شیطان کا غلّہ چرانا اور آیت الکرسی کی برکت
جب تم اپنے بستر پر سونے لگو توآیت الکرسی کو شروع سے آخر تک پڑھو۔ …
ایسا پڑھنے سے تم پر اللہ کی طرف سے ایک نگہبان رہے گا اور صبح تک شیطان تمہارے قریب نہ آئے گا
ابن سیرین نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی۔ انہوں نے کہاکہ رسول اللہ ﷺ نے زکوٰۃِ رمضان کی نگرانی پر مجھے مقرر کیا تو ایک آنے والا میرے پاس آیا اور وہ غلّے سے لپ بھر بھر کر لینے لگا۔ میں نے اس کو پکڑا اور میں نے کہا : خدا کی قسم میں تجھ کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لے جاؤں گا۔ اس نے کہا: میں محتاج ہوں۔ مجھ پر بال بچوں کا بوجھ ہے اور میں سخت تنگدستی میں ہوں۔ حضرت ابوہریرہؓ کہتے تھے: میں نے اس کو جانے دیا۔ جب میں صبح کو اُٹھا تو نبیﷺنے فرمایا : ابوہریرہؓ ! کل رات تمہارے قیدی نے کیا کیا؟ حضرت ابوہریرہؓ کہتے تھے : میں نے کہا: یارسول اللہ! اس نے سخت تنگدستی اور بال بچوں کا شکوہ کیا۔ میں نے اس پر رحم کیا اور اُسے جانے دیا۔ آپؐ نے فرمایا: اس نے تم سے جھوٹ کہا ہے۔ پھر وہ دوبارہ آئے گا اور میں بھی سمجھ گیا کہ وہ ضرور آئے گا۔ کیونکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ وہ دوبارہ آئے گا۔ اس لیے میں اس کی تاک میں بیٹھ گیا۔ اتنے میں وہ آیا اور اناج لپ بھر بھر کرلینے لگا۔ میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا: میں تجھے رسول اللہ ﷺ کے سامنے ضرور پیش کروں گا۔ اس نے کہا: مجھے جانے دو۔ کیونکہ میں محتاج ہوں اور عیال دار ہوں۔ اب دوبارہ نہیں آؤں گا۔ مجھے اس پر ترس آیا اور میں نے پھر اُسے جانے دیا۔ صبح جو میں اُٹھا تو رسول اللہﷺ نے مجھ سے فرمایا: ابوہریرہ ! تمہارے قیدی نے کیاکیا؟ میں نے کہا: یارسول اللہ ! اس نے سخت تنگ دستی اور بال بچوں کا شکوہ کیا۔ مجھے اس پر رحم آیا اور میں نے اسے جانے دیا۔ آپؐ نے فرمایا: خبردار اس نے تم سے جھوٹ بولا ہے اور وہ پھر آئے گا۔ چنانچہ میں تیسری دفعہ اس کی تاک میں رہا۔ وہ آیا اور لپ بھر بھر کر اناج لینے لگا۔ میں نے اسے پکڑ لیا اور میں نے کہا:میں تجھے رسول اللہﷺ کے سامنے پیش کروں گااور یہ تیسری دفعہ ہے کہ تو کہتا ہے کہ اَب نہیں آؤں گا۔ پھر تو آجاتا ہے۔ اس نے کہا: مجھے چھوڑ دو۔ میں تجھے ایسے کلمات سکھاؤں گا کہ جن سے اللہ تجھے فائدہ دے گا۔ میں نے کہا :وہ کیا ہیں؟اس نے کہا: جب تم سونے کے لیے اپنے بچھونے پر جاؤ تو آیت الکرسی پڑھو( یعنی اللہ ! اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ ہمیشہ زندہ رہنے والا اور قائم بالذات ہے۔) تو تم پر اللہ کی طرف سے ایک نگہبان رہے گا اور صبح تک شیطان تیرے قریب نہ آئے گا۔ اس پر میں نے اسے جانے دیا۔صبح جو میں اُٹھا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: تمہارے قیدی نے کل رات کیا کیا؟ میں نے کہا: یارسول اللہ! اس نے کہا کہ وہ مجھے ایسی باتیں سکھائے گا کہ جس سے اللہ مجھے نفع دے گا تو میں نے اسے جانے دیا۔ آپؐ نے پوچھا : وہ کیا باتیں ہیں ؟ میں نے کہا: اس نے مجھے بتایا ہے۔ جب تم اپنے بستر پر سونے لگو توآیت الکرسی کو شروع سے آخر تک پڑھو۔ یعنی اَللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ ۚ اَلۡحَیُّ الۡقَیُّوۡمُ اور اس نے مجھے بتایا کہ ایسا پڑھنے سے تم پر اللہ کی طرف سے ایک نگہبان رہے گا اور صبح تک شیطان تمہارے قریب نہ آئے گا اور صحابہ بھلی بات پر بہت ہی حریص ہوتے تھے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: دیکھو اس نے تم سے سچ کہا ہے، حالانکہ وہ بڑا جھوٹا ہے۔ابوہریرہ! تم جانتے ہو کہ تین راتوں سے تم کس سے باتیں کرتے رہے ہو؟ حضرت ابوہریرہؓ نے کہا: نہیں۔ آپؐ نے فرمایا: وہ شیطان ہے۔(صحیح البخاری کتاب الوکالۃ بَاب اِذَا وَکَلَّ رَجُلًا فَتَرکَ الْوَکِیْلُ شَیْئًا فَأَجَازَہُ الْمُوَکِّلُ فَھُوَ جَائِزٌحدیث:2311)
حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ رضی اللہ عنہ اس حدیث کی تشریح میں تحریر فرماتے ہیں کہ’’فَتَرَکَ الْوَکِیْلُ شَیْئًا فَأَجَازَہُ الْمُوَکِّلُ فَھُوَ جَائِزٌ: عنوانِ باب میں عثمان بن ہیثم بصری کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ان سے امام بخاریؒ نے جزءالقرأۃ خلف الاماممیں بھی روایت نقل کی ہے۔ کتاب الحج کے اواخر میں بھی ان کی ایک روایت گزر چکی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ کی مذکورہ بالا روایت منقطع ہے۔ اس لیے عنوانِ باب ہی میں اس کا حوالہ دینا کافی سمجھا ہے۔ (فتح الباری جزء 4صفحہ 614)
آیا واقعہ مذکورہ خواب کا ہے یا سچ مچ چور آیا اور اس نے ذخیرے میں سے چوری کی ؟ دونوں باتوں کا احتمال ہوسکتا ہے۔ لیکن عنوانِ بات کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام بخاری ؒ کے نزدیک خواب کا واقعہ نہیں کیونکہ وہ محض خواب سے مسئلہ اَخذ نہیں کرتے اور جملہ فَھُوَ جَائِزٌ اور لفظ جَازَ سے جملہ شرطیہ کاجواب اثبات میں نمایاں کیا ہے۔ عیدالفطر کے صدقات عید سے دو تین دن پہلے جمع ہوجاتے تھے۔ اس موقع پر اُن کی حفاظت حضرت ابوہریرہؓ کے سپرد ہوئی اور وہ اس کی فکر میں تین راتیں جاگتے رہے۔ تینوں راتیں چوری کرنے والا آتا رہا اور حضرت ابوہریرہؓ اس کے فقروفاقہ کی حالت سن کر اور اس کی منت وسماجت پر اُسے چھوڑتے رہے۔ اسی واقعہ سے عنوانِ بات کا پہلا مسئلہ اَخذ کیا گیا ہے۔
وَاِنْ أَقْرَضَہُ اِلَی أَجَلٍ مُّسَمًّی جَازَ: یہ دوسرا مسئلہ قیاساً مستنبط کیا گیا ہے کہ صدقات میں اس غریب شخص کا بھی حق تھا،جس کی وجہ سے حضرت ابوہریرہؓ نے وہ کھجوریں اس کے پاس رہنے دیں۔ گویا بعض فقہاء کے نزدیک اس کے پاس بطور قرض تھیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ امین محافظ اور خزانچی کو اگر مالک کی طرف سے اختیار نہیں دیا گیا تو وہ سپرد کردہ مال سے قرض نہیں دے سکتے اور نہ ان کے لیے اس میں خلافِ مرضی مالک تصرف کرنا جائز ہے تو حضرت ابوہریرہؓ نے اس امانت میں کیوں تصرف کیا؟ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ یہ واقعہ آنحضرت ﷺ کے علم میں آچکا تھا اور آپؐ نے اس پر کوئی اعتراض نہیں فرمایا۔ کیونکہ وہ صدقات غرباء کے لیے جمع ہوئے تھے۔ درحقیقت وکیل کے قرض دینے کا مسئلہ جو مستنبط کیا گیا ہے، وہ اس امر سے کہ جب کلیۃً کوئی چیز اگر وکیل کسی کو دے سکتا ہے تو قرضہ بدرجہ اولیٰ دے سکتا ہے۔ لیکن یہ سب صورتیں تبھی جائز ہیں جب مؤکل وکیل کو زبانی یا عملاً اجازت دے دے۔ (فتح الباری جزء 4صفحہ 614)
