دورہ امریکہ ستمبر؍اکتوبر 2022ءمتفرق مضامین

حضرت مصلح موعودؓکے پہلے ہوائی سفر سے’’خلافت احمدیہ چارٹرڈ فلائٹ‘‘ تک

(اواب سعد حیات)

لاریب وہ وقت دور نہیں جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی نیابت اور جانشینی کامقدس فریضہ ادا کرنے والوں کے لیے نئے سے نئے سنگ میل منتظرہوںگے اور دنیا کی ہر فائدہ مند ایجاد ان کی ہی ممد و معاون ہوکر ان کے آفاقی مشن اور روزمرہ کے کاموں میں سہولت و آسانی پیدا کرنے والی ہوگی

پہلی بار ہوائی جہاز کی قادیان آمد

تاریخ احمدیت کے سال 1933ء کا آغاز حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ اور آپؓ کے دونوں بھائیوں کی ہوائی جہاز میں پہلی بار پرواز کے واقعہ سے ہو تا ہے۔

قادیان دارالامان میں 30؍دسمبر1932ء کو پہلا روزہ رکھا گیا اور رمضان المبارک کا آغاز ہوا۔ اور ہندوستان کے مشہور ہوا باز مسٹر چاولہ30؍دسمبر1932ء کو 4بجے شام کے قریب اپنے ہوائی جہاز پر لاہور سے آئے اور قادیان کے اسٹیشن کے پاس کھلے میدان میں اترے ۔ چاولہ صاحب 35 منٹ میں لاہور سے قادیان پہنچے تھے۔

انہوں نے حضورؓ سے جہاز دیکھنے کی درخواست کی، حضور نے 31؍دسمبر کو جہاز دیکھنےکا ارادہ ظاہر فرمایا لیکن بےحد مصروفیات کے باعث حضوراس دن نہ جاسکےمگر یکم جنوری1933ء کو گیارہ بجے کے قریب تشریف لے گئے۔ قادیان میں ہوائی جہاز کے آنے کا یہ پہلا موقع تھا۔ اس لیے قادیان اور اس کے مضافات سے بکثرت لوگ جمع تھے جس میں عورتیں، مرد اور بچے بھی شامل تھے۔

آغاز میں جہاز نے تین دفعہ پرواز کی۔ پہلی بار حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے اور حضرت مصلح موعودؓ کی بیٹی اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی والدہ محترمہ حضرت سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ سوار ہوئے اور تین ہزار فٹ کی بلندی پر 13 منٹ میں نواح قادیان کا 35 میل کا سفرکرکے جہازنیچے اترا۔

دوسری دفعہ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ او رسیده امۃ القیوم صاحبہ بنت حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے پرواز کی اور قریباً پہلی دفعہ جتنی دیر کے بعد جہاز زمین پر واپس آیا۔

تیسری بار حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ معہ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ سوار ہوئے۔اورجہاز اللہ اکبر کے نعروں میں زمین سے بلند ہوا اورتقریبا ًآدھا گھنٹہ چار ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرتے ہوئے دریائے بیاس کا چکر لگایا۔ اور پچاس میل کا فاصلہ طے کرنےکے بعد اللہ اکبر کے نعروں کےدرمیان زمین پر اُترا۔

اس دلچسپ روئیداد سے پتاچلتا ہے کہ حضرت امیرالمومنین خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے محترم دادا جان حضرت مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ عنہ کوتین میں سے دو مرتبہ اور حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کی والدہ صاحبہ کو پہلی فلائٹ میں سوار ہونے کا موقع ملا۔ نیز ان معلومات سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے احمدی مردوں اور عورتوں بلکہ بچیوں اور بچوں کو زمانہ کی جدید ایجادات سے متعارف کروانے کی روش کا بھی اشارہ ملتا ہے۔

