قرآن کریم

قرآن ِحکیم اور لفّ و نشر مرتب

(غلام مصباح بلوچ۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

بند کتابِ مکنوں میں کتنے نادر موتی ہیں

فلسفہ غرقِ حیرت ہے، حکمت ہے محض تماشائی

قرآن حکیم کا اسلوبِ بیان اور اس کی فصاحت و بلاغت بھی ایک ایسا معجزہ ہے جس نے عرب کے بڑے بڑے مستند اور قادر الکلام سخن وَروں کو اپنا قائل کر لیا اور وہ باوجود دعویٰ زبان دانی کے قرآن کریم کے سامنے خاموش ہوگئے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

‘‘….. اور دَر حقیقت یہ سچ ہے کہ خدا کے کلمات علیحدہ علیحدہ تو وہی کلمات ہیں جو کفار کی زبان پر جاری تھے۔ پھر رنگینیٔ عبارت اور نظمِ کلام اور دیگر لوازم کے لحاظ سے وہی کلمات بحیثیتِ مجموعی ایک معجزہ کے رنگ میں ہوگئے اور جو معجزہ خدا تعالیٰ کے افعال میں پایا جاتا ہے اس کی بھی یہی شان ہے یعنی وہ بھی اپنی حیثیت مجموعی سے معجزہ بنتا ہے جیسا کہ کلام اپنی حیثیت مجموعی سے معجزہ بنتا ہے۔ ہاں خدا تعالیٰ کے منہ سے جو چھوٹے چھوٹے فقرے نکلتے ہیں وہ اپنے مطالب عالیہ کے لحاظ سے جو اُن کے اندر ہوتے ہیں انسانی فقرات سے امتیاز کلّی رکھتے ہیں۔ یہ امر دیگر ہے کہ انسان ان کے پوشیدہ حقائق و معارف تک نہ پہنچے مگر ضرور ان کے اندر انوارِ مخفیہ ہوتے ہیں جو ان کلمات کی روح ہوتے ہیں۔’’

(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21صفحہ 185)

زبان کی صفائی، سلاست، مطالب کی آسانی، استعارہ، تمثیلات وغیرہ غرضیکہ فصاحت و بلاغت کی ہر صنف میں قرآن کریم نے اپنا خوبصورت رنگ دکھایا ہے، انھی میں سے ایک ‘‘لفّ و نشر’’بھی ہے۔

لفّ و نشر کی تعریف

علامہ علی بن محمد بن علی الجرجانی اس کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

‘‘اللَف و النشر ھُوَ أنْ تَلُف شیئین ثُمّ تأْتِی بِتَفْسیرِھِمَا جُملَۃ ثِقۃ بِأَنّ السَّامِع یَرِدُ الیٰ کلّ وَاحِدٍ مِنْھُما مَا لہ۔’’

(التعریفات از علامہ علی بن محمد بن علی الجرجانی( 1339-1414) باب اللام)

مکرم منشی غلام حسنین صاحب قدرؔ بلگرامی شاگرد مرزا غالبؔ اپنی کتاب ‘‘عطر مجموعہ شرح مجموعہ سخن’’ جلد اول میں اس کے متعلق لکھتے ہیں:

‘‘لفّ کے معنی لپیٹنا اور نشر کے معنی پھیلانا اور اصطلاحًا وہ صنعت کہ اول چند چیزوں کو مفصل یا مجمل ذکر کرے اُس کے بعد چند چیزیں اور بیان کرےکہ پہلی چیزوں سے نسبت رکھتی ہوں مگر اس طرح کہ ہر ایک کی نسبت اپنے منسوب الیہ سے مل جائے۔ اس کی دو قسمیں ہیں: اول (لفّ و نشر مرتب) اس کا نشر اپنے لفّ کے موافق ہوتا ہے اور کچھ بھی اس میں اُلٹ پھر نہیں ہوتاجیسے میر رشک صاحب ؎

لب و چشم کا جن کو بیمار دیکھا

کئی بار پوچھا کئی بار دیکھا

یہاں لب کے موافق پوچھنا اور چشم کے موافق دیکھنا علی الترتیب ہے۔ اور کبھی ایک لفّ کی نشر کو پھر لفّ بنا کر پھر نشر اُس کا لاتے ہیں اور ایسے کئی دورے ہواکرتے ہیں…

دوسرے (لفّ و نشر غیر مرتب) اس میں لفّ کے موافق نشر نہیں ہوتا بلکہ اُس کی ترتیب میں بمقابلہ لفّ اختلاف ہوا کرتا ہےجیسے مؤلف کا شعر ؎

روئے پیٹے مرے ماتم میں وہ اتنا اے قدر

ہاتھ کی مہندی چھٹی آنکھ کا سُرما چھوٹا

رونے کے موافق ہاتھ کی مہندی کا چھوٹنا اور پیٹنے کے موافق آنکھ کے سرمے کا چھوٹنا نہیں یعنی اُلٹ پلٹ ہوگیا ہے یہی ترتیب میں اختلاف ہے۔

(مجموعہ عطر حصہ اول صفحہ 166تصنیف سید غلام حسین صاحب واسطی بلگرامی ۔ مطبع نامی منشی نو لکشور لکھنؤ۔ فروری 1881ء )

سید نظیر حسین صاحب سخاؔ دہلوی (وفات: 9؍ فروری 1933ء) لفّ و نشر کی مثال دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
مثلًا :‘‘جب زید کے ہاتھ اور سر خوب ٹوٹیں اور پھوٹیں گے تو باز آئے گا۔ ہاتھ اور سر لفّ ہے اور ٹوٹنا اور پھوٹنا نشر۔ مگر یہ لفّ و نشر مرتب ہے۔ اگر پہلے کو پہلے اور دوسرے کو دوسرے لفظ میں نسبت نہ ہوتی تو یہ لفّ و نشر غیر مرتب ہو جاتا جیسے سر اور ہاتھ ٹوٹے اور پھوٹے گا، سر سے پھوٹنا اور ہاتھ سے ٹوٹنا متعلق ہے یعنی لفّ کے پہلے لفظ کو نشر کے دوسرے لفظ سے تعلق ہے۔’’

(محبوب الشعراء صفحہ 38 مؤلفہ سید نظیر حسن صاحب سخاؔ دہلوی۔ مطبوعہ انصاری پریس دہلی۔ ایڈیشن دوم 1900ء)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی پاکیزہ نظموں میں لفّ و نشر کی مثال یوں ملتی ہے:

خدا کے قول سے قولِ بشر کیونکر برابر ہو

وہاں قدرت یہاں درماندگی فرقِ نمایاں ہے

اس شعر میں ‘‘خدا کے قول’’کی نسبت ‘‘قدرت’’ کے ساتھ اور ‘‘قول بشر’’کی نسبت ‘‘درماندگی’’کے ساتھ ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کےمنظوم کلام میں بھی اس کی مثالیں موجود ہیں، مثلًا:

شاگرد نے جو پایا اُستاد کی دولت ہے

اَحمد کو محمدؐ سے تم کیسے جدا سمجھے

اس مشہور شعر میں بھی لفّ و نشر ہے یعنی شاگرد احمد اور استاد محمد ﷺ ہیں۔

قرآنِ کریم اور لفّ و نشر

لفّ و نشر عربی ادب میں فصاحت و بلاغت کا ایک اسلوب ہے اور قرآن کریم میں بھی یہ اسلوب بیان ہوا ہے، یہ لفّ و نشر دونوں قسم کے ہیں یعنی مرتّب اور غیر مرتّب جس کی مثالیں بیان ہو چکی ہیں ۔

لفّ و نشر مرتب

(1)مَثَلُ الْفَرِيقَيْنِ كَالْأَعْمَىٰ وَالْأَصَمِّ وَالْبَصِيرِ وَالسَّمِيعِۚ هَلْ يَسْتَوِيَانِ مَثَلًاۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ

(سورۃ ھود آیت 25)

