خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 31؍ اگست 2018ء
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 31؍ اگست 2018ء بمطابق31؍ظہور 1397 ہجری شمسی بمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن،لندن، یوکے
(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔
حضرت عمیرؓ بن ابی وقاص ایک بدری صحابی تھے جن کی ولدیت ابو وقاص مالک بن اُھَیب تھی۔ ان کی شہادت غزوہ بدر 2ہجری میں ہوئی۔ حضرت عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت سعد بن ابی وقاص کے چھوٹے بھائی تھے اور ابتدائی مسلمانوں میں سے تھے۔ آپ کی والدہ کا نام حمنہ بنت سفیان تھا۔ آپ کا تعلق قریش کے قبیلہ بنوزھرہ سے تھا اور جیسا کہ ذکر ہوا بدر کی جنگ میں انہوں نے شرکت کی اور وہیں ان کی شہادت ہوئی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمیر اور عمرو بن معاذ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی تھی۔ (الاستیعاب جلد 3صفحہ 294 عمیر بن ابی وقاصؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)، (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 79 عمیر بن ابی وقاص مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء) بعض کا خیال ہے کہ حضرت عمیر بن ابی وقاص اور حضرت خبیب بن عدی کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی تھی۔
(عیون الاثر جلد اوّل صفحہ 232 باب ذکر المؤاخات مطبوعہ دار القلم بیروت 1993ء)
ان کی شہادت کے واقعہ کا اور جنگ بدر میں شامل ہونے کا ذکر کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس طرح لکھا ہے کہ مدینہ سے تھوڑی دور نکل کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈیرہ ڈالنے کا حکم دیا اور فوج کا جائزہ لیا۔ کم عمر بچے جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمرکابی کے شوق میں ساتھ چلے آئے تھے ان کو واپس بھیجا گیا۔ سعد بن ابی وقاص کے چھوٹے بھائی عمیر بھی چھوٹی عمر کے تھے۔ کمسن تھے۔ انہوں نے جب بچوں کی واپسی کا حکم سنا تو لشکر میں اِدھر اُدھر چھپ گئے لیکن آخر ان کی باری آئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی واپسی کا حکم دیا۔ یہ حکم سن کر عمیر رونے لگ گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ان کے غیر معمولی شوق کو دیکھ کر انہیں بدر میں شامل ہونے کی اجازت دی۔
(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ ایم اے صفحہ 353)
تاریخ کی ایک اور کتاب میں ان کا ذکر اس طرح ملتا ہے کہ عمرو بن سعد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ قبل اس کے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بدر کی جانب روانہ ہونے کے لئے ہمارا معائنہ فرماتے میں نے اپنے بھائی عمیر بن ابی وقاص کو دیکھا کہ وہ چھپتے پھر رہے تھے۔ اس پر میں نے ان سے پوچھا اے بھائی تمہیں کیا ہوا ہے؟ انہوں نے کہا کہ میں ڈرتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دیکھ لیں گے تو بچہ سمجھ کر واپس بھیج دیں گے۔ میں جنگ کے لئے جانا چاہتا ہوں کہ شاید اللہ تعالیٰ مجھے شہادت عطا فرما دے۔ پس جب یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چھوٹا سمجھ کر واپس جانے کا ارشاد فرمایا تو عمیر رونے لگ گئے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں شامل ہونے کی اجازت دے دی۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 79 عمیر بن ابی وقاصؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء)ان کی تلوار بڑی تھی۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے ان کی تلوار کی نیام باندھی۔(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد4 صفحہ 603مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2005ء( حضرت عمیر بن ابی وقاص غزوہ بدر میں جب شہید ہوئے اس وقت آپ سولہ سال کے تھے۔(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 79 عمیر بن ابی وقاصؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء) سولہ سال کی عمر بھی ایسی تھی جس میں قد کاٹھ بیشک چھوٹا ہو گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عموماً بچوں کو جنگ کی اجازت نہیں دی۔
دوسرے صحابی جن کا ذکر ہو گا وہ ہیں حضرت قطبہ بن عامر۔ یہ انصاری تھے۔ عامر بن حدیدۃ کے بیٹے تھے۔ ان کی وفات حضرت عثمان کے دور خلافت میں ہوئی۔ ان کی والدہ کا نام زینب بنت عمرو ہے۔ آپ کی اہلیہ کا نام حضرت اُمّ ِعمرو ہے جن سے ایک بیٹی حضرت اُمِّ جمیل ہیں۔ بیعت عقبہ اولیٰ اور ثانیہ دونوں میں ہی شامل ہوئے اور آپ اُن چھ انصار صحابہ میں سے ہیں جو مکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے۔ ان سے قبل انصار میں سے کوئی مسلمان نہ ہوا تھا۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 294 قطبہ بن عامرؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء)
ان کے اسلام قبول کرنے کا واقعہ ’سیرت خاتم النبیینؐ‘ میں اس طرح لکھا ہے کہ گیارہ نبوی کے ماہ رجب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ میں یثرب والوں سے یعنی مدینہ والوں سے پھر ملاقات ہو گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسب و نسب پوچھا تو معلوم ہوا کہ قبیلہ خزرج کے لوگ ہیں اور یثرب سے آئے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت محبت کے لہجے میں کہا کیا آپ لوگ میری کچھ باتیں سن سکتےہیں۔ انہوں نے کہا ہاں۔ آپ کیا کہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور ان کو اسلام کی دعوت دی اور قرآن شریف کی چند آیات سنا کر اپنے مشن سے آگاہ کیا۔ ان لوگوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کہا کہ یہ موقع ہے ایسا نہ ہو کہ یہود ہم سے سبقت لے جائیں اور یہ کہہ کر سب مسلمان ہو گئے۔ یہ چھ اشخاص تھے جن کے نام یہ ہیں۔ ابواُمامہ اسعد بن زُرارہ جو بنو نجار سے تھے اور تصدیق کرنے میں سب سے اول تھے۔ عوف بن حارث یہ بھی بنونجار سے تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبدالمطلب کے ننھیال کا قبیلہ تھا۔ رافع بن مالک جو بنوزریق سے تھے۔ جو قرآن شریف نازل ہو چکا تھا وہ اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو عطا فرمایا۔ قطبہ بن عامر جو بنی سلمہ سے تھے اور عقبہ بن عامر جو بنی حرام سے تھے اور جابر بن عبداللہ بن رئاب جو بنی عبید سے تھے۔ اس کے بعد یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے رخصت ہوئے اور جاتے ہوئے عرض کیا کہ ہمیں خانہ جنگیوں نے بہت کمزور کر رکھا ہے اور ہم میں آپس میں بہت نا اتفاقیاں ہیں۔ ہم یثرب میں جاکر اپنے بھائیوں میں اسلام کی تبلیغ کریں گے۔ کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہم کو پھر جمع کردے۔ پھر ہم ہر طرح آپ کی مدد کے لئے تیار ہوں گے۔ چنانچہ یہ لوگ گئے اور ان کی وجہ سے یثرب میں اسلام کا چرچا ہونے لگا۔(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ ایم اے صفحہ 221-222) کہتے ہیں جی اسلام نے آکر پھوٹ ڈال دی!؟ اسلام کی وجہ سے آپس کی پھوٹ اور فساد جو تھے اس کے ختم ہونے کا اظہار ان لوگوں نے کیا اور پھر یہ ہو بھی گیا اور وہی لوگ جو آپس کے دشمن تھے بھائی بھائی بن گئے۔ گزشتہ خطبہ میں بھی ایک مَیں نے ذکر کیا تھا کہ ان لوگوں کا آپس میں بھائی بھائی ہونا دشمن کی آنکھوں میں بڑا کھٹکتا تھا جس کی وجہ سے انہوں نے پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی لیکن پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سمجھانے سے اور آپ کی قوت قدسی سے ایک بھائی چارے کی فضا دوبارہ پیدا ہوئی۔
اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں حضرت قطبہ کا شمار ماہر تیر اندازوں میں ہوتا ہے۔ آپ غزوہ بدر، اُحد، خندق اور دیگر تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوئے۔ غزوہ اُحد میں آپ جوانمردی سے لڑے۔ اس روز آپ کو نو(9) زخم آئے۔ فتح مکہ کے موقع پر بنو سلمہ کا جھنڈا آپ ہی کے ہاتھ میں تھا۔ غزوہ بدر میں حضرت قطبہ کی ثابت قدمی کا یہ عالم تھا کہ آپ نے دو صفوں کے درمیان ایک پتھر رکھا اور کہا کہ میں اس وقت تک نہیں بھاگوں گا جب تک یہ پتھر نہ بھاگے یعنی شرط لگا دی کہ میری جان جائے تو جائے میدان چھوڑ کر میں نے نہیں بھاگنا۔
ان کے بھائی یزید بن عامر تھے جو ستّر انصار کے ساتھ عقبہ میں شامل ہوئے تھے۔ حضرت یزید بدر اور اُحد میں بھی شریک ہوئے اور ان کی اولاد مدینہ اور بغداد میں بھی تھی۔(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 294 قطبہ بن عامرؓ و اخوہ یزید بن عامرؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء) ابو حاتم سے مروی ہے کہ حضرت قطبہ بن عامر نے حضرت عمر کے دور خلافت میں وفات پائی۔ جبکہ ابن حبّان کے نزدیک انہوں نے حضرت عثمان کے دور خلافت میں وفات پائی۔
(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 5صفحہ 338مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2005ء)
تیسرے صحابی جن کا ذکر ہو گا وہ ہیں حضرت شجاع بن وہب جو وہب بن ربیعہ کے بیٹے تھے۔ ان کی وفات جنگ یمامہ میں ہوئی۔ آپ کو شجاع بن ابی وہب بھی کہا جاتا ہے۔ آپ کا خاندان بنو عبدشمس کا حلیف تھا۔ آپ طویل القامت پتلے جسم والے اور نہایت گھنے بالوں والے تھے۔ حضرت شجاع کا شمار ان بزرگ صحابہ میں ہوتا ہے جنہوں نے ابتداء ہی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو لبّیک کہا تھا۔ بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے چھ سال بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایماء پر مہاجرین حبشہ کے دوسرے قافلہ میں شریک ہو کر حبشہ چلے گئے تھے۔ کچھ عرصہ بعد یہ افواہ سن کر کہ اہل مکہ مسلمان ہو گئے ہیں حضرت شجاع حبشہ سے واپس مکہ آ گئے۔ کچھ مدت بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو مدینہ ہجرت کرنے کا اذن دیا تو آپ بھی اپنے بھائی عُقبہ بن وہب کے ساتھ ارض مکہ کو خیر باد کہہ کر مدینہ چلے گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اوس بن خولی کو حضرت شجاع کا دینی بھائی بنایا تھا۔ مؤاخات جو قائم کی تھی اس میں حضرت شجاع کا بھائی بنایا تھا۔ حضرت شجاع بدر، اُحد ،خندق سمیت تمام غزوات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل رہے اور چالیس برس سے کچھ زائد عمر پا کر جنگ یمامہ میں شہادت پائی۔
(اسد الغابہ جلد 2صفحہ 370 شجاع بن وھب مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)،(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 51 شجاع بن وھبؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء)
غزوہ حدیبیہ سے واپس آنے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اکثر سلاطین عالم کو دعوت اسلام کے خطوط روانہ فرمائے تھے۔ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز منبر پر خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے۔ حمد و ثنا کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تم میں سے بعض کو شاہان عجم کی طرف بھیجنا چاہتا ہوں۔ جو غیر عرب بادشاہ ہیں ان کی طرف بھیجنا چاہتا ہوں۔ تم مجھ سے اختلاف نہ کرنا جیسا بنی اسرائیل نے عیسیٰ سے کیا تھا۔ تو مہاجرین نے عرض کیا یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم آپ سے کبھی کچھ اختلاف نہ کریں گے آپ ہمیں بھجوائیے۔(سیرت ابن کثیر صفحہ 421 باب ذکر بعثہ الیٰ کسریٰ ملک الفرس مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2005ء) چنانچہ جن صحابہ کو اس دینی فریضہ کے انجام دینے کی سعادت ملی ان میں حضرت شجاع بن وہب بھی شامل تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت شجاع کو حارث بن ابی شمر غسّانی کی طرف جو دمشق کے قریب مقام غوطہ کا رئیس تھا سفیر بنا کر بھیجا اور بعض کے نزدیک اس کا نام منذر بن حارث بن ابی شمر غسّانی تھا۔ بہرحال آپ نے تبلیغ کا جو خط بھیجا اس کے ابتدائی فقرے یہ تھے کہ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مِنْ مُحَمَّدٍ رَّسُوْلِ اللہِ (صلی اللہ علیہ وسلم) اِلَی الْحَارِثِ ابْنِ اَبِیْ شِمْر۔ سَلَامٌ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی وَ اٰمَنَ بِاللہِ وَصَدَّقَ فَاِنِّیْ اَدْعُوْکَ اِلٰی اَنْ تُؤْمِنَ بِاللہِ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ یَبْقٰی لَکَ مُلْکُکَ۔(شرح زرقانی جلد 5 صفحہ 46 و اما مکاتبتہ علیہ الصلاۃ والسلام الی الملکوک وغیرھم مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء)،(اصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 3 صفحہ 256 شجاع بن وھب مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت) محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حارث بن ابی شمر کی طرف، سلامتی ہے اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے۔ اللہ پر ایمان لائے اور تصدیق کرے۔ بیشک میں تم کو اس خدا پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہوں جو ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی صورت میں تمہاری سلطنت باقی رہے گی۔
حضرت شجاع کہتے ہیں کہ میں خط لے کر روانہ ہوا یہاں تک کہ حارث بن ابی شمر کے محل کے دروازے پر پہنچا وہاں دو تین دن گزر گئے مگر دربار میں رسائی نہیں ہو سکی۔ آخر میں نے وہاں کا جو سیکیورٹی کا انچارج تھا اس سے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایلچی کی حیثیت سے اس کے پاس آیا ہوں۔ تو اس نے کہا کہ یہ جو رئیس ہے وہ فلاں دن باہر آئیں گے اس سے پہلے تم ان سے کسی طرح نہیں مل سکتے۔شجاع کہتے ہیں کہ پھر وہی شخص مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے متعلق پوچھنے لگا۔ میں اسے تفصیلات بتاتا رہا جس سے اس کے دل پر بہت اثر ہوا اور وہ رونے لگا۔ یعنی وہ جو سیکیورٹی انچارج تھا اس علاقے کے بادشاہ یا گورنر یا رئیس کہہ لیں۔ پھر اس نے کہا کہ میں نے انجیل میں پڑھا تھا کہ اس نبی کی بالکل یہی تفصیلات اس میں موجود ہیں۔ مگر میں سمجھتا تھا کہ وہ سرزمین شام میں ظاہر ہوں گے مگر اب معلوم ہوا کہ وہ سر زمین قرظ یعنی یمن کے علاقہ میں ظاہر ہو چکے ہیں۔ بہرحال میں ان پر ایمان لاتا ہوں۔ وہ جو سیکیورٹی انچارج تھا اس نے کہا میں ایمان لاتا ہوں اور ان کی تصدیق کرتا ہوں۔ مجھے حارث بن ابی شمر سے ڈر لگتا ہے کہ وہ مجھے قتل کر دے گا۔ ساتھ اس بات کا اظہار بھی کیا کہ علاقے کا رئیس جو ہے وہ مجھے قتل کر دے گا۔ کہتے ہیں کہ اس کے بعد یہ پہریدار میری بہت عزت کرنے لگا اور بہتر سے بہتر انداز میں میری میزبانی کرتا۔ وہ مجھے حارث کے متعلق بھی اطلاعات دیتا رہتا اور اس کے متعلق مایوسی کا اظہار کرتا۔ کہتا کہ حارث بن ابی شمر اصل میں بادشاہ قیصر سے ڈرتا ہے کیونکہ یہ اسی کی حکومت میں تھا۔ آخر ایک دن حارث باہر نکلا اور دربار میںآ کر بیٹھا۔ اس کے سر پر تاج تھا۔ پھر مجھے حاضری کی اجازت ملی۔ میں نے اس کے سامنے پہنچ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خط اس کے حوالے کیا۔ اس نے وہ خط پڑھا پھر اسے اٹھا کر پھینک دیا اور غضبناک ہو کر کہنے لگا۔ کون ہے جو مجھ سے میری سلطنت چھین سکے۔ میں خود اس کی طرف پیش قدمی کرتا ہوں چاہے وہ یمن میں ہی کیوں نہ ہو۔ میں وہاں اس کے پاس سزا دینے کے لئے پہنچوں گا۔ لوگ فوجی تیار کریں۔ اس نے اپنی انتظامیہ کو حکم دیا کہ تیار ہو۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ الفاظ کہے کہ میں جنگ کے لئے نکلوں گا اور جو خط لکھا ہے وہ دھمکی دی ہے کہ اگر تم باز نہ آئے تو تمہاری حکومت جاتی رہے گی۔ بہرحال کہتے ہیں اس کے بعد حارث بن ابی شمر رات تک وہیں بیٹھا رہا اور لوگ اس کے سامنے پیش ہوتے رہے۔ پھر اس نے گھڑ سواروں کو تیاری کا حکم دیا اور مجھ سے کہا کہ اپنے آقا سے یہاں کا سب حال بتا دینا۔ اس کے بعد اس نے قیصر شاہ روم کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خط کا سارا واقعہ لکھ کر بھجوایا۔ اپنا ایلچی بھجوایا اور یہی باتیں ساری لکھ کر بھجوائیں کہ اس طرح یہ نمائندہ مجھے اسلام کی تبلیغ کرنے آیا ہے۔ حارث بن ابی شمر کا یہ خط قیصر کے پاس اس وقت پہنچا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خط حضرت دحیہ کلبی کے ہاتھ قیصر کو پہنچ گیا تھا۔ قیصر نے حارث کا خط پڑھ کر اسے لکھا کہ اس نبی پر حملے اور پیش قدمی کا خیال چھوڑ دو اور ان سے مت الجھو۔ بہرحال جب قیصر کا یہ جوابی خط حارث کے پاس پہنچا تو اس نے حضرت شجاع کو جو کہ اس وقت تک وہیں ٹھہرے ہوئے تھے بلوایا اور پوچھا کہ تم کب واپس جانے کا ارادہ رکھتے ہو؟ حضرت شجاع نے کہا کل۔ بادشاہ نے اسی وقت آپ کو سو مثقال سونا دلائے جانے کا حکم دیا اور وہ دربان آپ کے پاس آیا۔ وہی جو پہلے سیکیورٹی انچارج تھا ان کے پاس آیا اور اس نے خود کچھ روپیہ اور لباس دیا۔ پھر سیکیورٹی انچارج کہنے لگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں میرا سلام عرض کرنا اور بتانا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کا پیروکار بن چکا ہوں۔ حضرت شجاع کہتے ہیںکہ اس کے بعد جب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شاہ حارث کے متعلق سب حال بتایا۔ آپ نے تمام روداد سن کر فرمایا کہ تباہ ہو گیا یعنی اس کی سلطنت تباہ ہو گئی۔ پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے محل کے دربان مُرّی کا سلام پہنچایا اور اس نے جو کچھ کہا وہ سب کچھ بتلایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس نے سچ کہا۔ سیرۃ الحلبیۃ میں یہ سارا واقعہ بیان ہے۔
(السیرۃ الحلبیہ جلد 3 صفحہ 357-358 باب ذکر کتابہ ﷺ الیٰ الحارث بن ابی شمر مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے تاریخ کی مختلف کتابوں سے لے کر جو باتیں بیان کی ہیں اس میں سے جو چند زائد باتیں ہیں وہ یہ ہیں کہ آپ لکھتے ہیں کہ پانچواں تبلیغی خط ریاست غسان کے فرمانروا حارث بن ابی شمر کے نام لکھا گیا۔ غسان کی ریاست عرب کے ساتھ متصل جانب شمال واقع تھی اور اس کا رئیس قیصر کے ماتحت ہوا کرتا تھا۔ جب حضرت شجاع بن وہب وہاں پہنچے تو حارث اس وقت قیصر کی فتح کے جشن کے لئے تیاری کر رہا تھا۔ جو شاہ روم تھا اس کی فتح کا جشن تھا اس کے لئے وہاں کا رئیس تیاری کر رہا تھا۔ حارث سے ملنے سے پہلے شجاع بن وہب اس کے دربان یعنی مہتمم ملاقات سے ملے۔ وہ ایک اچھا آدمی تھا۔ اس نے شجاع کی زبانی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سن کر فی الجملہ ان کی تصدیق کی۔ بہرحال چند دن کے انتظار کے بعد وہی واقعہ بیان ہوا کہ شجاع بن وہب کو رئیس غسان کے دربار میں رسائی ہو گئی۔ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خط پیش کیا۔ حارث نے خط پڑھ کر غصہ سے پھینک دیا اور نہ صرف غصہ سے پھینک دیا بلکہ جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے فوجوں کو حملہ کے لئے تیاری کا حکم دیا اور اس دوران اس نے قیصر کو بھی یہ خط بھیجا اور یہ بتایا کہ میں فوج کشی کرنے لگا ہوں تو قیصر نے کہا کہ فوج کشی نہ کرو اور مجھے آ کر دربار کی شرکت کے لئے ایلیاء یعنی بیت المقدس میں ملو۔ قیصر نے اس رئیس کو بلایا۔ بہرحال یہ تو معاملہ ان کا وہیں ختم ہو گیا۔ حدیث اور تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ مدینہ میں ایک عرصہ تک اس بات کا خوف رہا کہ غسانی قبائل مسلمانوں کے خلاف کب حملہ کرتے ہیں۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ ایم اے صفحہ 828-829) کافی عرصہ تک یہ خوف رہا۔ اس جواب کی وجہ سے جو شمر نے آپؐ کے صحابی کو دیا تھا۔
ماہ ربیع الاول سنہ 8ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ بنو ہوازن کی ایک شاخ بنو عامر مسلمانوں کے خلاف لڑائی کی تیاری کر رہے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت شجاع کو 24 مجاہدین دے کر ان لوگوں کی سرکوبی پر مامور فرمایا جو مدینہ پہ حملہ کرنے لگے تھے۔ اس وقت بنو عامر کے لوگ مدینہ سے پانچ راتوں کی مسافت پر اَلسِّیّ جو مکہ اور بصرہ کے درمیان ایک مقام ہے اس پر خیمہ لگائے بیٹھے تھے۔ آپ یعنی حضرت شجاع مجاہدین کے ساتھ رات کو سفر کرتے اور دن کو چھپے رہتے یہاں تک کہ اچانک صبح کے وقت بنوعامر کے سر پر جا پہنچے۔ وہ لوگ مسلمانوں کو اچانک اپنے سر پر دیکھ کر بوکھلا گئے باوجود اس کے کہ وہ حملے کی تیاری کے لئے نکلے تھے اور پوری فوج بنا کے نکلے تھے اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ حضرت شجاع نے اپنے مجاہدین کو حکم دیا کہ ان کا تعاقب نہ کریں۔ کوئی ضرورت نہیں تعاقب کرنے کی اور مال غنیمت جو ہے اس زمانے کے رواج کے مطابق جو بھی وہ چھوڑ گئے تھے اونٹ اور بکریاں وہ ہانک کر مدینہ لے آئے۔ مال غنیمت کی کثرت کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ ہر ایک مجاہد کو پندرہ پندرہ اونٹ ملے تھے اور دیگر اسباب و سامان اس کے علاوہ تھا(الطبقات الکبریٰ جلد 2صفحہ313 سریہ شجاع بن وھبؓ الیٰ بنی عامر بالسّی مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء) یعنی کہ وہ حملہ آور جو تھے پوری تیاری کر کے آئے تھے اور جنگ کے سازو سامان سے لیس تھے۔
پھر جن صحابی کا ذکر ہو گا ان کا نام ہے۔ حضرت شماس بن عثمان۔ ان کا پہلے بھی ایک خطبہ میں مختصر ذکر ہو چکا ہے۔ عثمان بن شرید ان کے والد تھے۔ غزوہ اُحد 3ہجری میں ان کی وفات ہوئی ۔ ان کا نام عثمان اور شماس لقب تھا اور اس لقب سے آپ مشہور ہوئے۔ بنو مخزوم میں سے تھے اور اسلام کے آغاز میں ہی مسلمان ہو گئے تھے۔(اسد الغابہ جلد 2صفحہ 393-394 شماس بن عثمانؓ مطبوعہ دار الفکر بیروت 2003ء) ابن ہشام نے حضرت شماس بن عثمان کے نام شمّاس کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ شماس رضی اللہ عنہ کا نام عثمان ہے اور شماس کہلانے کی وجہ یہ ہے کہ عیسائیوں کا ایک مذہبی لیڈر جس کو شماس کہتے ہیں زمانہ جاہلیت میں مکہ آیا۔ وہ عیسائی لیڈر بہت خوبصورت تھا۔ اس کی خوبصورتی کو دیکھ کر مکہ کے لوگ متعجب ہوئے۔ عتبہ بن ربیعہ جو عثمان کے ماموں تھے انہوں نے کہا کہ میں اس شماس سے زیادہ ایک حسین لڑکا تم کو دکھاتا ہوں اور پھر اپنے بھانجے عثمان کو لا کر دکھایا۔ اس وقت سے لوگ عثمان کو شماس کہنے لگے۔ حضرت شماس کا نام شماس ہونے کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ آپ کا نام شماس آپ کے چہرے کی سرخ و سفید رنگت کی وجہ سے تھا گویا کہ آپ سورج کی مانند ہیں۔ پس اس وجہ سے شماس نام آپ کے اصل نام پر حاوی ہو گیا۔
(سیرت ابن ہشام صفحہ 462 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2001ء) (المنتظم فی تاریخ الملوک والامم جلد 3 صفحہ 187 بحوالہ المکتبۃ الشاملہ)
حضرت شماس بن عثمان اور آپ کی والدہ حضرت صفیہ بنت ربیعہ بن عبد شمس حبشہ کی طرف دوسری ہجرت میں شامل تھیں۔ حضرت شماس کی والدہ شَیبہ اور عُتبہ (سرداران مکہ جو غزوہ بدر میں مارے گئے تھے) کی بہن تھیں۔ حضرت شماس بن عثمان نے حبشہ سے واپسی پر مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ حضرت شماس بن عثمان نے مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد حضرت مبشر بن عبد منذر کے ہاں قیام کیا۔ سعید بن مُسَیَّب کہتے ہیں کہ حضرت شماس بن عثمان غزوہ اُحد میں شہید ہونے تک حضرت مبشر بن عبدالمنذر کے ہاں مقیم رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت شماس بن عثمان اور حضرت حنظلہ بن ابی عامر کے درمیان مؤاخات قائم کروائی۔ حضرت شماس کے بیٹے کا نام حضرت عبداللہ تھا اور آپ کی اہلیہ اُمّ حبیب بنت سعید تھیں۔ ابتدائی ہجرت کرنے والی مسلمان خواتین میں سے تھیں۔
