نئے سال کے لیے جماعت احمدیہ کا پروگرام (قسط نمبر1)
(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃالمسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ 04؍جنوری 1935ء)
1934ء میں جماعت کے خلاف مجلس احرار کا فتنہ زوروں پر تھا اور ان کا دعویٰ تھا کہ وہ نعوذ با للہ احمدیت کو ختم کر دیں گے اور قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ اس تناظر میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے خدا تعالیٰ سے راہنمائی پا کر جلسہ سالانہ 1934ء کے اختتامی خطاب میں جماعت کے سامنے ایک منصوبہ رکھا جسے ’’تحریک جدید‘‘ کا نام دیا گیاجس کا بنیادی مقصد دنیا میں تبلیغ اسلام تھا۔ چنانچہ اس تحریک کے اعلان کے بعد اگلے سال کے پہلے خطبہ جمعہ فرمودہ 4؍جنوری 1935ء میں حضورؓ نے اس تحریک پر عمل کرنے کے حوالے سے ایک پُر معارف خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔ اس خطبہ کے بعض حصے ہدیہ قارئین ہیں۔(ادارہ)
تشہد، تعوّذاور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ وَلِکُلٍ وِّجْھَۃٌ ھُوَ مُوَلِّیْھَا(البقرۃ:۱۴۹) یعنی ہر شخص کے سامنے کوئی نہ کوئی مقصود ہوتا ہے جسے وہ سامنے رکھ کر چلتا ہے۔یہ مقصود آگے دو قِسم کے ہوتے ہیں۔ایک وہ جو اتفاقی طور پر سامنے آ جاتے ہیں جیسے گاڑی چلتے چلتے جھٹکے سے یا کسی اَور سبب سے انجن سے کٹ جاتی ہے مثلاً انجن کسی چڑھائی پر چڑھ رہا ہے اور گاڑی کٹ جائے اس کٹنے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ گر جائے گی۔ اب یہ اس کی جہت تو ہو گی مگر ایسی جہت جو ہنگامی طور پر آپ ہی آپ پیدا ہو گئی انجن اگر چڑھ رہا تھا تو خاص ارادہ سے اور اگر گاڑیاں گری ہیں تو بغیر کسی ارادہ کے تو مقصود ہر ایک چیز کا ہوتا ہے لیکن کبھی اتفاقی طور پر وہ پیدا ہو جاتا ہے اور کبھی ارادہ سے۔جومقصود اتفاقی طور پر پیدا ہو، اس کے لئے انسان تیار نہیں ہوتا لیکن جو ارادہ سے پیدا کیا جاتا ہے اس کے لئے انسان قبل از وقت تیار ہوتا ہے۔
اب ہمارے لئے ایک نیا سال چڑھا ہے اور اسے مدّ نظر رکھتے ہوئے ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ اس سال میں ہمارا مقصود کیا ہونا چاہئے۔ ہمارے مقصود دونوں قسم کے ہوسکتے ہیں یہ بھی کہ ہنگامہ میں ایک طرف چل پڑیں اور یہ بھی کہ سوچ سمجھ کر اپنا ایک مقصود قرار دے لیں۔ہنگامی مواقع پر طبائع کا جوش یہی چاہا کرتا ہے کہ جدھر حالات لیتے جائیں،چلتے جائیں اور وہ اسے بہادری اور جرأت سمجھتے ہیں لیکن عقل کی ہدایت یہی چاہا کرتی ہے کہ سارے ماحول کو مدّ نظر رکھتے ہوئے اپنے لئے ایک مقصود قرار دے لیں اور اس کے نزدیک یہی بہادری ہوا کرتی ہے۔ عقل اور جوش دونوں میںاختلاف ہوتا ہے اور دونوں اپنے اپنے لئے دلائل رکھتے ہیں۔ جوش یہ کہتا ہے کہ اگر حاضر کو چھوڑ کر آئندہ کے پیچھے جاتے ہو تو یہ تم اپنے نفس کو دھوکا دیتے ہو یہ جو کہتے ہو کہ ہمارا مقصود اعلیٰ ہے، یہ تم موجودہ حالات سے بچنے کے لئے کہتے ہو لیکن عقل جوش سے یہ کہتی ہے تمہارا وجود حماقت پر دلالت کرتا ہے تمہیں وسعتِ نظر حاصل نہیں۔ بینائی کوتاہ ہے تم دور کے مرغزار نہیں دیکھ سکتے تمہارے صرف سامنے کی دو چار بوٹیاں تمہاری نظر میں ہیں اور انہی کودیکھ کر تم وہیں بیٹھ جاتے ہو۔ تمہارے قریب گدلے پانی کاچشمہ ہے تمہاری نظر اسی پر ہے مگر دور میٹھے پانی کا دریا بہہ رہا ہے اور تمہیں یہ ہمت نہیں کہ وہاںتک پہنچ سکو۔ تو جوش عقل کو بزدل اور بہانہ سازسمجھتا ہے اور اسی طرح عقل جوش کو نابینا اور وسیع النظری سے محروم قرار دیتی ہے اور دونوں کے پاس اپنی اپنی تائید میں دلائل ہیں۔دونوں اپنے اپنے رنگ میں مضبوط ہیں لیکن صداقت کیا ہے؟اسے اﷲ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے عام طور پر لوگوں کے لئے یہ سمجھنا مشکل ہوتا ہے کہ دونوں میں سے کون سی بات سچی ہے۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جوشیلی طبائع جوش کی رَو میں بہہ کر ایک طرف چل دیتی ہیںاور کچھ لوگ جو سمجھدار اور مستقل مزاج ہوتے ہیں وہ دوسری طرف چل دیتے ہیں۔نتائج کبھی اِس کے حق میں نکلتے ہیں اور کبھی اُس کے حق میں۔جوش کی رَو میں بہنے والے بعض اوقات اتنے زور سے کام کرتے ہیں کہ حالات کے نقشہ کو بدل دیتے ہیں۔وہ نقشہ جو عقلمندوں نے اپنی عقل و دانش کی بناء پر تیار کیا ہوتا ہے اس میں شُبہ نہیں کہ وہ نقشہ صحیح ہوتا ہے مگر وہ نقشہ حالات کے مطابق تیار کیا ہؤا ہوتا ہے۔ ایک دریا بہتا ہے تم اُسے دیکھ کر یہ اندازہ کر سکتے ہو کہ یہ تین میل کے فاصلہ پر کہاں جا کر نکلے گااور کن کھیتوں کو سیراب کرے گامگر کوئی جوشیلا شخص اُٹھے اور دریا کے دہانہ کو کاٹ کر اُس کا رُخ دوسری طرف پھیر دے تو اس صورت میںاس اندازہ کا غلط ہونا لازمی ہے یا کوئی جوشیلا شخص دریا کے منبع کو اکھیڑ ہی ڈالے اور اس طرح پانی کو بکھیر دے تو وہ نہ دریا کی صورت اختیار کر سکے گا اور نہ کسی زمین کو سیراب کر سکے گا نہ کسی اور کام آ سکے گا۔پس اندازے ہمیشہ صحیح نہیں ہو سکتے کبھی جوش والے کامیاب ہو جاتے ہیں اور کبھی عقل کی پیروی کرنے والے اور درحقیقت کامیابی اسی کو ہوتی ہے جو وَالنّٰزِعٰتِ غَرْقًا (النّٰزعٰت:۲) کے ماتحت کام کرتا ہے اور یا پھر اُسے کہ جس کے شامل حال اﷲ تعالیٰ کا فضل ہو۔ اگر تو کوئی دینی کام ہو تو اس میںکامیابی محض اﷲ تعالیٰ کے فضل سے ہوتی ہے نہ کہ کسی تدبیر سے اور اگر دُنیوی ہو تو وَالنّٰزِعٰتِ غَرْقًا کے ماتحت کام کرنے والا کامیاب ہو جاتا ہے بعض اوقات ایک شخص اٹھتا ہے اور دیوانہ وار سب کچھ اپنے آگے بہا کر لے جاتا ہے اور بعض اوقات ٹھنڈی طبیعت والے کامیابی حاصل کر لیتے ہیں۔مختلف قوموں کی طبائع مختلف ہوتی ہیں۔کہتے ہیں کہ جس نے فرانسیسیوں کا پہلا حملہ برداشت کر لیا،وہ جیت گیا۔ان میں جوش ہوتا ہے وہ اگر بات کریں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا کوئی آتش فشاں پہاڑ پھٹ رہا ہے زور زور سے بولیں گے۔ہاتھ،پیر،سر، سب حرکت کریں گے مگر اس کے بالمقابل ایک انگریز نہایت دھیما بیٹھا ہو گااس لئے فرانسیسیوں کے متعلق مشہور ہے کہ جس نے ان کا پہلا حملہ سہہ لیا،وہ جیت گیا۔وہ اپنا سارا جوش پہلے حملہ میں صرف کر دیتے ہیں اور جو قومیں دھیمی طبیعت کی ہوتی ہیں وہ اگر پہلا حملہ برداشت کر جائیں تو سمجھو جیت گئیںکیونکہ پھر کوئی ان کے استقلال کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔پس دونوں باتیں ہمارے سامنے ہیں اور ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ ان میں سے کون سی بات اختیار کی جائے۔ہم اس وقت ایک جنگ میں داخل ہیں، تمام مذاہب کے لوگوں میں ہمارے خلاف جوش ہے اور ایک بہت بڑا گروہ ہمیں دکھ دینے میں لذّت محسوس کر رہا ہے …۔
