حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس انصار اللہ سوئٹزرلینڈ کی (آن لائن) ملاقات

٭…زمانے کے امام کو مانو اور اس زمانے کے آخری نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مانو اور ان کی آغوش میں آجاؤ۔

ان سے صحیح تعلق پیدا کر لو گے تو ہمیشہ کے لیے اپنے آپ کو محفوظ کر لو گے

امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۱۳؍نومبر ۲۰۲۲ء کو مجلس انصار اللہ سوئٹزرلینڈ سے آن لائن ملاقات فرمائی۔

حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹي اے سٹوڈيوز سے رونق بخشي جبکہ انصار اللہ سوئٹزرلینڈ نے مسجد بیت النور،ویگولٹنگن (Wigoltingen)سے آن لائن شرکت کی۔

ملاقات کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ جس کے بعد ایسے انصار نے اپنا تعارف کروایا جن کی پہلی مرتبہ حضرت خلیفۃ المسیح سے ملاقات تھی۔بعد ازاں مختلف انصار کو حضور انور سے سوالات پوچھنےاور راہنمائی حاصل کرنے کا موقع ملا۔

ایک ناصر نے سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضور انور کے مبارک دَور میں جماعت ساری دنیا میں بہت تیزی سے بڑھ اور پھیل رہی ہے۔پیارے آقا وہ کون سا خوش نصیب ملک ہو گا جو سب سے پہلے احمدیت کی آغوش میں آئے گا اور وہاں کون سا نظام لاگو کیا جائے گا؟

حضور انورنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جماعت پھیل رہی ہے ۔یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کون سا ملک قبول کرے گا ۔ ہماری تو خواہش ہے چاہے وہ کوئی چھوٹاسا ملک ہو، قبول کر لے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے مبلغین کو، ہمارے داعیان الی اللہ کو توفیق دے کہ وہ تبلیغ کریں اور لوگوں کے دلوں کو بھی اللہ تعالیٰ کھولے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مان لیں اور اسلام کی آغوش میں آ جائیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے آ جائیں۔ لیکن یہ تو بہرحال مَیں نہیں جانتاکہ کون سا ملک پہلے ہو گا اور کیا ہو گا۔غیب کا علم تو اللہ تعالیٰ کو ہے۔جو دنیاوی نظام ہیں وہ اسی طرح چلتے رہیں گے۔خلافت نے کوئی بادشاہت تو نہیں چلانی نہ وہ نظام چلنا ہے جو خلفائے راشدین کے زمانے میں چلتا تھا۔ خلافت علیحدہ رہنی ہے۔اسی کی طرف قرآن شریف میں بھی ہمیں اشارہ ملتا ہے کہ یہ نظام چلتے رہیں گے۔ جہاں اللہ تعالیٰ سورۃ الحجرات میں فرماتا ہے کہ جب دو مسلمان قومیں لڑپڑیں تو تم ان میں صلح کرا دو اور صلح کرانے والی حکومتیں ان کے درمیان انصاف سے صلح کرائیں اور جب صلح قائم ہو جائے تو پھر کسی قسم کے بدلے نہیں لینے،نا انصافی نہیں کرنی۔اس کا مطلب یہی ہے کہ مسلمان حکومتیں ہوں گی اور بہت ساری ہوں گی اور اس میں ہر ایک کااپنا نظام ،اسلامی نظام کے تحت،چل رہا ہو گا ۔اور جہاں شرعی فیصلے کرنے ہوں گے، جہاں اطاعت کا تعلق ہو گا،جہاں روحانیت کی باتیں ہوں گی وہ خلیفہ وقت سے مشورے لیا کریں گے۔

ایک ناصر نے عر ض کیا کہ حضور انور سے گذشتہ ملاقات میں انصار اللہ کو یہ ٹارگٹ دیا تھا کہ سوئٹزرلینڈ کی پچاس فیصد آبادی تک اسلام احمدیت کا پیغام پہنچائیں۔اس ٹارگٹ کے حصول کے لیے پوری کوشش کی جارہی ہے لیکن اس حوالے سے مالی مشکلات کا سامنا ہے۔ مثلاًلٹریچر کی اشاعت کے لیے زیادہ بجٹ درکار ہے۔کیا انصار اللہ نیشنل جماعت سے مزید لٹریچر کا مطالبہ کرسکتی ہے؟

