جماعت احمدیہ جرمنی کی جیورسٹس ایسوسی ایشن کا چوتھا سالانہ سمپوزیم
(برلن، جرمنی ) جب پاکستان میں کی جانے والی قانون سازی کے نتیجہ میں احمدیوں پر اپنے ملک کی سرزمین پر عبادات اور معاشرتی زندگی کے بسر کرنے میں مشکلات سر اٹھانے لگیں تو بے بس اور مجبور لوگ ہجرت پر مجبور ہوگئے۔
ہجرت کے دو ادوار کے بعد دنیا کے جن ممالک میں مضبوط جماعتیں قائم ہوئیں ان میں جرمنی کا نام نمایاں ہے۔ وطن سے محبت کو مسلمان کے ایمان کا جزو قرار دیا گیا ہے۔ لیکن جب اہل وطن آپ سے دشمنی پر اتر آئیں تو وہاں سے ہجرت کر جانا مجبوری بن جاتا ہے۔ ہجرت کا سفر اتنا آسان بھی نہیں ہوتا لیکن مومن سے ہر مشکل کے بعد آسائش کا وعدہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جن لوگوں نے 1974ء اور پھر 1984ء کے حالات سے مجبور ہوکر جرمنی ہجرت کی اور مشکلات کے ایک طویل دور کا سامنا کیا اللہ تعالیٰ ان کو اپنے انعامات سے نواز رہا ہے۔ جرمنی میں پیدا ہونے اور پروان چڑھنے والی نسل عملی زندگی میں کار ہائے نمایاں ادا کرنے کی طرف گامزن ہے۔ میڈیکل سائنس، انجینیئرنگکے ہر شعبہ، آرکیٹکٹ، قانون غرض ہر شعبہ میں احمدی نوجوان ابھر کر سامنے آرہے ہیں۔ اور خدا کے فضل سے ہر سال ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان تمام شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد نے اپنی اپنی ایسوسی ایشنز بنا کر اپنے آپ کو ایک مربوط رشتہ میں جوڑ رکھا ہے جو جماعت اور خود ان افراد کے لیے فائدہ مند ہے۔
جرمنی میں قانون کے شعبہ سے منسلک احمدی نوجوان طلبہ اور وکلاء کی تعداد ایک سو سے زائد ہے۔ جنہوں نے مل کر 2012ء میں احمدیہ جیورسٹس ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی۔ یہ ایسوسی ایشن قانون میں تعلیم حاصل کرنے والوں کو بھی ممبر شپ کی سہولت مہیا کرتی ہے۔ ممبران میں ایک خاصی تعداد احمدی خواتین کی بھی شامل ہے۔ سال میں ایک بار سمپوزیم کا انعقاد ایسوسی ایشن کے پروگراموں میں سب سے اہم ہے۔
امسال ہونے والا سمپوزیم ایسوسی ایشن کا چوتھا سالانہ سمپوزیم تھا جو 09؍اور 10؍اکتوبر کو مسجد خدیجہ برلن میں منعقد ہوا۔ اس میں پردہ کی رعایت سے خواتین ممبرات بھی شامل ہوئیں۔ ممبران کو سمپوزیم میں آن لائن شامل ہونے کی سہولت بھی مہیا کی گئی تھی۔
09؍اکتوبر 2022ءکو نماز ظہر و عصر کی ادائیگی کے بعد سمپوزیم کا آغاز تلاوت قرآن کریم مع جرمن ترجمہ کے ساتھ ہوا جو ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری مکرم اظہار احمد بنگوی صاحب نے کی۔ تلاوت کے بعد مکرم حسنات احمد صاحب نائب امیر جرمنی نے مختصراً پروگرام کی غرض و غایت اور اس کے مقاصد بیان کیے۔ احمدیہ جیورسٹس ایسوسی ایشن کے صد مکرم نوید منصور صاحب نے مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے سمپوزیم کے پروگراموں کی تفصیل بیان کی۔
ہالینڈ میں قائم بین الاقوامی کریمنل کورٹ میں چیف پراسیکیوٹر مکرم کریم احمد خان صاحب نے ویڈیو لنک پر چالیس منٹ تک حاضرین سے مخاطب ہوکر اپنی قانونی پریکٹس، کریمنل کورٹ میں موجودہ پوزیشن اور اس کی اہمیت کی بابت تعارفی تقریر پیش کی۔ موصوف نے بہت بچپن میں حضرت چودھری ظفراللہ خان صاحب سے خط و کتابت شروع کر دی تھی اور حضرت چودھری صاحب کی شخصیت سے متاثر ہوکر قانون کا پیشہ اختیار کیا۔ حاضرین نے آپ کی تقریر کو بہت دلچسپی سے سنا اور بعد ازاں آپ سے سوالات بھی کیے۔ سوالات میں روس و یوکرائن میں جاری جنگ، نیٹو اور یورپین پالیسی، ایران میں خواتین کے حجاب لینے پر حکومتی سخت پالیسی پر ظاہر ہونے والا عوامی ردعمل اور ان جیسے تازہ موضوعات سے متعلق سوالات شامل تھے۔