(اسد الغابہ جلد 2صفحہ 394مطبوعہ دار الفکر بیروت 2003ء) (سیر الصحابہ جلد دوم صفحہ 324 شماس بن عثمانؓ مطبوعہ دار الاشاعت کراچی )(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 130مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء)
حضرت شماس بن عثمان غزوہ بدر اور اُحد میں شامل ہوئے۔ آپ غزوہ اُحد میں بہت جانفشانی سے لڑے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے شماس بن عثمان کو ڈھال کی مانند پایا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں یا بائیں جس طرف بھی نظر اٹھاتے شماس کو وہیں پاتے جو جنگ اُحد میں اپنی تلوار سے مدافعت کر رہے تھے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر غشی طاری ہو گئی جب آپ پر حملہ ہوا اور پتھر آکے لگا۔ حضرت شماس نے اپنے آپ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ڈھال بنا لیا تھا یہاں تک کہ آپ شدید زخمی ہو گئے اور آپ کو اسی حالت میں مدینہ اٹھا کر لایا گیا۔ آپ میں ابھی کچھ جان باقی تھی۔ آپ کو حضرت عائشہ کے ہاں لے جایا گیا۔ حضرت اُمّ سلمہ نے کہا کہ کیا میرے چچازاد بھائی کو میرے سوا کسی اور کے ہاں لے جایا جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں حضرت اُمّ سلمہ کے پاس اٹھا کر لے جاؤ۔ پس آپ کو وہیں لے جایا گیا اور آپ نے انہی کے گھر وفات پائی۔ وہاں اُحد سےزخمی ہو کے آئے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت شماس کو مقام اُحد میں لے جا کر انہی کپڑوں میں دفن کیا گیا۔ جب جنگ کے بعد آپ کو زخمی حالت میں اٹھا کر مدینہ لایا گیا تھا تو وہاں ایک دن اور ایک رات تک زندہ رہے تھے اور اس دوران کہا جاتا ہے کہ انہوں نے کچھ کھایا پیا نہیں، انتہائی کمزوری کی حالت تھی بلکہ بیہوشی کی حالت تھی۔ حضرت شماس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات 34 سال کی عمر میں ہوئی۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 131مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء)
پھر ایک صحابی حضرت ابو عبس بن جبر ہیں۔ ان کے والد کا نام جبر بن عمرو تھا۔ ان کی وفات 34 ہجری میں ستر سال کی عمر میں ہوئی۔ ان کا اصل نام عبدالرحمٰن تھا اور کنیت ابوعبس تھی۔ آپ کا تعلق انصار کے قبیلہ بنوحارثہ سے تھا۔ زمانہ جاہلیت میں ان کا نام عبدالعزیٰ تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بدل کر عبدالرحمٰن کر دیا تھا۔ عُزّیٰ ان کے بُت کا نام تھا اس لئے بدلا اور عبدالرحمٰن کر دیا۔ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ بدر سمیت تمام غزوات میں شریک رہے۔ کعب بن اشرف یہودی کو جن اصحاب نے قتل کیا یہ بھی ان میں شامل تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوعبس اور حضرت خُنَیس کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔ چونتیس ہجری میں ستر برس کی عمر میں آپ کی وفات ہوئی۔ مکہ میں آپ کی کثیر اولاد موجود تھی۔ حضرت عثمان نے جنازہ پڑھایا اور جنت البقیع میں ان کی تدفین ہوئی۔(اسد الغابہ جلد 5صفحہ 204-205مطبوعہ دار الفکر بیروت 2003ء( (الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 7صفحہ 222مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2005ء( (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 238مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء( حضرت ابو عبس بن جبر کے بارے میں مروی ہے کہ اسلام کی بعثت سے پہلے بھی آپ عربی لکھنا جانتے تھے حالانکہ اس وقت عرب میں لکھنے کا رواج بہت کم تھا۔ حضرت ابو عبس اور حضرت ابوبُردہ بن نَیار نے جب اسلام قبول کیا اس وقت دونوں نے بنوحارثہ کے بتوں کو توڑ دیا تھا۔ حضرت عمر اور حضرت عثمان اُنہیں لوگوں سے صدقہ وصول کرنے کے لئے بھیجا کرتے تھے یعنی کہ مال کا شعبہ بھی ان کے پاس تھا۔(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 238مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء( زمانہ نبوی میں حضرت ابو عبس کی آنکھ کی بینائی چلی گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ایک عصا دیتے ہوئے فرمایا کہ اس سے روشنی حاصل کرو۔ چنانچہ وہ عصاآپ کے آگے روشنی کیا کرتا تھا۔(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 7صفحہ 222مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2005ء( ایک تو یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ یہ سوٹی تمہارے ہاتھ میں ہو گی اور جس طرح نابینا اپنی سوٹی استعمال کرتے ہیں، چلتے ہوئے مدد دے گی۔ لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے روشنی بھی نکلتی ہو اور بعض دفعہ رات کے وقت میں کم نظر آتا ہو تو اس سے روشنی نکلتی ہو کیونکہ بعض اور صحابہ کے بارے میں بھی یہ روایت ملتی ہے کہ بعض دفعہ اندھیرے میں وہ سفر کر رہے ہوتے تھے تو ان کے عصا سے روشنی نکلتی تھی۔(مسند احمد بن حنبل جلد 4صفحہ 693 حدیث 13906 مسند انس بن مالکؓ مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء( بلکہ ایک روایت یہ بھی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تین صحابہ سفر کر رہے تھے اور رات اندھیری تھی تو ان کو بھی اسی طرح اللہ تعالیٰ نے یہ نظارہ دکھایا کہ روشنی ان کے آگے آگے چلتی رہی۔ (ماخوذ)
حضرت ابوعبس کے ایک بیٹے روایت بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوعبس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز ادا کیا کرتے تھے اور پھر اپنے قبیلہ بنو حارثہ کی طرف چلے جایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ ایک اندھیری رات میں جب بارش بھی ہو رہی تھی آپ اپنے گھر کی طرف جا رہے تھے تو آپ کے عصا سے روشنی نکلنا شروع ہو گئی جس نے آپ کے لئے راستے میں روشنی کر دی۔