اﷲ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ کیا ہو گا یا کیا نہ ہو گامگر میں نے تمام حالات کو مدّنظر رکھتے ہوئے ایک پروگرام تیار کیا ہے اور ایک سکیم جماعت کے سامنے رکھی ہے کہ اس طریق پر عمل کرو تو احراری فتنہ سے محفوظ رہو گے۔میں یقین رکھتا ہوں،خالی یقین نہیں بلکہ ایسا یقین جس کے ساتھ دلائل ہیںاور جس کی ہر ایک کڑی میرے ذہن میں ہے اور اس یقین کی بناء پر میں کہتا ہوں کہ گو جوشیلے لوگوں کووہ سکیم پسند نہ آئے لیکن ہماری جماعت کے دوست اس سکیم پر سچے طور پر عمل کریں تو یقینا ًیقیناً فتح ان کی ہے۔میں نے روپیہ کے متعلق جو تحریک کی تھی،اس کا جواب جو جماعت کی طرف سے دیا گیا ہے وہ اتنا خوش آئند ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے یہ خیال نہیں کیا جا سکتا کہ باقی حصہ سکیم میں جماعت کمزوری دکھلائے گی۔مگر جیسا کہ میں نے کئی بار بیان کیا ہے بعض لوگ فوری بڑی قربانی کے لئے تو تیار ہو جاتے ہیں مگر مستقل اور چھوٹی قربانی نہیں کر سکتے۔
…اصل کام وہ ہے جو جماعت کو خود کرنا ہے روپیہ تو ایسے حصوں کے لئے ہے جہاں پہنچ کر جماعت کام نہیں کر سکتی باقی اصل کام جماعت کو خود کرنا ہے۔قرآن اور حدیث سے کہیں یہ پتہ نہیں چلتا کہ کسی نبی نے مزدوروں کے ذریعہ فتح حاصل کی ہو۔کوئی نبی ایسا نہ تھا جس نے مبلغ اور مدرّس نوکر رکھے ہوئے ہوں۔خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں ایک بھی مبلغ نوکر نہ تھااب تو جماعت کے پھیلنے کی وجہ سے سہارے کے لئے بعض مبلغ رکھ لئے گئے ہیں۔جیسے پہاڑوں پر لوگ عمارت بناتے ہیں تو اس میں سہارے کے لئے لکڑی دے دیتے ہیں تا لچک پیدا ہو جائے اور زلزلہ کے اثرات سے محفوظ رہے۔پس ہمارا مبلغین کو ملازم رکھنا بھی لچک پیدا کرنے کے لئے ہے وگرنہ جب تک افرادِ جماعت تبلیغ نہ کریں، جب تک وہ یہ نہ سمجھیں کہ ان کے اوقات دین کے لئے وقف ہیں،جب تک جماعت کا ہر فرد سر کو ہتھیلی پر رکھ کر دین کے لئے میدان میں نہ آئے اس وقت تک کامیابی نہیں ہو سکتی۔حضرت اسماعیل علیہ السلام کو جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے علیحدہ کیا ہے تو اس کے متعلق بائبل میں آتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا۔اس کے بھائیوں کی تلوار اس کے خلاف اُٹھے گی اور اس کی تلوار ان کے خلاف۔جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ نبی ہو گا کیونکہ نبی کے خلاف ہی ساری دنیا کی تلواریں اٹھتی ہیں۔
