نظامِ شوریٰ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشادات کی روشنی میں (قسط7)
جماعت کے اندر ہر برائی کا سدِّ باب ممبرانِ شوریٰ کا فرض ہے
’’آپ لوگ ممبرانِ شوریٰ صرف اس لیے نہیں بنائے گئے کہ سال میں ایک شوریٰ ہوئی، اس کے لیے آپ کو منتخب کیا گیا یہاں آئے آپ نے تجاویز دیں۔ اور دودن یا ایک دن کے بعدیہ اجلاس برخواست ہوا اور آپ گھر جا کر بیٹھ گئے۔ بلکہ جو بھی یہاں تجاویز دی جاتی ہیں، ان پر بحث ہوتی ہے، ان پر عمل درآمد کرنے کے لئے لائحہ عمل بنایا جاتا ہے، اس کو Implementکرنے کے لیے اس پر عمل درآمد کروانے کے لیے آپ لوگ بھی اسی طرح ذمہ دار ہیں جس طرح متعلقہ عہد یدار یا متعلقہ جماعت کے اس شعبہ کے سیکرٹری ذمہ دار ہیں۔ کیونکہ آپ کا یہ شوریٰ کا ایک ممبر ہونا ایک عہدہ ہے جو ایک سال کے لیےقائم رہتا ہے جب تک کہ نئے سال کا انتخاب نہیں ہو جاتا۔ اس لیے جماعت کے اندر ہر برائی کو جب بھی آپ محسوس کرتے ہیں تو اس کے سدِّ باب کے لیے آپ لوگوں پر بھی اتنا ہی فرض ہے جتنا ایک عاملہ کے ممبر پر فرض ہے۔ آپ لوگوں کا یہ کام ہے کہ مقامی عاملہ کی جہاں جہاں آپ رہتے ہیں اور اگر مرکزی طور پر کوئی چیز دیکھتے ہیں تو مرکزی عاملہ کی، اس بارے میں ان باتوں پر عمل درآمد کروانے کے لیے مددکریں جن کے متعلق آپ فیصلہ کر چکے ہیں۔ اپنا بھر پور تعاون پیش کریں اور اپنے آپ کو اسی طرح ذمہ دار سمجھیں جس طرح متعلقہ عہدیداران۔‘‘( خطاب برموقع مجلسِ مشاورت جماعتِ احمدیہ جرمنی 20؍دسمبر2009ء،الفضل انٹرنیشنل 19؍فروری2010ء صفحہ16)
جماعت میں فتنوں اور بدنامی کا باعث بننے والے امور کا سدِّ باب ممبرانِ شوریٰ کا فرض
’’چونکہ جماعت میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ آپ لوگ عہدیدار اس طرح نہیں ہیں جس طرح تین سال کے لیے منتخب شدہ عہد یداران ہیں اس لیے بہت ساری باتیں ممبرانِ شوریٰ کے سامنے لوگ آزادی سے کر دیتے ہیں۔ پھر آپ لوگوں میں سے مختلف طبقات کے ہیں نوجوانوں میں سے بھی ایک کچھ فیصد یا کچھ شرح سے منتخب کیے جاتے ہیں۔عہد یداران کے علاوہ بہت سارے ایسے ہوتے ہیں جوشوریٰ کے ممبران منتخب کیے جاتے ہیں آپ کے سامنے بہت ساری باتیں آجاتی ہیں۔لوگ بعض دفعہ کر بھی لیتے ہیں یہ خیال کر کے کہ آپ عہد یدار نہیں ہیں اور چلو ان کو بھی بیچ میں اپنے کام میں شامل کر لو۔ اگر تو وہ جماعت کی بہتری کا کام ہے تو بڑی اچھی بات ہے شامل ہو کر اس تجویز کو آگے پہنچانا چاہیے۔لیکن اگر آپ یہ دیکھیں کہ کہیں بھی وہ بات جماعت کے لئے فتنہ کا باعث بن سکتی ہے یا ہم اس طرف جارہے ہیں کہ جہاں جماعت کی بدنامی ہوگی یا جماعت کی ترقی میں روک پیدا ہوسکتی ہے۔ تو اگر آپ کے پاس اتنی جرأت ہے کہ اس کا سدِّ باب کرسکیں تو وہیں بات کو سمجھا کر اس کو ختم کر دینا چاہیے۔ سختی سے نہیں۔ اور اگر سمجھتے ہیں کہ یہ معاملہ اب آگے بڑھ گیا ہے تو پھر نیشنل امیر تک اور اگر سمجھتے ہیں کہ نیشنل امارت میں ایسی باتیں ہورہی ہیں تو جیسا کہ مَیں نے کہا مجھ تک پہنچائیں۔ یہ آپ لوگوں کا فرض ہے۔ اور ایک سال کے لیے آپ لوگوں کی یہ ڈیوٹی ہے۔ اس تصور کو قائم رکھنے کے لیے میرا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ میں دوبارہ آپ کو یہاں بلاؤں تا کہ احساس پیدا ہو کہ آپ منتخب شدہ عہد یدار پورے سال کے لئے ہیں۔‘‘(خطاب برموقع مجلسِ مشاورت جماعتِ احمدیہ جرمنی 20؍دسمبر2009ء، الفضل انٹرنیشنل، 19؍فروری2010ءصفحہ16،10)
شوریٰ کے ممبران اپنے اپنے جائزے لیں اور اپنے نمونے قائم کریں
’’شوریٰ کے ممبران اپنے اپنے جائزے لیں اور اپنے نمونے قائم کریں۔ جب آپ نمونے قائم کریں گے،عبادت کی طرف توجہ ہو گی۔ نمازوں کی باقاعدہ ادائیگی ہو گی۔ آپ کے تقویٰ کے معیار بڑھیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں پیدا ہوگا۔ اور جب یہ چیز یں ہوں گی تو پھر واپس وہیں بات لوٹتی ہے کہ امانت کا حق ادا کرنے کی طرف توجہ پیدا ہوگی۔ آپ کے جوفرائض ہیں ان کی ادائیگی کی طرف توجہ پیدا ہوگی۔‘‘(خطاب برموقع مجلسِ مشاورت جماعتِ احمدیہ جرمنی 20؍دسمبر2009ء، الفضل انٹرنیشنل19؍فروری2010ء صفحہ10)
جماعت احمدیہ میں یا اسلام میں کسی کو کسی بھی فیصلہ کو Overruleکرنے کی اجازت صرف خلیفۂ وقت کو ہے
’’وَاَمرُهُم شُورٰى بَينَهُمْ (الشورٰی:38) کہ آپس میں مشورے کر کے بات کرنی ہے۔ یہ بھی ایک بہت ضروری چیز ہے چاہے وہ مقامی سطح پر ہو یا نیشنل سطح پر ہو۔ آپ کےتمام فیصلے جو ہیں وہ مشاورت پر ہونے چاہئیں۔اگر جماعت احمدیہ میں یا اسلام میں کسی کو کسی بھی فیصلہ کو Overrule کرنے کی اجازت ہے تو وہ خلیفۂ وقت کو ہے۔ اس کے علاوہ کسی بڑے سے بڑے عہدے دار کا بھی چاہے وہ نیشنل سطح پر ہے یا مقامی سطح پر کسی اکثریتی فیصلہ کوردکر نے کا حق نہیں ہے۔ اور اگر اختلاف ہے تو اس کے لئے جماعت میں ایک نظام ہے۔اس کے لیے لکھنا چاہیے کہ یہ ہماری شوریٰ کی اکثریت کی رائے ہے۔ یا یہ ہماری عاملہ کی اکثریت کی رائے ہے لیکن امیر کو یا مقامی امیر یا ریجنل امیر یانیشنل امیر کو اس سے اختلاف ہے اور یہ ہماری رائے ہے۔ یا کسی بھی شخص کو اختلاف ہو سکتا ہے۔اس کی اختلافی رائے بھی ساتھ آ سکتی ہے اور آتی ہے اور آنی چاہیے۔لیکن اس کو چاہے وہ نیشنل امیر ہی ہیں کسی بھی حکم کو Imposeکرنے کی اجازت نہیں۔‘‘(خطاب برموقع مجلسِ مشاورت جماعتِ احمدیہ جرمنی 20؍دسمبر2009ء، الفضل انٹرنیشنل19؍فروری2010ءصفحہ10)
