خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۳۰؍دسمبر۲۰۲۲ء
آنحضرتﷺ کے چچا،عظیم المرتبت بدری صحابی حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا بیان
٭… حضرت حمزہؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچاتھے اورآپؐ کو بہت پیارے تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حمزہ نام بہت پسند تھا
٭… حضرت حمزہؓ کہتے ہیں کہ مَیں نےابھی دعا ختم بھی نہ کی تھی کہ باطل مجھ سے دُور ہوگیا اس کے بعد مَیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا
٭… حضرت حمزہؓ کو متعدّد غزوات میں لشکرِ اسلام کے علَم بردار ہونے کی سعادت نصیب ہوئی
٭… دنیا کے بگڑتے حالات کے پیشِ نظر سالِ نَو کے آغاز پر خاص دعاؤں کی تحریک
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۳۰؍دسمبر۲۰۲۲ء بمطابق ۳۰؍فتح۱۴۰۱ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزنے مورخہ ۳۰؍دسمبر۲۰۲۲ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت صہیب احمد صاحب کے حصے ميں آئي۔
تشہد،تعوذ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ذکرکے اختتام پر مَیں نے بتایا تھا کہ بدری صحابہ کا ذکر اب ختم ہوا۔ لیکن بعض صحابہ جن کا پہلے ذکرہوا تھا ان کے متعلق بعض باتیں بعد میں سامنے آئی ہیں، کسی موقعے پر وہ بیان کروں گایاجب ان کی اشاعت ہوگی تو اس میں یہ باتیں آجائیں گی۔ بعض لوگ لکھ رہے ہیں کہ ہمیں اس تاریخ کو سن کربہت فائدہ ہوا ہے، اس لیے مَیں نے مناسب سمجھا کہ یہ حصّہ بھی خطبات میں بیان ہوجائے۔
اس ضمن میں پہلا ذکر حضرت حمزہؓ کا ہے۔ آپؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچاتھے اورآپؐ کو بہت پیارے تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حمزہ نام بہت پسند تھا۔ حضورِانور نےحضرت حمزہ کی ازواج اور ان سے ہونےوالی اولاد کا تذکرہ فرمایا۔ حضرت حمزہؓ کے قبولِ اسلام کے متعلق روایت میں ہے کہ جب آپؓ نے غصّے کی حالت میں یہ کہہ دیا کہ ہاں! مَیں محمد کے دین پر ہوں تو آپؓ کہتے ہیں کہ بعد میں مجھے ندامت ہوئی کہ مَیں نے اپنے اجداد کے دین کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ مَیں رات بھر سو نہ پایا۔پھر مَیں خانہ کعبہ کے پاس آیااور اللہ تعالیٰ کے حضورگریہ و زاری کی کہ اے اللہ ! میرے سینےکو حق کے لیے کھول دے اور شکوک و شبہات کو دُور کردے۔ مَیں نےابھی دعا ختم بھی نہ کی تھی کہ باطل مجھ سے دُور ہوگیا۔ اس کے بعد مَیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوااور اپنی تمام حالت بیان کی اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے حق میں ثباتِ قدم کی دعا کی۔ ایک روایت کے مطابق حضرت حمزہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سےعرض کی کہ مجھے حضرت جبرئیلؑ ان کی حقیقی شکل میں دکھائیں۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم انہیں دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ ان کے اصرار پر آپؐ نے فرمایا کہ اپنی جگہ پر بیٹھ جاؤ۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر حضرت جبرئیلؑ خانہ کعبہ کی اُس لکڑی پراتر آئے جس پر مشرکین طواف کےو قت اپنے کپڑے ڈالا کرتے تھے۔پھرآپؐ نے فرمایا اپنی نگاہ اٹھاؤ۔ جب انہوں نےنگاہ اٹھائی تو دیکھا کہ جبرئیلؑ کے دونوں پاؤں ایک قیمتی سبز پتھر زبرجد کی مانند ہیں پھر حضرت حمزہ غشی کی حالت میں گِر پڑے۔