پس جب تک کوئی شخص ساری دنیا کی تلواروں کے سامنے اپنا سر نہیں رکھ دیتااس وقت تک اس کا یہ خیال کرنا کہ وہ اس مأمور کی بیعت میں شامل ہے فریب اور دھوکا ہے جو وہ اپنی جان کو بھی اور دنیا کو بھی دے رہا ہے۔ ہماری جماعت کے زمیندار اور ملازم اور تاجر یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ اپنے اپنے کاموں میں مشغول رہتے ہوئے اور چند مبلغ ملازم رکھ کر کامیاب ہو جائیں گے کیونکہ وہ خدا کی جماعت ہیں حالانکہ یہ حالت خدا کی جماعتوں والی نہیں اس صورت میں ہم زیادہ سے زیادہ ایک انجمن کہلا سکتے ہیں۔خدائی جماعت وہی ہے جس کا ہر فرد اپنے آپ کو قربانی کا بکرا بنا دے اور جس کا ہر ممبر موت قبول کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہے۔یادرکھوجو جماعت مرنے کے لئے تیار ہو جائے اسے کوئی نہیں مار سکتا اور نہ اس کے مقابلہ پر کوئی ٹھہر سکتا ہے۔پنجاب گورنمنٹ کی مردم شماری کی رُو سے ہماری تعداد چھپّن ہزار ہے مگر میں کہتا ہوں اسے جانے دو،اس سے پہلے وہ ۲۸ ہزار بتائی جاتی تھی اس لئے ۲۸ ہزار ہی سہی۔ مگرنہیں۔اس سے دس سال پہلے وہ ۱۸ ہزار کہی جاتی تھی اس لئے ۱۸ ہزار ہی سہی بلکہ اس سے دس سال قبل وہ گیارہ ہزار سمجھی جاتی تھی اس لئے میں گیارہ ہزارہی فرض کر لیتا ہوںمگر کیا اگر گیارہ ہزار لوگ جانیں دینے کے لئے تیار ہو جائیں تو کوئی قوم ہے جو انہیں مار سکے،ہرگز نہیں۔انہیں مارنے والی قوم خود تباہ ہو جاتی ہے۔یاد رکھو جو شخص دلیری کے ساتھ جان دیتا ہے وہ دیکھنے والے پر یہ اثر چھوڑ جاتا ہے کہ اس کے دل میں کوئی چیز ضرور تھی جس کے لئے اس نے اس قدر بشاشت سے جان دی۔آؤ ہم بھی دیکھیں اس سلسلہ میں کیا بات ہے اور یہ اثر گیارہ ہزار کے ختم ہونے سے پہلے ۲۲ ہزار اور پیدا کر دیتا ہے اور پھر ان بائیس ہزار کے ختم ہونے سے پہلے ستّر اسّی ہزار اور پیدا ہو جاتے ہیںاور ان کے مرنے سے پہلے کئی لاکھ اور ہو جاتے ہیںاور اس طرح ایک وقت وہ آ جاتا ہے کہ کوئی نہیں جو انہیں مار سکے اور جب تک جماعت کے ہر فرد کے اندر یہ روح پیدا نہ ہو اور جب تک ہر شخص اپنی جان سے بے پرواہ ہو کر دین کی خدمت کے لئے آمادہ نہ ہو جائے۔کوئی کامیابی نہیں ہو سکتی۔یہ اور بات ہے کہ ہم کسی پر ظلم نہ کریں،فساد نہ کریں،قانون شکنی نہ کریں مگر یہ روح ہمارے اندر ہونی چاہئے کہ ظالم کی تلوار سے مرنے کے لئے تیار رہیںاور میرے پروگرام کی بنیاد اسی پر ہے۔جب میں کہتا ہوں کہ اچھا کھانا نہ کھاؤتو اس کا یہ مطلب ہے کہ جو اس لئے زندہ رہنا چاہتا ہے،وہ نہ رہے اور جب کہتا ہوں قیمتی کپڑے نہ پہنو تو گویا طلبِ زندگی کے اس موجب سے میں تمام جماعت کے لوگوں کو محروم کرتا ہوںاور جب یہ کہتا ہوں کہ کم سے کم رخصتیں اور تعطیلات کے اوقات سلسلہ کے لئے وقف کرو تو اس بات کے لئے تیار کرتا ہوں کہ باقی اوقات بھی اگر ضرورت ہو تو سلسلہ کے لئے دینے کے واسطے تیار رہیںاور جب وطن سے باہر جانے کو کہتا ہوں تو گویا جماعت کو ہجرت کے لئے تیار کرتا ہوں۔طب میں سہولتیں پیدا کرنے کو اس لئے کہتا ہوں کہ جو لوگ تہذیب و تمدّن کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں اور اس لئے باہر نہیں جا سکتے کہ وہاں یہ سہولتیں میسر نہیں آ سکتیںاور معمولی تکلیف کے وقت بھی اعلیٰ درجہ کی دوائیں اور دوسری آرام دہ چیزیں نہیں مل سکتیںان کو اس سے آزاد کردوں اور تہذیب کے ان رسّوں کو توڑ دوں۔جب ایک کشتی کے زنجیر توڑ دیئے جائیں تو کسی کو کیا معلوم کہ پھر لہریں اسے کہاں سے کہاں لے جائیں گی۔(باقی آئندہ)
٭…٭…٭