(المستدرک علی الصحیحین جلد 6 صفحہ 2028 حدیث 5495 مطبوعہ مکتبہ نزار المصطفیٰ الباز)
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کی بیماری کے دوران ان کی عیادت کے لئے تشریف لائے تو یہ بیہوشی کی حالت میں تھے۔ جب افاقہ ہوا تو حضرت عثمان نے کہا کہ آپ اپنے آپ کو کس حالت میں پاتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہم اپنی حالت اچھی دیکھتے ہیں سوائے ایک اونٹ کا گھٹنا باندھنے والی رسّی کے جو ہم سے اور عُمّال سے غلطی سے کھو گئی تھی۔ ابھی تک ہم اس سے خلاصی نہیں پا سکے۔(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 238مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء) یہ عُمّال میں سے تھے جیسا کہ میں نے بتایا کہ مال صدقہ وغیرہ چندہ وغیرہ جمع کرنے کے لئے ان کو بھیجا جاتا تھا۔ ذمہ داری اور ایمانداری کا یہ معیار تھا کہ اونٹ باندھنے والی ایک رسّی غلطی سے گم گئی اور اسی وجہ سے زندگی کے آخر تک بے چین رہے۔ مرض الموت میں بھی خیال آیا تو یہی کہ یہ رسّی جو ہے اگلے جہان میں کہیں ہمارے لئے ابتلا نہ بن جائے۔ تو یہ وہ لوگ تھے جو اللہ تعالیٰ کے خوف اور ایمانداری کے ایسے معیار رکھتے تھے۔
حضرت انس سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ جلدی نماز عصر پڑھنے والا کوئی نہ تھا یعنی وقت کے لحاظ سے پہلے وقت میں نماز عصر پڑھ لیا کرتے تھے۔ انصار میں سے دو آدمی ایسے تھے جن کا گھر مسجد نبوی سے سب سے زیادہ دور تھا۔ ایک حضرت ابولبابہ بن عبدالمنذر تھے جن کا تعلق بنی عمرو بن عوف سے تھا اور دوسرے حضرت ابو عبس بن جبر تھے جن کا تعلق بنوحارثہ سے تھا۔ ابولبابہ کا گھر قبا میں تھا اور حضرت ابوعبس کا گھر بنو حارثہ میںتھا۔اور کافی فاصلے پر دو اڑھائی میل دور تھا۔ یہ دونوں اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے اور جب اپنی قوم میں واپس پہنچتے تو انہوں نے تب تک وہاں نماز عصر نہ پڑھی ہوتی تھی۔(مسند احمد بن حنبل جلد 4صفحہ 607حدیث 12516 مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء) تو یہ ان لوگوں کا تیز چلنے کا معیار بھی ہے اور یہ بھی کہ فاصلہ طے کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھنے آیا کرتے تھے۔
حضرت عبداللہ بن عبس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے اپنے قدم اللہ تعالیٰ کی راہ میں گرد آلود کئے اللہ تعالیٰ نے اس پر آگ حرام کر دی۔(مسند احمد بن حنبل جلد 5صفحہ 469حدیث 16031مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء) یعنی اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے، اللہ تعالیٰ کی رضا پر چلنے والے، اپنے آپ کو مشقت میں ڈالنے والے لوگ اس میں شامل ہیں۔ اور اسی طرح دعوت الی اللہ کے لئے سفر کرنے والے بھی اور وہ لوگ بھی جو ایک لمبے فاصلے سے مسجد میں نماز باجماعت کے لئے آتے ہیں یہ سب لوگ ان لوگوں میں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان لوگوں پر آگ حرام کی گئی ہے۔
پھر ایک صحابی حضرت ابوعقیل بن عبداللہ انصاری تھے۔ عبداللہ بن ثعلبہ ان کے والد کا نام تھا۔ ان کی وفات 12ہجری میں جنگ یمامہ میں ہوئی۔ ان کا نام عبدالرحمٰن اِراشی بن عبداللہ تھا۔ ان کا پرانا نام عبدالعُزَّی تھا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام عبدالرحمن رکھا۔ آپ کا تعلق قبیلہ بَلِیّ کی ایک شاخ بنو اُنَیف سے تھا اور آپ انصار کے خاندان بنو جَحْجَبَا بن کُلفہ کے حلیف تھے۔ آپ کی کنیت ابوعقیل ہے اور آپ اسی سے مشہور ہیں۔ غزوہ بدر، اُحد، خندق غرض تمام غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے۔ جنگ یمامہ میں بارہ ہجری میں حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت میں شہید ہوئے۔(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 248-249مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء) ان کے قبولیت اسلام کا واقعہ یوں بیان ہوا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے تو ایک دن ایک نوجوان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ قبول ایمان کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کا شرف حاصل کیا اور بتوں سے سخت نفرت کا اظہار کیا ۔اس موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تمہارا نام کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ عبدالعُزَّی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ آج سے تمہارا نام عبدالرحمن ہے۔ انہوں نے ارشاد نبوی کے سامنے سرتسلیم خم کر دیا اور سب لوگوں سے کہہ دیا کہ میں اب عبدالعُزَّی نہیں بلکہ عبدالرحمن ہوں۔ آپ کے اجداد میں ایک شخص اِراشہ بن عامر تھا اس کی نسبت سے انہیں اِراشی بھی کہا جاتا ہے۔(آسمان ہدایت کے ستر ستارے از طالب ہاشمی صفحہ 491-492 مطبوعہ البدر پبلی کیشنز اردو بازار لاہور) آپ ان صحابہ کرام میں سے تھے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ کرنے کا حکم فرماتے تو ساری رات یہ کام کرتے اور جو کچھ ملتا وہ صدقہ کر دیتے۔ چنانچہ بخاری میںآپ کے متعلق آتا ہے کہ حضرت ابو مسعود بیان کرتے ہیں کہ جب ہمیں صدقہ کا حکم ہوا تو ہم اس وقت مزدوری پر بوجھ اٹھایا کرتے تھے۔ حضرت ابوعقیل آدھا صاع کھجور مزدوری کے پیسوں میں سے لے کر آئے۔ ایک اور شخص ان سے زیادہ لایا تو اس پر منافق کہنے لگے کہ اللہ تو اس شخص کے صدقے سے بے نیاز ہے اور اس دوسرے شخص نے جو صدقہ کیا وہ محض دکھاوے کے لئے ہے۔ تب یہ آیت نازل ہوئی۔
اَلَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِیْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ فِیْ الصَّدَقٰتِ وَالَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ اِلَّا جُھْدَھُمْ فَیَسْخَرُوْنَ مِنْھُمْ۔ سَخِرَ اللہُ مِنْھُمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۔(التوبۃ79:)
