حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

ہمارے اعلیٰ مقاصد ہیں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:’’واقفین نو بچوں کی تربیت کے لئے خصوصاً اور تمام احمدی بچوں کی تربیت کے لئے بھی عموماً ہماری خواتین کو بھی اپنے علم میں اضافے کی ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو بھی وقت دینے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ اور اس کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اجلاسوں میں اجتماعوں میں، جلسوں میں آ کر جو سیکھا جاتا ہے وہیں چھوڑ کر چلے نہ جایا کریں، یہ تو بالکل جہالت کی بات ہو گی کہ جو کچھ سیکھا ہے وہ وہیں چھوڑ دیا جائے۔ تو عورتیں اس طرف بہت توجہ دیں اور اپنے بچوں کی طرف بھی خاص طور پر توجہ دیں۔ کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ جن واقفین نو یا عمومی طور پر بچوں کی مائیں بچوں کی طرف توجہ دیتی ہیں اور خود بھی کچھ دینی علم رکھتی ہیں ان کے بچوں کے جواب اور وقف نو کے بارہ میں دلچسپی بھی بالکل مختلف انداز میں ہوتے ہیں اس لیے مائیں اپنے علم کو بھی بڑھائیں او رپھر اس علم سے اپنے بچوں کو بھی فائدہ پہنچائیں۔ لیکن اس سے یہ مطلب نہیں ہے کہ باپوں کی ذمہ داریاں ختم ہو گئی ہیں یا اب باپ اس سے بالکل فارغ ہو گئے ہیں یہ خاوندوں کی اور مردوں کی ذمہ داری بھی ہے کہ ایک تو وہ اپنے عملی نمونے سے تقویٰ اور علم کا ماحول پیدا کریں پھر عورتوں اور بچوں کی دینی تعلیم کی طرف خود بھی توجہ دیں۔ کیونکہ اگر مردوں کا اپنا ماحول نہیں ہے، گھروں میں وہ پاکیزہ ماحول نہیں ہے، تقویٰ پر چلنے کا ماحول نہیں۔ تو اس کا اثر بہرحال عورتوں پر بھی ہو گا اور بچوں پر بھی ہو گا۔ اگر مرد چاہیں تو پھر عورتوں میں چاہے وہ بڑی عمر کی بھی ہو جائیں تعلیم کی طرف شوق پیدا کر سکتے ہیں کچھ نہ کچھ رغبت دلا سکتے ہیں۔ کم ازکم اتنا ہو سکتا ہے کہ وہ بچوں کی تربیت کی طرف توجہ دیں اس لیے جماعت کے ہر طبقے کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مرد بھی عورتیں بھی۔ کیونکہ مردوں کی دلچسپی سے ہی پھر عورتوں کی دلچسپی بھی بڑھے گی اور اگر عورتوں کی ہر قسم کی تعلیم کے بارے میں دلچسپی ہو گی تو پھر بچوں میں بھی دلچسپی بڑھے گی۔ ان کوبھی احساس پیدا ہو گا کہ ہم کچھ مختلف ہیں دوسرے لوگوں سے۔ ہمارے کچھ مقاصد ہیں جو اعلیٰ مقاصد ہیں اور اگر یہ سب کچھ پیدا ہو گا تو تبھی ہم دنیا کی اصلاح کرنے کے دعوے میں سچے ثابت ہو سکتے ہیں۔ ورنہ دنیا کی اصلاح کیا کرنی ہے۔ اگر ہم خود توجہ نہیں کریں گے توہماری اپنی اولادیں بھی ہماری دینی تعلیم سے عاری ہوتی چلی جائیں گی۔ کیونکہ تجربہ میں یہ بات آ چکی ہے کہ کئی ایسے احمدی خاندان جن کی آگے نسلیں احمدیت سے ہٹ گئیں صرف اسی وجہ سے کہ ان کی عورتیں دینی تعلیم سے بالکل لاعلم تھیں۔ اور جب مرد فوت ہو گئے تو آہستہ آہستہ وہ خاندان یا ان کی اولادیں پرے ہٹتے چلے گئے کیونکہ عورتوں کو دین کا کچھ علم ہی نہیں تھا، تو اس طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے۔ عورتوں کو بھی اور مردوں کو بھی اکٹھے ہو کر کوشش کرنی ہو گی تاکہ ہم اپنی اگلی نسل کو بچا سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح طور پر دین کا علم پیدا کرنے اور اگلی نسلوں میں قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ18؍جون 2004ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 2؍جولائی2004ء)

(مرسلہ:نرگس ظفر۔ جرمنی)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button