احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
علامہ سیدمیرحسن صاحب
سیدمیرمحمدشاہ کے صاحبزادے،18؍اپریل 1844ء کو اپنے ننھیال فیروزوالاضلع گوجرانوالہ میں پیداہوئے،تاریخی نام رونق بخش تھا،عام مروجہ تعلیم کے حصول کے بعد ایک مسجدکی امامت کے فرائض بھی سرانجام دیے بعدمیں اس سے کنارہ کش ہوگئے۔1861ء میں سیالکوٹ شہرکے ضلع سکول میں عربی و فارسی کے استادمقررہوئے،بعدازاں سکاچ مشن کے سکول کی وزیرآباد میں ابتدا ہوئی تو 1863ء میں یہاں ملازمت اختیارکرلی اور اپنے خاندان میں سے پہلے شخص قرارپائے جنہوں نے فرنگیوں کی ملازمت اختیارکی۔1868ءمیں وزیرآباد سے سکاچ مشن مڈل سکول سیالکوٹ میں تبدیل ہوکرآگئے۔اور سکاچ مشن کو کالج کھولنے کی اجازت ملنے پر آپ کالج میں پڑھاتے رہے اور 1928ء تک یہ سلسلہ جاری رہا۔آپ کے شاگردوں میں سے ڈاکٹرعلامہ اقبال،جسٹس کنورسین پسرلالہ بھیم سین،کھڑک سنگھ،مولوی ظفراقبال،آغاصفدر،مولوی محمدابراہیم میر،غلام قادرفصیح اور میرحامدشاہ صاحب وغیرہ مشہورشاگردہیں۔
میرحسن صاحب نے دوشادیاں کیں۔پہلی بیوی کانام سعیدبیگم تھا جو حاجی پورہ سیالکوٹ کی رہنے والی تھیں۔اس بیوی نے 39 برس کی عمر میں 18؍جون 1886ء کو وفات پائی۔میرصاحب محترم کی ساری اولاد اسی بیوی سے ہوئی۔تین لڑکے اور چارلڑکیاں۔میرحسن نے دوسری شادی برکت بی بی صاحبہ سے کی،جسے ان کے چھوٹے بھائی سیدعبدالغنی نے مزاج میں ہم آہنگی نہ ہونے کی بنا پر 1887ء میں طلاق دے دی تھی۔1928ء میں میرصاحب کی آنکھوں کی بینائی ضائع ہوگئی۔ ستمبر1929ء کو نمازفجرسے قبل85سال کی عمرمیں انتقال فرمایا۔سیدمیرحسن کے دادا سیدمیرظہوراللہ صاحب تھے۔جو کہ 1860ء میں فوت ہوئے۔ میر ظہور اللہ صاحب کے چاربیٹے تھے۔ میر محمد شاہ، میراحمدشاہ،میرفیض اللہ اورمیرنعمت اللہ۔میرفیض اللہ سیالکوٹ کے اپنے عہدکے مشہورطبیب تھے۔ان کی اولاد یہ تھی:حکیم میرحسام الدین،میرعلاء الدین،میرضیاء الدین،مہتاب بی بی،میرسراج الدین۔
میرمحمدشاہ کے دوبیٹے سیدمیرحسن اور سیدعبدالغنی اور دو لڑکیاں زینب بی بی اور نوربی بی تھیں،میرحسام الدین صاحب سیدمیرحسن صاحب کے چچازاد تھے۔
کتاب ’’علامہ اقبال کے استاد شمس العلماء مولوی سیدمیرحسن۔حیات وافکار‘‘(یہ تمام معلومات اس کتاب سے لی گئی ہیں)کے صفحہ 81تا112 پر باب نمبر7 ہے جس کاعنوان ہے ’’مشاہیرسے تعلقات ‘‘اس میں سب سے پہلے نمبرپر سرسیداحمدخان کاذکرہے۔میرحسن کے سرسیدکے ساتھ گہرے تعلقات تھے اور سیدصاحب بھی میرصاحب سے حسن ظن رکھتے تھے اور ان کی باہمی خط وکتابت بھی تھی۔
سیدمیرحسن کے دوست احباب
مشاہیرکے اسی باب میں صفحہ109 پر حضرت اقدسؑ کا اس طرح سے ذکرہے :’’مرزاصاحب کی سیالکوٹ میں ملازمت کے دوران میرصاحب سے ان کے دوستانہ تعلقات قائم ہوچکے تھے۔مرزاصاحب جب قادیان واپس چلے گئے اس وقت بھی میرصاحب کاان سے ملنا جلنا ہوتارہتاتھا۔سرسیدکے ساتھ خط وکتابت میں میرصاحب کی مرزاغلام احمدکے عقائد کے متعلق گفتگوہوتی رہتی تھی۔‘‘
اسی کتاب کے باب 10 صفحہ 131 میں سیدمیرحسن کے احباب کی ایک فہرست دی ہے اور ان احباب کاذکرکرنے سے پہلے مصنف لکھتے ہیں : ’’جس قسم کاانسان ہوگااسی قسم کی اس کی سوسائٹی ہوگی۔اسی قسم کا اس کا دائر ہ احباب ہوگا۔ علمی وادبی شخصیت کے دوست واحباب علم وادب کے شائقین ہی ہوں گے۔سیاست سے تعلق رکھنے والے شخص کے دوست سیاست دان ہوں گے۔تاجرکے دوست کاروباری ذہن رکھنے والے لوگ ہوں گے۔ مذہبی شخصیت کے احباب وہی لوگ ہوں گے جو مذہب پرست ہوں گے۔ میرحسن کئی خصوصیات کے حامل تھے۔وہ مذہب پرست تھے۔اسوہ حسنہ کے پیکر تھے۔علم وادب اوڑھنا بچھونا تھا۔دوسروں کوعلم سے نوازناان کا بہترین مشغلہ تھا…ہم جب میرصاحب کے ساتھیوں کی طرف دیکھتے ہیں توان میں مولانا غلام حسن،مرزاغلام احمد،حکیم نورالدین،مولوی عبدالکریم،مولوی فیروزالدین ڈسکوی…اورحافظ عبدالمنان محدث وزیرآبادی اسلام کے شیدائی نظرآتے ہیں…‘‘
سیالکوٹ کے زمانہ سے متعلق کچھ اہم واقعات
مکان کی چھت گرنے کا واقعہ
ایک بار کسی ٹریننگ سکول میں ٹریننگ کی سختی کی وجہ سے ایک بچے کی ہلاکت ہوگئی تو پاکستان کی معروف ادیبہ اور کالم نگار، بشریٰ رحمان صاحبہ جوکہ پنجاب اسمبلی کی رکن بھی منتخب ہوئیں انہوں نے اپنے کالم میں لکھاتھا کہ ان استادوں کوکیاپتا کہ مائیں جب اپنے بچوں کوباہربھیجتی ہیں تو ان ماؤں کے دلوں پرکیاگزرتی ہے۔ان بچوں کے پاؤں کے ساتھ ان ماؤں کے سانسوں کی ڈوربندھی ہوتی ہے۔[کچھ اس طرح کے الفاظ تھے ]
بہت سچی بات کی انہوں نے کہ جس طرح ایک بچہ گھرسے باہرجاتاہے تو اس کے پاؤں کے ساتھ ماں کی سانسوں کی ڈوربندھی ہوتی ہے اور ہروقت اس کواپنے بچے کی فکرہوتی ہے۔اوریہی کیفیت جب ہم ان لوگوں کی سوانح پڑھیں جوخداکی نظروں کے راج دلارے ہوتے ہیں ان کی زندگیوں میں ہمیں نظرآتی ہے۔مائیں تو ایک جذباتی وابستگی رکھے ہوئے ہوتی ہیں اوران کے بچوں پرباہرکیاگزررہی ہوتی ہے وہ اس سے بے خبرہوتی ہیں اور بے بس بھی۔ لیکن خدائے قادرونصیر کے توانا ہاتھ اپنے ان پیاروں کے ساتھ ساتھ ہوتے ہیں۔جو ہرآفت اور بلاسے بچاتے ہیں۔دشمن کے حملوں سے اورقدرتی آفات سے یوں بچاتے ہیں جیسے شیرنی اپنے بچوں کو۔ حضرت اقدسؑ کی سوانح کامطالعہ کرنے والے کوصاف نظرآتاہے کہ خدائے قادرکاہاتھ تھا جوکہ ہروقت آپ کی حفاظت کے لیے ساتھ ساتھ رہتاتھا۔کیونکہ وہ وہی خداتھا جس کاپتا آپؑ نے ایک جگہ اس طرح دیاتھاکہ’’تم سوئے ہوئے ہوگے اورخداتعالیٰ تمہارے لئے جاگے گا۔تم دشمن سے غافل ہوگے اور خدااسے دیکھے گااوراس کے منصوبے کوتوڑے گا۔‘‘(کشتی نوح ،روحانی خزائن جلد19صفحہ22)سیالکوٹ کے اس قیام کے دوران بھی ہم قدم قدم پرخدائے حفیظ ورحمان کی نگہبانی مشاہدہ کرتے ہیں۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدصاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ان سے حضرت مسیح موعودؑ نے بیان فرمایا کہ ایک دفعہ جب میں کسی سفر میں تھا۔رات کے وقت ہم کسی مکان میں دوسری منزل پر چوبارہ میں ٹھہرے ہوئے تھے۔اسی کمرے میں سات آٹھ اور آدمی بھی ٹھہرے ہوئے تھے۔جب سب سو گئے اور رات کا ایک حصّہ گذر گیا تو مجھے کچھ ٹک ٹک کی آواز آئی اور میرے دل میں یہ خدشہ پیدا ہوا کہ اس کمرے کی چھت گرنے والی ہے۔اس پر میں نے اپنے ساتھی مسیتا بیگ کو آواز دی کہ مجھے خدشہ ہے کہ چھت گرنے والی ہے۔اس نے کہا میاں یہ تمہارا وہم ہے نیا مکان بنا ہوا ہے اور بالکل نئی چھت ہے آرام سے سو جاؤ۔حضرت صاحب فرماتے تھے کہ میں پھر لیٹ گیا لیکن تھوڑی دیر کے بعد پھر وہی ڈر میرے دل پر غالب ہو ا میں نے پھر اپنے ساتھی کو جگا یا مگر اس نے پھر اسی قسم کا جواب دیا میں پھر ناچار لیٹ گیا مگر پھر میرے دل پر شدت کے ساتھ یہ خیال غالب ہو ااور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا شہتیر ٹوٹنے والا ہے۔ میں پھر گھبرا کر اُٹھااور اس دفعہ سختی کے ساتھ اپنے ساتھی کو کہا کہ میں جو کہتا ہوں کہ چھت گرنے والی ہے اُٹھو۔ تو تم اُٹھتے کیوں نہیں۔اس پر ناچار وہ اُٹھااور باقی لوگوں کو بھی ہم نے جگا دیاپھر میں نے سب کو کہا کہ جلدی باہر نکل کر نیچے اُتر چلو۔دروازے کے ساتھ ہی سیڑھی تھی میں دروازے میں کھڑا ہوگیا اور وہ سب ایک ایک کر کے نکل کر اُترتے گئے۔جب سب نکل گئے تو حضرت صاحب فرما تے تھے کہ پھر میں نے قدم اُٹھایا ابھی میرا قدم شاید آدھاباہر اور آدھا دہلیز پر تھا کہ یک لخت چھت گری اور اس زور سے گری کہ نیچے کی چھت بھی ساتھ ہی گر گئی حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ہم نے دیکھا کہ جن چارپائیوں پر ہم لیٹے ہوئے تھے وہ ریزہ ریزہ ہوگئیں۔خاکسار نے حضرت والدہ صاحبہ سے دریافت کیا کہ مسیتا بیگ کون تھا ؟ والد ہ صاحبہ نے فرمایا کہ وہ تمہارے دادا کا ایک دور نزدیک سے رشتہ دار تھا اور کا رندہ بھی تھا۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت خلیفة المسیح ثانیؓ نے اس روایت کو ایک دفعہ اس طرح پر بیان کیا تھا کہ یہ واقعہ سیالکوٹ کا ہے جہاں آپ ملازم تھے اور یہ کہ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے تھے کہ اس وقت میں یہی سمجھتا تھا کہ یہ چھت بس میرے باہر نکلنے کا انتظار کر رہی ہے اور نیز حضرت خلیفۃ المسیح ثانیؓ نے بیان کیا کہ اس کمرہ میں اس وقت چند ہندو بھی تھے جو اس واقعہ سے حضرت صاحب کے بہت معتقد ہو گئے۔‘‘(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر9)ایک دوسری روایت میں ہے کہ اس وقت اس مکان میں جولوگ موجودتھے ان میں سے ایک لالہ بھیم سین صاحب بھی تھے۔چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمدصاحبؓ بیان فرماتے ہیں:’’حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؒ بیان فرماتے ہیں کہ جوچھت گرنے کاواقعہ ہے اس میں بھی غالباً لالہ بھیم سین صاحب شریک تھے۔‘‘(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 149)حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدصاحبؓ نے حضرت اقدسؑ کی ایک ڈائری سے یہی واقعہ نوٹ فرمایاہے جویہ ہے :’’ایسا ہی سیالکوٹ کا ایک اور واقعہ ہے کہ ایک دفعہ رات مَیں ایک مکان کی دوسری منزل پر سو یا ہوا تھا اور اسی کمرہ میں میرے ساتھ پندرہ یا سولہ آدمی اور بھی تھے۔رات کے وقت شہتیر میں ٹک ٹک کی آواز آئی۔میں نے آدمیوں کو جگا یا کہ شہتیر خوفناک معلوم ہوتا ہے یہاں سے نکل جانا چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ کوئی چوہاہوگا خوف کی بات نہیں اور یہ کہہ کر سو گئے۔تھوڑی دیرکے بعد پھر ویسی آواز آئی تب میں نے ان کو دوبارہ جگایا مگر پھر بھی انہوں نے کچھ پروا نہ کی۔پھر تیسری بار شہتیر سے آواز آئی تب میں نے ان کو سختی سے اُٹھایا اور سب کو مکان سے باہر نکالا اور جب سب نکل گئے تو خود بھی وہا ں سے نکلا۔ابھی دوسرے زینہ پر تھا کہ وہ چھت نیچے گری اوروہ دوسری چھت کو ساتھ لے کر نیچے جا پڑی اور سب بچ گئے۔‘‘ (سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر236) یہ واقعہ کم وبیش انہیں الفاظ کےساتھ ملفوظات جلدنہم صفحہ 294 پر بھی بیان ہوا ہے حضرت اقدسؑ بیان فرماتے ہیں :’’ایساہی سیالکوٹ کاایک اور واقعہ ہے کہ ایک دفعہ رات کومیں ایک مکان کی دوسری منزل میں سویاہواتھااوراسی کمرہ میں میرے ساتھ پندرہ سولہ اورآدمی بھی تھے۔رات کے وقت شہتیر میں ٹک ٹک کی آوازآئی…یہ خداتعالیٰ کی معجزنماحفاظت ہے جب تک کہ ہم وہاں سے نکل نہ آئے شہتیرگرنے سے محفوظ رہا۔‘‘محترمہ مائی حیات بی بی صاحبہ بنت فضل دین صاحب کہ جن کے مکان میں حضرت اقدسؑ سیالکوٹ میں رہائش پذیر تھے انہوں نے بھی چوبارہ کے گرنے کی بابت اپنی روایت میں ذکرکیاہے وہ بیان کرتی ہیں کہ’’پہلے مرزا صاحب اسی محلہ میں ایک چوبارہ میں رہا کرتے تھے۔ جو ہمارے موجودہ مکان واقع محلہ جھنڈانوالہ سے ملحق ہے۔ جب وہ چوبارہ گر گیا۔ تو پھر مرزا صاحب میرے باپ کے مکان واقع محلہ کشمیری میں چلے گئے۔ چوبارہ کے گرنے کا واقعہ یہ ہے کہ مرزا صاحب کے پاس چوبارہ میں خلیل۔ منشی فقیر اللہ وغیرہ بیٹھے ہوئے تھے۔ تو مرزا صاحب نے کہا باہر آ جاؤ۔ جب وہ سب باہر دوسرے مکان کی چھت پر آئے۔ تو چوبارہ والا چھت بیٹھ گیا۔ حافظ محمد شفیع صاحب بیان کرتے ہیں۔ کہ خلیل کہتا تھا۔ کہ چوبارہ میں کوئی ایسی بات نہ تھی۔ کہ جس سے گرنے کا خطرہ ہوتا۔‘‘ (سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر625)
٭…٭…٭