الفضل قادیان کے نامہ نگار نے اس اہم تاریخی واقعہ کی رپورٹنگ کرتے ہوئے لکھا کہ چاولہ صاحب اپنے فن میں ایک ماہر اور ہوشیار نوجوان ہیں۔ پہلی دفعہ ہوائی جہاز ان کے ذریعہ قادیان آیا اور جہاز میں حضور رضی اللہ عنہ اور آپ کے برادران گرامی قدر کا پہلی بار پرواز کرنا جماعت احمدیہ کی تاریخ کا ایک خاص واقعہ شمار کیا جائے گا۔

یہاں یہ ذکر کردینا مناسب ہوگا کہ کئی اصحاب کو ہوائی جہاز کے سفر سے تشویش بھی ہوئی اور بعض مخلصین نے تو حضورؓ کی خدمت میں اس کا اظہار بھی کردیا کہ حضورؓ جہاز میں سوار نہ ہوں۔اور اظہار کیا کہ خلیفہ کی زندگی اتنی بیش قیمت ہے کہ اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ۔ چونکہ ہوائی جہاز کی پرواز میں خطرات کا احتمال زیادہ ہے۔اس لیے حضورؓ اس پر سوار نہ ہوں۔ حضورؓ نے اس مخلصانہ خواہش کو مسکراتے ہوئے سنا اور ان کو تسلی دی ۔ لیکن ملتا ہے کہ جب جہاز کی تیسری اڑان کے دوران پہلی دو پروازوں کی نسبت زیادہ وقت گزرنے لگا اور جہاز کہیں دکھائی نہ دیا تو گھبراہٹ اور اضطراب کی لہر دوڑ گئی۔ اس اثنا میں جونہی جہاز نظر آیا لوگوں نے فرط مسرت سے نعرے لگانے شروع کردیے۔(ماخوذ از رپورٹ مطبوعہ الفضل قادیان، 3؍جنوری 1933ء صفحہ اول اور دوم)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ہوائی سفر سے دلچسپی اور اشتیاق کا اندازہ حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کی اس تحریر سے بھی ہوتا ہےجو انہوں نے 1924ء کے سفر یورپ کے احوال میں لکھی اور بتایا کہ ’’حضورؓ کے ( ہندوستان) واپسی کے سفرپر روانہ ہونے سے چند دن پہلے میں حضورؓ کی اجازت سے ایمسٹرڈیم گیا۔ لندن سے ایمسٹرڈیم تک ’’کے ایل ایم‘‘ کی ہوائی سروس تھوڑا عرصہ پہلے شروع ہوئی تھی۔ میں نے اسی سروس سے یہ سفر کیا۔ ہوائی سفر کا یہ میرا پہلا تجربہ تھا۔ چھوٹا سا جہاز تھا جس میں فقط پانچ مسافروں کی گنجائش تھی۔ نشست کے لئے بید کی کرسیاں تھیں۔ تین پچھلی قطار میں اور 2 اُن کے آگے۔ مسافروں اور پائلٹ کے درمیان فقط ایک تختے کی اوٹ تھی۔ سب کے لئے جہاز کے اندر جانے اور نکلنے کا ایک ہی مشترکہ دروازہ تھا، پرواز کوئی زیادہ بلندی پر نہ تھی۔ مطلع صاف تھا۔ اور نیچے سب کچھ صفائی سے نظر آتا تھا۔ لندن سے روانہ ہوکر جہاز چند منٹ راٹرڈیم ٹھہرا اور تھوڑی دیر بعد ایمسٹرڈیم پہنچ گیا…پیرس میں حضورؓ کے قافلے کے ساتھ شامل ہوگئے…پیرس کے قیام کے دوران میں حضورؓ نے خاکسار سے فرمایا تم نے تو ہوائی جہاز کا سفر کرلیا اب کوئی ایسا انتظام کرو کہ ہم بھی یہ تجربہ کرسکیں۔ خاکسار نے گزارش کی کہ حضور ؓ کے رفقاء تو یہ منظور نہ کریں گے کہ حضورؓ اس نئی سواری کا تجربہ کریں جس میں ابھی کچھ خطرے کا عنصر بھی ہے۔

فرمایا : انہیں پہلے نہ بتایا جائے۔ خاکسار نے عرض کیا بعد میں جب انہیں معلوم ہوگا تو خاکسار ہدفِ ملامت ہوگا کہ خاکسار نے حضورؓ کو کیوں یہ مشورہ دیا اور خاکسار کا کوئی عذر قابل پذیرائی نہ ہوگا۔ خاکسار کو احساس تھا کہ حضور ؓ کی خواہش ہے کہ کوئی موقعہ ہوائی سفر کا پیدا ہوجائے ۔ لیکن میری اپنی طبیعت یہ ذمہ داری لینے سے گریز کرتی تھی۔

میرا قیاس ہے کہ حضورؓ میرے تذبذب کو بھانپ گئے اور اصرار نہ فرمایا۔ ‘‘(تحدیث نعمت، از چودھری سر محمد ظفراللہ خان، صفحہ221)

سال 1933ء کے اس مذکورہ بالاپہلے ہوائی سفر کی کچھ مزید تفصیل اور بعض دلچسپ پہلو ایک عینی شاہد کی تحریر میں بھی موجودہیں۔ جن کی 13؍جولائی 2017ء کو قریباً 92 سال کی عمر میں وفات ہوئی ۔ مکرم سید محمد احمد صاحب ابن حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ عنہ 2010ء میں مرتب کردہ اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ’’اب کچھ دیر کے لئے میں آپ کو پارٹیشن سے تقریباً 14 سال پہلے یعنی سن 1932ء کے بالکل آخر اور سن 1933ء کے بالکل شروع میں لئے چلتا ہوں ۔ جب Puss Moth قسم کا ایک چھوٹا سا تین سیٹر (Three Seater) ہوائی جہاز قادیان میں وارد ہوا۔اس ہوائی جہاز نے قادیان کے ریلوے سٹیشن کے سامنے ( یعنی مغربی جانب واقع ایک وسیع گراؤنڈ میں لینڈ کیا۔اس ہوائی جہاز کے مالک اور پائلٹ کا نام مسٹر چاولہ (Mr Chawla) تھا ۔مسٹر چاولہ اپنا ہوائی جہاز لےکر قادیان اس لئے آئے تھے کیونکہ ان کا ارادہ تھا کہ وہ اپنے اس ہوائی جہاز کولنڈن لے جائیں اور وہاں سے کراچی تک کم از کم ٹائم میں پرواز کر کے لنڈن تا کراچی فلائٹ کا ایک نیا ریکارڈ قائم کر سکیں ( یادر ہے کہ اس زمانہ میں ہندوستان میں سول ہوا بازی کا مرکز کراچی ایئر پورٹ کو ہی سمجھا جا تا تھا ان کے پروگرام کے مطابق ان کی مجوزہ پرواز کے لئے انہیں راستے میں کم از کم 15 جگہ اتر نالازمی تھا۔ کیونکہ اس ہوائی جہاز کے پیٹرول ٹینک کو پورا بھرنے کے باوجود ان کے ہوائی جہاز کی اڑان کی رینج (Range) تین سومیل سے زائد نہیں تھی ۔ اس کے علاوہ چونکہ اس زمانے کے ہوائی جہازوں میں رات کے اندھیرے میں راستہ ڈھونڈنے کے الیکٹرانک ساز وسامان نہیں ہوتے تھے اور پھر راستہ میں نیند پوری کرنے اور سستانے کے لئے وقت بھی درکار تھا اس لئے مسٹر چاولہ کے اپنے اندازے کے مطابق انہیں اس مشن کے لئے تقریباً 15 دن درکار تھے۔اب چونکہ ان کے پاس اس مجوزہ پرواز کے اخراجات ( جس کے بارے میں ان کا اندازہ دس ہزار روپے تھا) نہیں تھے اس لئے انہوں نے ہندوستان کی ریاستوں کے مہاراجوں ،راجوں اور نوابوں سے بذریعہ خطوط Donations مانگے تھے۔ لکھا تھا کہ اگربیس donors مجھے پانچ صد روپے فی ڈونر بھیجیں تو میں کامیاب فلائٹ کر کے ہندوستان کا نام دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں بلند کر سکتا ہوں ۔ان کے خط کی ایک کا پی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکو بھی آئی۔ عجیب اتفاق ہے کہ انہیں سب سے پہلا جواب بھی حضور ؓکی طرف سے ہی ملا جس میں لکھا گیا تھا کہ اگر تم اپنا ہوائی جہاز قادیان لا ؤ اور ہمارے چند افرادکواس میں سیر کرواؤ تو میں تمہیں پانچ صد روپے کا Donation ادا کر دوں گا۔ چنانچہ مسٹر چاولہ اپنا ہوائی جہاز لے کر قادیان آئے ۔اس ہوائی جہاز میں ان کے ساتھ ایک مکینک بھی آیا تھا یہ ہوائی جہاز 30؍دسمبر 1932ءکوسات بجے شام قادیان آیا تھا۔ اس ہوائی جہاز کو دیکھنے کے لئے سارا قادیان اکٹھا ہو گیا اور اس کے لینڈنگ گراؤنڈ کے دونوں طرف ایک بیضوی سانیم دائرہ بنا کر تماش بین پورے تین دن ( دن کے اوقات) وہاں موجود رہے۔

یاد رہے کہ اس زمانے میں قادیان کی کل آبادی تین چار ہزار سے زائد نہیں تھی ۔ یہ واقعہ مجلس احرار کے اس مشہور جلسہ سے ایک سال پہلے کا ہے جب مجلس احرار والے قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا اعلان اور ارادہ سے قادیان میں وارد ہوئے تھے اور انہوں نے قادیان میں آریہ سکول ( نزد ریلوے لائن ) کے قریب اپنا جلسہ کیا تھا۔

دوسرا دن ( یعنی 31؍دسمبر 1932ء) مسٹر چاولہ نے اپنے انتظامی امور اور ٹیکنیکل امور طے کرنے میں صرف کیا اور ہوائی جہاز کی ایک ٹیسٹ فلائٹ بھی کی ۔ نیز حضور سے آپ کے دفتر میں ملاقات کر کے ہوائی جہاز کود یکھنے کی درخواست کی ۔

یکم جنوری 1933ء صبح 11 بجے حضور بھی خدام اور بعض دیگر بزرگان کے ساتھ وہاں تشریف لائے، میں اس وقت آٹھ سال کا تھا اور پر جوش تماش بینوں میں شامل تھا ۔ حضور کی تشریف آوری کے معاً بعد مسٹر چاولہ نے اپنے ہوائی جہاز کی ایک مختصرسی ٹیسٹ پرواز کی اور لینڈ کر نے کے بعد حضور کو اپنے ہوائی جہاز میں سیر کروانے کی دعوت دی ۔ مگر حضور نے پہلی پرواز کے لئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ اور اپنی بیٹی سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ کو سوار کروایا۔ دوسری پرواز میں حضرت صاحبز ادہ مرزا شریف احمد صاحب اور اپنی دوسری بیٹی سید ہ امۃ القیوم صاحبہ کو بھیجا۔ تیسری پرواز میں حضور خود مع صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ کے سوار ہوئے ۔ جہاز اڑا مگر ایک سرکٹ مکمل کرنے کے بعد اترا نہیں بلکہ بلند ہوتا گیا اور قادیان سے مشرق کی جانب دور چلا گیا اور تھوڑی دیر میں نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ یہ دیکھ کر وہاں موجود تمام احباب بہت گھبراگئے ۔بعض کو تو یہ وہم بھی ہو گیا کہ کہیں یہ حضور کو اغوا کرنے کی کوئی خفیہ سازش تو نہیں؟ بعض احباب تو رونے بھی لگ گئے۔ ابھی گھبراہٹ اور بلند آواز دعاؤں کا دور چل ہی رہا تھا کہ ہوائی جہاز مشرقی جانب سے بلندی پر پرواز کرتا ہوا واپس نظر آیا ۔ اسے دیکھ کر لوگوں کی گھبراہٹ ختم ہوئی۔ بعض احباب نے شکرانے کا سجدہ بھی ادا کیا۔

لینڈ کرنے کے بعد حضور نے بتایا کہ میں نے مسٹر چاولہ کواڑ نے کے بعد کہا تھا کہ مجھے دریائے بیاس تک لے چلو تاکہ میں قادیان سے دریائے بیاس تک کے علاقے کو اوپر سے دیکھ سکوں ۔ چونکہ اس ہوائی جہاز میں پائلٹ کی سیٹ آگے تھی اور اس کے پیچھے دو مسافروں کے لئے چوڑی سی سیٹ تھی اس لئے حضور نے زبانی ایک لسٹ سنائی کہ کون کون اب سواری کرے گا۔ وہ پورا دن تو بڑوں اور بزرگوں کو جوڑا جوڑا بنا کر اس جہاز میں سواری کروائی گئی ۔ ان سب کو صرف ایک سرکٹ (تقریباً 7 منٹ ) کی پرواز نصیب ہوتی تھی۔ اگلے دن یعنی آخری دن بچوں کی باری بھی آ نے لگی اور وہ اس طرح کہ ایک بڑا اور دو بچے فی ٹرپ ۔ میں دل میں تڑپ رہا تھا کہ کاش! مجھے بھی موقع مل جاوے ۔ شاید حضور نے میری بے چینی کو بھانپ لیا کہ اچا نک میرا نام پکا را گیا ۔ اپنا نام سن کر مجھے ایسے لگا کہ جیسے میری لاٹری نکل آئی ہو…‘‘(روزنامہ الفضل، ربوہ۔ 26 اگست 2010ء صفحہ3)

الغرض ہوائی سفر کی تاریخ میں ہمیں ملتا ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ نے 1936ء کی مجلس مشاورت میں ایک عجیب رنگ میں اس خواہش کا اظہار کیا۔’’میں نہیں جانتا کہ دوسرے دوستوں کا کیا حال ہے لیکن میں تو جب ریل گاڑی میں بیٹھتا ہوں میرے دل میں حسرت ہوتی ہے کہ کاش! یہ ریل گاڑی احمدیوں کی بنائی ہوئی ہو اور اس کی کمپنی کے وہ مالک ہوں اور جب میں جہاز میں بیٹھتا ہوں تو کہتا ہوں کاش! یہ جہاز احمدیوں کے بنائے ہوئے ہوں اور وہ ان کمپنیوں کے مالک ہوں۔‘‘(خطابات شوریٰ جلد2صفحہ79)

اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے خلافت احمدیہ کے ذریعہ تسخیر افلاک کا سفر تیز تر کردیا ہے مثلاً حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ صدسالہ خلافت جوبلی سال کے دوران دورہ امریکہ 2008ء کے بعد جس جہاز سے کینیڈا تشریف لے گئے اسے خلافت فلائٹ کانام دیا گیا۔ یہ سفر 24؍جون 2008ء کو Continental ایئرلائن پر کیا گیا۔ منعم نعیم صاحب (نائب امیر یو ایس اے) اس ایئرلائن کے وائس پریذیڈنٹ ہیں۔ اس جہاز میں سفر کرنے والے احباب کی تعداد 27تھی۔ جو بورڈنگ کارڈ مہیا کیا گیا اس پر صد سالہ خلافت جوبلی کا لوگو (Logo) بنا ہوا تھا اور ایک طرف منارۃ المسیح کی تصویر تھی۔ بورڈنگ کارڈ کے اوپر لکھا ہوا تھا Khilafat Flight اور ایک حصے پر Ahmadiyya Muslim Community لکھا ہوا تھا اور نچلے حصہ میں Khilafat Centenary Celebrationکے الفاظ درج تھے۔

جہاز کی روانگی کے بعدمنعم نعیم صاحب نے جہاز کے سٹاف کی طرف سے یہ اعلان کیا۔

’’خاکسار منعم نعیم پیارے آقا کی خدمت میں، حضرت بیگم صاحبہ مدظلّہا کی خدمت میں السلام علیکم اور خوش آمدید کہتا ہے۔ ہم اس وقت پیارے آقا کے ہمراہ ’’خلافتِ احمدیہ‘‘ کی فلائٹ 2008ء پر ٹورانٹو کی جانب رواں دواں ہیں۔ یہ فلائٹ کانٹینینٹل ایئرلائن کی چارٹرڈ ڈویژن کی جانب سے چلائی جارہی ہے۔ آپ اس وقت برازیلین کمپنی Embrey E.R.J کے تیار کردہ جہاز پر سفر کررہے ہیں۔ اس طرح کے 250 جہاز کانٹینینٹل ایئرلائن کے Fleet میں ہیں۔ اس کے علاوہ 350 بڑے جہاز جن میں بوئنگ 777، بوئنگ 767، بوئنگ 757 اور بوئنگ 737کے ماڈل ہمارے Fleet میں شامل ہیں۔ کانٹینینٹل ایئرلائن اس وقت دنیا کی چوتھی بڑی ایئرلائن ہے۔‘‘

2018ءمیں حضور کے دورہ امریکہ کے وقت حضور کو اسی طرح اعزاز کے ساتھ سفر کروایا گیا۔

اور اب بالکل حال ہی میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے دورہ امریکہ 2022ءکی رپورٹنگ میں ہے کہ ’’02؍ اکتوبر2022ء بروز اتوار: آج حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ زائن سے طیارہ ’’خلافت فلائٹ‘‘ میں ڈیلس روانہ ہوگئے۔ ’’خلافت فلائٹ‘‘ قریباً 1یک بجے دوپہر شکاگو سے روانہ ہوئی اور تین بجے ڈیلس ایئرپورٹ پر پہنچی‘‘۔

’’09؍ اکتوبر 2022ءبروز اتوار: آج حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ ڈیلس سے طیارہ ’’خلافت فلائٹ‘‘ میں میری لینڈ کے لیےروانہ ہوگئے۔ ’’خلافت فلائٹ‘‘ دوپہر سوا بارہ بجے ڈیلس سے روانہ ہوئی اور پونے چار بجے میری لینڈ کے بالٹی مور ایئرپورٹ پر پہنچی جہاں سے پولیس اسکورٹ کے ساتھ حضورِ انور کا قافلہ دوپہر ساڑھے چار بجے مسجد بیت الرحمان پہنچا ‘‘۔

قریباً 90 سال قبل حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا ایک خوش نصیب مسافرحضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ عنہ کی ہمراہی میں سفر شروع ہوا تھا،اس ضمن میں تازہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سن 2022ء میں اس طیارہ میں تقریباً پچھتر افراد کو حضورِ انورحضرت خلیفة المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ سفر کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔

لاریب وہ وقت دور نہیں جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی نیابت اور جانشینی کامقدس فریضہ ادا کرنے والوں کے لیے نئے سے نئے سنگ میل منتظرہوںگے اور دنیا کی ہر فائدہ مند ایجاد ان کی ہی ممد و معاون ہوکر ان کے آفاقی مشن اور روزمرہ کے کاموں میں سہولت و آسانی پیدا کرنے والی ہوگی۔ اللّٰھم بارک و زد فزد۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button