خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ ۲؍دسمبر۲۰۲۲ء

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

٭…حضرت ابو بکرؓ ہوں یا حضرت عمرؓ یہ سب اپنے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہﷺ کے کامل وفادار تھے

٭…محمدرسول اللہﷺ کي کامل اتباع سے ابوبکرؓ کو وہ مقام ملا تو آج ساري دنيا ادب کے ساتھ ان کا نام ليتي ہے(حضرت مصلح موعودؓ)

٭…آج دنيا کے بادشاہوں ميں سے کوئي ايک بھي نہيں جسے اتني عظمت حاصل ہو جتني حضرت ابوبکرؓ کو حاصل ہے

٭… ابوبکرؓ وہ تھاجس کي فطرت ميں سعادت کا تيل اور بتّي پہلےسے موجود تھي (حضرت مسیح موعودؑ)

٭… سچ تو يہ ہے کہ ابوبکر صديق اورعمر فاروق دونوں اکابر صحابہ ميں سے تھے … دونوں ايسے مبارک مدفن ميں دفن ہوئے کہ اگر موسيٰ اور عيسيٰ زندہ ہوتے تو بصدرشک وہاں دفن ہونے کي تمنا کرتے (حضرت مسیح موعودؑ)

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲؍دسمبر۲۰۲۲ء بمطابق ۰۲؍فتح۱۴۰۱ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزنے مورخہ ۲؍دسمبر۲۰۲۲ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔

تشہد،تعوذ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

حضرت ابوبکرصدیقؓ کے محاسن اور مناقب بیان ہورہے تھے اس سلسلے میں لوگوں میں سب سے محبوب ہونے کےمتعلق ایک روایت ہے کہ حضرت ابنِ عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کے عہد میں ہم لوگوں میں سے ایک کو دوسرے سے بہتر قرار دیتے تھے یعنی مقابلہ ہوا کرتا تھا۔ ہم سمجھتے تھے کہ حضرت ابوبکرؓ سب سے بہتر ہیں پھر حضرت عمربن خطابؓ اور پھر حضرت عثمانؓ بہتر ہیں۔ ایک موقعے پر حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ سےکہا کہ اے لوگوں میں رسول اللہﷺ کےبعد سب سے بہتر۔اس پر حضرت ابوبکرؓ نے فوراً فرمایا کہ مَیں نےنبی کریمﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سورج طلوع نہیں ہوا کسی آدمی پر جو عمر سے بہتر ہو۔

حضرت سلمانؓ، حضرت صہیبؓ اور حضرت بلالؓ لوگوں کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے کہ ابوسفیان آئے اس پر ان لوگوں نےکہا کہ اللہ کی قسم! اللہ کی تلواروں نے اللہ کے دشمن کی گردن کے ساتھ ابھی تک اپنا بدلہ چکتا نہیں کیا۔ یہ سن کر حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ کیا تم لوگ اہلِ قریش کے سرداروں کے بارے میں اس طرح کہہ رہے ہو۔ پھر آپؓ خود حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضورﷺ نے فرمایا کہ اےابوبکر! تم نے شاید سلمان، صہیب اور بلال وغیرہ کو ناراض کردیا ہے اور اگر تم نے ایسا کردیا تو تم نےاپنے ربّ کو ناراض کردیا۔ یہ سن کر حضرت ابوبکرؓ اُن تینوں حضرات کے پاس آئے اور کہا کہ پیارے بھائیو! کیا مَیں نے آپ لوگوں کو ناراض کردیا ہے۔ اس پر اُن لوگوں نے کہا کہ نہیں! ایسی بات نہیں۔ اس واقعے سے حضرت ابوبکرؓ کی عاجزی کا پتا چلتا ہے۔ وہ لوگ جنہیں آپؓ نے غلامی سے آزاد کرایا تھا ان کے پاس آکر ان سے معافی مانگی۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکرصدیقؓ کے محاسن اور خصوصی فضائل میں سے ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ سفرِہجرت میں آپؓ کو رفاقت کےلیےخاص کیا گیا اور مخلوق میں سے سب سے بہترین شخص کی مشکلات میں آپؓ اُن کے شریک تھےاور آپؓ مصائب کے آغاز سے ہی حضور کے خاص انیس بنائے گئے تھے تاکہ محبوبِ خداﷺ کےساتھ آپ کاخاص تعلق ثابت ہواور اس میں بھید یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کو یہ خوب معلوم تھا کہ صدیقِ اکبر صحابہ میں سے زیادہ شجاع متقی اور سب سےزیادہ آنحضرتﷺ کے پیارے اور مردِ میدان تھے اور یہ کہ سیدالکائناتﷺ کی محبت میں فنا تھے۔

