شجرۂ طیبہ
احمدیت محض تخیل پرستی اور انسانی پلاننگ کا کرشمہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے بابرکت ہاتھوں سے لگایا ہوا شجر طیبہ اور خدا تعالیٰ کی بھاری بشارتوں اور پیشگوئیوں کے عین مطابق ہے
لوتھروپ سٹاڈرڈ Loth Rop Stoddard ایک امریکن تاریخ دان اور سفید فام برتری کادعویدار اٹھارھویں صدی میں اسلام کی حالت کو اپنی کتاب The New world of Islam p25.26 میں لکھتا ہے کہ ’’مذہب بھی دیگر اُمور کی طرح پستی میں تھا۔ تصوف کے طفلانہ توہمات نےخالص اسلامی توحید پر پردہ ڈال دیا تھا۔ مسجدیں ویران اور سنسان پڑی تھیں جاہل عوام ان سے بھاگتے تھے اور تعویذ گنڈے میں پھنس کرفقیروں اور دیوانے درویشوں پر اعتقاد رکھتے تھے…قرآن مجید کی تعلیم نہ صرف پس پشت ڈال دی گئی بلکہ اس کی خلاف ورزی بھی کی جاتی تھی….فی الجملہ اسلام کی جان نکل چکی تھی…اگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پھر دُنیا میں آتے تو وہ اپنے پیروؤں کےارتداد اور بت پرستی پر بیزاری کا اظہار فرماتے‘‘۔
ہندوستان کے ایک پرانے لیڈر سیوا جی اپنے ایک خط بنام مہاراجہ جے سنگھ میں لکھتے ہیں:’’ میری تلوار مسلمانوں کے خون کی پیاسی ہے۔ افسوس صد افسوس کہ یہ تلوار مجھے ایک اور مہم کے لئے میان سے نکالنی پڑی۔ اسےمسلمانوں کے سروں پر بجلی بن کر گرنا چاہیے تھا جن کا نہ کوئی مذہب ہے اور نہ جنہیں انصاف کرنا آتا ہے…میری بادلوں کی طرح گرجنے والی فوجیں مسلمانوں پر تلواروں کا وہ خونی مینہ برسائیں گی کہ دکن کے ایک سرے سے لیکر دوسرے سرے تک مسلمان اس سیلاب ِخون میں بہہ جائیں گے، اور ایک مسلمان کا نشان بھی باقی نہیں رہے گا۔‘‘ (سیواجی اردو)
امریکہ کے ایک مشہور عیسائی مناد ڈاکٹر ہینری بیروز اپنے ایک لیکچر میں عیسائیت کی ترقی کا ذکر کرتے ہوئے فاتحانہ انداز میں کہتے ہیں:’’ اب میں اسلامی ملکوں میں عیسائیت کی روز افزوں ترقی کا ذکر کرتا ہوں۔ اس ترقی کے نتیجہ میں صلیب کی چمکار ایک طرف لبنان کی طرف جلوہ فگن ہے تو دوسری طرف فارس کے پہاڑوں کی چوٹیاں اور باسفورس کا پانی اس کے نور سے جگمگ کر رہا ہے، یہ صورتحال اُس آنےوالے انقلاب کا پیش خیمہ ہے جب قاہرہ، دمشق، اور تہران خداوند یسوع مسیح کے خدام سے آباد نظر آئیں گے۔ حتٰی کہ صلیب کی چمکارصحرائے عرب کے سکوت کو چیرتی ہوئی خداوند یسوع مسیح کے شاگردوں کے ذریعہ مکہ اور خاص کعبہ کے حرم میں داخل ہوگی اور بالآخروہاں صداقت کی منادی کی جائے گی‘‘ (بیروز لیکچر 42)مندرجہ بالا دو مثالیں واضح کرتی ہیں ایک طرف ہندوؤں کی طرف سے اور دوسری طرف عیسائیوں کی طرف سے مسلمانوں پر پے در پے حملے ہو رہے تھے جبکہ مسلمان یا تو آپس میں مسلکی جھگڑوں میں الجھے ہوئے تھے یا پھر ایک خونی مہدی کے انتظار میں بُت بنے اپنے اللہ اور اللہ کے رسول پر حملے ہوتے دیکھ رہے تھے۔ تمام مسلمانوں کی آنکھیں ایک گدھے کے انتظار میں لگی ہوئی تھیں جس کی آمد کے ساتھ مہدی و عیسیٰ نے آنا تھا اور اسلام کی دوبارہ فتح کا آغاز ہونا تھا…‘‘ (بیروز لیکچر 42)