صفر ۲؍ہجری میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ ودّان کے لیے مہاجرین کی ایک جماعت کے ساتھ نکلے تو اسلام کا پرچم حضرت حمزہؓ کے ہاتھ میں تھا۔ جمادی الاولیٰ ۲؍ہجری میں پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم قریشِ مکّہ کی طرف سےکوئی خبر پاکر مہاجرین کےڈیڑھ سَوسے دوسَو کےقریب افراد کے ہمراہ غزوے کے لیے نکلے تو ایک بار پھر عَلَمِ اسلام حضرت حمزہؓ کے ہاتھ میں تھا۔ جنگِ بدر میں مبارزت طلبی کےوقت قریش کے لشکر سےعتبہ اپنے بھائی شیبہ اور بیٹے ولید کو ساتھ لے کر لشکر سے آگے بڑھا اورعرب کےقدیم دستور کے مطابق انفرادی لڑائی کےلیےمبارز طلبی کی۔ انصار ان کے مقابلے کےلیے آگے بڑھے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں منع کرتے ہوئے حضرت علیؓ، حضرت حمزہؓ اور حضرت عبیدہ بن مطلبؓ کو آگے بڑھنے کا ارشاد فرمایا۔ یہ تینوں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے انتہائی قریبی رشتےدار تھے اور آپؐ یہی چاہتے تھے کہ ہر خطرےکے وقت آپؐ کے رشتےدار سب سے آگے بڑھیں۔ عبیدہ بن مطلب ولید کے بالمقابل، جبکہ حمزہ عتبہ اور علی شیبہ کے مقابلے کے لیے آگے بڑھے۔ حمزؓہ اور علیؓ نےتو اپنے اپنےمدِّمقابل کو ایک دو واروں میں ہی خاک میں ملادیا۔ تاہم عبیدہ اور ولید میں چند اچھی ضربیں پڑیں اور بالآخر دونوں ایک دوسرے کے ہاتھوں کاری زخم کھاکر گرے جس پر علیؓ اور حمزہؓ نے ولید کا تو فوری خاتمہ کردیااور عبیدہ کو اٹھاکر اپنے کیمپ میں لے آئے مگر عبیدہ اس صدمےسے جانبرنہ ہوسکے اور بدر سے واپسی پر راستے میں انتقال کرگئے۔
شراب کی حرمت سے قبل حضرت حمزہؓ نے حضرت علیؓ کی اونٹنیوں کو نشے کی حالت میں انتہائی بےرحمی سے مار دیا۔ جب حضرت علیؓ کو یہ معلوم ہوا تو آپؓ کو بہت دکھ ہوا اور آپؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا ماجرا بیان کیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ سب تفصیل سن کر موقعے پر تشریف لائے اور خفگی کا اظہار فرمایا۔ حضرت حمزہؓ اس وقت بھی نشّے کی حالت میں تھے چنانچہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اور دیگر سب کو دیکھ کر کہنے لگے کہ تم سب میرے باپ دادا کے غلام ہو۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم الٹےقدم واپس لوٹ آئے۔حضورِانور نے فرمایاکہ جب شراب کی حرمت قائم ہوگئی تو پھر صحابہؓ شراب کے قریب بھی نہ گئے، یہ معیار تھا ان صحابہ کا۔
غزوۂ بنو قینقاع میں بھی حضرت حمزہؓ پیش پیش تھےاور اس غزوے میں بھی عَلَمِ اسلام حضرت حمزہؓ کے ہاتھوں میں تھا۔ بنو قینقاع مدینے کےیہود میں سے وہ قبیلہ تھا کہ جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہونے والا معاہدہ سب سے پہلے توڑا۔ جنگِ بدر کے بعد تو انہوں نے بہت سرکشی شروع کردی اور بغض و حسد کا اظہار کرتے ہوئے معاہدے کو توڑ دیا۔ ایک مسلمان خاتون بازار میں کسی یہودی کی دکان پر خریداری کےلیے گئی تو بعض اوباش یہودی نوجوانوں نے اسے نہایت اوباشانہ طریق پر چھیڑا۔ خود دکان دار نے یہ شرارت کی کہ اس خاتون کے تہ بند کے نچلےکونے کو اُس سے نظر بچاکر کسی کانٹے وغیرہ سے اس کی پیٹھ کے کپڑےسےٹانگ دیا۔ چنانچہ وہ عورت لوٹنےلگی تو بےلباس ہوگئی۔ اس پر وہ یہودی قہقہہ لگاکرہنسنےلگے۔ مسلمان خاتون نے شرم کے مارے ایک چیخ ماری اور مدد چاہی۔ اتفاق سے ایک مسلمان وہاں موجود تھا۔ وہ فوراً وہاں پہنچا اور باہم لڑائی میں یہودی دکان دار مارا گیا۔ اِس پر اُس مسلمان پر چاروں طرف سے تلواریں برس پڑیں اوروہ غیّور مسلمان وہیں ڈھیر ہوگیا۔ اس واقعے سے مسلمانوں اور یہود میں ایک بلوے کی صورت پیدا ہوگئی۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعے کی اطلاع ہوئی تو آپؐ نے رؤسائے بنو قینقاع کو بلایا اور ان سے کہا کہ یہ طریق اچھا نہیں۔ تم باز آجاؤ اور خدا سے ڈرو۔ اس پر بجائے اس کے کہ رؤسائے بنو قینقاع افسوس کا اظہار کرتےانہوں نے نہایت متمردانہ جوابات دیے اور کہا کہ بدر کی فتح پر غرور نہ کرو۔ جب ہم سے مقابلہ ہوگا تو پتا چل جائے گا کہ لڑنے والے کیسے ہوتے ہیں۔