اس پر حضور انور نے انہیں فرمایا کہ وہ ضرور جماعت سے لٹریچر حاصل کر کے سوئس لوگوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ اسلام احمدیت کے پیغام کو پھیلانے کے لیے خدام الاحمدیہ، لجنہ اماء اللہ ، انصار اللہ اور نیشنل جماعت سب کو مل کر کام کرنا ہو گا۔اس لیے انصار اللہ نیشنل جماعت سے لٹریچر کے حصول کے لیے مدد مانگ سکتی ہے۔

انصار اللہ جماعت سے معین تعداد میں لٹریچر کی درخواست کر سکتی ہے جسے وہ ایک معین مدد میں تقسیم کریں گے۔لٹریچر ملنے پر اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ تقسیم بھی ہو۔

حضور انورنے فرمایا کہ آپ جماعت سےمدد مانگ سکتے ہیں۔اس کے لیے باہمی تعاون کی ضروت ہے۔اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ تقویٰ اور نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو۔ اللہ کا پیغام پھیلانا تقویٰ کا کام ہے۔ اس لیے آپ ایسا کر سکتے ہیں۔

ایک ناصرنے روس اور یوکرین کے موجودہ حالات کے تناظر میں سوال کیا کہ اس جنگ کا پھیلاؤ مزید ممالک کو کس حد تک اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے؟

اس پرحضور انور نے فرمایا کہ جنگ تو شروع ہے۔یہ ابتدا ہے۔ یہ کہہ دینا کہ روس نے یوکرین کا ایک شہر خالی کر دیا تو ہماری فتح ہو گئی یہ درست نہیں۔ اس پہ تو یوکرین کی حکومت نے بھی کہہ دیا کہ اتنی زیادہ خوشیاں نہ مناؤ یہ کوئی فتح نہیں ہوئی۔ یا ہو سکتا ہے یہ بھی روس کی کوئیStrategyہو کہ اس نے ایک شہر خالی کر دیا اور آپ سمجھ رہے ہوں کہ یہ شہر خالی ہو گیا تودوسرا بھی ہو جائے گا اور روس withdrawکر جائے گا اور جنگ ختم ہو جائے گی ۔یہ توجنگ کا پھیلاؤ ہے اور بلاک بننے شروع ہو چکے ہیں۔ ایران اور روس کی آپس میں دوستی بڑھ رہی ہے۔ چائنا اور روس کے تعلقات بڑھ رہے ہیں۔بلاک بن رہے ہیں۔ پھر نارتھ کوریا اور ساؤتھ کوریا کے مسئلے پیدا ہو رہے ہیں۔ تائیوان کا مسئلہ پیدا ہو رہا ہے۔ دنیا میں جو صورت حال ہے اس سے حالات خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ کہہ دینا کہ عارضی طور پر ایک شہر کے خالی ہونے سے شاید جنگ بند ہو جائے گی یا شاید عقل آ جائے درست نہیں۔ان لوگوں کو کوئی عقل نہیں آنی۔

بظاہر شواہد اور حالات یہی لگتے ہیں کہ یہ جنگ کا پھیلاؤ ہونا ہے۔ اس میں کتنے سال لگنے ہیں اللہ بہتر جانتا ہے۔ پہلی دو جنگیں ہوئی ہیں ان میں بھی پہلے دن سے تو بین الاقوامی جنگ شروع نہیں ہو گئی تھی۔پہلے ایک بلاک بنے۔پھر وہ ٹوٹے۔پھر دوسرے بلاک بنے۔لیکن بلاک بنے اور جنگ جاری رہی۔ جرمنی اور روس کی جنگ عظیم دوم میںپہلے اَور صورت حال تھی پھر بعد میں اَور صورت حال ہو گئی۔ تو اسی طرح اب بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد یہ تو ہونا ہے اگر دنیا نے عقل نہ کی ۔اور میں اس پر بار بار warningدے رہا ہوں کہ عقل نہ کی، خدا تعالیٰ کی طرف نہ لوٹےتو عذاب آئے گا۔ قرآن شریف میں بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ایک اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے،ایک وعید ہے۔ ایک خوف ہے۔ وعید کی باتیں ٹل جاتی ہیں۔ اگر تم لوگ اپنی اصلاح کر لو، خدا کی طرف رجوع کر لو، انسانی خدمات کے لیے اپنی عقلوں کا صحیح استعمال کرو،اللہ تعالیٰ کے حکموں کو مانو تو پھر ٹھیک ہے تباہی سے بچ جاؤ گے۔لیکن بہر حال پھر بھی ان میں ایک احساس پیدا ہو جائے گا کہ اس وجہ سے ہم بچ گئے تھے۔یونسؑ کی قوم بھی تو آہ و زاری کرنے سےبچ گئی تھی۔ تو یہ بھی بچ جائیں گے۔ اس وقت پھر جماعت احمدیہ کا کام ہے کہ اپنے تبلیغ کے میدان کو پھیلائے،مزید وسیع کرے اور ان کو بتائے کہ دیکھو!تم لوگوں نے توبہ کی تھی تو بچ گئے تھے۔ اب اس کا ایک حصہ،توبہ کا ،تو تم نے پورا کر دیا۔اگر مستقل بچنا ہے تو پھر یہی ہے کہ زمانے کے امام کو مانو اور اس زمانے کےآخری نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مانو اور ان کی آغوش میں آجاؤ۔ان سے صحیح تعلق پیدا کر لو گے تو ہمیشہ کے لیے اپنے آپ کو محفوظ کر لو گے۔نہیں تو وقتاً فوقتاً پھر تم لوگ اسی طرح ان باتوں میں گرفتار ہوتے چلے جاؤ گے۔ فساد اور فتنے اٹھتے چلے جائیں گے۔ اُس وقت یہ تبلیغ کرنے کا میدان آپ لوگوں کے لیے خالی ہو گا اور آپ کوکرنا ہو گا۔ باقی بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ اگر انہوں نے عقل نہ کی تو یہ جنگ سال دو سال یاتین سال میں پھیلے گی۔اللہ بہتر جانتا ہےکب پھیلتی ہے۔حالات ٹھیک کوئی نہیں، حالات خراب ہی ہیں۔

ایک ناصرنے سوال کیا کہ کچھ عرصے سے خصوصاً کووڈ- 19کی وجہ سے رابطے محدود ہو گئے ہیں۔ اب دوبارہ لوگ مل جل تو رہے ہیں لیکن ابھی بھی جماعتی پروگراموں اور رابطوں میں اس طرح کی قربت نہیں جس طرح پہلے تھی۔اس کے لیے ہم کیا لائحہ عمل اختیار کر سکتے ہیں؟

اس پرحضور انور نے فرمایا کہ ہم نے تو یوکے کا جلسہ کیا ناں؟ یوکے کا جلسہ اس لیے کیا کہ یوکے میں احساس ختم ہو جائے کہ آپس میں رابطے ختم ہوئے تھے، ہم نے ملنا جلنا ہے، اکٹھے نمازیں بھی پڑھنی ہیں اور مسجدوں میں بھی آنا ہے۔ مسجدیں بھی کھول دی ہیں۔زیادہ سے زیادہ یہی ہے کہ نمازیں پڑھتے جہاں تین فٹ کا فاصلہ تھا وہاں ایک فٹ کا رکھ لیا ہے، چھ انچ کا رکھ لیا ہے یا بعض جگہ نہیں بھی رکھا۔