ایسے روحانی تاریکی کے دور میں ایک بطلِ جلیل، ایک غریب و بیکس و گمنام و بے ہنر نے مسلمانوں کی حمایت اور اسلام کے دفاع کےلیے کمر کسی، وہ قادیان جیسی چھوٹی سی بستی سے اسلام کی خدمت کے لیے آگے بڑھا۔اس مردِ نر کا نام مرزا غلام احمدؑ (فداہ امی و ابی) تھا۔آپ نے ہر مذہب کا بغور مطالعہ کیا اورآپ کا نچوڑ ’’کوئی دیں دینِ محمد سا نہ پایا ہم نے‘‘ نکلا۔ جس دور میں حضرت مرزا غلام احمدصاحب قادیانیؑ نے آنکھ کھولی اسلام چاروں طرف سے دُشمنوں کے نرغے میں تھا۔ فسق و فجور نے دلوں کو، روحوں کو سیاہ کیا ہوا تھا۔ ہندوستان کے آریہ، برہمو سماج، عیسائی، ہندو بڑھ بڑھ کر اسلام پر حملہ آور ہو رہے تھے۔ نیز اُمتِ محمدیہ سخت تفرقے کا شکار تھی اور حدیث کے عین مطابق بہترفرقوں میں بٹی ہوئی تھی۔ اُمت اسلام کا کوئی پُرسانِ حال نہ تھا۔ زمانے کے حالات چیخ چیخ کر ایک مصلح کو بُلا رہے تھے تا وہاں آئے اور اسلام کی ڈوبتی نیا کو سنبھالے۔ دِلوں کے فاسد مادے نکالے اور روحوں کو الٰہی روشنی سے نہلائے صاف سُتھرا کرے۔
حضرت مرزا صاحب علیہ السلام نے ہندومت اور عیسائیت کی طرف سے اسلام پر کیےجانے والےاعتراضات کے نہایت مدلل جوابات تحریر فرمائے، آپ علیہ السلام نے صرف دفاع پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ حملہ آور مذاہب پر شدید جوابی حملے بھی کیے جس کے نتیجہ میںتھوڑے ہی عرصہ میں اسلام کے پہلوان کی حیثیت سے آپ کا شہرہ ہندوستان کے طول و عرض تک پھیل گیا اور قادیان کے گوشۂ تنہائی میںرہنے والا یہ جوان اُفقِ مذاہب پر ایک روشن چمکتے ہوئے ستارے کی طرح طلوع ہوا…
اب دیکھتے ہو کیسا رجوعِ جہاں ہوا
اِک مرجعِ خواص یہی قادیاں ہوا
حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کی پہلی بنیادی اور حقائق پر مشتمل تصنیف ’’براہین احمدیہ ‘‘مطبوعہ 1880ءنے یکسر میدانِ جہاد کانقشہ بدل دیا اور مذاہب کے درمیان لڑی جانے والی قلمی جنگ میں نئے علمِ کلام کا اضافہ کیا۔ صالح مسلمانوں کا دل اِس براہین سے بلیوںاُچھلنے لگا، مسلمانوں کے بجھتے دلوں میں اُمید کی نئی شمعیں روشن ہونے لگیں۔ ’’براہینِ احمدیہ‘‘ کی اشاعت تک میرے حضرت صاحب علیہ السلام کی زندگی کا دور اگرچہ سراپا خدمتِ اسلام کے لیے وقف تھا۔ تاہم یہ خدمت ایک انفرادی حیثیت رکھتی تھی اور نہ تو آپ علماء کےکسی گروہ کے نمائندہ تھے نہ کسی مسلم سوسائٹی کی طرف سے مقرر تھے۔ اسی طرح اگرچہ براہینِ احمدیہ میں آپ کے الہامات اور رؤیاوکشوف درج ہیں جن سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو بحیثیت مامور خدمتِ اسلام کا فریضہ سونپنے کا ارادہ فرما چکا ہے لیکن اس وقت تک ماموریت کا دعویٰ کرنے کا اور بیعت لینے کا کوئی ارشادِ خداوندی نہیں نازل ہوا تھا لہٰذا معتقدین کی خواہش اور بار بار اصرار کےباوجود آپ ان کو یہی جواب دیتے رہے کہ ابھی اللہ جل شانہ کی طرف سے حکم نازل نہیں ہوا۔
یکم دسمبر 1888ءکو اللہ تعالیٰ سے اِذن پاکر آپ نے پہلی دفعہ بیعت لینے کی خاطر ایک اشتہار شائع کیا جس کا عنوان ’’تبلیغ‘‘ تھا اس کے بعد 12؍جنوری 1889ء کو اپنے فرزندِجلیل حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ کی ولادت والے دن ایک اور اشتہار شائع فرمایا جس میں یکم دسمبر 1888ء کے اشتہار کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے دس شرائطِ بیعت درج فرمائیں۔ اور مومنین کو نصیحت فرمائی کہ ’’استخارہ مسنونہ کے بعد بیعت کےلئے حاضر ہوں‘‘۔