یہ منافق ہیں جو مومنوں میں سے خوشی سے بڑھ بڑھ کر صدقے دینے والوں پر طنز کرتے ہیں اور ان پر بھی جو سوائے اپنی محنت کی کمائی کے کوئی طاقت نہیں رکھتے۔ سو باوجود اس قربانی کے منافق ان پر ہنسی کرتے ہیں اور اللہ ان میں سے اشد مخالفوں کو ہنسی کی سزا دے گا اور ان کو دردناک عذاب پہنچے گا۔
(صحیح البخاری کتاب التفسیر باب الذین یلمزون المطوعین … الخ جلد 10 صفحہ 371 حدیث 4668 شائع کردہ نظار اشاعت ربوہ)
اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ان کےعجیب عجیب نظارے ہیں۔ کس طرح یہ کوشش کرتے تھے اور ان لوگوں کے انہی نمونوں کو قبول کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے بعد میں آنے والوںکو بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی تلقین فرمائی۔
اس واقعہ کی تفصیل علامہ ابن حجر عسقلانی یوں بیان فرماتے ہیں کہ انہیں صاحب الصاع بھی کہتے ہیں یعنی حضرت ابو عقیل کو صاحب الصاع بھی کہا جاتا ہے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف اپنا آدھا مال لے کر آئے۔ انصار کے غریب مسلمانوں میں سے ایک شخص ابو عقیل آگے بڑھے اور کہنے لگے یارسول اللہ میں کھجور کے دو صاع کے عوض رات بھر کنوئیں سے ڈول کھینچتا رہا اور ایک صاع میں نے اپنے گھر والوں کے لئے رکھ دیا ہے اور دوسرا صاع یہ ہے۔ بعض روایتوں میں ایک صاع میں سے نصف صاع دینے کا ذکر ہے۔ یعنی آدھا میں نے گھر رکھ لیا اور آدھا لے کر آیا ہوں۔ تو منافقوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ابو عقیل کے صاع سے غنی ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اَلَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِیْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ فِی الصَّدَقٰتِ وَالَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ اِلَّا جُھْدَھُمْ(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 7صفحہ 233 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2005ء)یعنی یہ منافق ہیں جو مومنوں میںسے خوشی سے بڑھ بڑھ کر صدقہ دینے والوں پر طنز کرتے ہیں اور ان پر بھی جو کہ سوائے اپنی محنت کی کمائی کے کوئی طاقت نہیں رکھتے۔ آپ ہی وہ انصاری صحابی تھے جنہوں نے مسیلمہ کذاب پر آخری وار کیا تھا۔ چنانچہ ابن سعد بیان کرتے ہیں کہ جنگ یمامہ کے دن مسلمانوں میں سب سے پہلے حضرت ابوعقیل اُنَیفی زخمی ہوئے۔ ان کو کندھوں اور دل کے درمیان تیر لگا تھا جو لگ کر ٹیڑھا ہو گیا تھا جس سے وہ شہید نہ ہوئے۔ پھر وہ تیر نکالا گیا۔ ان کی بائیں جانب اس تیر کے لگنے کی وجہ سے کمزوری ہو گئی تھی۔ یہ شروع دن کی بات ہے۔ پھر انہیں اٹھا کر ان کے خیمہ میں لایا گیا۔ جب لڑائی گھمسان کی ہونے لگی اور مسلمانوں کو شکست ہوئی یہاں تک کہ مسلمان پیچھے ہٹتے ہٹتے اپنی قیام گاہوں سے بھی پیچھے چلے گئے۔ اس وقت حضرت ابو عقیل زخمی تھے۔ انہوں نے حضرت مَعْن بن عدی کی آواز سنی وہ انصار کو بلند آواز سے لڑنے کے لئے ابھار رہے تھے کہ اللہ پر بھروسہ کرو۔ اللہ پر بھروسہ کرو اور اپنے دشمن پر دوبارہ حملہ کرو۔ اور حضرت معن لوگوں کے آگے آگے تیزی سے چل رہے تھے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جبکہ انصار کہہ رہے تھے کہ ہم انصار کو دوسروں سے الگ کر دو۔ ہم انصار کو دوسروں سے الگ کر دو۔ چنانچہ ایک ایک کر کے انصار ایک طرف جمع ہو گئے اورمقصد یہ تھا کہ یہ لوگ جم کر لڑیں گے اور بہادری سے آگے بڑھیں گے اور دشمن پر حملہ کریں گے اس سے تمام مسلمانوں کے قدم جم جائیں گے اور حوصلے بڑھ جائیں گے۔
حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ پھر حضرت ابوعقیل انصار کے پاس جانے کے لئے کھڑے ہوگئے۔ زخمی حالت میں تھے، بہت کمزوری تھی لیکن کھڑے ہو گئے۔ میں نے کہا کہ اے ابو عقیل آپ کیا چاہتے ہیں آپ میں لڑنے کی طاقت تو ہے نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس منادی نے میرا نام لے کر آواز لگائی ہے۔ میں نے کہا کہ وہ تو انصار کو بلا رہا ہے نہ کہ زخمیوں کو۔ وہ تو ان لوگوں کو بلا رہا ہے جو لڑنے کے قابل ہوں۔ حضرت ابو عقیل نے کہا کہ انہوں نے انصار کو بلایا ہے اور میں چاہے زخمی ہوں لیکن میںبھی انصار میں سے ہوں اس لئے میں ان کی پکار پر ضرور جاؤں گا چاہے مجھے گھٹنوں کے بل جانا پڑے ۔ حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ حضرت ابو عقیل نے اپنی کمر باندھی اور اپنے دائیں ہاتھ میں ننگی تلوار لی اور پھر یہ اعلان کرنے لگے کہ اے انصار جنگ حنین کی طرح دشمن پر دوبارہ حملہ کرو۔ چنانچہ انصار جمع ہو گئے۔ اللہ ان پر رحم فرمائے۔ اور مسلمان بڑی بہادری کے ساتھ دشمن کی طرف بڑھے یہاں تک کہ دشمن کو میدان جنگ چھوڑ کر باغ میں گھس جانے پر مجبور کر دیا۔ مسلمان اور دشمن ایک دوسرے میں گھس گئے اور ہمارے درمیان اور ان کے درمیان تلواریں چلنے لگیں۔ حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوعقیل کو دیکھا ان کا زخمی ہاتھ کندھے سے کٹ کر زمین پر گرا ہوا تھا اور ان کے جسم پر چودہ زخم تھے جن میں سے ہر زخم جان لیوا تھا اور اللہ کا دشمن مسیلمہ قتل ہو گیا تھا وہ بھی ساتھ ہی پڑا تھا۔ حضرت ابو عقیل زمین پر زخمی پڑے ہوئے تھے اور ان کے آخری سانس تھے۔ میں نے جھک کر ان سے کہا اے ابو عقیل! انہوں نے کہا لبّیک حاضر ہوں اور لڑکھڑاتی ہوئی زبان سے پوچھا کہ فتح کس کو ہوئی ہے؟ میں نے کہا آپ کو خوشخبری ہو کہ مسلمانوں کو فتح ہوئی ہے اور میں نے بلند آواز سے کہا کہ اللہ کا دشمن مسیلمہ کذاب قتل ہو چکا ہے۔ اس پر انہوں نے اللہ کی حمد بیان کرتے ہوئے آسمان کی طرف انگلی اٹھائی اور انتقال فرما گئے۔ اللہ ان پر رحم فرمائے۔ حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ مدینہ واپس آنے کے بعد میں نے حضرت عمر کو ان کی ساری کارگزاری سنائی تو حضرت عمر نے فرمایا اللہ ان پر رحم فرمائے وہ ہمیشہ شہادت مانگا کرتے تھے اور جہاں تک مجھے معلوم ہے وہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بہترین صحابہ میں سے تھے اور شروع میں اسلام لائے تھے۔ یہ حضرت عمر کے الفاظ ہیں۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 249مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء(، (حیاۃ الصحابہ از محمد یوسف کاندھلوی جلد اوّل صفحہ 801تا 803 مطبوعہ مکتبۃ العلم لاہور) اللہ تعالیٰ تمام صحابہ کے درجات بلند فرماتا چلا جائے۔