ابھی میں امریکہ کا دورہ کر کے آیا ہوں۔وہاں لوگ ماسک پہنتے تھے لیکن مسجد میں سارے آتے تھے۔صفیں بنا کے ساتھ ساتھ کھڑے ہو تے تھے اور رابطے پورے رہے۔ تو یہ نمونے مَیں نے آپ کےسامنے پیش کر دیے ہیں۔ اب ان نمونوں کو دیکھ کے اگر آپ لوگوں کو ہوش نہیںآنی اور نہیں کھلنا تو پھر اب میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ اسی لیے مَیں بار بار کہہ رہا ہوں کہ نمازوں کی طرف توجہ کرو۔

ان شاء اللہ تعالیٰ اگلے سال یوکے کا جلسہ ہو گا تو انٹر نیشنل جلسہ ہو گا ۔پہلے جس طرح اجازت ملتی تھی اَورکھل کے مل جائے گی تو مزید بہتری ہو جائے گی۔آپ نے جو لوگوں کو دو اڑھائی سال میں گھروں میں نمازیں پڑھنے کی عادت ڈال دی ہے اور کہہ دیا کہ گھر میں نماز پڑھ کے بڑا مزہ آیا،ہماری بڑی اصلاح ہو گئی،ہمارے بچوں کی اصلاح ہو گئی ۔تو اب اس کو وسیع کریں۔ ان بچوں کی اصلاح کو مسجد میں لے کے آئیں اور ان تعلقات کو اور رابطوں کو مزید بہتر کرنے کی کوشش کریں اور بچوں کو احساس دلائیں کہ جس طرح گھر میں تمہیں نمازیں پڑھنے کا لطف آتا تھا اب مسجد میں بھی آئے گا۔مسجد میں بھی آیا کرو۔ آپ کے سامنے نمونے تو پیش ہو گئے۔دو موقعے آ گئے۔ یوکے کا جلسہ آگیا۔مَیں اس میںشامل ہوا۔ لوگ قریب ہو کے بیٹھے۔امریکہ کا دورہ ہوا تو وہاں سارے لوگوں نے دیکھا۔ سب قریب ہوکے بیٹھے۔انشاء اللہ اوراگلے فنکشن ہوں گے تو آپ کے سامنے مثالیں آ جائیں گی۔ جس نے اصلاح کرنی ہوتی ہے وہ تو ہلکے سے اشارے سے بھی اصلاح کر لیتا ہے اور جس نے نہیں کرنی اس نے نہیں کرنی۔ پھر آپ لوگ حجتیں تو کرتے رہیں گے۔ اس لیے لوگوں کو سمجھائیں، بتائیں اور یہ انصار اللہ کی کوشش ہے۔اپنے گھروں میں بھی اپنے بیوی بچوں کو کہیں کہ جماعت کے پروگرام میں جاؤ ۔خدام الاحمدیہ کا کام ہے ،لجنہ کا کام ہے۔جو تنظیمیں ہیں ان کے عہدے دار اپنےگھر والوں ک کہیں۔ انصار اللہ کیونکہ بڑی عمر کے ہیں وہ اپنے بچوں کو کہیں اور خود بھی جائیں تو انشاء اللہ ٹھیک ہو جائے گا۔یہ تو آپ کی کوشش ہے۔اب اڑھائی سال میں جس آسانی کی عادت آپ نے ڈال دی تھی اب کم از کم سال تو لگے گا اس کو دوبارہ واپس لانے میں۔اس لیے مسلسل کوشش کریں۔

ایک ناصرنے سوال کیا کہ یہاں پہ جب اللہ تعالیٰ ہمیں تبلیغ کرنےکا موقع دیتا ہے تو لوگ دلائل کو مان لیتے ہیں۔کہتے ہیں کہ آپ کی باتیں ٹھیک ہیں لیکن بیعت کر کے جماعت میں شامل ہونے کی طرف نہیں آتے۔ہم کیا طریق اختیار کریں کہ وہ بیعت بھی کر لیں؟

