تقریبِ افتتاح مسجد ’’فتحِ عظیم‘‘ زائن
٭…مختلف جماعتوں اور ممالک سے آنے والے جماعتی عہدیداران اور نمائندوں کے علاوہ 161 غیر مسلم اور غیر از جماعت مہمانوں کی شرکت
٭…تعمیر مساجد کی اغراض، اسلام کی پُر امن تعلیم اور حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کا ڈووی سے مباہلہ کاکچھ اجمالی بیان
٭…’’آج کا دن ہماری جماعت کے لیے بڑا اہم اور بہت خوشی کا باعث ہے‘‘
٭… ’’ہمارا واحد مقصد اور تمنا یہی ہے کہ پیار کے ذریعہ بنی نوع انسان کے دلوں کو جیتا جائے اور ان کو خدا تعالیٰ کے قریب کیا جائے‘‘
٭…’’بانی سلسلہ احمدیہ نے ساری زندگی اپنے پیروکاروں کو پیار، ہمدردی اور احسان پر مشتمل اسلامی تعلیم پر عمل پیرا رہتے ہوئے تبلیغ اسلام کرنے اسلام کا پیغام پہنچانے اور لوگوں کے دل و دماغ جیتنے کی تلقین فرمائی‘‘
٭…’’میری دلی خواہش ہے اور میں دعا کر تا ہوں کہ یہ مسجد انشاء اللہ ہمیشہ امن، تحمل اور تمام بنی نوع انسان سے محبت کا منبع ہو گی۔ میری دعا ہے کہ یہاں عبادت کرنے والے تمام تر عاجزی کے ساتھ اپنے خالق کو پہچانیں، اس کے آگے جھکیں اور بنی نوع انسان کے حقوق ادا کریں‘‘
٭…مسجد کی افتتای تقریب میں شامل ہونے والے معززین کے تاثرات
دورہ امریکہ کے دوران مورخہ یکم اکتوبر2022ء کو ’’مسجد فتح عظیم‘‘ کے افتتاح کے حوالہ سے مسجد کے بیرونی احاطہ میں نصب مارکی میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔
اس تقریب میں مختلف جماعتوں اور ممالک سے آنے والے جماعتی عہدیداران اور نمائندوں کے علاوہ 161 غیر مسلم اور غیر از جماعت مہمانوں نے شرکت کی۔
ان مہمانوں میں وہ تمام مہمان بھی شامل تھے جنہوں نے اس تقریب سے قبل حضور انور کے ساتھ انفرادی طور پر اور گروپ کی صورت میں ملاقات کی تھی۔ اس کے علاوہ Glen Ellynکے میئر مارک Senak صاحب، Glen Ellyn کے سابق میئر مائیک Formento صاحب، زائن کمشنر chris Fischer صاحب، لیک کاؤنٹی بورڈ ممبر جینا رابرٹس، سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر Jesse Rodrigues زائن ہائی سکول پرنسپل Zakhary Livingston بھی اس تقریب میں شامل تھے۔
علاوہ ازیں اس تقریب میں ڈاکٹرز، پروفیسرز، ٹیچرز، وکلاء، جرنلسٹ، میڈیا کے نمائندے، سیکیورٹی کے اداروں کے نمائندے اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے مہمان شامل تھے۔
پروگرام کے مطابق چھ بج کر دس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ مارکی میں تشریف لائے۔ حضور انور کی آمد سے قبل تمام مہمان اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ چکے تھے۔
پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو مکرم مبارک Kukoy صاحب نے کی۔ بعد ازاں اس کا انگریزی ترجمہ مکرم نصیر اللہ صاحب نے پیش کیا۔
اس کے بعد مکرم امجد محمود خان صاحب (نیشنل سیکرٹری امور خارجیہ، یوایس اے) نے اپنا تعارفی ایڈریس پیش کیا۔
٭… بعد ازاں زائن شہر کے میئر آنریبل Billy McKinney نے استقبالیہ ایڈریس پیش کرتے ہوئے کہا آپ سب کا شکر یہ ! آپ سب پر سلامتی ہو اور زائن، الینوائے کے خوبصورت شہر میں خوش آمدید! میرے لیے جماعت احمدیہ مسلمہ کے عالمی راہنما حضرت مرزا مسرور احمد صاحب کو مسجد فتح عظیم کے افتتاح کے موقع پر زائن شہر میں خوش آمدید کہنا انتہائی اعزاز کی بات ہے۔ خلیفۃ المسیح کا آج شام اس تقریب میں شرکت کے لیے ہزاروں میل کا سفر طے کر کے آنایقیناً ہمارے لیے بہت ہی فخر کا باعث ہے۔ یہاں زائن میں، ہمارا ماٹوHistoric past and dynamic future ہے۔
ہمارے شہر کے قلب میں یہ خوبصورت مسجد اس ماٹو کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ میری خواہش اور دعا ہے کہ یہ عبادت گاہ ہمارے ماضی اور مستقبل کے درمیان ایک پل کا کام کرے۔ یہ جانتے ہوئےکہ یہ مسجد ایسی شاندار ایمان سے بھر پور کمیونٹی کے نمازیوں سے بھری ہوئی ہے، مجھے زائن شہر کے مستقبل کے لیے بھی امید دلاتی ہے۔ اگر ہمیں ایک بہتر زائن، ایک بہتر شہر، ایک بہتر ریاست، ایک بہتر ملک اور ایک بہتر دنیا بنانی ہے، تو ہمیں تمام نسلوں اور عقیدوں کے ساتھ مل کر کام کرنا ہو گا۔ جب میں اس پیغام کو دیکھتا ہوں جو احمد یہ مسلم کمیونٹی ہمارے شہر میں لے کر آئی ہے تو مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔ یہ مسلمانوں کی وہ جماعت ہے جس کا نصب العین ’’محبت سب کے لیے، نفرت کسی سے نہیں‘‘ ہے۔ یہ ایک ایسی جماعت ہے جو اسلام کے پیغمبر محمدﷺ کی تعظیم کرتی ہے جنہوں نے عیسائیوں کے ساتھ عہد کیا تھا کہ ان کے پیرو کار گر جا گھروں کی مرمت میں عیسائیوں کی مدد کریں گے اور گرجا گھروں کی ہر قسم کے خطرہ سے حفاظت اور دفاع کے لیے اپنی جانیں بھی قربان کریں گے۔ پس آج جماعت احمدیہ مسلمہ اس شہر زائن میں اسی مسلک اور عقیدہ کا مجسم اظہار کر رہی ہے۔ اس جماعت نے اپنے خلیفہ کی بابرکت قیادت میں امن، انصاف، عالمی انسانی حقوق اور انسانیت کی خدمت کے پیغام کے ساتھ تمام مذاہب کے لوگوں تک رسائی حاصل کی ہے۔ لہٰذا احمدیہ مسلم کمیونٹی کی طرف سے اس شہر میں جو شاندار خدمات انجام دی گئی ہیں، اور اس شہر کی ترقی اور اس کے لوگوں کی فلاح و بہبود کو بہتر بنانے کے لیے جو کام کیے گئے ہیں، ان پر میں آپ کا تہ دل سے شکر گزار ہوں اور ہم اس شہر کی کلید عزت مآب خلیفہ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔اس ایڈریس کے بعد موصوف نے حضور انور کی خدمت میں زائن شہر کی چابی پیش کی۔
٭…بعد ازاں ممبر آف Illinois جنرل اسمبلی آنریبل Joyce Mason نے اپناایڈریس پیش کرتے ہوئے کہا:یہاں زائن میں مسجد فتح عظیم کے افتتاح کی اس تاریخی تقریب کا حصہ بننا میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔ زائن احمد یہ مسلم کمیونٹی کے لیے تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ ضلع کے ریاستی نمائندے کے طور پر، میں اس موقع سے خاص طور پر متاثر ہوئی ہوں کیونکہ یہ نہ صرف احمد یہ مسلم کمیونٹی اور اس کی رکنیت کے لیے بلکہ پورے شہر اور اس کے آس پاس کے علاقے کے لیے ایک خاص لمحہ ہے۔ میں ان تمام مہمانوں کو مبارکباد دینا چاہتی ہوں جو دنیا بھر سے سفر کر کے یہاں پہنچے۔ یہ واقعی اس شہر کے لیے ایک خاص دن ہے۔ زائن ایک ایسی جگہ تھی جس کی بنیاد پچھلی صدی کے آغاز میں الیگزینڈر ڈووئی نے رکھی تھی، جو اسے ایک تھیوکریٹک شہر بنانا چاہتا تھا جس کے دروازے اس کے ماننے والوں کے علاوہ باقی ہر ایک کے لیے بند تھے۔ لیکن آج ہم ایک مختلف تصویر دیکھ رہے ہیں۔ آج زائن شہر مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے 25,000 لوگوں کا گھر ہے۔ یہ مسجد متعصبین کے بارہ میں مومنوں کی دعاؤں کی فتح کی علامت ہے۔ میں احمد یہ مسلم کمیونٹی کو اس شاندار کامیابی پر مبارکباد پیش کرتی ہوں۔ کمیونٹی اور ہم سب خاص طور پر خوش قسمت ہیں کہ عزت مآب خلیفہ نے اس افتتاحی تقریب کی صدارت کرنے کے لیے اتنا لمبا سفر کیا اور میرے لیے ان سے ملنا ایک ناقابلِ یقین اعزاز کی بات ہے۔
احمد یہ مسلم کمیونٹی کا نعرہ ’’محبت سب کے لیے، نفرت کسی سے نہیں‘‘ اکثر اپنے سامنے رکھتی ہوں کیونکہ یہ صرف ایک نعرہ نہیں ہے، بلکہ یہ ان احمدی مسلمانوں کے لیے زندگی گزارنے کا ایک طریقہ ہے اس لیے میں اس کمیونٹی اور آپ سب کی طرف کھچی چلی جاتی ہوں۔ در حقیقت، اس کمیونٹی کے بہت سے افراد ہیں جنہیں میں اپنا خاندان سمجھتی ہوں۔ عزت مآب خلیفہ امن کے فروغ کے حوالہ سے ایک سر کردہ مسلم راہنما ہیں، جو اپنے خطبات، لیکچرز، کتابوں اور ذاتی ملاقاتوں میں جماعت احمد یہ مسلمہ کی خدمت انسانیت، عالمی انسانی حقوق اور ایک پر امن اور انصاف پسند معاشرے کے قیام پر مشتمل اقدار کو پروان چڑھارہے ہیں۔ انہوں نے امن کے قیام پر زور دیتے ہوئے دنیا بھر کے قانون سازوں اور دیگر راہنماؤں سے بات کی ہے۔ آپ خواتین کے حقوق کے بھی علمبر دار ہیں، جیسا کہ میں ذاتی طور پر زائن کی احمدی مسلم خواتین کے حوالہ سے تصدیق کر سکتی ہوں۔ اس کمیونٹی کی خواتین اراکین کا احترام کرتی ہیں اور اپنی جماعت کا لازم و ملزوم حصہ ہیں اور اس مسجد کی تعمیر اس بات کا زندہ ثبوت ہے۔ کیونکہ تعمیرات کے لیے جمع کی گئی رقم کا تقریباً نصف احمدی مسلم خواتین کا تھا۔
موصوفہ نے کہا: زائن شہر کی خوش قسمتی ہے کہ امن پسند اوردوسروں کی خدمت کرنے والی جماعت نے یہاں آباد ہونے اور اتنی خوبصورت مسجد بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ میری دلی تمنا ہے کہ یہ مسجد نہ صرف اس شہر بلکہ چاروں اطراف کے لیے امید کی کرن بن جائے۔ یہ تعلقات کو مضبوط بنانے اور زائن اور اس سے باہر امن اور انصاف کے قیام کے لیے باہمی ذرائع تلاش کرنے میں مدد کرے۔ میں اس کمیونٹی کونئی مسجد کے افتتاح پر مبارکباد دیتے ہوئے ایوان میں ایک قرار داد پیش کر رہی ہوں۔ اور میں اس خوشی کے دن کا حصہ بننے اور اس خاص جماعت کا حصہ بننے پر شکر گزار ہوں۔ بہت بہت مبارکباد اور شکر یہ۔
٭…اس کے بعد آنریبل راجہ Krishana Moorthi نے اپنا ایڈریس پیش کیا۔موصوف نے کہاآپ سب پر سلامتی ہو۔ آپ کے ساتھ یہاں شامل ہو نا اعزاز کی بات ہے۔ یہ ایک حقیقی اعزاز ہے۔ میں عزت مآب خلیفہ کے متعلق اور ان کی کامیابیوں کے بارے میں گھنٹوں بول سکتاہوں۔ میں آپ کی یہاں آمد سے بہت متاثر ہواہوں اور آج کا دن تاریخ میں یادر کھا جائے گا۔ یہاں آنے سے پہلے میں نے حضور کے ساتھ چند منٹ گزارے تھے، اور میں نے انہیں امریکہ میں احمد یہ مسلم کمیونٹی کے بارے میں بھی بتایا۔ وہ بہترین لوگوں میں سے کچھ ہیں جن سے آپ بھی ملیں گے۔ وہ عام طور پر جنوبی ایشیائی کمیونٹی میں ہوتے ہیں، اس لیے میں ان کے بہت قریب ہوں کیونکہ میں ایک ہندوستانی نژاد امریکی ہوں۔ امریکہ میں جنوبی ایشیائی کمیونٹی جس کا احمد یہ مسلم کمیونٹی ایک لازمی جزو ہے، بہت کامیاب ہے۔ یہ امریکہ میں سب سے تیزی سے بڑھتی ہوئی نسلی اقلیت ہے، یہ سب سے زیادہ خوشحال اور بہترین تعلیم یافتہ ہے۔ احمد یہ مسلم کمیونٹی کے لوگوں میں سے کچھ ایسے لوگوں سے بھی آپ ملیں گے جنہوں نے اپنے آپ کو ہسپتالوں کے قیام سے لے کر سکولوں تک، خون کے عطیات کی مہم، ضرورت مند لوگوں کی مدد کرنے سے لے کر قدرتی آفات میں امدادی کارروائیاں کرنے تک اپنے آپ کو خدمت کے لیے وقف کر دیا ہے۔ یہ لوگ ان اقدار کا مجسم ہیں جن کی وہ تبلیغ کرتے ہیں۔ آخر میں، میں ایک نظم کا حوالہ دینا چاہوں گا جو مجھے بہت پسند ہے، جو میرے نزدیک احمد یہ مسلم کمیونٹی کا خلاصہ ہے۔ یہ نظم کچھ اس طرح سے ہے ؛
میں نے اپنی روح کو تلاش کیا لیکن اپنی روح کو نہیں دیکھ سکا
میں نے اپنے خدا کو تلاش کیا لیکن خدائی کا صرف اشارہ ہی ملا
میں نے اپنے بھائی کو ڈھونڈا تو مجھے تینوں چیزیں مل گئیں۔
مجھے یقین ہے کہ احمد یہ مسلم کمیونٹی، جو کہ امریکہ اور دنیا کی بہترین بر ادر یوں میں سے ایک ہے، انسانیت کی خدمت میں اپنے آپ کو وقف کر دیتی ہے۔ اس لیے میں حضور کا شکریہ ادا کر تا ہوں۔ میں اس لیے بھی آپ کا شکر یہ ادا کر تاہوں کہ آپ تشریف لائے اور ہمیں وقت سے نوازا اور آج رات اس پروگرام میں شرکت کے لیے بھی آپ سب کا شکر یہ۔ خدا آپ پر فضل فرمائے۔ شکر یہ۔
٭ بعد ازاں ڈاکٹر Katrina Lantos Swett
جو کہ Lantos فاؤنڈیشن فارہیومن رائٹس اینڈ جسٹس کی چیئر ہیں، نے اپنا ایڈریس پیش کرتے ہوئے کہا: جیساکہ مجھ سے پہلے مقررین نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ آج شام یہاں ان کی موجودگی ان کے لیے کتنی باعث مسرت و افتخار ہے، اسی طرح میں بھی اس بات کا اظہار کرنا چاہتی ہوں کہ آج شام کی اس غیر معمولی تقریب میں شمولیت میرے لیے فخر کی بات ہے۔ مجھے بے انتہا خوشی ہے کہ میں جماعت احمدیہ کو اب کئی سالوں سے جانتی ہوں اور مجھے ایسا محسوس ہو تا ہے کہ جب بھی میں احباب جماعت کے ساتھ ملتی ہوں تو میری روحانیت میں اضافہ ہو تا ہے۔ میں کبھی ایسے کسی دوسرے مذہبی گروہ سے نہیں ملی جو ہو بہو اپنی اس تعلیم کا مجسم ہوں جس کا وہ پرچار کرتے ہوں اور جو روزانہ اپنی زندگیوں میں موجود اعلی اصولوں اور نمونوں کی پیروی کرتے ہوں۔ اور میرا خیال ہے کہ اس کمرہ میں بیٹھے تمام لوگ میرے اس خیال سے اتفاق کریں گے کہ یہ خاصیت اور ایسی اولوالعزمی خداہی عنایت کر سکتا ہے یا پھر حضور جیسی ایک عظیم شخصیت بھی اس کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ اور میں اپنے آپ کو انتہائی خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ آج یہاں آپ سب کے ساتھ موجود ہوں۔ جب میرے دوست امجد صاحب، جو کہ جماعت احمدیہ کے لیے خدمات بجالا ر ہے ہیں، نے یہاں زائن میں ہونے والے مباہلہ کے بارہ میں بتایا تو میں یہ سن کر حیرت زدہ ہو کر رہ گئی تھی۔ یہ بات ایسی حیران کن ہے کہ اس زمانہ میں جب کہ موبائل فون، کمپیوٹر اور دیگر ذرائع مواصلات بھی موجود نہیں تھے اس زمانہ میں بھی اس مقابلہ کو اتنی تشہیر ملی۔
اس مقابلہ میں الوہیت اور انسانیت اور معاشرتی لحاظ سے دو مختلف نظریات پیش کیے گئے تھے۔ ایک نظر یہ ڈاکٹر جان ڈووئی کا تھا جس کی بنیاد نفرت، باہمی تفریق اور تعصب پر رکھی گئی تھی۔ اور دوسرا نظر یہ جو کہ بانی جماعت احمد یہ مرزا غلام احمد صاحب کا تھا جو کہ باہمی عزت اور بردباری پر مشتمل تھا۔ اور ایک ایسی شخصیت کی طرف سے تھا جنہوں نے اس کا نتیجہ کلیۃً اللہ کے ہاتھ میں چھوڑ رکھا تھا۔ پھر نتیجۃً ہم جانتے ہیں کہ اس مباہلہ میں کس کی فتح ہوئی۔
اور یقیناً یہ مسجد جس کا اب افتتاح ہونے جارہا ہے، جس کا نام فتح عظیم مسجد رکھا گیا ہے، اس کا مطلب ہی ایک عظیم الشان فتح ہے جو کہ اس مباہلہ میں جماعت احمد یہ اور بانی جماعت احمدیہ کے حصہ میں آئی۔ لیکن میرے خیال میں ہمیں یہ کہنا چاہیے کہ وہ نہ صرف جماعت احمدیہ بلکہ انسانیت کی بھی فتح تھی، کیونکہ اس سے باہمی عزت، محبت اور تحمل کی بھی فتح ہوئی جس کا نمونہ ہم اب اس عظیم الشان جماعت میں دیکھتے ہیں۔
موصوفہ نے حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ تفصیل سے بیان کرتے ہوئے کہا کہ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اس کے لیے بہت برا کیا تھا لیکن خداتعالیٰ نے ان کے لیے بھلا کیا۔ بعد میں اس نے اپنے بھائیوں کو معاف کر دیا اور صرف اتنا کہا کہ تم لوگوں نے تو برا چاہالیکن خدانے بھلا کر دیا۔
اب جب میں یہ خوبصورت مسجد دیکھتی ہوں جو اس مباہلہ والی جگہ یعنی زائن میں تعمیر کی گئی ہے، تو مجھے وہی یوسف علیہ السلام والا واقعہ یاد آتا ہے کہ جان ڈووئی نے برا چاہا تھا لیکن خدانے بھلا کر دیا اور عظیم الشان فتح جماعت احمدیہ کے حصہ میں آئی۔
موصوفہ نے کہا ہمیں آج شام ان احمدیوں کو بھی یاد رکھنا ہو گا جو کہ دنیا کے ایک دوسرے حصے میں پاکستان میں بیٹھے ہوئے ہیں اور اپنے مذہب کی وجہ سے روزانہ نا قابل بیان ظلم و ستم، تشدد اور منافرت کا سامنا کرتے ہیں۔ جو کہ حکومت وقت کے ہوتے ہوئے بھی اپنے آپ کو اکیلا محسوس کرتے ہیں کیونکہ حکومت ان کو حفاظت مہیا کرنے سے انکار کرتی ہے، پولیس ان کو تحفظ فراہم نہیں کرتی اور دوسرے مذہبی راہنما اپنے پیروکاروں کو ترغیب دلاتے ہیں کہ وہ ان پر دھاوا بولیں۔
چند دن پہلے جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والے دوست نے ایک نئے قسم کے تشدد کے حوالہ سے اطلاع دی ہے کہ ایک راہنما اپنے پیروکاروں کو حاملہ احمدی خواتین کونشانہ بنانے کی ترغیب دلا رہا ہے تا کہ مزید احمدی بچے پیدا ہونے سے روکے جاسکیں۔ یہ انتہائی خوفناک جرائم ہیں اور بنیادی انسانی حقوق کی پامالی ہے۔ لہٰذ ا میرے خیال میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ جماعت جان لے کہ دیگر احمدی احباب کے ساتھ ساتھ ہم لوگ بھی ان کے ساتھ کھڑے ہیں جو کہ اس کمیونٹی سے تعلق نہیں رکھتے۔
میں اپنے احمدی بھائیوں اور بہنوں سے یہ کہنا چاہتی ہوں، کیونکہ ہم یقیناًآپس میں بھائی بہن ہی ہیں، ہم سب جو آپ کی جماعت سے عقیدت رکھتے ہیں اور آپ کی اچھائیوں اور تعلیمات سے آشنا ہیں، اور آپ کے پاکستان میں موجود آپ کے بھائیوں کی تکالیف سے آشنا ہیں، ہم آپ سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جہاں آپ جائیں گے، وہیں ہم جائیں گے، اور جہاں آپ رکیں گے وہیں ہم رکیں گے۔ ہم آپ کے ساتھ ہوں گے اور آخر تک آپ کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ ہمیں آپ سے عقیدت ہے اور آج اس عظیم تقریب میں شمولیت ہمارے لیے باعث افتخار ہے اور میں آپ سب کی مشکور ہوں کہ آپ نے مجھے اس کا حصہ بننے کی اجازت دی۔ شکریہ۔
اس کے بعد مکرم امیر صاحب جماعت احمدیہ یوایس اے مکرم صاحبزادہ مرزا مغفور احمد صاحب نے ڈائس پر آکر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں خطاب فرمانے کی درخواست کی۔
چھ بج کر 55 منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے انگریزی زبان میں مہمانوں سے خطاب فرمایا۔ اس کا اردو ترجمہ پیش کیا جارہا ہے۔
خطاب حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے ساتھ اپنے خطاب کا آغاز فرمایا اور تمام معزز مہمانان کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ کہا۔
اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: سب سے پہلے تو میں آپ سب کا جو آج شام ہمارے ساتھ یہاں شامل ہیں، شکریہ ادا کرنا چاہتاہوں۔ یہ تقریب کوئی دنیاوی نہیں بلکہ خاص مذہبی تقریب ہے جس کا انعقاد ایک اسلامی جماعت نے کیا ہے۔ اس لیے اس تقریب میں شمولیت آپ لوگوں کی کشاده دلی، بر داشت اور وسعت نظر کی عکاس ہے۔ پس آج یہاں زائن میں ہماری نئی مسجد کے افتتاح کے موقع پر ہمارے ساتھ شامل ہونے پر میں دل سے آپ سب کا مشکور ہوں ۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اس شہر میں جماعت احمد یہ مسلمہ کا قیام کئی دہائیاں پہلے ہوا تھالیکن ہمارے پاس باقاعدہ کوئی مسجد نہیں تھی جہاں ہم عبادت کر سکتے۔ اس لیے آج کا دن ہماری جماعت کے لیے بڑا اہم اور بہت خوشی کا باعث ہے۔ یقیناً تمام مذہبی جماعتوں کے لیے ایک ایسی جگہ کا مہیا ہونا بہت اہم ہے جہاں اس مذہب کے لوگ جمع ہو کر عبادت کر سکیں۔ جہاں تک اسلام کا تعلق ہےتو ہمارے نزدیک مسجد کے دوہرے فوائد ہیں۔ ایک تو یہ کہ مسجد مسلمانوں کے لیے اکٹھے ہو کر خداتعالیٰ کی عبادت کرنے اور ان کے مذہبی فرائض کو ادا کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے جیسا کہ اسلام مسلمانوں کو روزانہ پانچ مرتبہ عبادت کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اس کے علاوہ مسجد کے تعمیر کرنے کا دوسرا بڑا فائدہ یہ ہے کہ مسجد کے ذریعہ معاشرے کے دیگر لوگوں کو اسلامی تعلیمات سے متعارف کروایا جاسکتا ہے۔ اگر وہ لوگ جو خالص ہو کر مسجد میں عبادت کرتے ہیں، وہ صحیح معنوں میں اسلامی تعلیمات پر غور و فکر کریں اور ان تعلیمات کو عملی طور پر پیش کریں۔
طبعی طور پر مقامی لوگوں کے اندر اسلام کے متعلق جاننے کا شوق اور جستجو پیدا ہوگی۔اسلام کے بارے میں ان کے علم و فہم میں اضافہ ہوگا۔ اور مسلمانوں کو اپنے اندر پرامن طور پر رہتے ہوئے اور معاشرہ کا مثبت حصہ بنتے دیکھ کر ان کے دلوں میں جو خوف یا تحفظات ہیں وہ بھی دور ہو جائیں گے۔ انشاءاللہ۔ پس یہ دو مقاصد ہیں جن کو پورا کرنے کے لیے جماعت احمد یہ دنیا بھر میں مساجد تعمیر کرتی ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آپ میں سے بعض یہ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ احمدی مسلمانوں اور دیگر مسلمانوں میں کیا فرق ہے۔
قرآن کریم اور رسول کریم ﷺ کی اس حوالہ سے ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے۔ یہ مقدر تھا کہ کئی صدیاں گزر جانے کے بعد مسلمان اسلامی تعلیمات سے دور ہٹ جائیں گے اور آخر کار مسلمانوں کی اکثریت اسلامی تعلیمات کو چھوڑ دے گی اور صرف نام کے ہی مسلمان رہ جائیں گے۔ ساتھ ہی اللہ تعالیٰ اور رسول کریم ﷺ نے یہ بھی خوشخبری دی کہ اس روحانی زوال کے دور میں اللہ تعالیٰ اسلام کی اصل تعلیمات کو از سر نو زندہ کرنے کے لیے ایک موعود مصلح کو بھیجے گا جس کو مسیح محمدی کا خطاب دیا جائےگا۔ وہ مسیح دنیا کو بتائےگا کہ اسلامی تعلیمات تو امن، محبت اور ہم آہنگی کی تعلیمات ہیں۔ وہ مسیح لوگوں کو تلقین کرے گا کہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر پرامن طور پر زندگی گزار یں اور ایک دوسرے کے ساتھ مذہبی اختلافات سے بالا ہو کر باہمی پیار اور محبت کے تعلقات قائم کریں۔ چنانچہ احمدی مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا پختہ یقین ہے کہ اس جماعت کے بانی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام وہی موعود مسیح اور مہدی ہیں جن کے متعلق قرآن کریم اور رسول کریمﷺ نے پیشگوئی فرمائی تھی۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: بانی سلسلہ احمدیہ نے ساری زندگی اپنے پیروکاروں کو پیار، ہمدردی اور احسان پر مشتمل اسلامی تعلیم پر عمل پیرا رہتے ہوئے تبلیغ اسلام کرنے اسلام کا پیغام پہنچانے اور لوگوں کے دل و دماغ جیتنے کی تلقین فرمائی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اعلان کیا کہ وہ مسیح موسوی کی طرح اسلامی تعلیمات پھیلائیں گے۔ چنانچہ حضرت عیسی علیہ السلام کی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بنی نوع انسان سے ہمدردی اور پیار کا اظہار فرمایا۔ آپ علیہ السلام کا ہر لفظ اور عمل قیام امن اور معاشرہ میں باہمی اخوت قائم کرنے کے لیے تھا۔ آپ علیہ السلام نے اپنے پیروکاروں کو تعلیم دی کہ اسلام کا اصل مطلب ہی امن اور سلامتی ہے اور آپ علیہ السلام کے ظہور کے بعد اسلام اپنی اصل روحانی حالت کی طرف لوٹ آئے گا اور ایک دن دنیا اسلام کو ایک پیار، محبت، بردباری، ہم آہنگی اور امن کے مذہب کے طور پر جانے گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے واضح کیا کہ قرآنی تعلیمات کے مطابق اسلام کے آغاز میں جو جنگیں لڑی گئیں وہ محض دفاعی تھیں اور سخت ترین مظالم کو روکنے کے لیے لڑی گئیں۔ رسول کریم ﷺ کے دور مبارک یا آپ ﷺ کے بعد آپ ﷺ کے چار خلفائے راشدین کے دور میں ایک مرتبہ بھی ایسانہ ہوا کہ اسلامی فوجوں نے از خود جنگ شروع کی ہو یا کسی قسم کا ظلم یا نا انصافی کی ہو۔ بلکہ جس بھی جنگ یالڑائی میں مسلمان شامل ہوئے اس کا مقصد ظلم و بر بریت کا خاتمہ تھا۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آج کل دور جدید میں جہاں جغرافیائی تنازعات دن بدن د نیا میں تباہی و بربادی لےکر آرہے ہیں، وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ہر قسم کی مذہبی جنگ بند ہے۔ اس لیے مسلمانوں یا کسی بھی مذہب کے لوگوں کے لیے مذہب کے نام پر جنگ کرنا کسی طور پر بھی جائز نہ تھا۔ چنانچہ یہ واضح ہو کہ جماعت احمد یہ مسلمہ کا مقصد علاقوں، ملکوں یا شہروں پر قبضہ کرنا یا اقوام کو مسمار کرنا نہیں ہے۔ نہ ہی ان ممالک میں جہاں ہمارے پیغام کو بڑی تعداد نے قبول کیا کسی نے بھی سیاسی طاقت یاد نیاوی اثر و ر سوخ حاصل کرنےکی خواہش کی۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ہمارا واحد مقصد اور تمنا یہی ہے کہ پیار کے ذریعہ بنی نوع انسان کے دلوں کو جیتا جائے اور ان کو خدا تعالیٰ کے قریب کیا جائے تاکہ وہ اس کے حقیقی بندے بن سکیں اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کر سکیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک بہت ہی خوبصورت شعر میں فرمایا کہ انہیں کسی دنیاوی رتبہ یا سیاسی طاقت کی خواہش نہیں ہے۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں؛
مجھ کو کیا ملکوں سے میرا ملک ہے سب سے جدا
مجھ کو کیا تاجوں سے میرا تاج ہے رضوان یار
دنیاوی و سیاسی طاقتوں سے مکمل بے رغبتی ہی جماعت احمدیہ مسلمہ کا شروع سے طرہ امتیاز رہا ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔ ہم تو صرف اسلام کی محبت اور امن کی تعلیمات پھیلانا چاہتے ہیں جو کہ ہم گزشتہ ایک سو تیس سے زائد برس سے کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر سال دنیا بھر سے ہزار ہالوگ ہماری جماعت میں شامل ہوتے ہیں۔ ہمارا کسی مذہب یا قوم یا شخص سے کوئی بغض و عناد یا لڑائی نہیں ہے۔ بلکہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے مقابل کھڑے ہوتے ہیں اور اس کے مذہب کو تباہ کرنا چاہتے ہیں، ان کے لیے بھی ہمارا رد عمل یہ نہیں ہو تا کہ ان کے خلاف ہتھیاراٹھالیے جائیں یا ان پر کسی قسم کا جبر کیا جائے۔ بلکہ اس کے بر عکس ہمارا رد عمل صرف یہی ہو گا کہ ہم کامل عاجزی کے ساتھ خداتعالیٰ کے حضور جھکیں گے۔ ہمارا واحد ہتھیار تو دعا ہی ہے اور ہمیں یقین ہے کہ خدا تعالیٰ ہماری دعاؤں کو سنتا ہے۔ یقیناً ہماری جماعت کی ایک سو تینتیس سالہ تاریخ اس حقیقت پر گواہ ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جہاں تک آزادی مذہب اور آزادی ضمیر کا تعلق ہے تو ہم اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ مذہب اور عقیدہ ہر ایک کا ذاتی معاملہ ہے اور ہر ایک کو اپناراستہ اختیار کرنے کا حق ہے۔ ہمارا یہ کوئی نیا موقف نہیں ہے جسے ہم نے ابھی اپنایا ہو بلکہ ہمارے اس مؤقف کی بنیاد قرآن کریم کی اصل تعلیمات ہیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آپ کو معلوم ہو گا کہ حال ہی میں ملکہ برطانیہ الزبیتھ دوم وفات پاگئی ہیں اور ان کا بیٹا چارلس سوم بادشاہ بناہے۔ یو کے میں بادشاہ کے آفیشل القابات میں ایک Defender of the Faith
بھی ہے۔ بہت سے مواقع پر کنگ چارلس نے تمام مذاہب کی تکریم کا اظہار کیا ہے۔ اس نے یہ خواہش بھی کی کہDefender of the Faith کی بجائے اس کی پہچان بطورDefender of all faithsہو۔ بلاشبہ یہ قابلِ تعریف بیان ہے اور کنگ چارلس کی کشادہ دل طبیعت اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی سوچ کی عکاسی کرتاہے۔ تاہم، تخت سنبھالنے پر بعض مبصرین نے اس خیال کا اظہار کیا کہ ٹائٹل میں ایسی تبدیلی کو عالمی طور پر عیسائی کمیونٹی میں سراہانہیں جائےگا یا بعض غیر عیسائی بھی اسے ناپسند کریں۔ اس حوالہ سے ایک سرخی اس طرح آئی کہ ’’بادشاہ کی تمام مذاہب کے تحفظ کی خواہش شاید خام خیالی ہی ثابت ہو۔‘‘
حضور انور اید ہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جہاں بعض یہ خیال کرتے ہیں کہ مذہبی ہم آہنگی کو تقویت دینے کی یہ کوششیں رائیگاں جائیں گی، میری نظر میں تمام مذاہب کا تحفظ اور حقیقی مذہبی آزادی کا قیام دراصل دنیا میں امن قائم کرنے کی بنیاد ہے۔ اس حوالہ سے میں امریکی حکومت کے اس اقدام کو سراہتا ہوں کہ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے تحت آفس آف انٹر نیشنل ریلیجس فریڈم قائم کیا گیا ہے۔ جو کہ اب عالمی سطح پر مذہبی آزادی کو فروغ دینے کے لیے ہر سال انٹر نیشنل کا نفرنس کا اہتمام کر تا ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: دنیا میں امن قائم کرنے کے ضمن میں قرآن کریم کی سورۃ الحج کی آیت 40 اور 41 میں عالمی مذ ہبی آزادی قائم کرنے کا عظیم الشان اور بنیادی اصول بیان کیا گیا ہے۔ ان آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’قتال کی اجازت صرف ان لوگوں کو دی جاتی ہے جن کے خلاف جنگ کی گئی ہے کیونکہ ان پر ظلم کیے گئے۔ اور یقیناً اللہ ان کی مدد پر پوری قدرت رکھتا ہے۔
وہ لوگ جنہیں ان کے گھروں سے ناحق نکالا گیا محض اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ اللہ ہمارارب ہے۔‘‘
پھر فرماتا ہے : اور اگر اللہ کی طرف سے لوگوں کا دفاع ان میں سے بعض کو بعض دوسروں سے بھٹرا کر نہ کیا جا تا تو راہب خانے منہدم کر دیے جاتے اور گر جے بھی اور یہود کے معابد بھی اور مساجد بھی جن میں بکثرت اللہ کا نام لیا جا تا ہے۔ اور یقیناً اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کر تا ہے۔ یقینا ًاللہ بہت طاقتور ( اور ) کامل غلبہ والا ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ان دو آیات کریمہ میں جہاں اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اسلام کو دفاعی جنگ کی اجازت دی ہے وہاں یہ بھی واضح طور پر معین کر دیا کہ یہ اجازت اس لیے دی گئی ہے کہ ظلم کرنے والے نے دنیا سے مذہبی آزادی ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ جنگ کی اجازت صرف مسلمانوں اور ان کی مساجد کی حفاظت کے لیے یا دین کو پھیلانے کے لیے نہیں دی گئی بلکہ قرآن کریم معین طور پر فرماتا ہے کہ اگر مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے والوں کو طاقت سے روکا نہ جاتا تو کوئی گرجا، راہب خانہ، مندر، مسجد اور کوئی معبد محفوظ نہ رہتا۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: چنانچہ قرآن کریم ہی وہ واحد کلام ہے جو نہ صرف تمام مذاہب و عقائد کے پیروکاروں کو کھل کر مذ ہبی آزادی فراہم کر تا ہے بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر تمام مسلمانوں کو اور تمام ایسے افراد جو کہ مسجد آتے ہیں، ان کو غیر مسلموں کے مذہبی حقوق کی حفاظت کا حکم دیتا ہے۔ یہ وہ اعلیٰ کلام ہے جو کہ تمام مذاہب، ادیان اور عقائد کی حفاظت اور دفاع کرتا ہے۔ یہ وہ خالص اور ہر ایک کے حقوق سمونے والی اسلامی تعلیمات ہیں جو ہم تمام دنیا تک پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جہاں تک اس مسجد کا تعلق ہے تو آپ سوچتے ہوں گے کہ ہم نے زائن میں مسجد تعمیر کرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ یقیناً اس کا بنیادی مقصد تو وہی ہے جو میں بیان کر چکا ہوں۔ دوسرا یہ کہ جو لوگ اس شہر کی تاریخ سے واقفیت رکھتے ہیں، ان کو علم ہو گا کہ زائن شہر کی بنیاد ایک Evangelist عیسائی، مسٹر الیگزینڈر ڈووئی نے رکھی،جس نے خدا کی طرف سے مامور ہونے کا دعوی کیا تھا
مسٹر ڈووئی اسلام کی سخت مخالفت اور مسلمانوں سے نفرت کا اظہار کر تا تھا۔ یہ مخالفت بانی جماعت احمدیہ کے علم میں آئی اور آپ علیہ السلام نے اس کو براہ راست جواب دیا۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آپ میں سے بعض یہ سوال اٹھائیں گے کہ بانی جماعت نے مسٹر ڈووئی کو مخاطب کرتے ہوئے سخت لہجہ کیوں اپنایا اور یہ کس طرح آپ علیہ السلام کی پیار و محبت کی تعلیم سے مطابقت رکھتا ہے ؟
دراصل حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی پر امن تعلیمات اور ڈووی کو جواب دینے میں باہم کوئی تضاد نہیں ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کسی ایک موقع پر بھی فساد اور انتہاپسند رد عمل کی ہدایت نہیں کی۔ در حقیقت جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مسٹر ڈووئی کی اسلام اور بانی اسلام ﷺ کے خلاف ہرزہ سرائی کا علم ہوا تو آپ علیہ السلام نے باہمی احترام ملحوظ رکھتے ہوئے اسے دلیل سے قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کرے اور مسلمانوں کے جذبات کا خیال کرے۔ اس کے بر خلاف مسٹر ڈووئی اسلام کے مقابل کھڑ ا ہو گیا اور کھل کر اسلام کے نابود کرنے کی خواہش کی۔ مثلاً لکھتا ہے کہ میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ دن جلد آوے کہ اسلام دنیا سے نابود ہو جاوے۔ اے خدا تو ایساہی کر۔ اے خدا اسلام کو ہلاک کر دے۔
پھر اپنی تحریرات میں مسٹر ڈووئی نے بڑے فخریہ انداز میں اس کو عیسائیت اور اسلام کے مابین عظیم جنگ قرار دیا۔ اس نے لکھا کہ اگر مسلمان عیسائیت قبول نہ کریں تو وہ ہلاکت و تباہی میں مبتلا ہوں گے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ان انتہائی بیانات اور ہر زہ سرائی کے جواب میں بانیٔ جماعت احمدیہ علیہ السلام نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ہزاروں بلکہ لاکھوں معصوم افراد اس تکلیف سے بچ جائیں جس میں وہ مسٹر ڈووئی کی عیسائیوں اور مسلمانوں کے مابین مذہبی جنگوں کی خواہش پوری ہونے کے نتیجہ میں پڑ سکتے تھے۔ چنانچہ آپ علیہ السلام نے مسٹر ڈووئی کو مباہلہ کا چیلنج دیا۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ مسلمانوں کی ہلاکت و تباہی کی دعا کرنے کی بجائے مسٹر ڈووئی یہ دعا کرے کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ دوسرے کی زندگی میں مر جائے۔ یہ دراصل ایک ہمدردانہ فعل اور حالات کو بہتر کرنے کا ذریعہ تھا۔ بجائے اس کے کہ تمام مسلمانوں اور عیسائیوں کو ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کر دیا جائے، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات پر زور دیا کہ آپ اور مسٹر ڈووی دعا کا سہارا لیں اور معاملہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں چھوڑ دیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: یہ سچائی جاننے کا ایک مناسب اور پرامن ذریعہ تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ عداوت اور اشتعال انگیزی کے مقابلہ پر صبر کا کامل نمونہ تھا تو اس میں کوئی مبالغہ نہ ہو گا۔ اس چیلنج کے بعد مسٹر ڈووئی نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف انتہائی نازیبا طریق اختیار کیا۔ چنانچہ رپورٹ ہوا ہے کہ مسٹر ڈووئی نے کہا: ’ہندوستان میں ایک محمدی مسیح ہے جو مجھے بار بار لکھتا ہے…تم خیال کرتے ہو کہ میں ان مچھروں اور مکھیوں کاجواب دوں گا، اگر میں ان پر اپنا پاؤں رکھوں تو میں ان کو کچل کر مار ڈالوں گا۔‘
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے پھر اپنا چیلنج دہرایا اور امریکہ اور دیگر علاقوں میں اس کی خوب تشہیر ہوئی۔ صحافی حضرات مسٹر ڈووئی کی طاقت، دولت اور اعلیٰ مقام کو بیان کرتے اور اس کا موازنہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے اس طرح کرتے کہ انڈیا کے ایک دورافتادہ گاؤں سے تعلق رکھنے والا شخص، جس کی دولت اور دنیاوی رسوخ کا مسٹر ڈووئی سے کوئی مقابلہ ہی نہیں۔
پھر جسمانی طور پر بھی مسٹر ڈووئی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے عمر میں چھوٹا اور صحت میں بہتر تھا۔ اس تمام ظاہری فرق کے باوجود حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام بانی جماعت احمد یہ نے کبھی بھی اپنا چیلنج واپس لینے کا نہیں سوچا اور اس حوالہ سے ذرا بھی ہچکچاہٹ کا اظہار نہیں کیا اور تمام دنیاوی بے سرو سامانی کے باوجود جلد ہی نتائج آپ علیہ السلام کے حق میں پلٹ گئے۔ پے در پے ایسے واقعات ہوئے کہ ڈووئی کی حمایت جاتی رہی اور اس کی دولت، جسمانی اور ذہنی صلاحیتیں ختم ہو گئیں۔ بالآخر وہ اپنے انجام کو پہنچا جس کو یو ایس میڈیا نے ’افسوسناک انجام‘ قرار دیا۔ یقینا ًاس وقت کا یوایس میڈ یا خراج تحسین کے لائق ہے جس نے ایمانداری سے اس کی رپورٹنگ کی۔ مثلاً ایک مشہور Boston Herald اخبار نے یہ سرخی دی کہ
’Great is Mirza Ghulam Ahmad – the Messiah‘
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: میری دلی خواہش ہے اور میں دعا کر تا ہوں کہ یہ مسجد انشاءاللہ ہمیشہ امن، تحمل اور تمام بنی نوع انسان سے محبت کا منبع ہو گی۔ میری دعا ہے کہ یہاں عبادت کرنے والے تمام تر عاجزی کے ساتھ اپنے خالق کو پہچانیں، اس کے آگے جھکیں اور بنی نوع انسان کے حقوق ادا کریں۔ کیونکہ ہمارا یہ یقین ہے کہ ہم اس صورت کامیاب و کامران ہو سکتے ہیں کہ جب ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنے اور بنی نوع انسان کے حقوق ادا کرنے والے ہوں گے۔ ان الفاظ کے ساتھ میں آپ سب کا ایک مرتبہ پھر شکریہ ادا کرتاہوں کہ آپ آج شام اس پروگرام میں شامل ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ سب پر فضل فرمائے۔ آمین
آخر پر حضور انور نے میئر کا شکریہ اداکیا کہ انہوں نے شہر کی چابی پیش کی۔ نیز فرمایا : مجھے یقین ہے کہ اب یہ چابی محفوظ ہاتھوں میں ہے۔
حضور انور کا یہ خطاب سات بج کر 23 منٹ تک جاری رہا۔ آخر پر حضور انور نے دعا کروائی۔
حضور انور کے خطاب کے اختتام پر مہمانوں نے دیر تک تالیاں بجائیں۔
بعد ازاں ڈنر کا پروگرام ہوا۔ کھانے کے بعد بھی بعض مہمانوں کے ساتھ حضور نے گفتگو فرمائی۔
بعد ازاں حضور انور خواتین کی مارکی میں تشریف لے گئے۔ جہاں خواتین مہمان موجود تھیں۔
آٹھ بج کر تیس منٹ پر حضور انور نے نماز مغرب و عشاء جمع کر کے پڑھائیں۔ بعد ازاں اپنے رہائشی حصہ میں تشریف لے گئے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے آج کے خطاب نے مہمانوں پر گہرا اثر چھوڑا اور بہت سے مہمانوں نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا:
Illinois کے کانگرس مین راجا کرشنا مورتی صاحب نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کیا ہی خوبصورت دن ہے اور کیا ہی خوبصورت پروگرام ہے۔ حضور نے اپنی آمد سے ہمیں شرف بخشا۔ مسجد فتح عظیم لوگوں کے جمع ہونے کے لیے، عبادت کرنے کے لیے، باہمی تعلقات بڑھانے کے لیے اور اسلام کے بارے میں آگاہی حاصل کرنے کے لیے بہت ہی عمدہ جگہ ہو گی۔
ایک اور مہمان Cheri Neal صاحبہ جو کہ زائن
(Township) کی سپر وائزر ہیں بیان کرتی ہیں کہ میں تمام انتظامات سے بہت حیران ہوں۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ آپ اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوئے ہیں، جس کے لیے ایک عرصہ محنت کی ہے۔ میں یہاں آکر بہت خوش ہوں۔
John D. Eidelburg لیک کاؤنٹی کے شیرف بیان کرتے ہیں کہ یہاں آکر حضور کو دیکھنا ان سے ملنا، ان سے بات کرنا اور مختلف راہنماؤں کو سننا میرے لیے خوشی کا باعث ہے۔ یہاں آنا میرے لیے باعث فخر ہے۔ میں آپ کا مشکور ہوں کہ آپ نے مجھے اپنی جماعت کے ساتھ خوبصورت لمحات گزارنے کا موقع دیا۔ حضور نے باہمی تعلقات اور آپس میں کام کرنے کے بارہ میں بات کی،میں اس سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ آپ کی تقریر سننا میرے لیے قابل فخر تھا۔ آپ کی تقریر خیالات کو روشن کرنے والی تھی۔
ایک اَور مہمان Craig Considine صاحب جو کہ رائس یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں بیان کرتے ہیں کہ آپ کا پیغام محبت سب کے لیے اور نفرت کسی سے نہیں، باہمی احترام، تحمل، عزت نفس کا خیال رکھنا، یہ سب بنیادی چیز یں ہیں اور ہمارے دل سے آتی ہیں اور اس سے دل و دماغ کی روحانی بیداری ہوتی ہے۔
زائن کے سابقہ کمشنر Amos Monk صاحب، بیان کرتے ہیں کہ میرے خیال میں آپ کی تعلیمات ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہیں اور دنیا کو اس سے زیادہ آگاہی ہونی چاہیے۔ میرے خیال میں یہ آج کل کی دنیا کا خوبصورت ترین راز ہے۔ میں اپنے سامنے میز پر پڑے بروشر دیکھ سکتا ہوں جس پر عدل، انصاف، خلوص اور محبت کا پیغام ہے۔ یہی تو وہ چیزیں ہیں جس کی دنیا کو ضرورت ہے۔ نفرت ختم کر دیں تو دنیا جنت نظیر ہو جائے گی۔ میرے خیال میں یہ پیغام تمام دنیا کو سننا چاہیے۔ دنیا کے مسائل کا یہی حل ہے۔
زائن شہر کے میئر Billy McKinney صاحب جنہوں نے حضور انور کی خدمت میں زائن شہر کی چابی پیش کی، اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں یہاں 1962ءسے مقیم ہوں۔ جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ یہ پروگرام زائن شہر اور جماعت احمدیہ کے لیے ایک تاریخی پروگرام ہے۔ حضور سے مل کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ کسی سے مل کر مجھے چپ لگ گئی ہو، مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کہوں۔ آپ کی موجودگی کا احساس بہت عمدہ ہے۔ جماعت احمدیہ نے اس کمیونٹی میں بہت خدمات سرانجام دی ہیں۔ آئندہ بھی ہم امید کرتے ہیں باہمی تعلقات کو بڑھاتے ہوئے مل کر کام کرتے رہیں گے۔ شہر کے عین وسط میں مسجد کا ہونا بھی ایک عمدہ احساس ہے۔
Rabbi Melinda Zalma صاحبہ جو کہ نیویارک کے Tanenbaum Center of Inter-Religious Understanding سے تعلق رکھتی ہیں، بیان کرتی ہیں کہ جماعت احمدیہ سے ہمیشہ کی طرح بہت متاثر ہو ئی ہوں۔ آپ کے خلیفہ کا پیغام بہت عمدہ اور سب کو ساتھ لےکر چلنے والا ہے۔ ان تعلیمات کا عملی نمونہ دکھانا، سب کے لیے دروازے کھلے رکھنا، امن کے قیام کے لیے کام کرنا، ہر ایک کا بطور انسان احترام کرنا۔ یہ بہت ہی اعلی تعلیم ہے۔
ایک لوکل آرکیٹیکٹ Kelvin Cox صاحب جنہوں نے مسجد کا نقشہ، ڈیزائن اور تعمیر میں کام کیا ہے، کہتے ہیں یہ بہت ہی عمدہ عمارت ہے اور یہاں پر حضور کی موجودگی، یہ احساس میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ حضور نے جو خداتعالیٰ کا پیغام دیا کہ دنیا اور سیاسی امور سے کوئی تعلق نہیں، صرف امن اور پیار کا پیغام پہنچانا ہے۔
یہ بہت عمدہ پیغام تھا اور یہی ہے جس کی دنیا کو آج ضرورت ہے۔
اس پروگرام میں ایک مہمان ایسے بھی شامل تھے، جنہوں نے زائن مسجد کے سنگ بنیاد کے موقع پر ایک اینٹ رکھنے کی سعادت پائی تھی۔ انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج ایک خوبصورت دن تھا۔ میں صبح بیدار ہوا، جیسے کہ آج کا دن بہت خاص ہے۔ مجھے پچھلے سال اس (مسجد ) کا سنگ بنیاد رکھنے کی توفیق ملی۔ میں بہت خوش تھا کہ اسے مکمل ہوتا دیکھوں گا اور حضور سے مل سکوں گا۔ ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ حضور یہاں تشریف لائے ہیں۔ آپ کی مسجد ہماری کمیونٹی کے لیے امید اور دوستی کا ذریعہ ہے۔
زائن کی پولیس کے چیف Eric Bricbarden صاحب بیان کرتے ہیں کہ یہ ایک بہت اچھا پروگرام تھا۔ سب لوگوں کی طرف سے محبت اور خلوص دیکھ کر بہت اچھا لگا۔ یہ پیغام کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کون ہو، اہمیت اس بات کی ہے کہ ایک دوسرے کا خیال رکھنے والے ہو، کیا ہی عمدہ اور خوبصورت پیغام ہے۔ بہت ہی اچھا پروگرام رہا۔
ایک مہمان Jennifer Smith صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ اگر آپ کی جماعت کے اصولوں کی بات کی جائے تو وہ سب سے اعلیٰ ہیں۔ جب آپ زائن شہر میں قدم رکھتے ہیں تو پرانی عمارت پر ایک ماٹو محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں، کا پیغام دکھائی دیتا ہے اور اس کی گونج آپ کے ساتھ رہتی ہے۔ یہ آواز آپ کے ساتھ رہتی ہے اور یہی زائن شہر کی اصل روح ہے۔
ایک مہمان نے بیان کیا کہ یہ جان کر بہت اچھا لگا کہ ہمارے درمیان آپ جیسے راہنما موجود ہیں جو کہ لاکھوں لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اور لوگوں کو آپس میں جوڑتے ہیں، اس موضوع پر بات کرتے ہیں کہ ہم سب ایک ہیں اور ہر مذہب کی اہمیت ہے۔ یہ پیغام بہت اچھا اور پر اثر تھا۔
ایک لوکل ہائی سکول کے پرنسپل Zach Livingston صاحب بیان کرتے ہیں که زائن ایک چھوٹی کمیونٹی ہے، اور ایسے پروگرام، اور لوگوں کو قریب لانے کے ایسے مواقع بہت اچھے ہوتے ہیں۔ مسجد کا افتتاح بہت اچھا قدم ہے اور ہمارے لیے فخر کا باعث ہے۔
رائس یونیورسٹی کے پروفیسر Craig Considine صاحب نے مباہلہ کے بارہ میں حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ زیادہ لوگوں کو اس کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے۔ کہتے ہیں کہ مجھے حضور کی موجودگی میں سکون اور اطمینان حاصل ہوا اور یہ کہ حضور کا پیغام سب کو سننا چاہیے۔
شکاگو سے مہمانوں کے ایک گروہ نے تقریب کے ناقابل یقین انتظام اور خدمت گزاروں کے آداب کو محسوس کیا۔ انہوں نے یہ بھی بیان کیا کہ جب بھی وہ ہماری کسی تقریب میں شامل ہوئے محبت اور امن کا پیغام ہر چیز کی بنیاد رہا۔ انہوں نے حضور کے ساتھ تصویر بھی لی اور کہا کہ یہ ان کی زندگی کا اہم ترین موقع تھا۔ مہمانوں نے مجموعی طور پر انتظامیہ کے بارے میں مثبت خیالات کا اظہار کیا، بار بار لوگوں کو چیک کرنا، حفاظتی امور کی تلقین کرنا، کسی نے بھی اپنا آئی ڈی کارڈ دکھانے یا کووڈ کارڈ دکھانے سے انکار نہیں کیا اور نہ ہی جب انہیں ٹیسٹ کروانے کا کہا گیا تو انہوں نے انکار کیا۔
ایک مہمان خاتون Lesley صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ اول تو یہاں پر میر اہونا ایک اعزاز کی بات ہے۔ میں نے جو کچھ یہاں سے سیکھا اور یہاں کی خوبصورتی اور امن سے بہت متاثر ہوں۔ میرے پاس وہ الفاظ نہیں ہیں جن سے بیان کر سکوں کہ آج کادن میرے لیے کتنا با معنی تھا۔
ایک مہمان Rabbi Melinda Zelma صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ میں اس تقریب سے بہت متاثر ہوں، خاص طور پر یہاں کام کرنے والوں سے۔ رابی مالینڈا نے حضور کے ساتھ ملاقات، حضور سے سوال و جواب اور جلسہ سالانہ میں شرکت کی خواہش پر شکر گزاری کا اظہار کیا۔
ایک خاتون مہمان Gloriaصاحبہ بیان کرتی ہیں کہ زائن کی تاریخ بہت معلوماتی تھی، اگر چہ میں یہاں پر رہتی ہوں لیکن اس جگہ کے بارے میں کافی چیزیں ایسی تھیں جو میں نہیں جانتی تھی۔
ایک مہمان نے کہا کہ میں نے اس تقریب سے بھر پور لطف اٹھایا اور اس پیغام نے مجھے بہت متاثر کیا۔ میں آپ کے ماٹو ’محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں‘۔ کے بارے میں جانتا تھا لیکن آپ لوگوں کو دیکھ کراس پر مزید یقین بڑھا۔ سب کچھ بہت بہترین تھا۔ کاش سب لوگ اس محبت کے پیغام کو سمجھ سکتے جو آپ لوگ پھیلا رہے ہیں۔ مجھے بہت ساری چیزوں نے متاثر کیا۔ جب حضور نے فرمایا کہ قرآن مجید ہی ایک وہ کتاب ہے جو تمام مذاہب کی حفاظت کرتی ہے۔ میں نے یہ نئی بات سیکھی ہے کیونکہ مجھے پہلے اس بات کا علم نہیں تھا۔
ایک مہمان نے بیان کیا کہ آپ کی جماعت اور مسجد کی عمارت نے مجھے بہت متاثر کیا۔ یہ بہت خوبصوت ہے۔ ہم اس دعوت نامہ کے بہت شکر گزار ہیں۔
ایک مہمان نے کہا کہ اس مسجد کو بنتا ہوا دیکھ کر ہم بہت پر جوش ہیں۔ ہمیں اس علاقہ میں رہتے ہوئے 40 سال ہو گئے ہیں۔