تعارف کتاب

القول العجیب فی رد حامدالمجیب (قسط25)

(شیخ مجاہد احمد شاستری۔ ایڈیٹر البدر (ہندی) قادیان)

تعارف کتب صحابہ کرامؓ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام

(مصنفہ حضرت عبد الرحیم کٹکی رضی اللہ تعالیٰ عنہ)

اس کتاب میں حضرت سید عبد الرحیم کٹکی صاحب ؓنے عیسیٰ بن مریم نام کی حکمت، لفظ رفع و نزول کے معانی میں استدلال قرآنی، استدلال حدیثی اور استدلال لغوی کے ساتھ قولہلکھ کر معترض کی بات اور اقول کہہ کر اُس کا جواب دیا ہے اور آخر پر اتمام حجت کے لیے وفات مسیح کے دلائل بھی خلاصۃً لکھے ہیں

تعارف

حضرت سید عبد الرحیم صاحب کٹکی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے زمانے کے ایک جید عالم تھےجنہوں نے حیدر آباد میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی کتاب ’’ازالہ اوہام‘‘ ملنے پر اس کا رد لکھنے کا ارادہ کیا۔ مگر جیسے جیسے اس کا مطالعہ کیا آپ پر حق واضح ہو گیا۔ ساری رات مطالعہ کرنے کے بعد صبح اس بات کا اعلان کر دیا کہ جب حق ظاہر ہو گیاہے تو فوراً اُن کی بیعت کرنی چاہیے۔چنانچہ1901ء کے شروع میں اپنےچند ساتھیوں کےساتھ اڑیسہ سے قادیان کا لمبا سفر اختیار کیا۔ اور امام الزمان کی بیعت سے مشرف ہو کر زمرۂ صحابہ میں شامل ہوئے۔آپ کے قادیان آنے کی خبر دیتےہوئے اخبار الحکم درج کرتا ہے:’’کٹک سے مولانا مولوی سید عبدالرحیم صاحب مصنف الدلیل المحکم مع اَور چند رفقاء کے تشریف لائے ہیں۔‘‘(الحکم 24؍جنوری 1901ء صفحہ12)

آپؓ کوتبلیغ کا بے انتہا شوق تھا۔واپس اپنے گاؤں جاکر امام مہدی کی آمد کااعلان جمعہ کی نماز کے بعد مسجد میں کیا۔ آپؓ کے تقویٰ و طہارت کے سبب تقریباً گاؤں کی اکثریت نےاحمدیت قبول کر لی ۔ان کے اسماء الحکم میں درج ہیں۔

آپؓ صاحب قلم تھے۔ بانئ جماعتِ احمدیہ اور سلسلہ کے خلاف کہیں بھی اعتراض ہوتا اور آپ کومعلوم ہوتا تو آپ فوراً اس کا رد لکھتے۔آپؓ کی مشہور کتاب الدلیل المحکم ہے۔ جس میں آپ نے مختلف معترضین کے اعتراضات کے جوابات دیے ہیں۔ نیز وفات مسیح پر قرآن مجید سے محکم دلائل پیش کیےہیں۔

آپؓ نے 12؍جنوری 1916ء کو وفات پائی اور محلہ کوسمبی سونگڑہ در مشترکہ قبرستان میں مدفون ہوئے۔ وفات کی خبر دیتے ہوئے اخبار الفضل نے لکھا:’’حضرت مسیح زمان، مہدی دوران کا مخلص مرید مولوی سید عبدالرحیم صاحب جو کہ بہت عرصہ سے عارضہ ذیابیطس میں مبتلا تھے، بارہویں تاریخ چہار شنبہ اس جہان فانی سے انتقال فرما گئے انا للہ و انا الیہ راجعون۔ مرحوم کی مساعی جمیلہ سےاڑیسہ میں تبلیغ احمدیت خوب زور سے ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے پاک روحوں کو اس سلسلہ حقہ کی طرف کھینچا۔ مرحوم کو احمد نبی اللہ سے اس قدر محبت تھی کہ ہر لحظہ و ہر لمحہ ان کا ذکر ان کے سلسلہ کی تبلیغ کا دھن رہتا۔ احباب جنازہ غائب پڑھیں۔‘‘(الفضل 26؍جنوری 1916ء صفحہ2)