اس پر حضور انورنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ کب کہا ہے کہ جس کو تم تبلیغ کرو گے وہ ضرور مان لے گا۔ اللہ تعالیٰ نے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی فرمایا: بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ إِلَیْکَ۔(المائدہ:68)تبلیغ کا حکم ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا تمہارا کام ہدایت دینا نہیں۔ تمہارا کام پیغام پہنچانا ہے۔ ہدایت دینا میرا کام ہے۔آپ پیغام پہنچائیں اس کے لیے ساتھ دعا بھی کریں۔ جس جذبے اور شوق سے آپ لٹریچر لے کر تبلیغ کرتے ہیں،باتیں کرتے ہیں ،اسی شوق سے آپ ان تبلیغی contactsکے لیے دو نفل بھی پڑھتے ہیں سجدہ بھی کرتے ہیں؟ اگر اسی شوق سے سجدہ بھی کیا جا رہا ہے،دعائیں بھی کی جائیں تو اللہ تعالیٰ اس میں برکت بھی ڈال دیتا ہے۔ تبلیغ کرنے کے ساتھ ساتھ دعا بھی ضروری ہے۔

دوسری بات یہ یاد رکھیں کہ ہمارا کام پیغام پہنچانا ہے۔…قرآن شریف میں ایک نابینا صحابی کا قصہ آیاہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اللہ تعالیٰ نے یہی تنبیہ کی کہ تم سردار کے ساتھ بیٹھے ہو، اس کے پیچھے پڑے ہوئے ہو تمہیں کیا پتا اس نے مسلمان ہونا ہے کہ نہیں ہونا اور جو اخلاص سے آیا ہے اس کو تم چھوڑ رہے ہو۔

اللہ تعالیٰ نے اور بھی بہت جگہ مختلف حوالوں سے مثالیں دی ہیں۔ یہ مثالیں دے کر اللہ تعالیٰ نے یہ واضح کر دیا کہ تمہارا کام پیغام پہنچانا ہے، پہنچاؤ اور باقی ہدایت دینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔آپس میں تم لوگ اپنے آپ کو سنبھالو۔ آپس میں زیادہ محبت پیار اور بھائی چارہ پیدا کرو تو پھر جماعت میں اکائی اور unityقائم ہو گی ۔اور اس بھائی چارہ کے بعد جوآپ کوشش کریں گے وہ انفرادی کوششیں نہیں ہوں گی وہ جماعتی کوششیں ہوں گی۔پھر اللہ تعالیٰ ان میں برکت بھی ڈالے گا۔آپ باہر لوگوں میں تبلیغ کر رہے ہیں،پیغام پہنچا رہے ہیں،بڑا اچھا پیغام پہنچا رہے ہیںلیکن اندر آپس میں بہت ساری رنجشیں پیدا ہوئی ہوئی ہیں۔ایک دوسرے کے متعلق باتیں کرنے سے نہیں چوکتے۔ بلا وجہ کی کدورتیں دل میں آئی ہوئی ہیں ۔ان کو بھی دور کریں۔ایک ہوں ،اکائی ہو ںپھر کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ اس میںبرکت بھی ڈالتا ہے۔پھر دعا کریں اور پھر اکٹھے ہو کے دعا کریں۔ پھر اللہ تعالیٰ اس میں برکت بھی ڈالے گا ۔ہاں یہ اللہ تعالیٰ نے کہہ دیا کہ تمہارا کام پیغام پہنچانا ہے۔ تم پہنچائی جاؤ۔اگر تم پیغام نہیں پہنچاؤ گے تو تمہارے سے پوچھا جائے گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ کہیں نہیں کہا کہ کسی سے اگر بیعت نہ ہوئی تو تم ضرور پوچھے جاؤ گے۔ ہاں اللہ تعالیٰ برکت ڈالتا ہےجس طرح باقی کاموں میں بھی برکت ڈالتا ہے۔ محنت اور دعا میں جب اللہ تعالیٰ برکت ڈالتا ہے تو تبلیغ کے کاموں میں بھی برکت ڈالے گا۔تو ہمارا کام یہی ہے۔