حضورِانور نےحضرت ابوبکرؓ کے متعلق عصر حاضر کےبعض مستشرقین کے حوالے پیش کرکے فرمایا کہ چونکہ یہ لوگ (یورپی مستشرقین) آنحضرتﷺ کے اس اعلیٰ و ارفع مقام نبوت کا ادراک اور شعور نہیں رکھتے اس لیے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ وغیرہ کی تعریف میں اس حد تک مبالغہ آمیزی سےکام لےجاتے ہیں جو کسی طور درست نہیں ہوسکتا۔ حالانکہ حضرت ابوبکرؓ ہوں یا حضرت عمرؓ یہ سب اپنے آقا ومطاع حضرت محمد رسول اللہﷺ کے کامل وفادار تھے۔ یہ لوگ محمدرسول اللہﷺ کے لیے خادمانہ طور ہاتھ اور پاؤں تھے۔

حضرت ابوبکرؓ کے اخلاقِ حسنہ کےمتعلق حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ کیا یہ سچ نہیں کہ بڑے بڑے زبردست بادشاہ ابوبکر اور عمر بلکہ ابوہریرہ کا نام لےکر رضی اللہ عنہ کہتے رہے ہیں اور چاہتے رہے ہیں کہ کاش ان کی خدمت کا ہی ہمیں موقع ملتا۔ پھر کون ہے جو کہہ سکے کہ ابوبکر اور عمر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم نے غربت کی زندگی بسرکرکے کچھ نقصان اٹھایا۔ بےشک انہوں نے دنیاوی لحاظ سےاپنےاوپر ایک موت قبول کرلی لیکن وہ موت ان کی حیات ثابت ہوئی اور اب کوئی طاقت ان کو مار نہیں سکتی وہ قیامت تک زندہ رہیں گے۔

حضرت مصلح موعودؓ مزیدفرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ کو دیکھوآپؓ مکّے کے ایک معمولی تاجر تھے اگر رسول اللہﷺ مبعوث نہ ہوتے اور مکّہ کی تاریخ لکھی جاتی تو مؤرخ صرف اتنا ذکر کرتاکہ ابوبکر عرب کا ایک شریف اور دیانت دار تاجر تھا۔ مگر محمدرسول اللہﷺ کی کامل اتباع سے ابوبکرؓ کو وہ مقام ملا تو آج ساری دنیا ادب کے ساتھ ان کا نام لیتی ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں اسلام کی خدمت اور دین کےلیے قربانیاں کرنے کی وجہ سے آج حضرت ابوبکرؓ کو جو عظمت حاصل ہے وہ کیا دنیا کے بڑےسے بڑے بادشاہوں کو بھی حاصل ہے۔ آج دنیا کے بادشاہوں میں سے کوئی ایک بھی نہیں جسے اتنی عظمت حاصل ہو جتنی حضرت ابوبکرؓ کو حاصل ہے۔ بلکہ حضرت ابوبکرؓ تو الگ رہےکسی بڑے سےبڑے بادشاہ کو بھی اتنی عظمت حاصل نہیں جتنی مسلمانوں کے نزدیک حضرت ابوبکرؓ کے نوکروں کو حاصل ہے۔ بلکہ حق یہ ہے کہ ہمیں حضرت ابوبکر کا کتا بھی بڑی عزتوں والوں سے اچھا لگتا ہے اس لیے کیونکہ وہ محمدرسول اللہﷺ کے در کا خادم ہوگیا۔ جو محمدﷺ کے در کا غلام ہوگیا تو اس کی ہر چیز ہمیں پیاری لگنے لگ گئی اور اب یہ ممکن ہی نہیں کوئی شخص اس عظمت کو ہمارے دلوں سے محو کرسکے۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ کے ایک بیٹے جو دیر کے بعد اسلام میں داخل ہوئے تھے ایک دفعہ رسول کریمﷺ کی مسجد میں بیٹھے تھے مختلف باتیں ہورہی تھیں۔ یوں باتوں باتوں میں حضرت ابوبکرؓ سےکہنے لگے اباجان! فلاں جنگ کے موقعےپر مَیں ایک پتھر کے پیچھے چھپا ہوا تھا۔ آپ میرے سامنے سے دودفعہ گزرےمَیں اگر اس وقت چاہتا تو آپ کو مار دیتا مگر مَیں نے اس خیال سے ہاتھ نہ اٹھایا کہ آپ میرے باپ ہیں۔ ابوبکرؓ یہ سن کر بولےمَیں نے تجھے اس وقت دیکھا نہیں، اگر مَیں تجھے دیکھ لیتا تو چونکہ تُو خدا کا دشمن ہوکر میدان میں آیا تھا اس لیے مَیں ضرور تجھے مار دیتا۔