امام ابن حجرؒ نے دیگر کتب احادیث کی روایتوں کا حوالہ دے کر بتایا ہے کہ حضرت معاذ بن جبلؓ، حضرت ابی بن کعبؓ، حضرت ابو ایوب انصاریؓ، حضرت ابو اسید انصاریؓ اور حضرت زید بن ثابتؓ کے ساتھ بھی اسی قسم کا واقعہ پیش آیا تھا۔ ان میں سے پہلے اور چوتھے حوالے کی روایتیں طبرانی نے اور باقی روایتیں ابویعلیٰ، ترمذی اور ابن ابی دینار سے علی الترتیب مروی ہیں جو بلحاظ سند کمزور ہیں اور قصے کہانیاں ہیں۔ ایک میں شَیْطَان، دوسرے میں جِنِّیاور دَابَّۃ (جانور)، تیسرے اور چوتھے میں غُوْل(چڑیل)اورپانچویں میں رَجُلٌ مِّنَ الْجِنِّ کا ذکر ہے کہ وہ غلہ یا کھجور چرانے کے لیے آیا اور ان میں سے ہر ایک راوی نے اپنی انوکھی سرگزشت بیان کی۔ امام بخاری نے بلحاظِ صحت یہ روایتیں قبول نہیں کیں۔ قدرِ مشترک ان روایتوں میں یہ اَمر ہے کہ سخت قحط کا زمانہ تھا اور رات کو آنے والا چوری چھپے آتا اور جب چوری کرتے ہوئے پکڑا جاتا تو وہ صحابی کو آیت الکرسی پڑھنے کی تلقین کرتا۔ امام ابن حجرؒ کے نزدیک بلحاظِ صحت حضرت ابوہریرہؓ والا واقعہ زیادہ قابل اعتماد ہے اور جیسا کہ بتایا جاچکا ہے کہ یہ واقعہ بات میں منقطع السند درج ہوا ہے۔ لیکن چونکہ امام موصوفؒ نے اس سے مسئلہ اخذ کیا ہے، اس لیے اس کی صحت روایت میں شبہ نہیں کیا جاسکتا۔ (فتح الباری جزء4صفحہ 414تا 416) (عمدۃ القاری جزء12صفحہ 147،146)
لفظ شیطان چور پر بھی اطلاق پاسکتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت میں بظاہر کوئی ایسی بات نہیں جو غیر معمولی سمجھی جائے۔ مسجد نبوی کے قریب صفہ میں حضرت ابوہریرہؓ اور بعض بےخانماں صحابہؓ کا قیام تھا اور وہیں صدقات فطر جمع ہوتے اور رکھے جاتے تھے۔ حضرت ابوہریرہؓ چونکہ رحم دل اور غایت درجہ مہربان ہمدرد تھے اور انہیں اپنی بھوک کی تلخیوں کا بھی تجربہ تھا۔ جب چور نے اپنے بال بچوں کی بھوک کا واسطہ دیا تو اُسے جانے دیا۔
اِنَّہُ قَدْ صَدَقَکَ وَھُوَ کَذُوْبٌ: آیت الکرسی کی مبارک تاثیر کا علم دینے والا جانتا تھا کہ یہ آیت صفاتِ وحدانیت، قیّومیّت اور ربوبیّت کی جامع تعلیم پر مشتمل ہے۔ مگر خود وہ اس پر عامل نہ تھا۔ اس لیے آنحضرت ﷺ نے اس کو جھوٹا قرار دیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص مدینہ منورہ کے مضافات کا کوئی غریب باشندہ تھا۔ قحط کا زمانہ تھا۔ صدقات جمع ہونے کا موقع دیکھ کر تین رات خوراک حاصل کرنے کی غرض سے آتا رہا۔ صدقات غرباء اور مساکین کا حق ہیں۔ اس موقع سے اس نے فائدہ اٹھانا چاہااور حضرت ابوہریرہؓ نے بھی چشم پوشی سے کام لیا۔ اسی لیے ان کا یہ فعل قابل اعتراض نہیں سمجھا گیا۔ اس روایت کے علاوہ باقی روایتوں کا مضمون ایسا ہے جس کو طبیعت نہیں مانتی۔ اس لیے امام ابن حجرؒ نے یہ سب روایتیں قصّوں میں سے شمار کی ہیں۔ (فتح الباری جزء 4صفحہ 616)
وَکَانُوْا أَحْرَصَ شَیْئٍ عَلَی الْخَیْرِ : یعنی صحابہ کرام ؓ بھلی باتوں کے لینے میں بہت ہی حریص ہوتے تھے۔ یہ جملہ راوی کا قول اور بطور جملہ معترضہ واقع ہوا ہے۔ ایسے کلام کو حدیث کی اصطلاح میں مُدْرَج کہتے ہیں۔ یعنی راوی کی طرف سے درج شدہ بات۔‘‘(صحیح البخاری کتاب الوکالۃ جلد 4صفحہ 300تا302)
(مرسلہ: ظہیر احمد طاہرابن نذیر احمد خادم۔جرمنی)
٭…٭…٭