ایک ناصر نے سورۃ الاعراف آیت 117کے حوالے سے عرض کیا کہ انبیاء عموماً جنگی حملہ کرنے میں پہل نہیں کرتے لیکن اس کے باوجود حضرت سلمانؑ نے ملکہ سبا پر بلا اشتعال حملہ کیا۔بظاہر لگتا ہے کہ یہاں ایک استثنا ہے۔سوال یہ ہے کہ حضرت سلمانؑ یہاں حملہ آور کیوں بنے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ حضرت سلمانؑ حملہ آور نہیں ہوئے۔ انہوں نے ملکہ کو پیغام بھیجا تھا کہ وہ اللہ کے سواکسی کی عبادت نہ کرے، اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائے،بتوں کی پرستش نہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ میں تمہیں یہ پیغام بھیج رہا ہوں تا کہ تم ایمان لاؤکہ اللہ تعالیٰ کامل قدرت والا ہے۔لیکن اگر تم ایسا نہ کرو گی تو مَیں تمہیں خودآ کر پیغام دوں گا۔اس پر ملکہ سبا نے اس پیغام کو قبول کر لیا۔چنانچہ ان پر کوئی حملہ نہیں کیا گیااوروہ اپنے منصب پر فائز رہی۔

اس کا مطلب ہے کہ انبیاءؑ کبھی بھی کسی کی طاقت چھیننے کے لیے، زمین پر قبضہ کرنے کے لیے یالوگوں کو تباہ کرنے کے لیے حملہ نہیں کرتے۔ ہاں جب ان پر کوئی حملہ کرتا ہے تو وہ اس کا جواب ضرور دیتے ہیں۔لیکن یہاں معاملہ مختلف ہے۔ادھر اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کا ایک طریق تھا اور اس میں بھی آپؑ قوم کو تباہ نہیں کرنا چاہتے تھے۔آپؑ نے فرمایا کہ جب ملکہ پکڑی جائے گی تو لوگوں کو سمجھ آ جائے گاکہ ملکہ کا خدا یا جس بت کی وہ عبادت کرتی تھی یا اپنی رعایا کو کہتی تھی کہ اس کی عبادت کرو،وہ جھوٹے ہیں اور اس طرح لوگ ایک خدا کے پیغام کو مان لیں گے۔

اس لیے یہاں ایک باریک فرق ہے۔مقصد زمین پر قبضہ کرنا یا قوم کو تباہ کرنا نہیں بلکہ مقصد خدا تعالیٰ کا پیغام، توحید اور اس کی وحدانیت پھیلانا ہے۔جب یہ پیغام قبول ہو گیا تو حملہ نہیں کیا۔اگر آپؑ کی دنیاوی خواہشات ہوتیں تو آپؑ ملکہ پر حملہ کرنے سے نہ رکتے۔ میرے خیال میں یہ ایک باریک فرق ہے۔

میرے پاس اس وقت تفسیر سامنے نہیں اس لیے میں جو اس سے سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ حملہ کرنے میں ایک باریک فرق ہے۔دنیاوی خواہشات کی خاطر حملہ کرنا اوردوسرا خدا تعالیٰ کا پیغام ان تک پہنچانا۔اس لیے آپؑ نے حملہ نہیں کیا۔ صرف اتنا کہا کہ ایک خدا کی عبادت کرو۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے پڑوسی بتوں کی پرستش کرنے والے ہوں۔

یہ باریک فرق ہے جو مَیں سمجھا ہوں۔دوسروں کےحقوق چھیننے، زمین کی ملکیت حاصل کرنے یا دوسری قوم کو غلام بنانے کے لیے جنگ نہیں لڑی گئی بلکہ مقصد صرف پیغام پہنچانا تھا۔جب ملکہ کی سمجھ میں یہ بات آ گئی تو معاملہ خودبخود حل ہو گیا اور وہ اس علاقے کی ملکہ کے طور پر قائم رہی۔

ایک ناصر نے سوال کیا کہ پاکستان کے بگڑتے ہوئے حالات میں بہتری لانے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے؟

اس پر حضور انور نے سوال کرنے والے کو پوچھا کہ اگر پاکستان کے حالات میں بہتری آسکتی تھی تو وہ پھر سوئٹزرلینڈ کیوں آئے تھے؟

