مستورات سے خطاب (قسط نمبر2۔آخری)
(خطاب حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرمودہ۲۸؍ دسمبر ۱۹۲۵ء )
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّاۤ اَعۡتَدۡنَا لِلۡکٰفِرِیۡنَ سَلٰسِلَا۠ وَاَغۡلٰلًا وَّسَعِیۡرًا ۔جو لوگ انکار کرتے ہیں۔ ان کے لیےزنجیریں اور طوق ہے اور آگ رکھی ہے۔
وہ زنجیر کیا ہے۔ وہ رسوم ہیں جن کا تعلق قوم کے ساتھ ہوتا ہے۔مثلاً بیٹے کا بیاہ کرنا ہے ۔تو خواہ پاس کچھ نہ ہو قرض لے کے رسوم پوری کرنی ہوتی ہیں۔ یہ زنجیر ہوتی ہے جو کافر کو جکڑے رہتی اور وہ اس سے علیحدہ نہیں ہونے پاتا۔اس کے مقابلہ میں مومن ہے اس کے نکاح پر کچھ خرچ نہیں ہوتا۔اگر توفیق ہے تو چھو ہارے بانٹ دو۔اگر نہیں تو اس کے لئے بھی جبر نہیں۔پھر اغلال وہ عادتیں ہیں جن کا اپنی ذات سے تعلق ہے۔اسلام عادتوں سے بھی روکتا ہے۔ شراب، حقہ،چائے کسی چیز کی بھی عادت نہ ہونی چاہیے۔انسان عادت کی وجہ سے بھی گناہ کرتا ہے۔حضرت صاحب کے زمانہ میں حضرت صاحب کے مخالف رشتہ داروں میں سے بعض لوگ حقہ لے کر بیٹھ جاتے۔کوئی نیا احمدی جسے حقہ کی عادت ہوتی وہاں چلا جاتا تو خوب گالیاں دیتے۔چنانچہ ایک احمدی ان کی مجلس میں گیا انہوں نے حقہ آگے رکھ دیا اور حضرت صاحب کو گالیاں دینے لگ گئے۔ اس سے اس احمدی کو سخت رنج ہؤا کہ میں ان کی مجلس میں کیوں آیا۔ انہوں نے جب دیکھا کہ یہ کچھ بولتا نہیں تو پوچھا میاں تم کچھ بولے نہیں۔احمدی نے کہا۔ بولو ں کیا۔میں اپنے آپ کو ملامت کر رہا ہوں کہ حقہ کی عادت نہ ہوتی تو یہ باتیں نہ سننی پڑتیں۔ آخر اس نے عہد کیا میں آئندہ کبھی حقہ نہ پیوں گا۔تو عادت انسان کو گناہ کے لیے مجبور کر دیتی ہے۔
پھر سَعِیْر وہ آگ ہوتی ہے جو ان کے اندر لگی ہوتی ہے اور انہیں تسلی نہیں ہونے دیتی۔ دیکھو ایک بت پرست کے سامنے جب ایک مومن اپنے خدا کی وحدانیت بیان کرتا ہے تو وہ کس قدر جلتا ہے اور ایک عیسائی کے سامنے جب ایک یہودی کہتا ہے کہ تمہارا خدا وہی ہے جس کو ہم نے کانٹوں کا تاج پہنایا اور یہ یہ تکلیفیں دیں تو اس کے سینہ میں کس قدر جلن پیدا ہوتی ہے۔ تو کافروں کے دلوں میں ایک آگ ہوتی ہے جو ان کو جلاتی ہے۔ ایک دفعہ ایک یہودی حضرت عمر ؓسے کہنے لگا۔ مجھ کوتمہارے مذہب پر رشک آتا ہےاور میرا سینہ جلتا ہے کہ کوئی بات نہیں جو اس شریعت نے چھوڑی ہو کاش کہ یہ سب باتیں ہمارے مذہب میں ہوتیں۔ تو یہ ایک آگ ہے جو ان کو جلاتی ہے۔اس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ مومن کا حال اس آیت میں بیان فرماتا ہے اِنَّ الۡاَبۡرَارَ یَشۡرَبُوۡنَ مِنۡ کَاۡسٍ کَانَ مِزَاجُہَا کَافُوۡرًا یعنی کافروں کے مقابلہ میں خدا وند کریم مومن کو کافوری پیالہ پلاتا ہے۔کافور کی خاصیت ٹھنڈی ہے۔ پس جہاں کافر کا سینہ جلتا ہے اس کے مقابلے میں مومن کا مزاج کافور ہو جاتا ہے۔ یعنی جہاں کافر جلتا ہے۔مومن خوش ہوتا ہے کہ میرے مذہب جیسا کوئی مذہب نہیں۔توحید کی تعلیم اور کلام الٰہی اس کے سامنے ہوتا ہے۔ ایک مسلمان جس وقت قرآن پڑھتا ہے کہ وہ لوگ جو خدا پر ایمان لاتے ہیں ان پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے، ان کو الہام ہوتا ہے،تو اس کا دل اس بات پر کس قدر خوش ہوتا ہے کہ میں خدا سے کس قدر قریب ہوں۔اسلام پر چلنے سے ہی خدا سے تعلق ہوتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں وید کا ماننے والا جب وید پڑھتا ہے تو کس قدر کڑھتا ہے کہ خدا جو وید کے رشیوں سے کلام کرتا تھا اب مجھ سے نہیں کرتامیںکیا اس کا سوتیلا بیٹا ہوں۔ تو مومن خوش ہوتا ہے اور کافر جلتا ہے۔
مگر وہ کا فوری پیالہ جو مومن کو دیا جاتا ہے مشکل سے ملتا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ عَیۡنًا یَّشۡرَبُ بِہَا عِبَادُ اللّٰہِ یُفَجِّرُوۡنَہَا تَفۡجِیۡرا۔ جب رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لوگ ایمان لائے تو قتل کئے گئے۔ صحابہ کو بڑی بڑی تکلیفیں دی گئیں۔حضرت بلال کو گرم ریت پر لٹا کر مارتے اور کہتے کہو لات خدا ہے۔ فلاں بت خدا ہے۔مگر وہ لَااِلٰہ الَّااللّٰہ ہی کہتے۔باوجود اس قدر تکلیفوں کے انہوں نے اپنا ایمان نہ چھوڑا۔تو ایمان لانا کوئی معمولی بات نہیں۔جنت کے ارد گرد جو روکیں ہیں وہ مشکل سے ہٹتی ہیں۔اور جو لوگ ایمان کی نہر کھود کر لاتے ہیں وہ بڑی بڑی قربانیاں کرتے ہیں۔یہاں جو نہر سے مشابہت دی ہے تو اسی لئے کہ نہر بڑی مشکل سے کُھدتی ہے۔اگر اکیلے کسی کو کھودنی پڑے تو کبھی نہ کھود سکے۔اب اگر ہماری جماعت کے مرد یا عورتیں خیال کریں کہ ہم کو یونہی ایمان مل جائے اور کوئی قربانی نہ کرنی پڑے تو یہ ناممکن ہے۔ایمان کے لئے بہت سی قربانیوں کی ضرورت ہے۔قربانیاں دو قسم کی ہوتی ہیں۔ایک تو خدا کی طرف سے ہوتی ہیں۔اور دوسری بندہ آپ اپنے اوپر خود عائد کرتا ہے۔پہلی قربانیاں جو خدا کی طرف سے ہوتی ہیں۔ وہ اس قسم کی ہوتی ہیں مثلاًکسی کا بچہ مر جائےیا کسی کی بیوی مر جائے۔اس میں بندے کا دخل نہیں ہوتا۔اس کے علاوہ جو دوسری قربانی ہے اس میں انسان کا دخل ہوتا ہے کہ بھائی بند، بیٹا، بیوی سب مخالف ہیں اور وہ ایمان لاتا ہے اور ان کی پرواہ نہیں کرتا۔ یہ ہے جو ایمان کی نہر کو چیر کر لاتا ہے۔ اسی طرح ایک عورت ہے جس کی سمجھ میں حق آگیا یا کوئی لڑکا لڑکی ہے جس پر حق کھل گیا اور وہ اپنے ایمان پر قائم رہے۔اور مخالفت کا خیال نہ کرے تو یہی نہرہے جو کھود کر لاتے ہیں۔ بچپن میں ایمان لانے والوں میں بھائی عبدالرحمٰن قادیانی ہیں جو پہلے ہندو تھے ان کے والد آکر ان کو لے گئے اور جا کر ایک کمرہ میں بند کر دیا۔ چھ مہینے بند رکھا۔ ایک دن انہیں موقع ملا تو پھر بھاگ کر یہاں آگئے۔ تو ایمان کی نہر حاصل کرنے کے لیے بڑی قربانی کی ضرورت ہے۔دنیا میں جب کوئی کپڑا، جوتی، روپیہ غرض کوئی چیز مفت نہیں ملتی تو ایمان جیسی نعمت کیسے مفت مل جائے۔ اور نہر کا لفظ ہی بتا رہا ہے کہ یہ بڑا مشکل کام ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، مومن وہی ہے جو قربانی کرتا ہے۔اس سے وہ ترقی کرتا ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ یُوۡفُوۡنَ بِالنَّذۡرِ وَیَخَافُوۡنَ یَوۡمًا کَانَ شَرُّہٗ مُسۡتَطِیۡرًا۔ وہ خدا کے عہد کو پورا کرتے ہیں اور ڈرتے ہیں اس دن سے کہ انجام کا دن ہوگا۔ انجام کا دن ایک دنیا میں بھی آتا ہے اورایک آخرت میں آئے گا۔ اول آپ قربانی کرتے ہیں۔پھر اس سے بڑھ کر دنیا میں خدا کے مظہر بن جاتے ہیں۔ وَیُطۡعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسۡکِیۡنًا وَّیَتِیۡمًا وَّاَسِیۡرًا۔خدارزق دیتا ہے وہ بھی لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔حتیٰ کہ آپ محتاج ہوتے ہیں مگر اپنا کھانا غریبوں، مسکینوں اور قیدیوں کو کھلا آتے ہیں۔ پھر اِنَّمَا نُطۡعِمُکُمۡ لِوَجۡہِ اللّٰہِ لَا نُرِیۡدُ مِنۡکُمۡ جَزَآءً وَّلَا شُکُوۡرًا۔ وہ کھانا کھلا کر احسان نہیں جتاتے کہ فلاں وقت ہم نے یہ احسان کیا تھا یا دعوت دی تھی بلکہ ان کا احسان اپنے اوپر سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ہم کو نیکی کا موقع دیا۔ان کو کسی کے ساتھ سلوک کرنے میں مزا آتا ہے۔ پس مومن جس کے ساتھ سلوک کرتا ہے اس کا احسان سمجھتا ہے کہ اس نے شکر کا موقع دیا۔ عَلیٰ حُبِّہٖ کا یہ مطلب ہے کہ وہ جو کچھ کرتا ہے اللہ ہی کے لیے کرتا ہے۔ شہرت کے لیے نہیں کرتا۔ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے کرتا ہے اس کا ایک ہی مقصود ہوتا ہے کہ میرا مولیٰ مجھ سے راضی ہو جائے۔
پھر ان کی احسان کرنے کی ایک اور بھی غرض ہوتی ہے۔ اور وہ یہ کہ اِنَّا نَخَافُ مِنۡ رَّبِّنَا یَوۡمًا عَبُوۡسًا قَمۡطَرِیۡرًا۔ اس دن خدا ہمارے کام آئے جو کہ بہت ڈراؤنا دن ہے۔اللہ تعالیٰ ہم کو ان خطرات سے بچائے اور ہم پر رحم کرے۔ ایسے لوگوں کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ فَوَقٰہُمُ اللّٰہُ شَرَّ ذٰلِکَ الۡیَوۡمِ وَلَقّٰہُمۡ نَضۡرَۃً وَّسُرُوۡرًا۔ایسے ایمان والوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ ایسا سلوک کرے گا کہ وہ قیامت کے دن محفوظ رہیں گے اور ان کو اچھا بدلہ دے گا۔پھر فرماتا ہے۔ وَجَزٰٮہُمۡ بِمَا صَبَرُوۡا جَنَّۃً وَّحَرِیۡرًا۔یہ بدلہ ان کو ان کے ایمان کے بدلے میںملےگا۔ مُّتَّکِـِٕیۡنَ فِیۡہَا عَلَی الۡاَرَآئِکِۚ لَا یَرَوۡنَ فِیۡہَا شَمۡسًا وَّلَا زَمۡہَرِیۡرًا۔ وہ سب کے سب بادشاہ ہوں گے۔وہاں نہ گرمی ہوگی نہ سردی۔وہ ایک نئی دنیا ہو گی وہاں گرمی بھی نہیں ہوگی یعنی نہ وہاں جوش آئے گا اور نہ ٹھنڈ ہی ہوگی۔ یعنی نہ ہی جوش کم ہو جائے گا ایک ہی رنگ ہوگا۔
دیکھوقرآن کریم کی تعلیم کیاپر حکمت ہے قرآن نے دوزخ کےعذاب میں بتلا دیا کہ وہاں سردی کا بھی عذاب ہوگا اور گرمی کا بھی۔ سرد ملکوں کے لوگوں کو سردی کے عذاب سے ڈرایا ہے اور گرم ملکوں کے لوگوں کو گرمی سے۔بعض ملک اس قدر برفانی ہیں کہ وہاں کے لوگ برف ہی کے مکان بنا لیتے ہیں۔ وہاں پر اگر کسی کو پانی پینا ہوتا ہے تو برف کو رگڑ رگڑ کر پانی بناتے ہیں۔وہاں آگ ایک نعمت سمجھی جاتی ہے۔چونکہ انجیل میں صرف آگ کے عذاب کا ہی ذکر ہے اس لیے جب اس برفانی ملک میں ایک پادری گیا اور وہاں جاکر عیسائیت کی تبلیغ کی اور کہا کہ اگر تم نہ مانو گے تو خدا تم کو آگ میں ڈالے گا تو وہ لوگ یہ سن کر بہت خوش ہوئے کہااو ہو! ہم آگ میں ڈالے جائیں گے۔کیونکہ آگ ان کے لئے نعمت تھی۔ اس طرح جب پادریوں نے دیکھا کہ یہ آگ سے نہیں ڈرتے تو انہوں نے ایک کمیٹی کی اور اور کہا کہ آگ کی جگہ برف کا عذاب لکھ دو۔ مگر قرآن شریف میں کسی انسانی دخل کی ضرورت نہیں ہے۔ اس میں برف کا عذاب موجود ہے اس میں تبدیلی کی ضرورت نہیں۔ پھر فرماتا ہے۔ وَدَانِیَۃً عَلَیۡہِمۡ ظِلٰلُہَا وَذُلِّلَتۡ قُطُوۡفُہَا تَذۡلِیۡلًا ۔وہاں سائے جھکے ہوئے ہوں گے اور وہاں ہر قسم کے کھانے ہوں گے۔
( حضور نے اسی طرح دیگر آیات کی تفسیر فرماتے ہوئے اس آیت کے متعلق کہ وَیَطُوۡفُ عَلَیۡہِمۡ وِلۡدَانٌ مُّخَلَّدُوۡنَ ۚ اِذَا رَاَیۡتَہُمۡ حَسِبۡتَہُمۡ لُؤۡلُؤًا مَّنۡثُوۡرًا )
فرمایا :اب یہ عورتوں کے متعلق ہے۔ اور عورتیں خوش ہوگی کہ ان کے آگے جو بچے پھریں گے وہ وہی بچے ہوں گے جو ان کے مر جاتے ہیں۔ وہ خوبصورت موتیوں کی طرح ہوں گے۔وہ ہمیشہ ایک ہی سے رہیںگے۔اس دنیا میں تو بچہ بیمار ہو جاتا ہے۔ بعض دفعہ اس کی شکل بگڑ جاتی ہے۔ پھر کوئی بچہ ذہین ہوتا ہے ۔کوئی کند ذہن ہوتا ہے۔مگر وہاں سب بچے ایک سے ہوں گے۔ گویا موتی بکھرے ہوئے ہوں گے۔
(چونکہ مردوں میں تقریر فرمانے کا حضور کا وقت ہو گیا تھا۔ اس لئے حضور نے بقیہ آیات کی مختصر تفسیر فرماکر ان الفاظ پر تقریر ختم فرمائی کہ )
جب تک تم احمدیت کی تعلیم کو پورا نہیں کروگی احمدی کہلانے کی مستحق نہیں۔میں چاہتا ہوں کہ تم پوری احمدی بنو تاکہ اگر ایسا وقت آئے جب ہمیں خدا کے دین کے لیے تم سے جدا ہونا پڑے تو تم ہمارے بچوں کی پوری پوری تربیت کر سکو۔ دنیا اس وقت جہالتوں میں پڑی ہوئی ہے تم قرآن کو سمجھو اور خدا کے حکموں پر چلو۔( الفضل ۲؍فروری۱۹۲۶ء)
٭…٭…٭