خلافت کے بعد سب سے اہم ڈیوٹی شوریٰ کا ممبر ہونا ہے
’’حضرت عمرؓ نے تو بڑا واضح طور پر بتایا تھا کہ خلافت بھی شوریٰ کے بغیر نہیں ہے۔اسی لئے تو نظامِ شوریٰ دنیا میں ہر جگہ قائم ہے۔اور نظام خلافت کے بعد جماعت احمدیہ میں شوریٰ کا ادارہ ہی ہے جو سب سے بڑا ادارہ ہے۔اس لئے آپ کا یہ جو مقام ہے، یہ حیثیت ہے، یہ ممبرشپ ہے ایک سال کے لئے یہ کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔ خلافت کے بعد سب سے اہم جو کسی کو ڈیوٹی سپرد کی گئی ہے، فرض سپرد کیا گیا ہے، کام سپر د کیا گیا ہے۔ وہ شوریٰ کا ممبر ہونا ہے۔اس بات کو ہمیشہ مدنظر رکھیں کہ آپ کا ایک مقام ہے اور جب آپ یہ مدنظر رکھیں گے کہ ممبر آف شوریٰ ہونے کی حیثیت سے آپ خلیفۂ وقت کے نمائندے ہیں، پھر خود اپنے جائزے لیتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی طرف توجہ دیں گے۔ان کا حق ادا کر نے کی طرف توجہ کر یں گے۔‘‘(خطاب برموقع مجلسِ مشاورت جماعتِ احمدیہ جرمنی 20؍دسمبر2009ء، الفضل انٹرنیشنل،19؍فروری2010ء صفحہ10)
ممبرانِ شوریٰ اپنے فرائض کیسے پورے کر سکتے ہیں
’’جیسا کہ پہلے بھی میں کہہ چکا ہوں ممبرانِ شوریٰ جو ایک سال کے لیے منتخب ہوتے ہیں ان کے بھی اسی طرح فرض ہیں۔ اور اس فرض کو آپ تب پورا کر سکتے ہیں جب خود بھی ایک نمونہ ہوں، جب آپ کی عبادتیں بھی ایک نمونہ ہوں گی۔ جب آپ کے اخلاق بھی ایک نمونہ ہوں گے۔ جب آپ کی مالی قربانیاں بھی ایک نمونہ ہوں گی۔اور جب آپ کو وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ صرف مال ہی قربان نہیں کرنا بلکہ جتنی صلاحیتیں ہیں آپ کی، جتنی استعدادیں ہیں آپ کی، ان کی قربانی بھی اس رزق میں شامل ہے۔ جو بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔اگر آپ اپنی تمام تر صلاحیتیں، جماعتی مفاد کے لیے جماعتی ترقی کے لیےبروئے کار نہیں لاتے تو حق ادا نہیں کر رہے۔ چاہے وہ عہد یداران ہیں، مستقل عہد یداران یعنی تین سال کے لیے منتخب عہدیداران ہیں یا ایک سال کے لیےشوریٰ کے ممبران۔ جیسا کہ میں نے کہا ایک لحاظ سے شوریٰ کے ممبران کا مقام عہد یداران سے اس لیے بڑھ جا تا ہے کہ مجلس شوریٰ خلافت کے بعد سب سے بڑا ادارہ ہے جماعت احمدیہ میں، اس اہمیت کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔ پس یہ فرائض ہیں جن کا اب میں نے مختصر ذکر کیا۔ آپ کے ذمہ ہیں آپ نے ادا کرنے ہیں۔‘‘(خطاب برموقع مجلسِ مشاورت جماعتِ احمدیہ جرمنی 20؍دسمبر2009ء، الفضل انٹرنیشنل19؍فروری2010ءصفحہ10)
(جاری ہے)