اس آیت میں اَلْاَعْمٰی وَ الْاَصَمِّ(اندھا اوربہرہ) اور الْبَصِیْراور السَّمِیْعُ (دیکھنے والا اور سننے والا) مثالیں بیان ہوئی ہیں، علامہ الزمخشری نے یہاں وهو من اللفّ والطباق کا لفظ استعمال فرمایا ہے یعنی اَلْاَعْمٰی وَ الْاَصَمِّ لفّ ہیں اور الْبَصِیْر و السَّمِیْعُ ان کی مطابقت میں ہیں یعنی نشر ہیں۔

(تفسیر الکشاف از علامہ الزمخشری تفسیر سورۃ ھود آیت نمبر 25)

(2)وَمِن رَّحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ لِتَسْكُنُوا فِيهِ وَلِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ

(سورۃ القصص آیت نمبر 73)

علامہ ابن کثیر( متوفّی 774ھ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

{جَعَلَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ} أي خلق هذا وهذا {لِتَسْكُنُواْ فِيهِ} أي في الليل، {وَلِتَبْتَغُواْ مِن فَضْلِه} أي في النهار بالأسفار والترحال، والحركات والأشغال، وهذا من باب اللفّ والنشر.

(تفسیر القرآن العظیم لعلامہ ابن کثیر تفسیر سورۃ القصص آیت نمبر 73)

یعنی اس آیت میں بھی لفّ و نشر بیان ہوا ہے، پہلے بالترتیب رات اور دن کا ذکر کیا اور پھر ‘‘تاکہ تم اس میں آرام کرو’’ کا تعلق رات کے ساتھ اور ‘‘تاکہ تم اس کے فضل میں سے تلاش کرو’’ کا تعلق دن کے ساتھ بیان کیا۔

(3)فَأَنبَتْنَافِيهَا……وَفَاكِهَةًوَأَبًّا۔مَّتَاعًالَّكُمْ وَلِأَنْعَامِكُمْ

( سورۃ عبس آیت نمبر 31-32)

علامہ حسین بن مسعود البغوی (متوفّٰی 516ھ) اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:

‘‘قال عكرمة: ‘‘الفاكهة ’’ما يأكله الناس، و ‘‘الأَبّ’’ما يأكله الدواب. ومثله عن قتادة قال: الفاكهة لكم والأَبُّ لأنعامكم.’’

( تفسير معالم التنزيل/ البغوي سورۃ عبس آیت نمبر 31)

یعنی عکرمہ کہتے ہیں کہ ‘‘الفاكهة ’’جو انسان کھاتے ہیں یعنی پھل اور ‘‘الأَبُّ’’وہ جو جانور کھاتے ہیں یعنی گھاس۔ اور قتادہ نے بھی یہی معنے مراد لیتے ہوئے آیت کا مفہوم یوں بیان فرمایا ہے کہ (اے انسانو ہم نے اس زمین میں پیدا کیا) پھل تمہارے لیے اور گھاس تمہارے چوپائیوں کےلیے۔

لفّ و نشر غیر مرتب

اسی طرح لفّ و نشر غیر مرتب کی مثالیں بھی قرآن کریم میں موجود ہیںمثلًا قرآن کریم میں آتا ہے:

حَتَّىٰ يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتٰی نَصْرُ اللَّـهِ ۔ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّـهِ قَرِيبٌ (البقرۃ: 214)

علامہ فخر الدین رازیؒ (متوفّی 606ھ) اس آیت کی تفسیر میں درج ذیل نکتہ بیان فرماتے ہیں:

‘‘والجواب الثاني: أنه تعالى أخبر عن الرسول والذين آمنوا أنهم قالوا قولاً ثم ذكر كلامين أحدهما: {مَتَىٰ نَصْرُ اللَّهِ} والثاني: {أَلا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ} فوجب إسناد كل واحد من هذين الكلامين إلى واحد من ذينك المذكورين: فالذين آمنوا قالوا: {مَتَىٰ نَصْرُ اللَّهِ} والرسول صلى الله عليه وسلم قال: {أَلا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ} قالوا ولهذا نظير من القرآن والشعر،’’

(التفسیر الکبیر لامام الرازیؒ۔ تفسیر سورۃ البقرۃ آیت نمبر 214)

یعنی اس آیت کی تفسیر میں دوسرا جواب یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اور ایمان لانے والوں کے متعلق خبر دی ہے کہ ان دونوں نے کوئی بات کی اور پھر دو باتیں بیان فرمائی ہیںیعنی { مَتَىٰ نَصْرُ اللَّهِ} اور { أَلا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ }پس یہ دونوں باتیں رسول اور ایمان لانے والوں کی ہیں، جو لوگ ایمان لائے انھوں نے کہا {مَتَىٰ نَصْرُ اللَّه} کہ اللہ تعالیٰ کی مدد کب آئے گی؟ اور رسول نے کہا {أَلا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيب} سنو کہ اللہ تعالیٰ کی مدد قریب ہے۔ (جن لوگوں نے یہ تفسیر کی ہے) وہ کہتے ہیں کہ اس اسلوب (لفّ و نشر ) کی مثال قرآن اور شعرو شاعری میں بھی موجود ہے۔

لفّ ونشر غیر مرتب کے لیے لفّ و نشر معکوس اور لفّ ونشر مشوش کے الفاظ بھی تفاسیر میں استعمال ہوئے ہیں۔ مشوش بھی غیر مرتب کو کہتے ہیں۔ عربی لغت العجم الوسیط لکھتی ہے:

وقول البلاغيين: لَفٌّ ونَشْرٌ مشَوَّش: إيجاز ثم تفصيل على غير ترتيب الموجز۔

(المعجم الوسيط زیر لفظ شَوّشَہٗ)

یعنی کوئی بات اختصار (ایجاز) کے ساتھ بیان کرکے پھر بغیر ترتیب کے اس کی تفصیل بیان کرنے کو لفّ و نشر مشوش کہتے ہیں۔

اس کی مثال قرآن پاک میں یوں بیان ہوئی ہے:

وَقَالُوا لَن يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَن كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ

(البقرة:111)

علامہ ابو حفص سراج الدین عمر بن علی بن عادل الدمشقی الحنبلی (متوفّٰی 880ھ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

‘‘و‘‘أَوْ’’هنا للتَّفْصيل والتنويع؛ لأنه لما لَفَّ الضميرَ في قوله تعالى: ‘‘وقالوا’’: فَصَّل القائلين،….. والتقدير: [وقال اليَهُودُ: لنْ يدخل الجَنَّة إلاَّ من كان هوداً۔وقال النصٰریٰ: لن يدخل إلاَّ من كان نصارى]؛ ….. ونظيره قوله: {وَقَالُواْ كُونُواْ هُوداً أَوْ نَصَارَىٰ}[البقرة:135] إذ معلوم أن اليهود لا تقول: كونوا نصارى، ولا النَّصَارى تقول: كونوا هوداً.’’

(تفسیر اللباب فی علوم الکتاب ۔ ابن عادل ۔ تفسیر سورۃ البقرۃ آیت نمبر111)

یعنی اس آیت میں لفظ ‘‘أو’’تفصیل اور تنویع کے لیے آیا ہے کیونکہ ‘‘و قالوا’’ میں ضمیر کو لفّ کر دیا ہےتو اس کے بعد لفظ ‘‘و قالوا’’ کے فاعل کو کھول دیا ہے اور آیت کا مفہوم یہ ہے کہ یہود نے کہا کہ جنت میں یہودیوں کے سوا اور کوئی نہیں جائے گا اور عیسائیوں نے کہا کہ جنت میں عیسائیوں کے علاوہ اور کوئی نہیں جائے گا….. اور اس کی نظیر سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 135ہے جہاں فرمایا {وَقَالُواْ كُونُواْ هُوداً أَوْ نَصَارَىٰ} (اور انھوں نے کہا کہ یہودی ہو جاؤ یا عیسائی ہو جاؤ)کیونکہ یہ بات معلوم شدہ ہے کہ یہودی یہ نہیں کہتے کہ تم عیسائی ہو جاؤ اور نہ ہی عیسائی یہ کہتے ہیں کہ تم یہودی بن جاؤ۔

سورۃ البقرہ کی آیت نمبر120بھی اسی اسلوب کی مثال ہے جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَلَن تَرْضَىٰ عَنكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُم۔(البقرۃ: 120) 

علامہ ابن عطیہ (متوفّٰی 546ھ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

‘‘وهما مختلفتان بمعنى لن ترضى اليهود حتى تتبع ملتهم ولن ترضى النصارى حتى تتبع ملتهم، فجمعهم إيجازاً ’’

(تفسیر المحرر الوجیز فی تفسیر الکتاب العزیز ۔ زیر سورۃ البقرۃ آیت نمبر 120)

اس آیت میں دونوں (یہود و نصاریٰ) کے بیان مختلف ہیں یعنی یہود ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ تو ان (یہودیوں)کے طریق کی پیروی نہ کرے اور عیسائی ہرگز نہیں مانیں گے جب تک کہ تو ان (عیسائیوں) کے دین پیروی نہ کرے۔ پس بات کو مختصر بناتے ہوئے (حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ) دونوں کو جمع کر دیا۔

جیسا کہ شروع میں بیان ہوا کہ قرآن کریم کا اسلوب لفّ و نشر اپنے اندر بہت سے معانی و مطالب لیے ہوئے ہے۔ قرآن کریم کی مندرجہ بالا آیات میں بیان شدہ لفّ و نشر تو آسان فہم ہے اور لفّ و نشر کے اسلوب سے آگاہی رکھنے والا قرآن مجید کا قاری بآسانی عبارت کی ترتیب کو سمجھ جاتا ہے لیکن اس زمانے کے امام حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام نے قرآن کریم کی بعض دیگر آیات میں بھی لفّ و نشر کے اسلوب کی نشاندہی فرما کے نت نئے معانی و مطالب اور حقائق و معارف بیان فرمائے ہیں جنہیں دیکھ کر حق پسند علمائے دین بھی آپؑ کے حلقۂ بیعت میں آ شامل ہوئے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اپنی تصنیف لطیف براہین احمدیہ میں سورۃ الفاتحہ کی غوطہ خوری کے بعد مندرجہ ذیل موتی دنیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں :

‘‘پھر تیسرا لطیفہ اس سورۃ میں یہ ہے کہ باوجود التزامِ فصاحت و بلاغت یہ کمال دکھلایا ہے کہ محامدِ الٰہیہ کے ذکر کرنے کے بعد جو فقرات دعا وغیرہ کے بارہ میں لکھے ہیں، ان کو ایسے عمدہ طور پر بطور لفّ و نشر مرتب کے بیان کیا ہے جس کا صفائی سے بیان کرنا باوجود رعایت تمام مدارج فصاحت و بلاغت کے بہت مشکل ہوتا ہے اور جو لوگ سخن میں صاحبِ مذاق ہیں وہ خوب سمجھتے ہیں کہ اس قسم کے لفّ و نشر کیسا نازک اور دقیق کام ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ نے اوّل محامد ِالٰہیہ میں فیوض اربعہ کا ذکر فرمایا کہ وہ ربّ العالمین ہے، رحمان ہے، رحیم ہے، مالک یوم الدین ہےاور پھر بعد اس کے فقراتِ تعبّد اور استعانت اور دعا اور طلبِ جزا کو انہیں کے ذیل میں اس لطافت سے لکھا ہے کہ جس فقرہ کو کسی قسم فیض سے نہایت مناسبت تھی اُسی کے نیچے وہ فقرہ درج کیا۔ چنانچہ رَبّ الْعَالَمِينَکے مقابلہ پر إِيَّاكَ نَعْبُدُلکھاکیونکہ ربوبیت سے اسحقاقِ عبادت شروع ہو جاتا ہے پس اسی کے نیچے اور اسی کے محاذات میں إِيَّاكَ نَعْبُدُ کا لکھنا نہایت موزون اور مناسب ہے اور رحمان کے مقابلہ پر إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ لکھا کیونکہ بندہ کے لئے اعانتِ الٰہی جو توفیق عبادت اور ہر یک اس کے مطلوب میں ہوتی ہے جس پر اس کی دنیا اور آخرت کی صلاحیت موقوف ہے یہ اس کے کسی عمل کا پاداش نہیں بلکہ محض صفتِ رحمانیت کا اثر ہے۔ پس استعانت کو صفتِ رحمانیت سے بشدّت مناسبت ہے اور رحیم کے مقابلہ پر اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ لکھا کیونکہ دعا ایک مجاہدہ اور کوشش ہے اور کوششوں پر جو ثمرہ مترتّب ہوتا ہے وہ صفتِ رحیمیت کا اثر ہے اور مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ کے مقابلہ پر صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ لکھا کیونکہ امر مجازات مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ کے متعلق ہےسو ایسا فقرہ جس میں انعام اور عذاب سے بچنے کی درخواست ہے اسی کے نیچے موزوں ہے۔’’

(براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد1صفحہ 577-578حاشیہ)

اسی طرح سورۃ المومنون کی ابتدائی آیات میں مذکور انسانی پیدائش کے روحانی و جسمانی مراتبِ ستّہ والی آیات کی ترتیب میں(لفّ و نشر کا نام لیے بغیر) انتہائی پر معارف مطابقت بیان فرما کےاسے قرآن کریم کا ایک اور علمی معجزہ قرار دیا ہے۔ حضرت اقدس علیہ السلام فرماتے ہیں:

‘‘قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ۔ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ۔ وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ۔ وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ۔ وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ۔ إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ ۔ فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ۔ وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ۔ وَالَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ۔

اور ان کے مقابل جسمانی ترقیات کے مراتب بھی چھ قرار دیے ہیں جیسا کہ وہ ان آیات کے بعد فرماتا ہے :

ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَّكِينٍ۔ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً۔فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً۔ فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا۔ فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا۔ثُمَّ أَنشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ ۚ فَتَبَارَكَ اللَّـهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ۔’’

(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21صفحہ 186-187)

آیات کی ترتیب میں پنہاں ان مراتب کا تعلق حضور علیہ السلام نے بہت مفصل بیان فرمایا ہے اور اس تفصیل کو معلوم کرنے کے لیے براہینِ احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21صفحہ 185-218 قابل مطالعہ ہے۔
سورۃ الضحیٰ میں بھی لفّ و نشر مرتب ہونا اور پھر اس کے مطابق ان آیات کی تفسیر کرنا، یہ بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے علمی کمالات میں سے ایک ہے اور ایک صفحے کی طوالت میں مذکور آپؑ کے بیان فرمودہ حقائق و معارف کا شاہکار ہے۔ حضرت اقدس علیہ السلام عشقِ رسولؐ میں ڈوب کر سورۃ الضحیٰ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

‘‘…..بلکہ آیت کے اس جگہ وہ معنی لینے چاہئیں جو آیت کے سیاق اور سباق سے ملتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ اللہ جلّ شانہٗ نے پہلے آنحضرت صلعم کی نسبت فرمایا أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَىٰ ۔ وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَىٰ ۔ وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَأَغْنَىٰ۔یعنی خدا تعالیٰ نے تجھے یتیم اور بیکس پایا اور اپنے پاس جگہ دی اور تجھ کو ضالّ (یعنی عاشق وجہ اللہ) پایا۔ پس اپنی طرف کھینچ لایا اور تجھے درویش پایا پس غنی کر دیا۔ ان معنوں کی صحت پر یہ ذیل کی آیتیں قرینہ ہیں جو ان کے بعد آتی ہیں یعنی یہ کہ فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلَا تَقْهَرْ ۔وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْهَرْ ۔ وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ۔کیونکہ یہ تمام آیتیں لفّ ونشر مرتب کے طور پر ہیں اور پہلی آیتوں میں جو مُدعا مخفی ہے دوسری آیتیں اُس کی تفصیل اور تصریح کرتی ہیں مثلًا پہلے فرمایا أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَىٰ۔ اس کے مقابل پر یہ فرمایا فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلَا تَقْهَر یعنی یاد کر کہ تو بھی یتیم تھا اور ہم نے تجھ کو پناہ دی ایسا ہی تو بھی یتیموں کو پناہ دے۔ پھر بعد اس آیت کے فرمایا وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَىٰ اس کے مقابل پر فرمایا وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْهَریعنی یاد کر کہ تو بھی ہمارے وصال اور جمال کا سائل اور ہمارے حقائق اور معارف کا طالب تھا سو جیسا کہ ہم نے باپ کی جگہ ہو کر تیری جسمانی پرورش کی ایسا ہی ہم نے استاد کی جگہ ہو کر تمام دروازے علوم کے تجھ پر کھول دیے اور پنے لقا کا شربت سب سے زیادہ عطا فرمایا اور جو تونے مانگا سب ہم نے تجھ کو دیا سو تو بھی مانگنے والوں کو ردّ مت کر اور ان کو مت جھڑک اور یاد کر کہ تو عائل تھا اور تیری معیشت کے ظاہری اسباب بکلّی منقطع تھے سو خدا خود تیرا متولّی ہوا اور غیروں کی طرف حاجت لے جانے سے تجھے غنی کر دیا، نہ تو والد کا محتاج ہوا نہ والدہ کا نہ استاد کا اور نہ کسی غیر کی طرف حاجت لے جانے کا بلکہ یہ سارے کام تیرے خدا تعالیٰ نے آپ ہی کر دیے اور پیدا ہوتے ہی اس نے تجھ کو آپ سنبھال لیا۔ سو اُس کا شکر بجا لا اور حاجت مندوں سے تو بھی ایسا ہی معاملہ کر۔ اب ان تمام آیات کا مقابلہ کر کے صاف طور پر کھلتا ہے کہ اس جگہ ضالّ کے معنے گمراہ نہیں ہے بلکہ انتہائی درجہ کے تعشق کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ حضرت یعقوب کی نسبت اسی کے مناسب یہ آیت ہے إِنَّكَ لَفِي ضَلَالِكَ الْقَدِيمِ۔’’

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد نمبر 5صفحہ 170-173)

قرآن پاک خدائے علیم و حکیم کی کتاب ہے جو علم و حکمت کا ایک بحر ذخّار ہے، ایک مسلمان کا فرض ہے کہ خود بھی باقاعدگی کے ساتھ اس علم و حکمت کے خزانے کو کھولتا رہے اور اس کے علاوہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام، خلفاء سلسلہ اور بزرگانِ سلف کا بھی مطالعہ کرے تا ان معارف کو پا سکے جہاں عام انسانی عقل نہیں جاتی۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

‘‘قرآن شریف وہ کتاب ہے جس نے اپنی عظمتوں، اپنی حکمتوں، اپنی صداقتوں، اپنی بلاغتوں، اپنے لطائف و نکات اپنے انوار روحانی کا آپ دعویٰ کیا ہے اور اپنا بے نظیر ہونا آپ ظاہر فرما دیا ہے۔ یہ بات ہرگز نہیں کہ صرف مسلمانوں نے فقط اپنے خیال میں اُس کی خوبیوں کو قرار دے دیا ہے بلکہ وہ تو خود اپنی خوبیوں اور اپنے کمالات کو بیان فرماتا ہے اور اپنا بے مثل و مانند ہونا تمام مخلوقات کے مقابلہ پر پیش کر رہا ہے اور بلند آواز سے ھل من معارض کا نقارہ بجا رہا ہے اور دقائق حقائق اس کے صرف دو تین نہیں جس میں کوئی نادان شک بھی کرے بلکہ اس کے دقائق تو بحرِ زخار کی طرح جوش مار رہے ہیں اور آسمان کے ستاروں کی طرح جہاں نظر ڈالو چمکتے نظر آتے ہیں۔ کوئی صداقت نہیں جو اس سے باہر ہو، کوئی حکمت نہیں جو اِس کے محیط بیان سے رہ گئی ہو، کوئی نور نہیں جو اس کی متابعت سے نہ ملتا ہو اور یہ باتیں بلا ثبوت نہیں۔’’

(براہین احمدیہ ہر چہار حصص، روحانی خزائن جلد 1صفحہ 662-664حاشیہ نمبر 11)

(نوٹ: اس مضمون میں قرآنی آیات کا نمبرتفسیری حوالوں کی وجہ سے غیر احمدی تفاسیر کے مطابق ہی رکھا گیا ہے یعنی بسم اللہ کو نکال کر۔)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button