پس منظر کتاب

بریلوی فرقہ کے بانی مولوی احمد رضا خان صاحب بریلوی کے بیٹے مولوی حامد رضا خان صاحب بریلوی کےپاس سرساوہ، سہارنپور یوپی سے ایک شخص یعقوب علی خان کلارک پولیس نے15؍رمضان المبارک1315ہجری کو ایک مسئلہ کےبارے میں فتویٰ طلب کیا۔ وہ لکھتےہیں کہ’’اس قصبہ سرساوہ میں ایک شخص جو اپنے آپ کو نائب مسیح یعنی مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود کا خلیفہ بتلاتا ہے۔پرسوں اس نے ایک عبارت پیش کی جس کا مضمون ذیل میں تحریر کرتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ بہت جلد جواب سے مشرف ہوں گا۔ اور صورت تاخیر کے کئی مسلمانوں کا ایمان جاتا رہے گا۔

تحریر یہ ہے ایک مدت سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات و حیات میں ہر جگہ گفتگو ہوتی ہے اس میں دو گروہ ہیں ایک وہ گروہ ہے جو مدعی حیات ہےاور ایک وہ گروہ ہے جو منکر حیات ہے۔اور ان دونوں فریق کی طرف سے کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ اب میں آپ کی خدمت میں التماس کرتا ہوں کہ ان دونوں فریق میں سے کون حق پر ہے۔ بس اس بارے میں ایک آیت قطیعۃ الدلالۃ اور صریحۃ الدلالۃ یا کوئی حدیث مرفوع متصل اس مضمون کی عنایت فرمائیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جسدہ العنصری ذی حیات آسمان پر اُٹھا لئے گئے ہیں۔ اور کسی وقت بعد حضرت خاتم النبیین ﷺ آسمان سے رجوع کریں گے…تو پہلے تو کوئی آیت بشروط متذکرہ بالا ہونی چاہیے اور بعد اس کےکوئی حدیث تاکہ ہم اس حالت تذبذب سے بچیں۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ حضرت امام مہدی اور دجال کا ہونا قرآن شریف میں ہے یا نہیں اگر ہےتو اس کی آیت اور نہیں ہےتو وجہ‘‘( بحوالہ الصارم الربّانی علی اسراف القادیانی سن اشاعت 1315 ہجری صفحہ4،3 اشاعت بار چہارم رضا اکیڈمی ممبئی)

سائل کا سوال آپ کےسامنے ہے۔ اس کا جواب پٹنہ ( بہار) سے شائع ہونے والے ایک ماہوار رسالے ’’تحفہ حنفیہ‘‘کے شمارہ میں شائع ہوا۔ بعد میں یہ الصارم الربّانی علی اسراف القادیانی سنہ اشاعت 1315 ہجری کتابی شکل میں شائع ہوا۔حضرت مولوی سید عبدالرحیم صاحب کٹکیؓ کو جیسے ہی اس کا علم ہوا تو آپ نے فوراً ’’القول العجیب فی ردّ حامِد المجیب‘‘ نام سے اس کا کافی و شافی جواب لکھا جو 1320ھ میں مطبع شمسی پریس حیدرآباد دکن سے شائع ہوا۔

نفس مضمون

اس کتاب میں حضرت سید عبد الرحیم کٹکی صاحب ؓنے عیسیٰ بن مریم نام کی حکمت، لفظ رفع و نزول کے معانی میں استدلال قرآنی، استدلال حدیثی اور استدلال لغوی کے ساتھ قولہ لکھ کر معترض کی بات اور اقول کہہ کر اُس کا جواب دیا ہے اور آخر پر اتمام حجت کے لیے وفات مسیح کے دلائل بھی خلاصۃً لکھے ہیں۔

چاہیے تو یہ تھا کہ مولوی حامد رضا خان بریلوی قرآن مجید سے حیات مسیح کی صریح و صاف دلیل دیتے اور بات کو واضح کرتے مگر اس کا جواب نہ دے کر سائل کو الجھانے کی کوشش کی ہے۔

حضرت عبد الرحیم کٹکی صاحبؓ اس کےمتعلق ذکر کرتے ہوئے لکھتےہیں کہ’’ناظرین باتمکین پر سائل کےسوال سے یہ امر متضح ہو گیاہوگا کہ وہ مابہ بحث میں صرف یہ چاہتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اس جسد عنصری کو لے کر آسمان پر جانا اور پھر کسی وقت خاتم الانبیاء علیہ التحیۃ والثنا کے بعد زمین کی طرف رجوع کرنا قرآن مجید کی صریح آیت جس میں حیات کا لفظ ہو بتلائیں یا بخاری شریف کی حدیث مرفوع متصل سے مضمون بالاکو ثابت کریں اور بس۔

مجیب مولوی حامد رضا صاحب بریلوی نے جب دیکھا کہ یہ ٹیڑھی کھیر ہے،حسب درخواست سائل قرآن شریف و حدیث سےاس مسئلہ کا حل عقدہ مالا ینحل ہے اس لئے امر حق کے در پردہ کرنےاور سائل کو ادھر اُدھر کی باتوں میں ٹال دینے کی غرض سے بے سود پانچ مقدمہ اور پانچ تنبیہات لکھ کر 56 صفحات کو کالا کر کےپیچھا چھڑایا۔‘‘(القول العجیب صفحہ22)

اسی کتاب کے صفحہ 90 پر آپؓ لکھتے ہیں:’’…. یاد رکھو یہی استعارہ اور یہی اشارہ مسیح کے دو فرشتوں کی نسبت ہے کہ نصرت الٰہی اس کے شامل حال رہے گی اور فرشتے اس کی امداد کے لیے مامور ہوں گے اور ہر مستعد دلوں کو اس کی طرف کھینچ کر پہنچائیں گے۔ اگر آنکھ ہو تو دیکھو کہ کہاں عرب و شام، افریقہ، آسام، کلکتہ، اوڑیشہ، مدراس، حیدرآباد، ہندوستان اور کہاں قادیان! کس طرح ان شہروں کے مستعد دل کھچے ہوئے چلے آتے ہیں۔ آپ لوگوں نے تو ناخنوں تک زور لگایا کہ اس سلسلہ کو مٹا ڈالیں اور اس جماعت کے شیرازے کو منتشر کردیں مگر جس قدر آپ لوگوں نے اس باب میں سعی کی اُسی قدر خدا تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ کا ظہور فرمایا اور اس جماعت کو ترقی پر ترقی ہے …. یہ سلسلہ اسی کے ہاتھ کا قائم کیا ہوا ہے۔ آج اس کی تعداد لاکھ کے قریب ہے۔ کل تم دیکھو گے کہ اس کی گھوڑ دوڑ کیسی ہے اور کیسی ترقی کے زینے پر چڑھتی جاتی ہے …‘‘

آج اگر مولوی حامد رضا صاحب بریلوی زندہ ہوتے تو وہ دیکھ لیتے کہ احمدیت کی جس امتیازی ترقی اور شان کا ذکر حضرت سید عبدالرحیم کٹکی صاحبؓ نے کیا تھا وہ کئی گنا شان و رفعت سے پوری ہو گئی ہے۔ اور دن بدن پوری ہو رہی ہے۔فالحمد للہ علی ذالک۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button