نماز کے بعد میں دو جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا۔ پہلا جنازہ محترم مولانا عبدالعزیز صادق صاحب مربی سلسلہ بنگلہ دیش کا ہے۔ 26؍جولائی 2018ء کو ان کی وفات ہوئی تھی۔اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ چوتھی جماعت کی تعلیم کے دوران حصول تعلیم کے لئے یہ قادیان چلے گئے جہاں صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں ان کو پرورش پانے کا موقع ملا۔ تقسیم ہند کے بعد بیرونی طلباء کو اپنے اپنے ملک میں واپس جانے کا ارشاد ہوا تو وہ بنگال واپس آ گئے۔ لیکن مرکز واپسی کے لئے بیقرار رہتے تھے۔ پُرخطر حالات میں وہ کلکتہ سے دہلی کے لئے روانہ ہوئے۔ دوران سفر ہندو اور سکھ حیران تھے کہ ایک مسلمان نوجوان اس قسم کے حالات میں ٹرین میں کس طرح اکیلے بے خطر سفر کر رہا ہے۔ بہرحال دہلی پہنچنے کے بعد وہاں کی جماعت نے ان کو ایک فلائٹ میں لاہور بھیجنے کا انتظام کر دیا۔ اس وقت مغربی اور مشرقی پاکستان ایک ہوتے تھے اور وہ بخیریت ربوہ پہنچ گئے۔ جامعہ کی چھ سال کی تعلیم انہوں نے وہاں حاصل کی اور اس کے بعد انہوں نے جامعۃ المبشرین کا مزید تین سال کا کورس مکمل کیا۔ شاہد کی ڈگری حاصل کی اور پھر اس کے بعد پنجاب یونیورسٹی اور پشاور یونیورسٹی سے مولوی فاضل کی ڈگری بھی حاصل کی۔ اس کے بعد پاکستان میں ہی فیصل آباد کی جماعت سمندری میں ان کی تقرری ہوئی۔ 63ء۔ 64ء میں ان کا تبادلہ مشرقی بنگال میں ہو گیا جہاں مختلف جماعتوں میں انہوں نے کام کیا ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے بنگلہ ترجمہ کے لئے ایک بورڈ تشکیل دیا تو محترم قاضی محمد نذیر صاحب کی سفارش پر مولانا عبدالعزیز کا نام بھی اس میں شامل کیا۔ اس میں مظفر الدین بنگالی صاحب اور مولوی محمد امیر بنگالی صاحب بھی ان کے ساتھ کام کرتے تھے اور اس کام کے لئے، ترجمہ کے لئے ربوہ میں مقیم رہے اور اس کے بعد محمد امیر صاحب کی ڈھاکہ منتقلی اور چوہدری مظفر الدین کے انتقال کے بعد اس کام کے لئے 1979ء میں انہیں ڈھاکہ بھیج دیا گیا۔ مولوی محمد صاحب کی رحلت کے بعد آپ اکیلے یہ کام کرتے رہے اور بالآخر صد سالہ جوبلی کے سال بنگلہ ترجمہ قرآن کی چھپوائی مکمل ہوئی۔ ملک کے طول و عرض میں مختلف جگہوں پر مربی اور مبلغ کے طور پر انہوں نے کام کیا۔ تعلیم و تربیت کے کام اور تبلیغی کام کئے۔ متعدد مرتبہ مخالفین کی طرف سے جسمانی زدوکوب کا بھی شکار ہوئے۔ اسیر راہ مولیٰ ہونے کا اعزاز بھی انہیں حاصل رہا۔ 1992ء میں جب بخشی بازار ڈھاکہ جو جماعتی مرکز ہے اس پر دشمن نے حملہ کیا تو اس دوران بڑی جرأت کے ساتھ اکیلے لڑتے رہے اور اس کے نتیجہ میں ان کے سر سمیت تمام جسم پر بہت سے زخم آئے۔
پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ تین بیٹیاں اور دو بیٹے اور متعدد پوتے اور پوتیاں نواسے نواسیاں ہیں۔ ان کی تین بیٹیاں بنگلہ دیش میں مقیم ہیں۔ بیٹوں میں سے ایک امریکہ میں ہیں اور چھوٹے بیٹے حبیب اللہ صادق صاحب یُوکے میں مقیم ہیں اور ایم ٹی اے کے شعبہ نیوز میں کام کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کے بچوں کو بھی ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
دوسرا جنازہ محمد ظفر اللہ صاحب شہید ابن مکرم بشارت احمد صاحب سیدوالا ننکانہ کاہے۔ 29؍اگست کو ضلع ننکانہ میں مغرب کے وقت ان کی دکان پر ڈاکوؤں نے حملہ کیا اور ان کی فائرنگ سے یہ شہید ہو گئے۔
انَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
تفصیلات کے مطابق چھ ڈاکو بڑی تعداد میں جدید اسلحے سے لیس ان کی دکان پر موٹر سائیکلوں پر آئے۔ ان کی سونے کی جیولری کی دکان تھی اس میں داخل ہوئے۔ دکان کو لُوٹا اور لوٹ مار کرنے کے بعد باہر شدید فائرنگ کرتے رہے۔ اس کی وجہ سے باہر بھی ایک راہ گیر جاں بحق ہو گیا۔ جب یہ لوگ مال لُوٹ کر واپس جا رہے تھے اس وقت انہوں نے ظفر اللہ صاحب پر فائرنگ کر دی۔ تین گولیاں چلائیں جس کی وجہ سے وہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے۔ ظفر اللہ صاحب کی دکان پر ان کے علاوہ اور بھی لوگ موجود تھے لیکن انہوں نے صرف ظفر اللہ صاحب کو ہی ٹارگٹ کیا کہ یہ ایک احمدی ہے اس لئے ٹارگٹ کر لو، کوئی فرق نہیں پڑتا، دوہرا ثواب ملے گا۔ مرحوم نہایت خوش اخلاق، ملنسار اور مہمان نواز تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی وفات پر کثیر تعداد میںلوگ تعزیت کے لئے آئے اور بڑی تعداد غیر از جماعت کی بھی تھی۔ موصوف خلافت سے والہانہ محبت کرنے والے تھے۔ ہر تحریک پر لبیک کہنے والے۔ نماز باجماعت کے پابند۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ مرحوم بہادر اور نڈر انسان تھے ۔ اس وقت سیکرٹری تعلیم سیّد والہ کے طور پر خدمت بجا لا رہے تھے۔ ظفر اللہ صاحب کی عمر تیس سال تھی۔ اڑھائی سال قبل مرحوم کی شادی ہوئی تھی۔ ان کا ایک بیٹا عزیزم محمد طلحہ ڈیڑھ سال کا ہے۔ مرحوم نے لواحقین میں اہلیہ، بیٹا اور والدین کے علاوہ ایک بھائی اور پانچ بہنیں سوگوار چھوڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند کرے اور ان سب لواحقین کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے اور ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
٭…٭…٭