حضور انور نے فرمایا کہ پاکستان کے لیے صرف دعا کی جاسکتی ہے لیکن جہاں ساری عوام ہی گمراہ ہو گئی ہو وہاں امید نہیں کی جا سکتی کہ ان کے طور طریقوں میں بہتری آئے۔

ایک ناصر نے سوال کیا کہ عالمی جنگ کی صورت میں اگر مواصلاتی رابطے منقطع ہو جائیں تو خلیفۃ المسیح کا پیغام احمدیوں تک کیسے پہنچے گا؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ فکر نہ کریں اللہ تعالیٰ اسباب پیدا کر دے گا۔سیٹلائٹ فون خرید لیں اس کے ذریعہ امیر جماعت کو پیغامات مل جائیں گے جووہ آگے جماعت تک پہنچا دیں گے۔

ایک ناصر نے سوال کیا کہ بعض عرب ممالک میں بزنس کے اچھے مواقع ہیں جن سے لوگ فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں۔موجودہ حالات کے پیش نظر کیا مغربی ممالک میں رہنے والوں کے لیے ان ممالک میں Investکرنا مناسب ہے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ ہم پیشگوئی نہیں کرسکتے کہ دنیا میں کل کیا ہو گا۔اگر عرب ممالک میں بزنس کے بہتر مواقع ہیں تو ضرور وہاں بزنس کرنا چاہیے۔اس میں کوئی حرج نہیں۔یورپ میں حالات خراب ہو رہے ہیں اس لیے یورپ سے باہر نکل کر دیکھنا ہوگا۔

ایک ناصرنے سوال کیا کہ ماحولیاتی تبدیلی کے متعلق جو اس وقت انسانیت کے درپیش مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ ہے۔اس سلسلے میں حضور سیاسی لیول پہ کیا راہنمائی کر سکتے ہیں اور انفرادی طور پر ہم کیاکر سکتے ہیں؟

اس پرحضور انورنے فرمایا کہ انفرادی طور پر کیا کر سکتے ہیں؟ بچوں کو بھی میں کہہ چکا ہوں عورتوں کو بھی کہہ چکا ہوں کہ انفرادی طور پر آپ لوگ tree plantationکریں درخت لگائیں کاربن emissionکی طرف توجہ کریں۔ زیادہ سے زیادہ کوشش یہ کریں کہ کم سے کم آپ کی کاروں اور دوسری چیزوں کا استعمال ہو۔ یہ تو انفرادی طور پہ آپ کا کام ہے۔خود بھی تھوڑے فاصلے پر جانا ہو تو بجائے کاروں یاموٹر سائیکلوں پہ جانے کے پیدل چلے جائیں،سائیکل استعمال کریں اور Plantation زیادہ کریں۔یہ تو ظاہری چیزیں ہیں۔ باقی حکومتوں کا کام ہے کہ Plantation کریں اور Industry کو بھی اس طرح آرگنائز کریں کہ کم سے کم کاربن emissionہو۔

