نظام کا ایک لازمی حصہ ہے۔ اور جزو لاینفک ہے لیکن یہ یاد رکھیں کہ اگر آپ اس کی بنیاد تقویٰ پر استوار کریں گے تو تبھی اس کی برکتوں اور بھلائیوں سے فیضیاب ہو سکیں گے۔ پس ہمارے باہمی مشوروں میں تقویٰ کی شرط کا لزوم وہ ایک خصوصی انفرادیت اور امتیاز ہے جو ہم پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد کرتا ہے۔ ہمارا کوئی مشورہ کبھی بھی تقویٰ سے عاری نہیں ہونا چاہیے اور یہ تبھی ممکن ہے جب مشورہ دیتے وقت ہم اپنی سوچوں اور خیالات کو دعائیں مانگتے ہوئے نیکی اور پاکیزگی سے مملورکھنے کی کوشش کریں گے۔‘‘(پیغام برموقع مجلسِ مشاورت جماعتِ احمدیہ پاکستان2008ء،روزنامہ الفضل7؍اپریل2008ء صفحہ5)
(جاری ہے )