پھر آپؑ قادیان سے لدھیانہ تشریف لے گئے اور 4؍مارچ 1889ءکو لدھیانہ میں ایک اور اشتہار شائع کیا اور بیعت کی غرض بیان کی اور اعلان فرمایا کہ بیعت کرنے کےلیے 20؍ تاریخ کے بعد احباب تشریف لائیں۔ پاک فطرت شریف النفس مومنین ذوق و شوق سے لدھیانہ جمع ہوناشروع ہوگئے۔ 23؍مارچ کو حضرت مرزا صاحب علیہ السلام ایک کمرے میں تشریف فرما ہوئے اور اپنے خادم شیخ حامد علی صاحب کو فرمایا کہ جِسے میں کہتا ہوں اُسے اندر لاتے جائیں۔ چنانچہ سب سے پہلے حضرت مولوی حکیم نور الدینؓ صاحب کو اندر بلوایا گیا اور آپ کی بیعت لی گئی۔
مارچ کی 23؍تاریخ اور 1889ء کا سال وہ تاریخ ساز دِن تھا جب اسلام کے دوبارہ غلبہ کا آغاز لدھیانہ ہندوستان میں حضرت صوفی احمد جان ؒکے گھر کے ایک کمرے میں ہوا۔ اور یہ وجہ ہے کہ 23؍مارچ کا دن جماعتِ احمدیہ میں ایک نہایت اہم دن تصور کیا جاتا ہے کیونکہ اِس دن اللہ تعالیٰ کا ایک عظیم الشان وعدہ جو اللہ تعالیٰ نے اُمت محمدیہ سے کیا تھا وہ پورا ہوا اور حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت ہوئی۔
حضرت مسیح موعودؑ نے جب 1882ء میں ماموریت کا دعویٰ کیا تھا اُس وقت سے تمام مولوی، ہر فرقہ کے علماء عام عوام کو دھوکے سےآپ علیہ السلام کے خلاف بھڑکانے کی کوششیں کرنا شروع ہو گئے اور اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگانا شروع ہوگئےتھے جس کی وجہ سے اکثرکمزور صفت عوام حضرت مسیح موعودؑ کے خلاف ہوگئے مگر وہیں پر مومن صفت لوگ حضرت احمدؑ کی طرف متوجہ ہوئے اور زانوئے تلمذ آپ کےسامنے تہ کیا۔ مرزا صاحب علیہ السلام نے تمام بنی نوع انسان کو اپنی طرف بلایا اور اپنی آمد اور بعثت کو بیان کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ’’مَیں اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ تا ایمانوں کو قوی کروں اور خدا تعالیٰ کا وجود لوگوں پر ثابت کرکے دکھلاؤں، کیونکہ ہر ایک قوم کی ایمانی حالتیںنہایت کمزور ہو گئی ہیں اور عالَمِ آخرت صرف ایک افسانہ سمجھا جاتا ہے۔ اور ہر ایک انسان اپنی عملی حالت سے بتا رہا ہے کہ وہ جیسا کہ یقین دنیا اور دنیا کی جاہ و مراتب پر رکھتا ہے اور جیسا کہ بھروسہ اُس کو دنیوی اسباب پر ہے یہ یقین اور یہ بھروسہ ہرگز اُس کو خدا تعالیٰ اورعالَمِ آخرت پر نہیں۔ زبانوں پر بہت کچھ ہے مگر دلوں میں دنیا کی محبت کا غلبہ ہے۔ حضرت مسیح نے اسی حالت میں یہود کو پایا تھا اورجیسا کہ ضعفِ ایمان کا خاصہ ہے، یہود کی اخلاقی حالت بھی بہت خراب ہو گئی تھی اور خدا کی محبت ٹھنڈی ہو گئی تھی۔ اب میرےزمانے میں بھی یہی حالت ہے۔ سو مَیں بھیجا گیا ہوں کہ تا سچائی اور ایمان کا زمانہ پھر آوے اور دلوں میں تقویٰ پیدا ہو۔ سو یہی افعال میرے وجود کی علّتِ غائی ہیں۔ مجھے بتلایا گیا ہے کہ پھر آسمان زمین کے نزدیک ہو گا، بعد اس کے کہ بہت دُور ہو گیا تھا۔‘‘(کتاب البریہ،روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 291 تا 294 حاشیہ)پھر بعثت مسیح موعودؑ کا اصل منشاء اور مدعا بیان فرماتے ہوئے ایک موقع پر آپؑ نے فرمایا کہ’’ہمارا اصل منشاء اور مدّعا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جلال ظاہر کرنا ہے اور آپ کی عظمت کو قائم کرنا۔ ہمارا ذکر تو ضمنی ہے اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں جذب اور افاضہ کی قوت ہے اور اسی افاضہ میں ہمارا ذکر ہے۔ ‘‘(ملفوظات جلد 3صفحہ269،ایڈیشن1984ء)ایک موقع پر اپنی اِس الٰہی جماعت کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’مجھے بھیجا گیا ہے تاکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کھوئی ہو ئی عظمت کو پھر قائم کروں اور قرآن شریف کی سچائیوں کو دنیا کو دکھائوں اور یہ سب کام ہو رہا ہے لیکن جن کی آنکھوں پر پٹی ہے وہ اس کو دیکھ نہیں سکتے حالانکہ اب یہ سلسلہ سورج کی طرح روشن ہو گیا ہے اور اس کی آیات و نشانات کے اس قدر لوگ گواہ ہیں کہ اگر اُن کو ایک جگہ جمع کیا جائے تو اُن کی تعداد اِس قدر ہو کہ رُوئے زمین پر کسی بادشاہ کی بھی اتنی فوج نہیں ہے‘‘۔ فرمایا کہ’’اس قدر صورتیں اس سلسلہ کی سچائی کی موجود ہیں کہ ان سب کو بیان کرنا بھی آسان نہیں۔چونکہ اسلام کی سخت توہین کی گئی تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسی توہین کے لحاظ سے اس سلسلہ کی عظمت کو دکھایا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد3صفحہ9، ایڈیشن 1988ء)تمام دُنیا کو اسلام کی طرف بُلاتے ہوئے بڑے جلال اور پراثر انداز میں فرمایا کہ ’’اے تمام وہ لوگو جو زمین پر رہتے ہو !اوراے تمام وہ انسانی رُوحو جو مشرق اورمغرب میں آباد ہو!مَیں پورے زورکے ساتھ آپ کو اس طرف دعوت کرتاہوں کہ اب زمین پر سچا مذہب صرف اسلام ہے اورسچا خدا بھی وہی خداہے جو قرآن نے بیان کیا۔ اورہمیشہ کی روحانی زندگی والا نبی اورجلال اورتقدس کے تخت پر بیٹھنے والا حضرت محمد مصطفیٰﷺ ہے‘‘۔ (تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15صفحہ141)
اپنے شعری کلام میں نہایت پُرلطف پیرائے میں یوں گویا ہوئے کہ
ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے
کوئی دیں دین محمد سا نہ پایا ہم نے
کوئی مذہب نہیں ایسا کہ نشاں دکھلائے
یہ ثمر باغ محمدﷺ سے ہی کھایا ہم نے
ہم نے اسلام کو خود تجربہ کرکے دیکھا
نور ہے نور اٹھو دیکھو سنایا ہم نے
(آئینہ کمالات اسلام،روحانی خزائن جلد5 صفحہ 224)
مخالفین نے جب آپؑ کے ایمان و اعتقاد پہ پے درپے حملے کیے تو ان کی تسلی کے لیے واشگاف الفاظ میں اپنے ایمان اور مذہب کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کیا ’’ہمارے مذہب کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ لا الہ الا للہ محمدرسول اللہ ہمارا اعتقاد جو ہم اس دنیوی زندگی میںرکھتے ہیں جس کے ساتھ ہم بفضل و توفیق باری تعالیٰ اس عالم گذران سے کوچ کریں گے یہ ہے کہ حضرت سیدنا و مولانا محمدمصطفی ﷺخاتم النبیین و خیرالمرسلین ہیں جن کے ہاتھ سے اکمال دین ہو چکا… اور ہم پختہ یقین کے ساتھ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن شریف خاتم کتب سماوی ہے۔ ‘‘(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ 170،169)مارچ میں آنے والی بہار میں اگنے والے اِس شجرِ طیبہ کے میٹھے اور پاک پھل کھانے کی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے دس شرائط بیان کیں۔ نیز اُس دور کے اہلِ علم و مرتبہ لوگوں کو معلوم تھا کہ جو بھی مہدی اور مبعوث ہوگا اُس کی بیعت کرنا لازمی ہوگا اِس لیے وہ بارہا آپ سے درخواست کرتے کہ آپ علیہ السلام بیعت لیں اور پھر الٰہی منشاء کے مطابق جب آپ نے بیعت لینا شروع کر دی تو آپؑ اپنی جماعت کو بارہا بیعت کی حقیقت اور مقام کے متعلق نصائح کرتے ہوئے فرماتے کہ ’’یہ بیعت جو ہے اس کے معنے اصل میں اپنے تئیں بیچ دینا ہے۔ اس کی برکات اور تاثیرات اسی شرط سے وابستہ ہیں جیسے ایک تخم زمین میں بویا جاتا ہےتو اس کی ابتدائی حالت یہی ہوتی ہے کہ گویا وہ کسان کے ہاتھ سے بویا گیا اور اس کا کچھ پتہ نہیں کہ اب وہ کیا ہوگا۔ لیکن اگر وہ تخم عمدہ ہوتا ہے اور اس میں نشوونما کی قوت موجود ہوتی ہے تو خدا کے فضل سےاور اس کسان کی سعی سے وہ اُوپر آتا ہے اور ایک دانہ کا ہزاردانہ بنتا ہے۔ اسی طرح سے انسان بیعت کنندہ کو اوّل انکساری اور عجز اختیار کرنی پڑتی ہے اور اپنی خودی اور نفسانیت سے الگ ہونا پڑتاہے تب وہ نشوونما کے قابل ہوتا ہے لیکن جو بیعت کے ساتھ نفسانیت بھی رکھتا ہے اُسے ہر گز فیض حاصل نہیں ہوتا۔‘‘(ملفوظات جلد ششم صفحہ 173)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بہت خواہش تھی کہ ان کی بیعت میں لوگ ہر قسم کے رطب و یابس سے پاک ہوکر شامل ہوں اورمحض دکھاوا اور نری لفاظی نہ ہو بلکہ فطری وفادار اور پرہیز گار وفاشعار لوگ اس الٰہی تحریک میں شامل ہوں اسی غرض سے آپ نے اپنےاشتہار شائع کردہ 4؍مارچ 1889ء میں فرمایا: ’’ یہ سلسلہ بیعت محض بمراد فراہمی طائفہ متقین یعنی تقویٰ شعار لوگوں کی جماعت جمع کرنے کے لئےہے۔ تا ایسا متقیوں کا ایک بھاری گروہ دُنیا پر اپنا نیک اثر ڈالے اور ان کا اتفاق اسلام کے لئے برکت و عظمت و نتائج خیر کا موجب ہواور وہ ببرکت کلمہ واحدہ پر متفق ہونے کے اسلام کی پاک و مقدس خدمات میں جلد کام آسکیں اور ایک کاہل اور بخیل و بےمصرف مسلمان نہ ہوں اور نہ ان نالائق لوگوں کی طرح جنہوں نے اپنے تفرقہ و نا اتفاقی کی وجہ سے اسلام کو سخت نقصان پہنچایا ہے‘‘
احمدیت محض تخیل پرستی اور انسانی پلاننگ کا کرشمہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے بابرکت ہاتھوں سے لگایا ہوا شجر طیبہ اور خدا تعالیٰ کی بھاری بشارتوں اور پیشگوئیوں کے عین مطابق ہے اور حضرت مسیح موعود مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام چودہ سو سال کے محمدی بزرگوں کی التجاؤں اور رقت آمیز دعاؤں کا جواب ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اُمتِ محمدیہ کو عطا فرمایا ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی وہ محفوظ قلعہ ہیںجس میں شامل ہو کر جن کی بیعت کر کے ہر حملہ، شر اور آفت سے محفوظ رہاجا سکتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام تمام احمدیوں کو امن عافیت، محبت اور مقصد بیعت سمجھاتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اے میرے عزیزو! میرے پیارو! میرے درخت وجود کی سرسبز شاخو! جو خداتعالیٰ کی رحمت سے جو تم پر ہے میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو اور اپنی زندگی، اپنا آرام، اپنا مال اس راہ میں فدا کر رہے ہو۔ اگرچہ میں جانتا ہوں کہ میں جو کچھ کہوں تم اسے قبول کرنا اپنی سعادت سمجھو گے اور جہاں تک تمہاری طاقت ہے دریغ نہیں کرو گے لیکن میں اس خدمت کے لئے معین طور پر اپنی زبان سے تم پر کچھ فرض نہیں کر سکتا تا کہ تمہاری خدمتیں نہ میرے کہنے کی مجبور ی سے بلکہ اپنی خوشی سے ہوں۔ میرا دوست کون ہے؟ اور میرا عزیز کون ہے؟وہی جو مجھے پہچانتا ہے۔ مجھے کون پہچانتا ہے صرف وہی جو مجھ پر یقین رکھتا ہے کہ میں بھیجا گیا ہوں۔ اور مجھے اس طرح قبول کرتا ہےجس طرح وہ لوگ قبول کئے جاتے ہیں جو بھیجے گئے ہوں۔ دنیا مجھے قبول نہیں کر سکتی کیونکہ میں دنیا میں سے نہیں ہوں۔ مگر جن کی فطرت کو اس عالم کا حصہ دیا گیا ہے وہ مجھے قبول کرتے ہیں اور کریں گے۔ جو مجھے چھوڑتا ہے وہ اس کو چھوڑتا ہے جس نے مجھے بھیجاہے اور جو مجھ سے پیوند کرتا ہے وہ اس سے کرتا ہے جس کی طرف سے مَیں آیا ہوں۔ میرے ہاتھ میں ایک چراغ ہے جو شخص میرےپاس آتا ہے ضرور وہ اس روشنی سے حصہ لے گا مگر جو شخص وہم اور بدگمانی سے دور بھاگتا ہے وہ ظلمت میں ڈال دیا جائے گا۔ اس زمانہ کا حصن حصین میں ہوں۔ جو مجھ میں داخل ہوتا ہے وہ چوروں اور قزاقوں اور درندوں سے اپنی جان بچائے گا۔ مگر جو شخص میری دیواروں سے دور رہنا چاہتا ہے ہر طرف سے اس کو موت درپیش ہے۔ اور اس کی لاش بھی سلامت نہیں رہے گی۔ مجھ میں کون داخل ہوتا ہے؟ وہی جو بدی کو چھوڑتا ہے اور نیکی کو اختیار کرتا ہے اور کجی کو چھوڑتا اور راستی پر قدم مارتا ہے اور شیطان کی غلامی سے آزادہوتا اور خداتعالیٰ کا ایک بندئہ مطیع بن جاتا ہے۔ ہر ایک جو ایسا کرتا ہے وہ مجھ میں ہے اور میں اس میں ہوں۔ مگر ایسا کرنے پر فقط وہی قادر ہوتا ہے جس کو خداتعالیٰ نفس مزکی کے سایہ میں ڈال دیتا ہے۔ تب وہ اس کے نفس کی دوزخ کے اندر اپنا پیر رکھ دیتا ہے تو وہ ایساٹھنڈا ہو جاتا ہے کہ گویا اس میں کبھی آگ نہیں تھی۔ تب وہ ترقی پر ترقی کرتا ہے یہاں تک کہ خداتعالیٰ کی روح اس میں سکونت کرتی ہےاور ایک تجلی خاص کے ساتھ رب العالمین کا استویٰ اس کے دل پر ہوتا ہے۔‘‘(یعنی اللہ تعالیٰ اس کے دل پر اپنا عکس قائم کرتاہے)’’تب پرانی انسانیت اس کی جل کر ایک نئی اور پاک انسانیت اس کو عطا کی جاتی ہے اور خداتعالیٰ بھی ایک نیا خدا ہو کر نئے اور خاص طور پراس سے تعلق پکڑتا ہے اور بہشتی زندگی کا تمام پاک سامان اسی عالم میں اس کو مل جاتا ہے‘‘۔ (فتح اسلام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 34-35)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے کیےگئے عہدِ بیعت کو نبھانے والا اور شرائطِ بیعت پر مضبوطی سے قائم رہنےوالا بنائے اور تمام دُنیا کو اِس بابرکت شجرِۂ طیبہ کی ٹھنڈی اور پر امن چھاؤں میں بیٹھنے، اپنی زندگیاں جنت نظیر بنانے اور اگلے جہان کی جنتوں کا وارث بنائے۔ اللہ تعالیٰ سب کی مدد فرمائے۔ آمین