اب چین کہتا ہے کہ یورپ اور امریکہ نے جو پچھلے پچاس ساٹھ سال carbon emissionکی ہے اور انڈسٹریل ترقی کی ہے ہم اس سے پچاس ساٹھ سال پیچھے ہیں ہم بھی اتنا کریں گے پھر دیکھیں گے کہ ہم نے کیا کرنا ہے۔ تو ہر ایک اپنا اپنا مفاد چاہتا ہے۔سیاسی طور پر یا ملکی سطح پر تو پھر لوگ اس طرح اپنامفاددیکھتے ہیں۔ باقی ہر چیز کو ہم نے سیاست ہی بنا لیا ہے۔ اب کہتے ہیں پاکستان میں floodآئے تو پاکستان کا اس میں کیا قصور ہے۔یہ موسمی تبدیلی ہو رہی ہے۔یہ تو ویسٹ، یورپ اور ترقی یافتہ ملکوں کے carbon emissionاور موسم میں تبدیلی کی وجہ سے ہو رہی ہے۔ توسوال یہ ہے کہ پاکستان نے کیا کردار ادا کیا؟پاکستان نے اپنے سارے جنگل کاٹ دیے۔اپنے ذاتی مفادات کے لیے ٹھیکیداروں اور سیاستدانوں نے مل کے سوات کے پہاڑوں کو ٹنڈ کر دیا مری کے علاقے کے پہاڑوںکو ٹنڈ کر دیا۔ ناران کاغان کے پہاڑوں کو ٹنڈ کر دیا۔سارے علاقے تباہ کر دیے۔پھر ڈیم نہیں بنائے۔ harvest کے لیے طریقے تھےجو استعمال میں نہیں لائے۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو عقل دی تھی اس کے مطابق کرتے تو یہ لوگ بہت بڑی تباہی سے بچ سکتے تھے۔ اس کا الزام صرف ویسٹ کے اوپر دے دینا کہ ویسٹ نے یہ نہیں کیادرست نہیں۔خود ہمارا اپنا بھی قصور ہوتا ہے۔ بہرحال سیاسی طور پہ تو ہر ایک ملک میںخود غرضی پیدا ہو چکی ہے۔ ایک انڈسٹریل ڈویلپمنٹ (Industrial Development)جہاں ہو رہی ہے وہاںانڈیا کہے گا ہماری تو انڈسٹریل ترقی ہو رہی ہے ہم اب کیوں کم کریں۔ چائنا کہتا ہے ہم کیوں کم کریں اور دوسرے اوپر آنے والے کوئی ملک ہیں وہ کہتے ہیں ہم کیوں کم کریں۔ ویسٹ نے کیونکہ یہ ترقی کر لی ہے،ایک مقام پہ پہنچ گیا ہے، یہ کہتے ہیں کہ کم کرو۔اور یہ بھی کم نہیں کر رہا ۔یہ جہاں ٹکے ہوئے ہیں کہتے ہیں ہم تو یہاں ٹک گئے،ہم اس سے زیادہ نہیں کریں گے، تم کم کرو۔ ترقی پذیر ممالک کہتے ہیں کہ تم مغربی ممالک اس سے زیادہ کیوں نہیں کرو گے؟ تم بھی پھرکم کرو۔تو یہ سیاسی طور پہ سارا چکر ہے۔باقی جو آپ کی کوششیں ہو سکتی ہیں وہ یہی ہیں کہ جیسا میں نے کہا کہ انفرادی طور پہ اگر ہر کوئی realiseکر لے اوراس کی طرف توجہ دےکہ کم سے کم کاروں کا استعمال ہو اور زیادہ سے زیادہ tree plantationہو ۔ پھر جو جنگیں ہو رہی ہیں یہ بھی تو ایک تباہی ہے۔یہ بھی تو ماحول میں گرمی پیدا کر رہی ہیں۔ان سے carbon emission ہو رہی ہے۔ آگیں لگ رہی ہیں ۔فساد ہو رہے ہیں ۔یہ ساری چیزیں شامل ہیں تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟ انفرادی طور پر جو چھوٹی موٹی کوشش کر سکتے ہیں وہ کر لیں۔ہم تو چھوٹی سی جماعت ہیں۔ چھوٹی سی جماعت کے اپنے ماحول میں جو کر سکتے ہیں کریں شاید آپ کو دیکھ کر دوسرے لوگ اثر پکڑیں اور پھر یہ پھیلتی جائے جاگ لگتی جائے اور پورا ملک اس بات کو realiseکر لے اور وہ اس طرف توجہ کرنا شروع کر دیں۔ تو ہر ملک میں ہم چھوٹے پیمانے پہ کوشش ہی کر سکتے ہیں اور پھر لوگوں کو بتائیں کیونکہ اصل کوشش تو اس ملک کی آبادی نے کرنی ہے ۔ آپ کی تو کسی بھی ملک میں0.01فیصد آبادی ہے ۔تو کیا کر سکتے ہیں؟

ملاقات کے آخر میں حضور انور نے فرمایا کہ چلو پھر اللہ حافظ ہو السلام علیکم

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button