لجنہ اماء اللہ فرانس کے زیرِ اہتمام پہلا پیس سمپوزیم
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مورخہ 5؍نومبر 2022ء کو لجنہ اماء اللہ فرانس نے اپنے صد سالہ جوبلی جشن تشکر کے سلسلہ وار پروگرام کے تحت اپنا پہلا پیس سمپوزیم مسجد مبارک سینٹ پری میں منعقد کیا۔ اس سمپوزیم کے موضوع ’’ایک عورت کا معاشرتی امن میں کردار‘‘کا انتخاب حضور انور ایدہ اللہ تعا لیٰ بنصرہ العزیز کی امن ِعالم کے لیے ہونے والی عالمگیر کوششوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا۔
اس پروگرام میں 26غیر از جماعت مہمان خواتین نے شرکت کی۔ جن میں ڈائریکٹرمیونسپل، مختلف مذہبی اور سیاسی و سماجی تنظیموں کی نمائندگان، دانشور، ڈاکٹرز، Céline VILLECOURT علاقہ کی میئر، اساتذہ اور دیگر مہمان شامل تھیں۔
پیس سمپوزیم کا پروگرام نیشنل سیکرٹری خدمت خلق محترمہ لیلیٰ بیلا ربی نے پیش کیا۔ موصوفہ نے سب سے پہلے مہمانوں کا گرمجوشی سے استقبال کرتے ہوئےانہیں خوش آمدید کہا۔ پروگرام کا باقاعدہ آغازمحترمہ شازیہ اعجاز صاحبہ نے تلاوت قرآن کریم مع فرنچ ترجمہ سے کیا۔ اس کے بعد لیلیٰ بیلا ربی صاحبہ نے جماعت احمدیہ کا مختصر تعارف اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی امن کاوشوں کے تحت ہونے والے پروگرام، جن میں یوروپین پارلیمنٹ، برٹش پارلیمنٹ، کیپیٹل ہل واشنگٹن، یونیسکو پیرس فرانس وغیرہ شامل ہیں، کی تصویری جھلکیاں دکھائیںجنہیںمہمان خواتین نےبہت دلچسپی سے یہ دیکھا ۔
اس کے بعد پہلی مہمان Agnes de Foe جو ایک سوشیالوجسٹ ہیں ان کامعذرت کا پیغام کہ وہ طبیعت کی خرابی کے باعث نہیں آسکیں، پڑھ کر سنایا گیا۔
دوسری مقررہ مسز امیناتا طورے لجنہ اماء اللہ فرانس نیشنل سیکرٹری تبلیغ تھیں انہوں نے سب سے پہلے اسلام میں عورت کا مقام واضح کیا اور آج کے حالات میں معاشرے میں امن سے پہلے گھروں میں امن کی صورت حال کا جائزہ لینے سے متعلق نصائح کیں۔ انہوں نے لجنہ اماء اللہ میں شامل احمدی مستورات کی سماجی، معاشرتی اور عائلی خدمات کا ذکر بھی کیا۔
اس کے بعد سکھ برادری سے ان کی نمائندہ ہرجیت کور صاحبہ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے کچھ پوائنٹس لکھ کر لائی تھی مگر مسز امیناتا طورے کی تقریر نے تو گویا میرے دل کی تمام باتیں کہہ دی ہیں۔ آج میں پہلی دفعہ آپ کے پاس آئی ہوں۔ مگر مجھے اس قدر خوشی ہو رہی ہے کہ بتا نہیں سکتی کیونکہ آج مجھے پہلی دفعہ محسوس ہوا ہے کہ میں اپنے ہم خیال لوگوں کے درمیان بیٹھی ہوں۔ سکھ مذہب میں بھی امن کی بہت تلقین ہے، چاہے اس کا تعلق فرد سےہو یا معاشرے سے اور ایک عورت کا اس میں کردار جو میرے نزدیک سب سے اہم ہے وہ اگلی نسل کی تربیت ہے اور میں بھی ایک ماں ہوں اور اپنی کمیونٹی میں عورتوں کے لیے کام کرتی ہوں اور محسوس کرتی ہوں کہ بچوں کی تربیت میں بہت سنجیدہ حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے اس کی طرف توجہ نہ کی تو نہ صرف ہمارے گھر بے امن ہوں گے بلکہ اپنا مذہب اور تشخص دونوں گنوادیں گے جو بہت دردناک ہوگا۔
پروگرام کے اختتام پر سینٹ پری کی میئر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں کچھ عرصہ ہوا اس علاقے کی میئر بنی ہوں اور پہلی دفعہ آپ کی مسجد میں آئی ہوں۔ میرے نزدیک کسی بھی معاشرے میں امن کا قیام اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہرفرد کو اظہار خیال کی آزادی ہو اور کسی قسم کا جبر نہ ہو۔ ایک عورت کو بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کسی بھی معاشرے کے فرد کو حاصل ہے۔ عورت چاہے کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتی ہو اس کی آواز کی اہمیت ہونی چاہیے۔ اس کو سنا جانا چاہیے اور اس پر کسی قسم کی زبردستی نہیں ہونی چاہیے۔ پروگرام میں ہونے والی ساری باتیں بہت اہمیت کی حامل ہیں لہٰذا نہ صرف عورتوں بلکہ مردوں کو بھی یہ باتیں سننی چاہئیں۔ دوسرا میں بھی میئر سے پہلے ایک ماں ہوں اور اس بات سے متفق ہوں کہ معاشرے میں امن کا قیام فرد، افراد اور گھروں سے شروع ہوتا ہے۔ جب تک گھروں میں امن نہیں، کہیں بھی امن نہیں ہوسکتا اور ایک گھر میں عورت کا کلیدی کردار ہے۔ بچوں کی تربیت کی بڑی ذمہ داری ماں پر ہے۔ اگر وہ اپنے بچوں کی تربیت اس رنگ میں کرے گی کہ وہ ایک اچھے انسان بنیں، تو ہی وہ معاشرے کے اچھے فرد بن سکیں گے۔ اور میں امید کرتی ہوں کہ انہی اصولوں پر ہم سب کو اپنے اپنے دائرے میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔
پروگرام کے آخر میں مکرمہ فرحت فہیم صاحبہ صدر لجنہ اماء اللہ فرانس نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ مستقبل میں بھی اس قسم کے پروگرام منعقد کرنے ضروری ہیں، تاکہ باہم تعاون و تبادلہ خیال سے کام کو آسان اور معاشرے میں پائیدار امن کو یقینی بنایا جاسکے۔ آخر میں صدر صاحبہ نے دعا کروائی۔
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ پروگرام بہت کامیاب رہا۔ علاوہ ازیں اس موقع پر شعبہ خدمتِ خلق کی طرف سے لگائی جانے والی تصویری نمائش کو مہمانوں نے نہایت دلچسپی سے دیکھا اور لجنہ اماء اللہ کے تمام رفاہی کاموں کو سراہتے ہوئےایک نوٹ بک میں اپنے تاثرات بھی تحریر کیے۔ جماعتی کتب کے سٹال اور قرآن مجید کے مختلف زبانوں میں تراجم کو خاص طور پردلچسپی سے دیکھا گیا۔
پروگرام کے اختتام پر مہمانوں کوریفریشمنٹ پیش کی گئی۔ اس دوران میئر صاحبہ نے صدر صاحبہ لجنہ اماء اللہ، سیکرٹری تبلیغ اور دیگر عاملہ ممبران کے ہمراہ چائے پی اور تبادلہ خیال کرتے ہوئے مختلف سوالات کیے تاکہ ایک دوسرے کو بہتر طور سے جانا جا سکے۔
نمائندہ ایم ٹی اے لجنہ سیکشن نے چند خواتین کے تاثرات بھی لیے جو درج ذیل ہیں:
Madame DIRIL Karine نے کہا کہ میں نے آج کی سہ پہر ایک خوبصورت دوستی اور امن کے ماحول میں گزاری۔ میزبانوں کا گرمجوشی سے استقبال اور مہمان نوازی آپ کے دل میں محبت پیدا کر دیتا ہے۔ مزید کہا کہ مجلس کا ماحول، مختلف تقاریر بہت عمدہ تھیں۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ آپ لوگ آپس میں متحد ہیں۔ انہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کی دو کتب مطالعہ کے لیے لیں۔ اور کہا کہ میں آپ کے قرآن مجید کے مختلف زبانوں میں تراجم سے بہت متاثر ہوئی ہوں۔
Madame LACARNE Rim نے کہا کہ میں ایک مسلمان ہوں۔ اور میں بہت خوش ہوں کہ اس سہ پہر ہم نے مختلف مذاہب کی نمائندگان کی باتیں سنیں۔ میرے خیال میں اس قسم کے مثبت پروگراموں کی ہمیں بہت ضرورت ہے۔
Madame MICHELET Gwendoline نے کہا کہ میں 22 سال کی ایک کیتھولک لڑکی ہوں۔ اوراس قسم کا پروگرام میں پہلی دفعہ دیکھ رہی ہوں۔ جماعت احمدیہ کی خواتین کے پر جوش استقبال اور مہمان نوازی نے مجھے بہت متاثر کیا۔ مختلف مذاہب کی نمائندگان کے پیغامات بھی بہت خوبصورت تھے۔ مگر اسلام میں عورت کا مقام نے مجھے بہت متاثر کیا۔ مجھے اس پروگرام میں عورتوں کے درمیان محبت اور اخوت ہی نظر آئی۔
Madame RHEIN Martine نے کہا کہ مسز امیناتا طورے کی تقریر بہت سادہ مگر دل کو چھو جانے والی تھی۔ ہم سب کے مقاصد ایک ہیں۔ جس کے لیے ہم مختلف ذرائع اور طریقے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ضروری امر یہ ہے کہ ہم تمام مذاہب مل کر محبت اور اخوت سے ان مسائل کے حل تلاش کریں۔
Madame BINTOU Kouma نے کہا کہ میں آپ کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ آپ نے مجھے اس پروگرام میں آنے کی دعوت دی۔ میں نے مسکراتے چہروں، گرم جوشی سے استقبال کرنے والی عورتوں اور مہمان نوازی کے فرائض ادا کرتی خواتین کے ساتھ ایک خوبصورت سہ پہر گزاری۔ جس کے لیے میں آپ کی مشکور ہوں۔
Madame GREAU Florence نے کہا کہ آپ کے دعوت نامے کا بہت بہت شکریہ۔ استقبال بہترین، مہمان نوازی بہترین اور پروگرام بہترین، جس نے میرا دل خوش کر دیا۔ اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی ہوں کہ میں اس مذہب سے کیوں نہیں ہوں؟
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس پروگرام کے نیک اثرات دکھائے اور دنیا اسلام کے پُر امن پیغام کو سمجھنے والی ہو۔ اور لجنہ اماء اللہ کو تمام دنیا میں خدمت اسلام اور خدمت انسانیت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(رپورٹ: نزہت عارف۔ معاونہ صدر لجنہ اماء اللہ فرانس)