استغفار سے ایمان کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں
استغفار جس کے ساتھ ایمان کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں قرآن شریف میں دو معنے پر آیا ہے۔ ایک تو یہ کہ اپنے دل کو خدا کی محبت میں محکم کر کے گناہوں کے ظہور کوجو علیحدگی کی حالت میں جوش مارتے ہیں خداتعالیٰ کے تعلق کے ساتھ روکنا اور خدا میں پیو ست ہوکر اس سے مدد چاہنا۔ یہ استغفار تو مقربوں کا ہے جو ایک طرفۃالعین خدا سے علیحدہ ہونا اپنی تباہی کا موجب جانتے ہیں اس لئے استغفار کرتے ہیں تا خدا اپنی محبت میں تھامے رکھے۔ اور دوسری قسم استغفار کی یہ ہے کہ گناہ سے نکل کر خدا کی طرف بھاگنا اور کوشش کرنا کہ جیسے درخت زمین میں لگ جاتا ہے ایسا ہی دل خدا کی محبت کا اسیر ہو جائے تا پاک نشوونما پاکر گناہ کی خشکی اور زوال سے بچ جائے اور ان دونوں صورتوں کا نام استغفار رکھا گیا کیونکہ غَفْر جس سے اِستغفار نکلا ہے ڈھانکنے اور دبانے کو کہتے ہیں۔ گویا استغفار سے یہ مطلب ہے کہ خدا اس شخص کے گناہ جو اس کی محبت میں اپنے تئیں قائم کرتا ہے دبائے رکھے اور بشریت کی جڑیں ننگی نہ ہونے دے بلکہ الوہیت کی چادر میں لے کر اپنی قدوسیت میں سے حصہ دے یا اگر کوئی جڑ گناہ کے ظہور سے ننگی ہوگئی ہو پھر اس کو ڈھانک دے اور اس کی برہنگی کے بداثر سے بچائے۔ سو چونکہ خدا مبدءِ فیض ہے اور اس کا نور ہر ایک تاریکی کے دور کرنے کے لئے ہروقت طیار ہے اس لئے پاک زندگی کےحاصل کرنے کے لئے یہی طریق مستقیم ہے کہ ہم اس خوفناک حالت سے ڈر کر اس چشمۂ طہارت کی طرف دونوں ہاتھ پھیلائیں تا وہ چشمہ زور سے ہماری طرف حرکت کرے اور تمام گند کو یکدفعہ لے جائے۔ خدا کو راضی کرنے والی اس سے زیادہ کوئی قربانی نہیں کہ ہم درحقیقت اس کی راہ میں موت کو قبول کر کے اپنا وجود اس کے آگے رکھ دیں۔
(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، روحانی خزائن جلد۱۲ صفحہ ۳۴۶تا۳۴۷)