حضرت ابوبکرؓ کےاخلاقِ فاضلہ کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں ابوبکرؓ وہ تھاجس کی فطرت میں سعادت کا تیل اور بتّی پہلےسے موجود تھی ۔ اس لیے رسول کریمﷺ کی پاک تعلیم نے اس کو فی الفور متاثر کرکے روشن کردیا۔ اس نے آپؐ سے کوئی بحث نہیں کی کوئی نشان اور معجزہ نہیں مانگا۔ معاً سن کر اتنا ہی پوچھا کہ کیا آپ نبوت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ جب رسول کریمﷺ نے فرمایا ہاں! تو بول اٹھے کہ آپؐ گواہ رہیں مَیں سب سے پہلے ایمان لاتا ہوں۔ یہ تجربہ کیا گیا ہے کہ سوال کرنے والے بہت کم ہدایت پاتے ہیں ہاں حسنِ ظن اور صبر سے کام لینے والے ہدایت سے پورے طور پر حصّہ لیتے ہیں۔اس کا نمونہ ابوبکرؓ اور ابوجہل دونوں میں موجود ہے۔ ابوبکرؓ نے جھگڑانہ کیااور نشان نہ مانگے مگراس کووہ دیا گیا جو نشان مانگنے والوں کو نہ ملا۔ اس نے نشان پر نشان دیکھے اور خود ایک عظیم الشان نشان بنا۔ابوجہل نے حجت کی اور مخالفت اور جہالت سے باز نہ آیااس نے نشان پر نشان دیکھے مگر دیکھ نہ سکا آخر خود دوسروں کے لیے نشان ہوکر مخالفت میں ہی ہلاک ہوا۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ میرے ربّ نے مجھ پر ظاہر کیا کہ صدیق اورفاروق اور عثمان رضی اللہ عنہم نیکوکاراور مومن تھے اور ان لوگوں میں سے تھے جنہیں اللہ نے چُن لیا۔ اور جو خدائے رحمٰن کی عنایات سے خاص کیے گئے اور اکثر صاحبانِ معرفت نے ان کے محاسن کی شہادت دی۔انہوں نے بزرگ و برتر خدا کی خوش نودی کی خاطر وطن چھوڑے۔ ہر جنگ کی بھٹی میں داخل ہوئے اور موسمِ گرما کی دوپہر کی تپش اورسردیوں کی رات کی ٹھنڈک کی پرواہ نہ کی بلکہ نَوخیز جوانوں کی طرح دین کی راہوں پر محوِ خرام ہوئے اور اپنوں اور غیروں کی طرف مائل نہ ہوئے اور اللہ رب العالمین کی خاطر سب کو خیرآباد کہہ دیا۔ ان کے اعمال میں خوشبو اور ان کے افعال میں مہک ہے اور یہ سب کچھ ان کے مراتب کے باغات اور نیکیوں کے گلستانوں کی طرف راہنمائی کرتا ہے اور ان کی بادِ نسیم اپنے معطر جھونکوں سے ان کے اسرار کا پتا دیتی ہے اور ان کے انوار اپنی پوری تابانیوں سے ہم پر ظاہر ہوتے ہیں۔

پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ بخدا! اللہ تعالیٰ نے شیخین یعنی ابوبکراور عمر اور تیسرے جو ذوالنورین ہیں ہر ایک کو اسلام کے دروازے اور خیرالانام محمدرسول اللہﷺ کی فوج کے ہراول دستے بنایا ہے۔چنانچہ جو شخص ان کی عظمت سے انکار کرتا ہےاور ان کی قطعی دلیل کو حقیر جانتا ہے اور ان کے ساتھ ادب سے پیش نہیں آتابلکہ ان کی تذلیل کرتا اور انہیں برا بھلا کہنےکے درپےرہتا ہے اورزبان درازی کرتا ہے مجھے اس کے بدانجام اور سلبِ ایمان کا ڈر ہے۔

آپؑ فرماتے ہیں سچ تو یہ ہے کہ ابوبکر صدیق اورعمر فاروق دونوں اکابر صحابہ میں سے تھے ان دونوں نے ادائیگی حقوق میں کبھی کوتاہی نہیں کی۔انہوں نے تقویٰ کو اپنا راہ اور عدل کو اپنا مقصود بنالیا۔ان دونوں کے صدق و خلوص کی کیا بلند شان ہے دونوں ایسے مبارک مدفن میں دفن ہوئے کہ اگر موسیٰ اور عیسیٰ زندہ ہوتے تو بصدرشک وہاں دفن ہونے کی تمنا کرتے۔

خطبےکے آخر میں حضورِانور نے فرمایا کہ کچھ حصّہ، چند حوالے اور ہیں جو ان شاء اللہ آئندہ پیش ہوں گے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button