صدر ایسوسی ایشن مکرم نوید منصور صاحب نے مہمان مقرر کا شکریہ ادا کرنے کے بعد تنظیم کے انتظامی امور کی تفصیلات بیان کر کے ممبران کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کیا۔ لندن سے تشریف لائے مہمان مکرم آصف عبدالشکور صاحب نے لندن میں قائم سنٹرل لیگل ڈیپارٹمنٹ کا تعارف اور کارکردگی سے سامعین کو متعارف کروایا۔ علاوہ ازیں آپ نے جلسہ سالانہ برطانیہ 2022ء کے موقع پر حاضر ہونے والے احمدی وکلاء کے درمیان جو میٹنگ اسلام آباد میں ہوئی اس سے آگاہی دی۔ شام کے اجلاس میں مکرم شمشاد احمد قمر صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ جرمنی نے نوجوان وکلاء سے خطاب کیا۔ آپ نے حضرت چودھری ظفراللہ خان صاحبؓ کی زندگی کے سبق آموز واقعات بیان کیے۔ حضرت چودھری صاحبؓ جو اپنی دنیاوی حیثیت میں انتہائی بلند مقام پر فائز تھے آپ نے دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا عہد اس طور نبھایا کہ رہتی دنیا تک آپ کی مثال دی جاتی رہے گی۔ ملکہ برطانیہ سے ملاقات کے دوران نماز کا وقت ہوا تو آپ نے ملکہ سے اس کا ذکر کر دیا۔ ملکہ نے بھی آپ کا اور آپ کے مذہبی فریضہ کا احترام کرتے ہوئے آپ کے لیے نماز کی ادائیگی کا انتظام کر دیا۔ پرنسپل صاحب کی ایمان افروز تقریر کے بعد نماز مغرب و عشاء ادا کی گئیں۔ جس کے بعد جماعت برلن نے مہمانوں کے لیے باربی کیو کا انتظام کر رکھا تھا جس سے تمام حاضرین لطف اندوز ہوئے۔
ممبران پارلیمنٹ سے ملاقات
سمپوزیم کے دوسرے روز یعنی 10؍اکتوبر کو احمدی وکلاء کو ممبران پارلیمنٹ سے ملوانے کاپروگرام تھا۔ یہ ملاقاتیں Reichstag بلڈنگ میں ہوئیں جہاں جرمن پارلیمانی کمیٹیوں اور جرمن سینیٹ جس کو Bundestag کہا جاتا ہے کے اجلاسات ہوتے ہیں۔ پہلے برسراقتدار پارٹی سوشل ڈیموکریٹ کی طرف سے ممبر پارلیمنٹ Mr. Helge Lindh سے ملاقات کی گئی۔ موصوف نے جلسہ سالانہ جرمنی 2022ء کے موقع پر منعقد ہونے والے مباحثہ ’’جرمنی میں انتہا پسندی‘‘ میں بھی شرکت کی تھی۔ آج کی ملاقات میں جرمن معاشرے میں اسلام اور اسلامی تنظیموں کا فعال کردار کے حوالے سے گفتگو ہوئی۔ جماعت احمدیہ کی طرف سے کیے جانے والے رفاہ عامہ کے کاموں کی تفصیل سے ممبر پارلیمنٹ کو آگاہ کیا گیا۔
دوسری ملاقات حزب اختلاف کرسچین ڈیموکریٹ یونین کی طرف سے ممبر پارلیمنٹ Mr. Thomas Rachel سے ہوئی۔ یہ اپنی پارٹی میں مذہبی امور کے نگران ہیں۔ انجیلامئرکل کے دور چانسلری میں 16 سال تک بحیثیت پارلیمانی سیکرٹری آف سٹیٹ برائے تعلیم و ریسرچ خدمت سر انجام دے چکے ہیں۔ ان کو احمدیہ جیورسٹس ایسوسی ایشن کی کارکردگی سے متعارف کروایا گیا۔ جرمن معاشرہ میں جماعت احمدیہ کے فعال کردار میں جامعہ احمدیہ کا بھی ذکر آیا۔ جس میں Mr.Thomas Rachel نے خاص دلچسپی لی۔ چنانچہ ان کو جامعہ احمدیہ دیکھنے کی دعوت دی گئی۔ پاکستان میں احمدیوں کو مذہبی عبادات بجالانے میں جن قانونی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور متاثرین کے جرمنی میں بطور پناہ گزین ہونے کی وجوہات پر بھی گفتگو ہوئی۔
دوپہر کے وقفہ کے بعد فیڈرل کمشنر برائے آزادی مذہب و عقیدہ کی نمائندہ خاتون Mrs. Spriestersbach سے اہم میٹنگ ہوئی۔ جس میں جماعت احمدیہ جرمنی کے سیکرٹری امور خارجہ مکرم داؤد احمد مجوکہ صاحب بھی شامل ہوئے۔ اس میٹنگ میں پاکستان میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی اور اس کے احمدیوں کی زندگی پر پڑنے والے اثرات پر تفصیل سے گفتگو ہوئی۔ اسی طرح جرمن حکومت میں وزارت داخلہ اور وفاقی ادارہ برائے مہاجرین نے آبادکاری کے لیے درخواست دینے والوں کے لیے جو پالیسی اپنائی ہوئی ہے اس سے متعلق بعض تجاویز احمدی وکلاء نے حکومتی نمائندہ کے سامنے رکھیں۔ فیڈرل کمشنر برائے مذہبی آزادی Mr. Frank Schwabe جو 2023ء میں پاکستان جانے کا ارادہ رکھتے ہیں ان کو جماعت احمدیہ کے ہیڈ کوارٹر ربوہ کا دورہ کرنے کی درخواست کی گئی۔ فیڈرل کمیشن کی نمائندہ نے احمدی جیورسٹس کی بات کو غور سے سنا اور ساتھ نوٹس لیتی رہیں۔
اس میٹنگ سے فارغ ہوکر ایک دوسرے کو الوداع کہنے سے قبل بلڈنگ کے سامنے کھڑے ہوکر اجتماعی دعا کی گئی اور یوں دو روزہ سمپوزیم اختتام پذیر ہوا۔
(رپورٹ: عرفان احمد خان۔ نمائندہ الفضل انٹرنیشنل)
٭…٭…٭