ناچار آپؐ صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ بنو قینقاع کے قلعوں کی طرف روانہ ہوئے۔ بنوقینقاع بھی فوراً جنگ پرآمادہ ہوگئے، اور قلعہ بند ہوکر بیٹھ گئے۔ مسلمانوں نے بنو قینقاع کے قلعوں کا محاصرہ کرلیا۔ پندرہ دن تک محاصرہ قائم رہا۔ بالآخرجب بنوقینقاع کا سارا زور اور غرور ٹوٹ گیا تو انہوں نے اس شرط پر قلعوں کےدروازےکھول دیے کہ ان کے اموال مسلمانوں کے ہوجائیں گے لیکن ان کی جانیں اور اہل و عیال پر مسلمانوں کا کوئی حق نہیں ہوگا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شرط کو قبول فرمایا۔موسوی شریعت کی رُو سے تو یہ سب واجب القتل تھے لیکن ایک تو یہ اس قوم کا پہلا جرم تھا اور دوسرا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رحیم وکریم طبیعت انتہائی سزاکی طرف جو ایک آخری علاج ہوتا ہے ابتدائی قدم پر مائل نہ ہوسکتی تھی۔ تاہم اس قبیلے کا مدینے میں ٹھہرنا مارِ آستین سے کم نہ تھا چنانچہ آپؐ نے بنو قینقاع کےلیے یہی فیصلہ فرمایا کہ وہ مدینےسے چلے جائیں۔یہ ان کے جرم کے مقابلے میں ایک بہت نرم فیصلہ تھا جس میں خود حفاظتی کا پہلو بھی پیشِ نظر تھا۔ بنو قینقاع بڑے اطمینان کے ساتھ شام کی جانب چلے گئے۔
حضرت حمزہؓ احد میں شہید ہوئے تھے۔ اس کی خبرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے بذریعہ رؤیا دےدی تھی۔ چنانچہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ آپؐ ایک مینڈھے کا پیچھا کررہے ہیں اور اسے قتل کرتے ہیں،اسی طرح دیکھا کہ آپؐ کی تلوار کا سرا ٹوٹ گیا ہے۔ اس کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تعبیرکی کہ مینڈھے کو قتل کرنے سے مراد یہ ہے کہ مَیں دشمن کے سپہ سالار کو ہلاک کروں گا جبکہ تلوار کا کنارہ ٹوٹنے کا مطلب یہ ہے کہ اس جنگ میں میرے خاندان کا کوئی بہت قریبی شخص شہید ہوگا۔ پس اس جنگ میں حضرت حمزہؓ کو شہید کردیا گیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے طلحہ کو جو مشرکین کا عَلَم بردار تھا قتل کردیا۔
حضرت حمزہؓ کا شہادت کےبعد مثلہ بھی کیا گیا تھا۔ آپ ؓ کی شکل بگاڑی گئی، ناک کان کاٹے گئے، پیٹ چاک کیا گیا۔ جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کی یہ حالت دیکھی تو آپؐ کو شدید رنج ہوا۔ایک روایت کے مطابق آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مَیں قریش کے تیس جبکہ ایک اور روایت کےمطابق آپؐ نے قسم کھاکر فرمایا کہ ان کے ستّر آدمیوں کا مثلہ کروں گا۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اوراگر تم سزا دو تو اتنی ہی سزا دو جتنی تم پر زیادتی کی گئی تھی اور اگر تم صبر کرو تو یقیناً یہ بہتر ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صبر کریں گے اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کردیا۔
حضورِانورنے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے حوالے سے حضرت حمزہ کے نوحہ کیا جانے اور اس سے منع فرمانے کا واقعہ بیان کیا۔ انصار خواتین جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت حمزہ کا نوحہ کرتی ہوئی آئیں تو آپؐ نے ان کا شکریہ ادا کیا اور ساتھ ہی نوحہ کرنے سے منع فرمادیا۔
خطبےکے آخر میں حضورِانور نے فرمایا کہ پرسوں سے نیا سال بھی ان شاء اللہ شروع ہورہا ہے۔ دعا کریں کہ نیا سال جماعت کےلیے بہت بابرکت ہو۔ دشمن کے تمام منصوبوں کو خدا خاک میں ملا دے۔ دنیا کےلیے عمومی طور پر بھی دعاکریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں جنگوں سے بچائے۔ حالات خطرناک سے خطرناک ہوتے چلے جارہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔ اپنے مظلوم بھائیوں کےلیے بھی دعا کریں۔
٭…٭…٭