ارشادات عالیہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام
اس (خدا) نے میرے دل میں اسرار عظیمہ اور کلماتِ قدیمہ اِلقاء کئے۔اور مجھے نبیوں کا وارث بنا دیا۔ اور فرمایا کہ تو ماموروں میں سے ہے تاکہ تو اس قوم کو ڈرائے جن کے آبا و اجداد کو نہیں ڈرایا گیا تھا، اور تا مجرموں کی راہ واضح ہوجائے۔
(گزشتہ سے پیوستہ)’’اللہ تم پررحم فرمائے۔جان لو کہ ان لوگوں میں سے جنہوں نے یہ کہا کہ ہم اہل بیت کے متبع ہیں اورشیعہ ہیں ایک طبقہ ایسا ہے جنہوں نے اکابر صحابہؓ کی ایک جماعت اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء اورملّت کے اَئمہ کی نسبت طعن کیا ہے اوراپنے قول اوراپنے عقیدہ میں غلو کیا ہے اور ان پر کافر اورزندیق ہونے کے بہتان لگائے ہیں اور ان کی طرف خیانت،غضب،ظلم اور بغاوت کو منسوب کیا ہےاوروہ اس وقت تک اس سے باز نہیں آئے اوران کایہ پروپیگنڈا ختم ہونے میں نہیں آیااوروہ باز نہیں آرہے بلکہ انہوں نے اپنے گالیاں دینے کو جائز سمجھا ہے اورہرمیدان میں اسے اختیار کیا ہے اور اسے نیکیوں میں سے سب سے بڑی نیکی بلکہ حصولِ درجات کاایک ذریعہ سمجھا ہے۔انہوں نے ان صحابہ پرلعنت کی اوراس کام کوبہت اچھا عمل خیال کیا اوراس پر اُمیدیں باندھیں اوریہ خیال کیا کہ یہ فعل مختلف قسم کی نیکیوں اورقربِ الٰہی کے ذرائع میں سے افضل ترین ذریعہ ہے اوراللہ کی رضاجوئی کاقریب ترین راستہ اورعبادت گزاروں کے لئے نجات کاسب سے بڑا وسیلہ ہے۔ مَیں نے کچھ زمانہ اُن میں گزارا ہے اور میرے ربّ نے ہر آزمائش کے وقت میرے لئے آسانی پیدا کردی اوراس موضوع کے بارے میں جوکچھ وہ چھپا رہے تھے مَیں اُسے محسوس کررہا تھااوران کی فریب دہی کے ہر طریقے پرمیری توجہ مرکوز تھی۔ میرے علم ومعرفت کی بہتری کے لئے قضا وقدر نے یہ انتظام کیا کہ ان کا ایک عالم میرے اساتذہ میں سے تھا۔ میں ان میں دن رات رہا اور ان سے بارہا مباحثہ کیا۔ان کا اندرونہ مجھ سے چھپا نہیں رہ سکتا تھا اور نہ ان کا ظاہر مجھ پر مخفی تھا۔مجھے یہ معلوم ہو گیا کہ وہ لوگ اکابر صحابہؓ سے دشمنی رکھتے ہیںاور وہ شکوک و شبہات کے پردوں پر راضی ہیں۔ اور میں نے دیکھا کہ ان کی پوری کوشش یہ ہوتی ہے کہ شیخین (حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ) کی طرف ہربُرائی منسوب ہواور ان دونوںپر دھبہ لگے۔ کبھی تو وہ لوگوں سے قصۂ قرطاس کا ذکر کرتے ہیںاور کبھی وہ قضیۂ فدک کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور اس پر بہت سی جھوٹی باتوں کا اضافہ کرتے ہیں اور اس طرح وہ اپنے افترا پر جسارت کرتے رہے اور جوش میںبے پروا ہوکر بڑھتے رہے۔ اور میں ان سے صحابہؓ، قرآن اور اہل اللہ اور تمام اہلِ عرفان اور امّہات المومنین کی مذمت کی باتیں سنتا تھا۔ لیکن جب مَیں ان کی اصلیت اور ان کا رازِ حقیقت جان گیا تو میں نے ان سے اعراض کیا اور گوشہ نشینی مجھے محبوب ہو گئی اور میرے دل میں بہت سی باتیں تھیں اور میں (اللہ)قاضی الحاجات کی بارگاہ میں مسلسل یہ آہ و زاری کرتا رہا کہ وہ ان بحثوں میں میرے علم میں اضافہ فرما دے۔اس پر مجھے خدائے کریم و حکیم کی طرف سے رشد وہدایت کی تعلیم دی گئی اور خدائے علیم کی طرف سے میری رہنمائی حق کی طرف کی گئی اور یہ میں نے ربّ کائنات سے پایا۔لوگوں کے اقوال سے اخذ نہیں کیا۔ اور ہر شخص مقامِ علم اور صحتِ اعتقادات میں صرف آسمانوں کے خالق کے عطا کردہ علوم کے حصول کے بعد ہی کامل ہوتا ہے اور حضرتِ کبریا کا فضل عظیم ہی غلطی سے محفوظ رکھتا ہے۔ اورکوئی شخص خواہ لمبے عرصہ تک ممتد اپنی ساری عمر فناکر دے وہ خدائے رحمٰن کی نسیمِ معرفت کے چلنے کے بغیر امور کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا۔ وہی سب سے بڑا معلّم اورسب سے زیادہ علم رکھنے والا صاحبِ حکمت ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کر لیتا ہے اور جسے چاہتا ہے عارفوںمیں سے بنا دیتا ہے۔ اسی طرح اللہ نے مجھ پر احسان فرمایا اور مجھے اعلیٰ علوم عطا کئے اور ایسا نور دیا جو شُہَب ثاقِبہ کی طرح شیاطین کا تعاقب کرتا ہے۔ وہ مجھے سخت تاریک رات سے نکال کر ایسے روشن دن کی طرف لے آیا جسے سفید بادل کے ٹکڑے نے ڈھانپا ہوا نہیں تھااور اس نے اپنی بارگاہ سے ہر روکنے والے کو مار بھگایا اور (اس طرح) میں اس کے فضل سے محفوظ ہو گیا۔ مجھے خارقِ عادت فہم عطا کیا گیا اور ایسا نور دیا گیا جو فطرت کو منور کر دیتا ہے اور ایسے اسرار عطا کئے گئے جو حق کے متلاشیوں کو پسند آتے ہیں۔ اور اللہ نے میرے علوم کو تحقیق کے لطیف درلطیف نکات سے رنگین فرمایا اور انہیں شفاف شراب کی طرح صاف کیا اور ہرمسئلہ میں میرے وجدان نے جو فیصلہ کیا اسے اللہ نے اپنی کتاب میں مجھے دکھا دیا تاکہ میرے اطمینان میں اضافہ ہو اور میرا ایمان قوت پائے۔ پس میری آنکھ نے آیات کے ظاہرو باطن اور اُن کے محمولات اورپوشیدہ محاسن کا احاطہ کر لیا اور مجھے محدَّثوں جیسی فراست عطا کی گئی۔ اور میرے ربّ نے مجھے ہرپاکباز اور سعادت مند کے لئے جدید فہم کی مختلف انواع عنایت کیں تاکہ وہ مفاسد جدیدہ کی اصلاح کرے۔اور سعید طبائع کی رہنمائی کرے۔ اوراُس کے علاوہ اورکون ہدایت دے سکتا ہے اور وہ سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔ اس نے زمانہ پر نظرکی اور اہل زمانہ کو اس حال میں پایا کہ وہ ایمان کھو چکے تھے اور انہوں نے کذب و بہتان کو اختیار کر لیا تھا۔ان میں سے جن کے سپرد بھی کوئی امانت کی گئی اس نے خیانت کی اور جس نے بات کی اُس نے جھوٹ بولا۔ پھر اس (خدا) نے میرے دل میں اسرار عظیمہ اور کلماتِ قدیمہ اِلقاء کئے۔اور مجھے نبیوں کا وارث بنا دیا۔ اور فرمایا کہ تو ماموروں میں سے ہے تاکہ تو اس قوم کو ڈرائے جن کے آبا و اجداد کو نہیں ڈرایا گیا تھا، اور تا مجرموں کی راہ واضح ہوجائے۔ ‘‘
… … … … … … …(سِرُّالخلافۃمع اردو ترجمہ صفحہ 20تا25۔شائع کردہ نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان۔ربوہ)