خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۹؍دسمبر۲۰۲۲ء
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
٭…حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پُر معارف ارشادات کی روشنی میں حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے مناقب کا ایمان افروز تذکرہ
٭… آپؓ نے اسلام کو زندہ کیااور قیامت تک کے لیے اپنی نیکیوں کا فیضان جاری کردیا
٭…نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ میں سے آپؓ کے سِوا کسی صحابی کا نام صدیق نہیں رکھااور آپؓ کو اپنی زبان مبارک سے صدیق کا لقب عطا کیا
٭… ابوبکر ؓ ایک نادرِ روزگاربخدا انسان تھے جنہوں نے اندھیروں کے بعد اسلام کے چہرے کو تابانی بخشی
٭…مَیں یقین رکھتا ہوں کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابوبکرؓ کا وجود نہ ہوتا تو اسلام بھی نہ ہوتا
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۹؍دسمبر۲۰۲۲ء بمطابق ۹؍فتح۱۴۰۱ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزنے مورخہ ۹؍دسمبر۲۰۲۲ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔
تشہد،تعوذ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
گذشتہ خطبہ جمعہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کچھ اقتباسات حضرت ابوبکرؓ کے بارےمیں پیش کیے تھے اس بارے میں آپؑ کے مزید کچھ ارشادات پیش کرتا ہوں۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ بلاشبہ ابوبکرصدیقؓ اورعمرفاروق ؓ اس کارواں کے امیر تھے جس نے اللہ کی خاطر بلند چوٹیاں سَر کیں او انہوں نے متمدن اور بادیہ نشینوں کو حق کی دعوت دی یہاں تک کہ اُن کی یہ دعوت دُور دراز تک پھیل گئی اور ان دونوں کی خلافت میں بکثرت ثمراتِ اسلام ودیعت کیے گئےاور کئی طرح کی کامیابیوں اور کامرانیوں کے ساتھ کامل خوشبو سے معطر کی گئی اور اسلام حضرت صدیق اکبرؓ کے زمانے میں مختلف اقسام کے فتنوں کی آگ سے عَلم رسیدہ تھااور قریب تھا کہ کھلی کھلی غارت گریاں اُس کی جماعت پر حملہ آور ہوں اور اُس کے لُوٹ لینے پر فتح کے نعرے لگائیں۔ پس عین اُس وقت حضرت ابوبکر ؓکے صدق کی وجہ سے ربِّ جلیل اسلام کی مددکو آپہنچا اور گہرے کنویں سے اُس کا مطاعِ عزیز نکالا۔چنانچہ اسلام بدحالی کے انتہائی مقام سے بہتر حالت کی طرف لوٹ آیا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہ حقیقت ہے کہ حضرت ابوبکر ؓکے اوصاف حمیدہ آفتاب کی طرح درخشندہ ہیں اور جس نے انکار کیا اُس نے جھوٹ بولااور ہلاکت اور شیطان سے جاملا۔ جن لوگوں پر حضرت ابوبکر ؓکا مقام و مرتبہ مشتبہ رہا ایسے لوگ عمداً خطا کار ہیں اور انہوں نے کثیر پانی کو قلیل جانااورایسے شخص کی تحقیر کی جو اوّل درجہ کا مکرم و محترم تھا۔حضرت ابوبکر ؓسے مومنوں کے لیے ہمیشہ فلاح و بہبود ہی ظاہر ہوئی ۔وہ شخص جس نےدنیا سے صرف اسی قدر حصہ لیا جتنا اُس کی ضرورتوں کے لیے کافی تھاپھر کیسے خیال کیا جاسکتا ہے کہ اُس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر ظلم رَوا رکھا ہوگا۔اللہ صدیق اکبرؓ پر رحمتیں نازل فرمائے کہ آپؓ نے اسلام کو زندہ کیااور زندیقوں کو قتل کیااور قیامت تک کے لیے اپنی نیکیوں کا فیضان جاری کردیا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ بلاشبہ اسلام اور مُرسلین کے فخر ہیں۔آپؓ کا جوہر فطرت خیرالبریہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوہر فطرت کے قریب تر تھا۔آپؓ نبوت کی خوشبوؤں کو قبول کرنے کے لیے مستعد لوگوں میں سے اوّل تھے۔آپؓ اُن لوگوں میں سے پہلے تھے جنہوں نے میل سے اَٹی چادروں کو پاک اور صاف پوشاکوں سے تبدیل کردیااور انبیاءکے اکثر خصائل میں انبیاء کے مشابہ تھے۔ہم قرآن کریم میں آپؓ کے ذکر کے سِواکسی اور صحابی کا ذکر بجز ظن و گمان کرنے والوں کے ظن کے قطعی اور یقینی طور پرموجود نہیں پاتے اور ظن وہ چیز ہے جوحق کے مقابلہ پر کوئی حیثیت نہیں رکھتا اور نہ ہی وہ حق کے متلاشیوں کو سیراب کرسکتا ہے اور جس نے آپؓ سے دشمنی کی تو ایسے شخص اور حق کے درمیان ایک ایسا بند دروازہ حائل ہے جو صدیقوں کے سردار کی طرف رجوع کیے بغیر نہ کھلے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ کی رُوح میں صدق و صفا، ثابت قدمی اور تقویٰ شعاری داخل تھی خواہ سارا جہان مرتد ہوجائے آپؓ اُن کی پرواہ نہ کرتے اور نہ پیچھے ہٹتےبلکہ ہر آن ا پنا قدم آگے ہی بڑھاتے گئے اور اسی وجہ سے اللہ نے نبیوں کے فوراً بعد صدیقوں کے ذکر کو رکھا اور فرمایا فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیۡقِیۡنَ وَالشُّہَدَآءِ وَالصّٰلِحِیۡنَ۔اور اس آیت میں صدیق اکبرؓاور آپؓ کی دوسروں پر فضیلت کے اشارے ہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ میں سے آپؓ کے سِوا کسی صحابی کا نام صدیق نہیں رکھاتاکہ وہ آپؓ کےمقام اور عظمتِ شان کو ظاہر کرے۔اس آیت میں سالکوں کے لیے کمال کے مراتب اور اُن کی اہلیت رکھنے والوں کی جانب بہت بڑا اشارہ ہے۔اور جب ہم نے اس آیت پر غور کیا تو یہ منکشف ہوا کہ یہ آیت ابوبکر صدیقؓ کے کمالات پر سب سے بڑی گواہ ہے اور اس میں گہرا راز ہے جو ہر اُس شخص پر منکشف ہوتا ہے جو تحقیق پر مائل ہوتا ہے۔پس ابوبکرؓ وہ ہیں جنہیں رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے صدیق کا لقب عطا کیا گیا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ابن خلدون کہتے ہیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیف بڑھ گئی اور آپؐ پر غشی طاری ہوگئی اور نماز کا وقت ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر ؓسے کہہ دیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھادیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتوں کی وصیت کرنے کے بعد فرمایا کہ ابوبکر ؓکے دروازے کے سِوامسجد میں کھلنے والے سب دروازے بند کردوکیونکہ میں تمام صحابہ میں احسان میں کسی کو بھی ابوبکر ؓسے زیادہ افضل نہیں جانتا ۔پھر ابن خلدون کہتے ہیں کہ اللہ کے لطیف احسانات میں سے جو اُس نے آپؓ پر فرمائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کمال قرب کی جو خصوصیت آپؓ کو حاصل تھی وہ یہ تھی کہ آپؓ اُسی چارپائی پر اُٹھائے گئے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اُٹھایا گیا تھااور آپؓ کی قبر کو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی طرح ہموار بنایا گیااور صحابہ نے آپؓ کی لحد کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لحد کے بالکل قریب بنایا۔آپؓ نے جو آخری کلمہ ادا فرمایا وہ یہ تھاکہ اے اللہ ! مجھے مسلم ہونے کی حالت میں وفات دے اور مجھے صالحین میں شامل فرما۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ابوبکر ؓایک نادرِ روزگاربخدا انسان تھے جنہوں نے اندھیروں کے بعد اسلام کے چہرے کو تابانی بخشی۔ جس نے اسلام کو ترک کیا اُس سے آپؓ نے مقابلہ کیا۔جس نے حق سے انکار کیا آپؓ نے اُس سے جنگ کی اور جو اسلام کے گھر میں داخل ہوگیا تو اُس سے نرمی اور شفقت کا سلوک کیا۔آپؓ نے اشاعت اسلام کے لیے سختیاں برداشت کیں۔آپؓ ہر مدمقابل سے نبردآزما ہونے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے۔آپؓ نے ہر اُس شخص کو جس نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا ہلاک کردیااور اللہ تعالیٰ کی خاطر تمام تعلقات کو پرے پھینک دیا۔آپؓ کی تمام خوشیاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں تھیں۔میں نے صدیق اکبر ؓکو واقعی صدیق پایا اور آپؓ کو تمام اماموں کا امام اور دین اور امت کا چراغ پایا۔بخدا حضرت ابوبکر ؓحرمین میں بھی اور دونوں قبروں میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ہیں۔اس سے میری مُراد ایک تو غار کی قبر ہے اور دوسری وہ قبر ہے جو مدینہ میں خیر البریہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓکا نمونہ ہمیشہ اپنے سامنے رکھو ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس زمانے پر غور کرو کہ جب دشمن قریش ہر طرف سے شرارت پر تُلے ہوئے تھے اور انہوں نے آپؐ کے قتل کا منصوبہ کیا وہ زمانہ بڑا ابتلا کا تھا۔اُس وقت حضرت ابوبکر صدیق ؓنے جو حقِ رفاقت ادا کیا اُس کی نظیر دنیا میں کہیں نہیں پائی جاتی۔یہ طاقت بجز صدق اور ایمان کے ہرگز نہیں آسکتی۔ آج جس قدر تم لوگ بیٹھے ہوئے ہو اپنی اپنی جگہ سوچو کہ اگر اس قسم کا کوئی ابتلا ہم پر آجائے تو کتنے ہیں جو ساتھ دینے کو تیار ہوں۔میں جانتا ہوں کہ یہ بات سُن کر بعض لوگوں کے ہاتھ پاؤں سُن ہوجائیں گے اُن کو فوراً اپنی جائیدادوں اور رشتہ داروں کا خیال آجائے گا کہ ان کو چھوڑنا پڑے گا۔مشکلات کے وقت ہی ساتھ دیناہمیشہ کامل الایمان لوگوں کا کام ہوتا ہے ۔اس لیے جب تک انسان عملی طور پر ایمان کو اپنے اندر داخل نہ کرے محض قول سے کچھ نہیں بنتا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ کے اخلاق پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا اثر پڑا ہوا تھا اور آپؓ کا دل نوریقین سے بھرا ہوا تھا اس لیے وہ شجاعت اور استقلال دکھایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اُس کی نظیر ملنی مشکل ہے۔اُن کی زندگی اسلام کی زندگی تھی ۔مَیں سچ کہتا ہوں کہ حضرت ابوبکر ؓاسلام کے لیے آدمِ ثانی ہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابوبکرؓ کا وجود نہ ہوتا تو اسلام بھی نہ ہوتا۔ابوبکر صدیقؓ کا بہت بڑا احسان ہے کہ اُس نے اسلام کو دوبارہ قائم کیا۔آپؓ صفات نبوت کے تمام انسانوں سے زیادہ حقدار تھےاور خیرالبریہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ بننے کے لیے اولیٰ تھے۔
حضور انور نے آخرمیں فرمایا کہ یہ تھے حضرت ابوبکر صدیق ؓجنہوں نے اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اپنے آپ کو فنا کردیا تھا۔ بدری صحابہ کے ذکر میں یہ آخری ذکر تھا جو اب ختم ہوا ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان صحابہؓ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور جو معیار انہوں نے قائم کیے ہم بھی اُن معیاروں کو قائم کرنے کی کوشش کرنے والے ہوں۔
٭…٭…٭