Dementia
تُو میرا بیٹا نہیں ہے، تُو کوئی اور ہی ہے
قسم سے ، مجھ کو یقیں ہے، تُو کوئی اور ہی ہے
یہ میرا گھر نہیں، اب لے چلو یہاں سے مجھے
وہیں پہ لے چلو، لائے تھے تم جہاں سے مجھے
خدارا، مجھ کو مرے گھر ہی چھوڑ آؤ نا!
یا فون کر کے مرے بیٹے کو بلاؤ نا!
شریف آدمی لگتے ہو، بات سُن بھی لو
ڈھلی ہے شام، اندھیری ہے رات سُن بھی لو
مجھے یہ کون سی تصویر تم دکھاتے ہو؟
یہ میں نہیں ہوں، مجھے جھوٹ کیوں بتاتے ہو؟
اور اِس کے ساتھ جو بچہ کھڑا ہے کون ہے یہ؟
اور اِس نے جس کو اٹھایا ہوا ہے، کون ہے یہ؟
یہ کون لوگ ہیں تصویر میں، خدا جانے!
اُسے بُلا جو مرے گھر کا راستہ جانے
سبھی تو گھر میں پریشان ہو رہے ہوں گے
ہیں چھوٹے چھوٹے مرے بچے، رو رہے ہوں گے
یہ موڑ مڑتے ہی کچھ دور ہے مکان مرا
وہیں پہ آج بھی آباد ہے جہان مرا
یہ کس کی قبروں کی تصویر تم دکھاتے ہو؟
یہ کس کے نام ہیں کتبوں پہ؟ کیا بتاتے ہو؟
نہیں، نہیں! مرے ماں باپ میرے گھر پر ہیں
اور ان کا سایہ سلامت، وہ میرے سر پر ہیں
اور اب تو ماں نے بھی کھانا بنا لیا ہوگا
پریشاں باپ مری راہ دیکھتا ہوگا
چلو میں چلتی ہوں ، گھر جا کے کھانا کھاؤں گی
میں گڑیاں کھیلوں گی، سکھیوں کے ساتھ گاؤں گی
قریب ہی تو مرا گھر ہے لے چلو نا مجھے!
یوں جھوٹ موٹ میں تم اپنی ماں کہو نہ مجھے
ارے! یہ کیا ہوا؟ تم تو بلک کے رونے لگے
کیا میری باتوں کو سن سن کے، تھک کے رونے لگے؟
اِسی لیے تمہیں کہتی ہوں چھوڑ آؤ مجھے
نہ خود بھی آنسو بہاؤ، نہ یوں رلاؤ مجھے
مرا قصور ہے اتنا کہ راہ کھو بیٹھی
میں اپنی دنیا سے خود اپنے ہاتھ دھو بیٹھی
گلی اندھیری ہے، بس یہ گلی گزار آؤ
یہ رونے دھونے کو چھوڑو، مجھے اتار آؤ
کبھی ملے تو دوبارہ نہ اُس کو کھو دینا
تم اپنی ماں کے گلے لگ کے خوب رو لینا
(آصف محمود باسط)
’’Dementia کے مریض کی ان کہی کہانی‘‘ مضمون پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے