کرسمس کی حقیقت اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یوم پیدائش
یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ دنیا میں انسان کسی بھی مذہب، گروہ، فرقہ، قوم یا ملک سے ہو، ا سے خوشی چاہیے۔ وہ خوش ہونا، ہنسنا اور مسکرانا چاہتا ہے، وہ تہوار منانا چاہتا ہے۔ مذہب انسان کی اس فطرت سے واقف ہے، لہٰذا وہ اسے تقریبات،عیدوں اور تہواروں کی اجازت دیتا ہے۔
انسانی فطرت میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ جب وہ خوش ہوتا ہے تو اکثر و بیشتر حدود اللہ سے تجاوز کر جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آسمانی مذاہب نے ان تقریبات، عیدوں اور تہواروں کو پاکیزہ رکھنے کی ہمیشہ تاکید کی ہے۔لیکن انسان کی خواہشِ نفس کی تکمیل کے آگے جہاں مقدس الہامی کتب اور صحائف نہ بچ سکے، وہاں یہ عیدیں اور تہوار کیا چیز ہیں؟
کرسمس دو الفاظ کرائیسٹ اور ماس کا مرکب ہے۔ ان الفاظ میں سے کرائیسٹ یسوع یعنی مسیح کو کہتے ہیں اور ماس کا مطلب ہے اکٹھا ہونا یعنی مسیح کے لیے اکھٹا ہونا گو کرسمس سے مراد حضرت عیسیؑ کا یوم ولادت منانا ہے دنیا کے مختلف خطوں میں کرسمس کو مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا ہے اور عالم عیسائت میں بڑے بڑے مسیحی فرقے ایک مذہبی تہوار کے طور پر کرسمس کو بڑے دھوم دھام سے مناتے ہیں۔
کرسمس کا لفظ تقریباً چوتھی صدی کے قریب قریب استعمال ہوا ۔ اس سے پہلے اس لفظ کا استعمال کہیں نہیں ملتا۔ دنیا کے مختلف خطوں میں ’کرسمس‘ کو مختلف ناموں سے یاد کیا۔ اسے یول ڈے نیٹوئی (پیدائش کا سال)اور نوائل (پیدائشی یا یوم پیدائش)جیسے ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے؟ ’بڑا دن‘ بھی کرسمس کا مروّجہ نام ہے یہ یومِ ولادت مسیح کے سلسلے میں منایا جاتا ہے کیونکہ مسیحیوں کے لیے یہ ایک اہم اور مقدس دن ہے، اس لیے اسے بڑا دن کہا جاتا ہے۔
نہ صرف مسیح کی تاریخ پیدائش بلکہ سنہ پیدائش کے حوالے سے بھی مسیحی علماء میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ عام خیال ہے کہ سنہ عیسوی مسیح کی پیدائش سے شروع ہوتا ہے مگر ’قاموس الکتاب ‘اور دیگر مسیحی کتب کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح کی ولادت باسعادت4یا6ق م میں ہوئی۔ قاموس الکتاب میں یہ تاریخ 4ق م دی گئی ہے جبکہ مائیکل ہارٹ ’’The Hundred” میں 6ق م تسلیم کرتا ہے۔ پیدائش کے دن کے حوالے سے بھی شدید اختلاف ہے۔ رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کلیسا اس دن کو 25؍دسمبر، مشرقی آرتھوڈوکس کلیسا 6؍جنوری اور ارمنی کلیسا 19؍جنوری کو مناتا ہے۔کرسمس کے تہوار کا 25؍دسمبر کو ہونے کا ذکر پہلی مرتبہ شاہِ قسطنطین (جو چوتھی صدی عیسوی میں بت پرستی ترک کر کے عیسائیت میں داخل ہو گیا تھا )کے عہد میں 325عیسوی میں ہوا۔ یہ بات صحیح طور پر معلوم نہیں کہ اوّلین کلیسا ’بڑا دن‘ مناتے بھی تھے یا نہیں۔
عیسائی سکالرز 13 جلدوں پر مشتمل بائبل کی ایک ضخیم تفسیر میں لکھتے ہیں کہ تیسری صدی عیسوی کے آغاز تک چرچ کے مختلف علاقوں میں 6؍جنوری کو یوم ولادت مسیحؑ منایا جاتا تھا اور چوتھی صدی میں اس تاریخ کو 25؍دسمبر سے بدل دیا گیا جو کہ بہت پہلے سے بُت پرست قوموں کے ایک تہوار کا دن تھا۔
انسائیکلوپیڈیا برٹینکا میں لکھا ہے کہ 25؍دسمبر مغربی قوموں میں ایک تہوار کے طور پر منایا جاتا تھا۔ لاطینی اس دن دیوتا کے لیے روزہ رکھا کرتے تھے اور برطانیہ میں اسے Mother Nightکہا جاتا تھا۔ یہ رات انگریز عبادت میں گزارتے تھے۔ عیسائیت آنے کے بعد پانچویں صدی عیسوی تک اس بات پر اجماع نہیں ہوسکا کہ کرسمس 6؍جنوری، 25؍مارچ اور 25؍دسمبر میں سے کس تاریخ کومنایا جائے۔
بائبل کے شارحین نے تسلیم کیا ہے کہ علماء کے نزدیک اِس تاریخ کی ذرہ بھر اہمیت نہیں ہے۔ چنانچہ ولیم جینکس (Villiam Janks) اپنی تفسیر میں رقمطراز ہیں کہ یہ خیال 527ء تک چلتا رہا۔ حتیٰ کہ Dionysivs Exigaus نے یہ فضول تاریخ ایجاد کی جسے متعدد علماء نے بڑی شدت سے ردّ کیا۔ چنانچہ Fabricius نے ایسا جدول تیار کیا جس میں ولادت مسیحؑ کے لیے136 مختلف آرا بیان کی گئی ہیں۔ اسی طرح یوم ولادت مسیحؑ کا بھی حال ہے۔ مختلف عیسائی فرقوں نے سال کے ہر مہینہ میں مسیحؑ کی ولادت کی مختلف تاریخیں مقرر کر رکھی ہیں۔ چنانچہ ولیم جینکس ساری بحث کے بعد بالآخر یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ان حقائق کی بنا پر عیسائیوں کو دسمبر میں یوم ولادت مسیح منانا ترک کر دینا چاہیے۔
قرآن کریم نے ولادت مسیح کے حوالہ سے چشمہ کے بہنے اور کھجوروں کے پکنے کا جو راز منکشف کیا ہے اس بارہ میں حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا: ’’قرآن بتاتا ہے کہ مسیحؑ اس موسم میں پیدا ہوئے جس میں کھجور پھل دیتی ہے اور کھجور کے زیادہ پھل دینے کا زمانہ دسمبر نہیں ہوتا، جولائی اگست ہوتا ہے۔ اور پھر جب ہم یہ دیکھیں کہ خدا تعالیٰ نے انہیں ایک چشمے کا بھی پتہ بتایا جہاں وہ اپنے بچے کو نہلا سکتی تھیں اور اپنی بھی صفائی کر سکتی تھیں تو اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ جولائی اگست کا مہینہ تھا ورنہ سخت سردی کے موسم میں چشمہ کے پانی سے نہانا اور بچے کو غسل دینا خصوصاً ایک پہاڑ پر عرب کے شمال میں عقل کے بالکل خلاف تھا‘‘۔(تفسیر کبیر جلد پنجم سورہ مریم صفحہ 179)
نئے عہد نامہ میں موجود چاروں اناجیل میں لوقا کی واحد انجیل ہے جس نے مسیحؑ کی ولادت کے موسم کی بابت لکھا ہے اور اس کا بیان قرآن مجید کے بیان کے بھی مطابق ہے۔لوقا میں تحریر ہے کہ ’’جب وہ وہاں (بیت لحم) تھے تو ایسا ہوا کہ اس کے وضع حمل کا وقت آپہنچا اور اس کا پہلو ٹھا بیٹا پیدا ہوا اور اسے کپڑے میں لپیٹ کر چرنی میں رکھا کیونکہ اُن کے واسطے سرائے میں جگہ نہ تھی‘‘۔ پھر لکھا ہے: ’’اُسی علاقہ میں چرواہے تھے جو رات کو میدان میں رَہ کر اپنے گلہ بانی کی نگہبانی کررہے تھے‘‘۔ ( تفسیر کبیر جلد پنجم سورہ مریم ص 184)(لوقا باب ۲ آیت ۸)
اسی بات کے شروع میں قیصر اوگستس کے حکم بابت مردم شماری کا ذکر ہے جو گرمیوں کے موسم میں ہوئی جب جانوروں کے گلے اور چرواہے کھلے میدان میں رات بسر کررہے تھے۔
چنانچہ لوقا کے بیان کے مطابق جب حضرت مسیح علیہ السلام کی ولادت ہوئی تو ایسا موسم تھا کہ نومولود بچے کو باہر کھلی جگہ چرنی میں رکھا جاسکتا تھا۔ اوراس وقت پالتو جانور باہر کھلے آسمان تلے رات بسر کرسکتے تھے۔ اور رات کے وقت انسان (چرواہے) میدان میں سو سکتے تھے۔ یعنی سردی کا موسم نہ تھا۔ پس عیسائی دنیا کو کرسمس ڈے پر نظر ثانی کرنی چاہے۔
کیتھولک انسائیکلوپیڈیا new adventکے مطابق بائبل سے25؍دسمبر کے روز مسیح کی پیدائش کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کیونکہ اول تو اتنی سردی میں مردم شماری نہیں ہوسکتی تھی دوسرے چرواہوں کا کھلے میدان میں بھیڑ بکریاں چرانا بھی عقل کے خلاف ہے۔مزید لکھا ہے کہ دو ڈیڑھ سو سال تک چرچ کے بڑے بڑے فادرز اپنی سالگرہ منانا بھی پسند نہیں کرتے تھے بلکہ اس پر سخت تنقید بھی کرتے تھے کہ ولیوں اور شہداء کی سالگرہ یا یوم شہادت منایا جائےچہ جائیکہ وہ مسیح کی پیدائش کا دن مناتے۔چرچ کی تاریخ میں یہ سب باتیں محفوظ ہیں۔اس انسائیکلوپیڈیا میں اعتراف کیا گیا ہے کہ مسیح کی پیدائش کے سال مہینہ اور دن کے متعلق بہت سی مختلف اور متضاد آراء ملتی ہیں جنہیں کسی طور بھی سلجھایا نہیں جاسکتا۔اسکندریہ (مصر)، یروشلم (فلسطین)، انطاکیہ اور قسطنطنیہ (ترکی)، روم (اٹلی)، قبرص اور ایشیائے کوچک کے مختلف ملکوں کے حوالوں سے بتایا گیا ہے کہ جب دو ڈیڑھ صدیوں بعد کرسمس کی تقریبات شروع ہوئیں تو ان تمام علاقوں میں اگست سے لے کر اپریل تک مختلف مہینوں اور دنوں میں انہیں منایا جاتا تھا۔ حوالہ کے لیے دیکھیں newadvent.org under Christmas موجودہ دور میں بھی مغربی خطے میں کرسمس 25؍دسمبر کو منایاجاتاہےجبکہ مشرقی چرچ چھ جنوری کو مناتا ہے۔
انسائیکلوپیڈیا بریٹینکا کے مطابق سب سے پہلے 221ء میں Sextus Julius Africanus نامی ایک پادری، جو کہ مؤرخ بھی تھا، نے پچیس دسمبر کو مسیح کی پیدائش کا دن بتایا اس کے مطابق مریم 25؍مارچ کو حاملہ ہوئیں اور ٹھیک نو مہینے بعد پچیس دسمبر کو مسیح پیدا ہوئے۔ لیکن چرچ نے اس تاریخ کو فوراً ہی قبول نہیں کرلیا بلکہ اس کے ایک سو سال بعد 336ء میں روم کے بادشاہ قسطنطین کے عیسائی ہونے کے بعد رائج کیا۔ محققین کے نزدیک اس کی ایک اور وجہ یہ تھی کہ گریکو رومن خدا Invicti Nati (ناقابل تسخیر بیٹا) کا جنم دن پچیس دسمبر کو تھا۔ چرچ مسیح کو اس دیوتا کے بدلے میں پیش کرنا چاہتا تھا لیکن عوامی جذبات بھی مجروح نہیں کرنا چاہتا تھا لہذا اس دیوتاکے جنم دن کو مسیح کے جنم دن سے بدل دیا گیا۔
حضرت عیسیٰ ؑکی پیدائش کے دن کےبارےمیںاور پھر اسی حوالے سے کیلنڈر کی تقویم کے بارے میں سوالات ایک اور وجہ سے بھی اُٹھ رہے ہیں۔ عام طور پر معروف ہے کہ آپ کی تاریخ پیدائش 25؍دسمبر ہے اور پوری دنیا میں اسی حوالے سے کرسمس کا دن منایا جاتا ہے جبکہ لوقا کی انجیل (باب2آیت8) کے مطابق حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش کے بارے میں لکھا ہے:’’اسی علاقے میں چرواہے تھے جو رات کو میدان میں رہ کر اپنے گلے کی نگہبانی کر رہے تھے‘‘۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپؑ کی پیدائش کا موسم ایسا تھا کہ جب لوگ اپنے جانوروں کے ساتھ کھلے آسمان کے نیچے ہوتے تھے، جبکہ دسمبر کا مہینہ شدید سردی کا ہوتا ہے۔ فلسطین میں تو دسمبر بارش اور سخت دھند کا مہینہ ہوتا ہے۔ قرآن پاک میں ہے کہ حضرت مریمؑ، آپؑ کی ولادت کے وقت کھجور کے درخت کے نیچے گئیں۔ اس وقت کھجور پر پھل موجود تھا۔ کھجور پر پھل کا موسم جون، جولائی میں ہوتا ہے۔ ایک عیسائی مفسراے جے گریو ایم اے ڈی (A.JGRAW.M.A.D) تفسیر ’’پیکن‘‘میں انجیل لوقا کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ’’ موسم، ماہ دسمبر کا نہیں ہو سکتا۔ ہمارا کرسمس ڈے مقابلتاً بعد کی ایک روایت ہے، جو کہ پہلے پہل مغرب میں پائی گئی‘‘۔ ( تفسیر کبیر جلد پنجم سورہ مریم صفحہ184)اسی طرح بشپ جارنس اپنی کتاب Rise of Christianity میں تحریر کرتے ہیں کہ’’اس تعین کا کوئی قطعی ثبوت نہیں کہ25؍دسمبر ہی مسیح کی پیدائش کا دن ہے اگر ہم لوقا کی کہانی پر یقین کر لیں کہ موسم میں گڈریئے رات کے وقت اپنی بھیڑوں کی نگرانی بیت اللحم کے قریب کھیتوں میں کرتے تھے تو ثابت ہوتا ہے کہ آپؑ کی پیدائش موسم سرما میں نہیں ہوئی کہ جب رات میں ٹمپریچر اتنا گر جاتا ہے کہ یہودیہ کے پہاڑی علاقے میں برفباری عام بات ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا کرسمس ڈے کافی بحث و تمحیص کے بعد 300ء میں متعین کیا گیا ہے‘‘۔( تفسیر کبیر جلد پنجم سورہ مریم صفحہ 185)
ایک رسالہ مینار نگہبانی مجریہ جنوری 1999ء کے صفحہ29پر لکھا ہے:’’ہسٹری ٹو ڈے کے مطابق روم کے بادشاہ’’ اورلین‘‘ نے پال میرا کی ملکہ ’’لوبیا‘‘ کو شکست دینے کے بعد وہاں کے مندرسے سورج دیوتا کے مجسموں کو اٹھایا اور اپنے نئے بنائے گئے مندر میں رکھ دیےتو 674ء میں 25؍دسمبر کو سورج دیوتا کا تہوار منایا گیا۔ بعد ازاں جب روم کے حکمرانوں نے مسیحیت قبول کر لی تو یہی تہوار مسیح کے جنم دن کے طور پر منانے لگے تاکہ پرانے تہواروں کی مقبولیت سے فائدہ اٹھا کر دین مسیح کو رواج دیا جا سکے‘‘۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ 25؍دسمبر یوم ولادت مسیح کس بنیاد پر منایا جاتا ہے اور یہ کہ اس دن کوبطور ولادت مسیح کس نے تعین کیا ہے؟کیا مروجہ انا جیل میں کہیں یہ دن منانے کا کوئی حکم موجود ہے؟ حضرت عیسیٰؑ نے بذات خود اپنی زندگی میں 25؍دسمبر بطور کرسمس ڈے منایا؟ اس کے بعد عیسیٰؑ کے حواریوں کو دیکھیے کیا انہوں نے کرسمس ڈے کا اہتمام کیا؟ حواریوں کو بھی چھوڑیئے سینٹ پال جس نے دین مسیح کی تجدید کی اس کے خطوط میں بھی ایسا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ حیرت کی بات یہ ہے صحیح معنوں میں یسوع مسیح کی تاریخ ولادت سے کوئی بھی باخبر نہیں۔تاریخ دن تو دور مہینہ اور سال ولادت کا بھی حتمی علم نہیں۔
حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش کی تاریخ اور جائے پیدائش غیر یقینی ہے۔ مرقس اور یوحنا اپنی انجیل میں کچھ نہیں لکھتے۔ ہماری معلومات کے ذرائع صرف یسوع مسیح کی پیدائش اور بچپن کے وہ از حد متضاد بیانات ہیں جن میں ایک طرف تو متی ابواب 1تا2کی وہ کہانی ہے جس میں یسوعؑ کی پیدائش اور بچپن کو ہیروڈ اول کے عہد اور اس کی حکومت بدلنے (4 ق م) سے منسوب کیا گیا ہے اور دوسری طرف لوقاباب 2کی رو سے یسوعؑ کی پیدائش شہنشاہ اوگسٹس کے عہد میں یہودیہ میں ہونے والی مردم شماری 6ء سے منسوب کی گئی ہے۔ اس بیان میں یہ بات از حد اہم ہے کہ ہیروڈ بادشاہ جس کے عہد میں انا جیل میں یسوعؑ کی پیدائش بیان کی گئی ہے۔ یسوعؑ کے پیدا ہونے سے تقریباً دس سال قبل مر چکا تھا۔ یسوعؑ مسیح کی تاریخ ولادت کا کہیں بھی پتا نہیں چلتا۔ عہد نامہ جدید سے صرف یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس رات گڈریے بھیڑوں کو لیے ہوئے بیت اللحم کے کھیتوں میں موجود تھے لیکن انسائیکلو پیڈیا بریٹینکا میں کرسمس ڈے کے آرٹیکل پر لکھنے والے نے اس پر تنقید کی ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ ’’دسمبر کا مہینہ تو ملک یہودیہ میں سخت سردی اور بارش کا مہینہ ہے ان دنوں میں کس طرح بھیڑیں اور گڈریے کھلے آسمان تلے رہ سکتے ہیں؟ پھر سوچنے کی بات ہے کہ شدید سردی اور برفباری کے اس مہینہ میں کھلے آسمان تلے نو مولود کو چرنی میں کیسے رکھا جا سکتا ہے؟‘‘(مسیحی اشاعت خانہ 36 فروز پور روڈ لاہور کی شائع کردہ کتاب “ قاموس الکتاب” مؤلفہ ایف، ایس خیر اللہ صفحہ 147-148) اس کے برعکس اگر آپ قرآن کریم کو دیکھیں تو اس سلسلہ میں سورۂ مریم پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت مریمؑ کو دردزہ کی تکلیف زیادہ بڑھی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ہدایت کی کہ کھجوروں کے تنے کو ہلا تازہ پکی ہوئی کھجوریں تم پر گریں گی وہ کھاؤ اور چشمہ کا پانی پی کر طاقت حاصل کرو۔ اب فلسطین میں موسم گرما کے وسط یعنی جون جولائی میں ہی کھجوریں پکتی ہیں اس سے بھی یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت مریمؑ کی ولادت جون یا جولائی کے کسی مہینے میں ہوئی تھی اور ظاہر ہے گڈریے بھی گرمی کے موسم میں ہی بھیڑوں کو کھلے آسمان تلے چھوڑ سکتے تھے اور اس مہینہ میں نو مولود کو کپڑے میں لپیٹ کر چرنی میں رکھنا بھی کوئی معیوب نہیں۔ اگر ہم لوقا کی انجیل پر غور کریں تو بقول لوقا ’’چھٹے مہینے‘‘فرشتہ نے مریم ؑکو خوشخبری دی کہ تو حاملہ ہوگی۔ چھٹے مہینے یعنی جون کے مہینے میں فرشتہ حضرت مریم ؑکو پیغام دیتا ہے کہ تو ’’حاملہ ہوگی ‘‘اگر ساتواں مہینہ حمل کا پہلا مہینہ گنا جائے تو ولادت اپریل کے آخر یا مئی کے شروع میں ہوگی حمل دس ماہ کا بھی ہوتا ہے۔ اس طرح جون کا آخر یا جولائی کا شروع بنتا ہے۔ یعنی انجیلی بیان کے مطابق بھی 25؍دسمبر تاریخ ولادت غلط ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ رفع عیسیٰؑ کے چار صدیوں بعد تک 25؍دسمبر تاریخ ولادت مسیح نہیں سمجھی جاتی تھی۔ پھر سیتھا کے ایک راہب بنام ڈایوینسٹیس اکسی گوس (Monk dionysius exgus) سنہ526ء کو تاریخ ولادت مسیح کی تحقیق پر تعین کیا گیا۔ اس نے اپنے حساب سے تاریخ ولادت متعین کر دی اور اس کے بعد یہی حتمی تاریخ سمجھی جانے لگی کیونکہ حضرت عیسیٰ ؑ سے پانچ صدی قبل سے 25 دسمبر ایک مقدس تاریخ سمجھی جاتی تھی۔ بہت سے سورج دیوتا اسی تاریخ پر پیدا ہونے تسلیم کئے جا چکے تھے۔ اس لئے راہب نے آفتاب پرست اقوام میں عیسائیت کو مقبول بنانے کے لیے حضرت عیسیٰ ؑ کی تاریخ ولادت 25؍دسمبر مقرر کر دی کیونکہ 25؍دسمبر رومیوں کے ایک دیوتا کی یادگار، تہوار بھی تھا اور یہ ایک مقبول دن تھا اسی لیے اس تاریخ کو ترجیح دی گئی اور لوقا کے بیان کی طرف کسی نے ذرہ بھر توجہ نہ کی۔(مسیحی اشاعت خانہ 36 فروز پور روڈ لاہور کی شائع کردہ کتاب “ قاموس الکتاب” مولفہ ایف، ایس خیر اللہ صفحہ 147-148)کرسمس کے بارے میں سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ سورہ مریم کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں:’’اس مقام پر ایک بہت بڑی مشکل پیش آجاتی ہے جس کو حل کرنا ہمارے لیے نہایت ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ عیسائی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ حضرت مسیح ؑکی پیدائش25؍دسمبرکو ہوئی اور لوقا کہتا ہے کہ قیصر اگسِطس نے اُس وقت مردم شماری کا حکم دیا تھا جس کے لیےیوسف اور مریم ناصرہ سے بیت لحم گئے اور وہیں حضرت مسیؑح کی پیدائش ہو ئی ۔گویا 25؍دسمبر کو۔ اُس زمانہ میں جب قیصر اگسطس کے حکم کے ماتحت یہودکی پہلی مردم شماری ہوئی مسیح ؑبیت لحم میں پیدا ہوئے۔ لیکن قرآن بتاتا ہے کہ مسیح اس موسم میں پیدا ہوئے جس میں کھجور پھل دیتی ہے اور کھجور کے زیادہ پھل دینے کا زمانہ دسمبر نہیں ہوتا بلکہ جولائی اگست ہوتا ہے۔ اور پھر جب ہم یہ دیکھیں کہ خدا تعالیٰ نے انہیں ایک چشمے کا بھی پتہ بتایا جہاں وہ اپنے بچے کو نہلا سکتی تھیں اور اپنی بھی صفائی کر سکتی تھیں تو اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ جولائی اگست کا مہینہ تھا ورنہ سخت سردی کے موسم میں چشمہ کے پا نی سے نہانا اور بچے کو بھی غسل دینا خصوصاََ ایک پہاڑ پر اور عرب کے شمال میں عقل کے بالکل خلاف تھا۔ لیکن عیسائی تاریخ یہی کہتی ہے کہ حضرت مسیح ؑدسمبر میں پیدا ہوئے اور اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ حضرت مسیح کی پیدائش دسمبر میں ہوئی تھی تو سوال پیدا ہو تا ہے کہ قرآن تو حضرت مریم سے کہتا کہ ہُزِّیۡۤ اِلَیۡکِ بِجِذۡعِ النَّخۡلَۃِ تُسٰقِطۡ عَلَیۡکِ رُطَبًا جَنِیًّاتو کھجور کے تنہ کو ہلا تجھ پر تازہ کھجوریں گریں گی۔ حالانکہ کھجور اُس وقت بہت کم ہوتی ہے۔کھجور زیادہ تر جولائی اگست میں ہو تی ہے اور مسیح کی پیدائش دسمبر میں ہوئی۔ پس اگریہ درست ہے کہ مسیح دسمبر میں پیدا ہوئے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن نے کھجور کا کیوں ذکر کیا جبکہ کھجور اُس موسم میں ہوتی ہی نہیں۔ اس اعتراض سے ڈر کر ہمارے مفسرین نے یہ لکھ دیا ہےکہ حضرت مریم کھجور کے تنہ کے پاس درد کا سہارا لینے گئی تھیں۔ انہیں خیال آیا کہ مسیح کی پیدائش دسمبر میں بتائی جاتی ہے اور دسمبر میںکھجورکے درخت پر بہت کم پھل لگتا ہے۔ پھر وہ کھجور کے سوکھے درخت کے پاس کیوں گئی تھیں۔ اِس کا جواب اُنہوں نے یہ سوچا کہ وہ درد کا سہار الینے گئی تھیں ۔مگر انہیں یہ خیال نہ آیا کہ ساتھ ہی قرآن نے یہ کہا کہ کھا اور یہ بھی کہا ہے کہ کھجور کے تنہ کو ہلا تو تجھ پر تازہ کھجوریں گریںگی صرف اس وجہ سے کہ عیسائی بیان اُن کے سامنے تھا کہ مسیح دسمبر میں پیدا ہوئے اوردسمبر میں کھجور کو بہت کم پھل لگتا ہے انہوں نے یہ معنےکر لیے کہ وہ سہارا لینے کےلیےکھجور کے سوکھے درخت کے پاس گئی تھیں۔ لیکن بعض مفسروں کو فَکُلِیْاور تُسٰقِطۡ عَلَیۡکِ رُطَبًا جَنِیًّاکا بھی خیال آیا اور انہوں نے لکھا ہے کہ یہ ایک معجزہ تھا۔ حضرت مریم کھجور کے سوکھے درخت کو ہلاتیں تو تازہ بتازہ کھجوریں گرنی شروع ہوجا تی تھیں۔
دوسری مشکل ہمارے سامنے یہ پیش آتی ہے کہ یہ واقعہ یہود یہ میں ہوا ہے۔قرآن اس موقعہ پر کھجور کا ذکر کرتا ہے اور بائبل کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں زیتون بادام اور انگور ہوتا تھا کھجور کا ذکر نہیں آتا اور پھر عجیب بات یہ ہے کہ دسمبر میں بادام بھی نہیں ہوتا۔ انگور بھی نہیں ہوتا اور زیتون بھی نہیں ہوتا گویا قرآن صرف کھجور کا ذکر کرتا ہے مگر دسمبر میں کھجور بہت کم ہوتی ہے اور تاریخ بائبل یہودیہ میں زیتون، بادام اور انگور کا تو ذکر کرتی ہے لیکن کھجور کا ذکر نہیں کرتی۔ اور پھر یہ تینوں چیزیں بھی دسمبر میں نہیں ہوتیں۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیااس علاقہ میں جس میں انجیل حضرت مسیح کی پیدائش بتاتی ہے کھجور ہوتی تھی یا نہیں۔ اِس کے متعلق جب ہم بائبل کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ خود بائبل اس بات پر گواہ ہے کہ اُس علاقہ میں کھجور ہواکرتی تھی۔ چنانچہ لکھا ہے ‘‘ تب موسٰی کے سُسر قینی کی اولاد کھجوروں کے شہر سے بنی یہوداہ کے ساتھ یہوداہ کے بیابان کو جو عراد کے دکھن کی طرف ہے چڑھیں ‘‘۔(قاضیوں باب ۱آیت ۱۶)عراد جس کا حوالہ میں ذکر آتا ہے بیت لحم سے کوئی سو میل کے فاصلہ پرہے اور چونکہ اس سے شمال کی طرف کھجوروں کا شہر تھا۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیت لحم کے قریب قریب یقیناً کھجوریں پائی جاتی تھیں۔ پھر یہودیہ کا علاقہ جس میں بیت لحم ہے چونکہ عرب سے ملتا ہے اس لئے بھی اُس میں کھجوروں کا پایا جانا بالکل قرین قیاس ہے لیکن اس تحقیق سے اِلٰی بِجِذۡعِ النَّخۡلَۃِ تک تو بات ٹھیک ہوگئی۔ پتا لگ گیا کہ اُس علاقہ میں کھجور پائی جاتی تھی۔لیکن یہ سوال ابھی حل نہیں ہوا کہ قرآن کہتا ہے کہ مسیح جس موسم میں پیدا ہوئے اُس وقت کھجوریں درخت پر لگی ہوئی تھیں اور کھجوریں بھی پختہ تھیں۔ اور کھانے کے قابل تھیں اور عیسائی کہتے ہیں کہ حضرت مسیح دسمبر میں پیدا ہوئے جبکہ کھجوریںبہت کم ہوتی ہیں۔ اس سے لازماً یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن کریم کے نزدیک حضرت مسیح ؑکی پیدائش اس موسم میں ہوئی ہے جس میں کھجور لگی ہوئی ہوتی ہے۔ مسیحی تاریخوں سے پتہ لگتا ہے کہ مسیح 25؍دسمبر کو پیدا ہوا بعض اس کا وقت اپریل بتاتی ہیں۔مگر دسمبر یا اپریل میں کھجور درخت پر بہت کم ہوتی ہے۔ پس ہمیں اس مسئلہ کی مزید تحقیق کی ضرورت پیش آتی ہے۔(تفسیر کبیر جلد پنجم صفحہ 180،179)
کینن فیرر نے بھی اپنی کتاب لائف آف کرائسٹ میں اس بات کا اعتراف کیاہے کہ مسیح علیہ السلام کے یوم ولادت کا کہیں پتہ نہیں چلتا۔ یہ ہے کرسمس ڈے کی حقیقت جسے دنیا میں حضرت عیسیٰؑ کا یوم پیدائش سمجھ کر دھوم دھام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ تاریخی حقیقت سے سب ناواقف ہوکر اور صحیح ترین روایتوں کے فقدان کے سبب خود اپنے پوپ و پادریوں کی من گھڑت بیان کردہ تاریخ کے مطابق پوری عیسائی دنیا اندھیرے میں پڑی ہوئی ہے، اور اس پرمستزاد یہ ہےکہ اسے اپنے نبی کی ولادت سے منسوب کرتے ہیں اور خود نبی کی تعلیمات اور شرافت و پاکیزگی والی ہدایات کو فراموش کرکے طوفان بد تمیزی قائم کرتے ہیں۔ شراب و شباب کے نشے میں دھت ہوکر انسانی اور اخلاقی حدوں کوپامال کرتے ہیں۔ جب کرسمس کا آغاز ہوا تھا تو اس کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں میں مذہبی رجحان پیدا کیا جائے یا یہ کہہ سکتے ہیں کہ ابتدا میں یہ ایک ایسی بدعت تھی جس کی واحد فضو ل خرچی ’’موم بتیاں‘‘ تھیں لیکن پھر ’’کرسمس ٹری‘‘ آیا، پھر موسیقی، پھر ڈانس اور آخر میں شراب بھی اس تہوار میں شامل ہوگئی۔ شراب داخل ہونے کی دیر تھی کہ یہ تہوار عیاشی کی شکل اختیا ر کر گیا صرف برطانیہ کا یہ حال ہے کہ ہر سال کرسمس پر 7؍ارب 30کروڑ پاؤنڈ کی شراب پی جاتی ہے۔اس طرح یہ لوگ خود ساختہ مذہبی دن کی دھجیاں اڑاتے ہیں، اور اپنے پیغمبر علیہ السّلام کے نام پر تما م ناروا چیزوں کو اختیار کرتے ہیں۔
حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی شخصیت نہایت ہی قابل احترام ہے، اور ان کی سیرت و زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان کیا، ان کی پاک و صاف زندگی اور ان کی ماں حضرت مریم علیہا السّلام کے پاکیزہ کردار کی شہادت قرآن کریم نے دی ہے، جتنی سچائیوں کو قرآن نے بیان کیا ان کی تحریف کردہ کتابوں میں بھی وہ نہیں ہیں۔لیکن ان لوگوں نے خود ان مبارک ناموں پر اپنی عیش و مستیوں کو پورا کیا اور اس بے حیا ئی کے طوفان میں پوری دنیا کو لے جا نا چاہتے ہیں۔ دیہات، قریوں کے مسلمانوں پر ان کے ایمان لیوا حملے، دین سے دور مسلمانوں کو عیسائیت کے جال میں پھانسنے کی تدبیریں دن بدن بڑھتی ہی جارہی ہیں۔ حقائق کو بھلاکر کفر وشرک کے دلدل میں انسانوں کو پھنسانے کی کوشش میں مال و دولت کے انبار لٹارہے ہیں۔ ایسے میں مسلمانوں کو ان حقائق سے باخبر رہنا ضروری ہے، ان تمام رسموں اور رواجوں اور غیر وں کے تہواروں سے اپنے آپ کو بچانا ضروری ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ ہمیں اس بات کو سمجھنا ہو گا کہ کرسمس کا تہوار منانے میں مشرکوں اور کفار کی مشابہت ہے جو ان تقریبات کو اپنے شرکیہ اور کفریہ نظریات کی بنا پر مناتے ہیں، بلکہ یہ عیسیٰ علیہ السلام کی شریعت کی رو سے بھی جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس بات کو سب تسلیم کرتے ہیں کہ اس قسم کی تقریبات ان کے دین میں بھی جائز نہیں ہیں۔ چنانچہ یہ تقریبات اور تہوار شرک و بدعت کا ملا جلا شاخسانہ ہے۔ مزید برآں یہ کہ اس کے ساتھ ساتھ ان محفلوں میں منعقد کیے جانے والے فسق و فجور کے کام بھی ان کی برائی میں مزید اضافہ کر دیتے ہیں، تو ان سب امور میں ہم کفار کی مشابہت کیسے کر سکتے ہیں؟
اللہ تعالیٰ ہم احمدیوں اور تمام دنیا کے مسلمانوں کو رضائے الٰہی کے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین