مسجد بیت الاکرام ڈیلس میں حضورِ انور کے ساتھ واقفینِ نَو کی کلاس
٭…آپ کا مقصد دنیاوی خواہشات کی پیروی نہیں ہے، آپ کا مقصد اللہ کی محبت حاصل کرنا ہے۔
اور ایک مومن متقی ہمیشہ موت کے بعد کی زندگی کے لیے اللہ کی محبت حاصل کرنے کی کوشش کر تا ہے
٭…وقف نو ہونے کے ناطے آپ کی اوّلین ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ وہ کیریرچنیں جو جماعت کے لیے زیادہ فائدہ مند ہو
٭…آپ کو احمدیت کے بارے میں مزید جاننے کی بھی کوشش کرنی چاہیے، حضرت مسیح موعودؑ نے کب مسیح ہونے کا دعویٰ کیا؟ آپ نے پہلی بیعت کب لی؟ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کب پیدا ہوئے؟ احمدیت کی تار یخ کا علم ہو نا چاہیے۔ یہ دعا بھی پڑھا کریں رَبِّ اِنّیْ لِمَا اَنْزَلْتَ اِلَىَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْر۔ مجھے یہ دعا پسند ہے اور آپ کو بھی پڑھنی چاہیے
٭…یہ دعا کریں کہ خلیفہ وقت کے ذہن میں جو بھی منصوبے ہوتے ہیں وہ اللہ کی مدد سے کم سے کم وقت اور بہترین طریقے سے مکمل ہوں۔ یہ دعا کرو کہ اللہ اسے مدد گار یعنی سلطان نصیر عطا فرمائے، تاکہ مدد گاروں کی ٹیم بھی خلیفہ وقت کی مدد کر سکے۔ یہ دعا کر واللہ ہمیں خلیفہ وقت کے سلطان نصیر بنائے، کہ وقف نو کے طور پر ہم خلیفہ وقت کے کاموں، پروگراموں
اور منصوبوں کی تکمیل میں خلیفہ کی مدد کر کے اپنے فرائض بھی ادا کر یں
٭… آپ کے والدین نے آپ کو پیدائش سے پہلے ہی جماعت کی خدمت کرنے کے لیے پیش کیا تھا۔ اگر آپ ان کے وعدے کو پورا کرنا اور نبھانا چاہتے ہیں تو آپ کو ہمیشہ یادرکھنا چاہیے کہ وقف نو کے کیا فرائض ہیں؟
دورۂ امریکہ کے دوران مسجد بیت الاکرام ڈیلس میں مورخہ 5؍اکتوبر کو واقفینِ نَو بچوں نے اپنے آقا سے ملاقات کی سعادت پائی۔ سات بجے پروگرام کے مطابق واقفین نو کی حضورِانور کے ساتھ کلاس شروع ہوئی۔ 24 جماعتوں سے 92 واقفین نو شامل ہوئے۔
کلاس کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو عزیزم ولیداحمد صاحب نے کی اور اس کا انگریزی زبان میں ترجمہ پیش کیا۔ تلاوت کااردو ترجمہ عزیزم لبیب احمد زاہد نے پیش کیا۔
بعدازاں عزیزم اسامہ ظفر اعوان نے آنحضرتﷺ کی حدیث مبارکہ اور اس کا انگریزی ترجمہ پیش کیا۔
حدیث مبارکہ کا درج ذیل اردو ترجمہ عزیزم احد احمد خان صاحب نے پیش کیا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ سے محبت کرتا ہے تو جبرئیل علیہ السلام کو آواز دیتا ہے کہ اللہ فلاں سے محبت کرتا ہے تم بھی اُس سےمحبت کرو۔ چنانچہ جبرئیل علیہ السلام بھی اُس سے محبت کرتے ہیں۔ پھر وہ آسمان میں آواز دیتے ہیں کہ اللہ فلاں سے محبت کرتا ہے تم بھی اس سے محبت کرو۔ چنانچہ اہل آسمان بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور اس طرح روئے زمین میں بھی اسے مقبولیت حاصل ہوجاتی ہے۔‘‘
اس کے بعد عزیزم قمر احمدخان صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درج ذیل اقتباس پیش کیا۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’منافق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ سچا تعلق نہ ہونے کی وجہ سے آخر بے ایمان رہے۔ ان کو سچی محبت اور اخلاص پیدا نہ ہوا۔ اِس لیے ظاہر لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ اُن کے کام نہ آیا۔ تو ان تعلقات کو بڑھانا بڑا ضروری امر ہے۔ اگرا ن تعلقات کو وہ (طالب) نہیں بڑھاتا اور کوشش نہیں کرتا تو اس کا شکوہ اور افسوس بے فائدہ ہے۔ محبت و اخلاص کا تعلق بڑھانا چاہیے۔ جہاں تک ممکن ہو اُس انسان (مرشد) کے ہم رنگ ہو۔طریقوں میںاور اعتقاد میں۔ نفس لمبی عمر کے وعدے دیتا ہے۔ یہ دھوکہ ہے۔ عمر کا اعتبار نہیں ہے۔ جلدی راستبازی اور عبادت کی طرف جھکنا چاہیے اور صبح سے لے کر شام تک حساب کرنا چاہیے۔‘‘(ملفوظات جلد اول صفحہ 5ایڈیشن2016ء)
اس اقتباس کا انگریزی ترجمہ عزیزم فائز احمد نے پیش کیا۔
اس کے بعد عزیزم جلیس احمد نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا منظوم کلام
تقویٰ یہی ہے یارو کہ نخوت کو چھوڑ دو
کبر و غرور و بخل کی عادت کو چھوڑ دو
خوش الحانی سے پیش کیا اور اس اردو نظم کا انگریزی ترجمہ عزیزم عازش احمد غنی نے پیش کیا۔
بعد ازاں واقفین نو نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت سے سوالات کیے۔
ایک واقف نو نعمان احمد فرید نے یہ سوال کیا کہ میرے خطوط کے بہت سے جوابات میں حضور انور نے یہ نصیحت فرمائی ہے کہ نماز میں پابندی اور تلاوت قرآن کریم کامیابی کی کنجی ہیں۔ تو Elon Musk اور Jeff Bezos جو نماز نہیں ادا کرتے اور ذکر الٰہی نہیں کرتے اتنے کامیاب اور دولت مند کیوں ہیں ؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کی زندگی کا مقصد کیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا ہے۔ میں نے اپنے پچھلے خطبہ جمعہ میں ہی اس بارے میں بیان کیا تھا۔ ان دنیاوی لوگوں کی زندگی کا مقصد ایک اعلیٰ دنیاوی مقام حاصل کرنا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا اس وقت شیطان نے آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا۔ وجہ اُس کا تکبر اور اس کی دنیاوی خواہشات تھیں اور پھر اس نے اللہ کو چیلنج کیا کہ اکثر لوگ میری پیروی کریں گے اور میں انہیں سیدھے راستے سے بھٹکا دوں گا۔ اور اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ تم ایسا نہیں کر سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ چند لوگ ایسے ہوں گے جو نیک لوگ ہوں گے وہ میرے انبیاء کو تسلیم کر یں گے اگر چہ وہ تعداد میں کم ہوں گے لیکن آخر کار کامیاب ہوں گے اور تم ان پر غلبہ نہیں پاؤ گے۔
حضور انور نے فرمایا:آپ کا مقصد دنیاوی خواہشات کی پیروی نہیں ہے، آپ کا مقصد اللہ کی محبت حاصل کرنا ہے۔ اور ایک مومن متقی ہمیشہ موت کے بعد کی زندگی کے لیے اللہ کی محبت حاصل کرنے کی کوشش کر تا ہے۔ کیونکہ نیک انسان کو آخرت میں اجر ملے گا اور ان دنیا داروں کو دنیا میں ہی اجر ملے گا۔ اسی لیے نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ ان کی دائیں آنکھ اندھی ہے، دینی علم کی آنکھ اندھی ہے۔ ان کی بائیں آنکھ کام کر رہی ہے تا کہ وہ دنیاوی معاملات میں بڑھیں۔ اس لیے اگر آپ کی خواہش صرف دنیاوی فائدے کی ہے تو یقیناً آپ اللہ اور اسلام چھوڑ کر جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ کو یقین ہے کہ موت کے بعد زندگی ہے اور وہ ابدی زندگی ہے تو آپ کو اللہ کی محبت یہاں دنیا میں اور آخرت میں حاصل ہو گی۔ کیا آپ سکول نہیں جارہے ہیں؟ کیا آپ اپنی پڑھائی میں اچھے ہیں ؟ کیا آپ کو اپنی دنیاوی ضروریات حاصل کرنے میں کسی پر یشانی کا سامنا ہے۔ آپ کو روزانہ کا کھانامل رہا ہے آپ ناشتہ، دو پہر کا کھانا کھاتے ہیں اور اچھے کپڑے پہنے ہوئے ہیں اس لیے دنیا کی ہر چیز آپ کے لیے دستیاب ہے۔ اور آپ دعا کر رہےہیں۔
حضور انور نے دریافت فرمایا: آپ مستقبل میں کیا بننا چاہتے ہیں ؟ اس پر واقف نو نے جواب دیا کہ دل کا سرجن۔
اس پر حضور انور نے فرمایا: اس لیے اگر آپ نے یہ ہدف حاصل کر لیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ نے اپنی دنیاوی خواہش حاصل کر لی ہے اور اس کے علاو ہ روزانہ پانچ بار اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنے اور اس کے احکام پر عمل کرنے سے آپ کو آخرت میں بھی اجر ملے گا۔ جبکہ ان لوگوں کو یہ کبھی نہیں ملے گالہٰذا اب یہ آپ کے ہاتھ میں ہے آپ کو انتخاب کرنا ہے۔ آپ دونوں اجر چاہتے ہو یا صرف ایک، محض اس دنیا کے یا دنیا اور آخرت دونوں کے اجر۔ تو ہم ان لوگوں سے بہتر ہیں۔ وہ صرف دنیاوی فائدے حاصل کر رہے ہیں اور ہمیں اللہ نے بتایا ہے کہ ہمیں دنیا اور آخرت میں فائدہ ملے گا۔ پس ہمارا مقصد دنیا نہیں ہے، مومن کا مقصد اللہ کی محبت حاصل کرنا ہے۔ اور اللہ کی محبت حاصل کرنے کے لیے آپ کو روحانی معیار کی بلندی اور انسانیت کی خدمت کے لیے بھی محنت کرنی ہو گی۔
ایک واقف نو عزیزم دانیال جنجوعہ نے یہ سوال کیا کہ واقفین نو کو کون سے پیشوں یا خاص فیلڈ کا انتخاب کرنا چاہیے؟ کیا انہیں اپنے ذاتی مفادات پر جماعت کے تقاضوں کو ترجیح دینی چاہیے؟
اس کے جواب میں حضور انور نے فرمایا : آپ کی ذاتی دلچسپی کیا ہے ؟ اگر آپ جماعت کی مدد اور مسجد اور مشن ہاؤسز کی تعمیر کے لیے اور اچھی جگہ پلاٹ حاصل کرنے کے لیے رئیل اسٹیٹ ایجنٹ پیشہ کا انتخاب کرتے ہیں تو یہ آپ کے لیے اچھاہے۔
آپ وقف نو ہیں تو وقف کا مطلب ہے کہ آپ کو اللہ کی راہ میں کام کرنا پڑے گا۔ وقف نو ہونے کے ناطے آپ کی اوّلین ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ وہ کیریرچنیں جو جماعت کے لیے زیادہ فائدہ مند ہو۔ اور اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ یہ فرض ادا نہیں کر سکتے اور آپ وقف کی اس شرط کو پورا نہیں کر سکتے تو آپ جو چاہیں کریں لیکن اس کے لیے آپ کو مرکز سے اجازت لینی پڑے گی۔ مجھے لکھو پھر میں آپ کو بتا دوں گا۔ لیکن اگر آپ رئیل اسٹیٹ ایجنٹ بننا چاہتے ہیں تو کم از کم آپ دین سیکھیں اور اپنے دینی علم میں اضافہ کریں اور دین کے بارے میں مزید جانیں، نماز پڑھیں، قرآن کریم پڑھیں، قرآن کا مطلب سیکھیں اور پھر اسلام کی تبلیغ کریں۔ اپنے بزنس کے دوران بھی آپ تبلیغ کر سکتے ہیں کافی تعداد میں لوگ آپ کے پاس آئیں گے۔ اس لیے ہمیشہ یاد رکھیں کہ آپ براہ راست جماعت کے تحت کام کرتے ہیں یا بلاواسطہ جہاں بھی کام کریں لیکن آپ کا اصل مقصد اللہ کے پیغام کی تبلیغ ہونا چاہیے۔ آپ کو اللہ کے احکام کی تعمیل کرنی ہو گی اور دین کے بارے میں مزید جاننےکی کوشش کرنی ہو گی۔ اپنی پانچ نمازیں پڑھ کر اللہ کے ساتھ اچھا تعلق قائم کرنے کی کوشش کرنی ہو گی۔
ایک واقف نو عزیزم ر میس مرزا نے یہ سوال پوچھا کہ میں نماز پڑھنے اور قرآن کریم کی تلاوت کرنے کی پوری کوشش کرتا ہوں لیکن زیادہ تر میں اس لیے کرتا ہوں کہ مجھے ان چیزوں کے کرنے کی پابندی ہے، اس لیے نہیں کہ مجھے یہ پسند ہیں۔ میں ان چیزوں سے محبت کرنا اور ان چیزوں میں خوشی محسوس کرنا کیسے سیکھوں؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ آپ فجر کی ادائیگی میں کتنا وقت لگاتے ہیں ؟ کیا نماز پڑھتے ہوئے سجدے میں کبھی اللہ کے سامنے رونے کا موقع ملا ہے؟ کیا نماز پڑھتے ہوئے آپ کے دل میں اطمینان پیدا ہو تا ہے؟ ضروری نہیں کہ ہر وقت ایک ہی معیار کی نماز پڑھو۔ اتار چڑھاؤ انسانی فطرت کا حصہ ہے لیکن اگر آپ ایک بار نماز پڑھنے کی لذت چکھ چکے ہیں تو مجھے نہیں لگتا کہ آپ کو اس قسم کا سوال اٹھانا چاہیے۔ آپ کہتے ہیں کہ آپ نماز پڑھتے ہیں، آپ نے اپنے سجدے کا لطف اٹھایا اور اطمینان محسوس کیا۔ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ نماز کے بعد آپ کے دل میں اطمینان پیداہوا۔ اس پر واقف نو نے جواب دیا کہ سکون اور اطمینان تو ہے لیکن اکثر مجھے یہ لگتا ہے کہ میں مجبوراًکررہاہوں۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ آپ اپنی دن کی تمام نمازوں کے لیے زیادہ سے زیادہ 40-45 منٹ صرف کرتے ہیں۔ جبکہ ہوم ورک کے لیے اسکول کے بعد اپنی پڑھائی کے لیے آپ دن میں 2 یا 3 یا 4 گھنٹے پڑھتے ہیں۔ اس لیے آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ اپنی نمازوں کے ساتھ انصاف کر رہے ہیں۔ یہ ایک Process ہے۔ اس میں وقت لگے گا۔ اگر آپ نماز جاری رکھیں تو سجدے میں اللہ سے یہ مانگیں کہ میرے روحانی درجات کو بڑھا دے، میرے دل میں اطمینان عطا فرما اور مجھے ہمیشہ اپنے قریب رکھ۔ اگر آپ اس طرح اللہ کا قرب حاصل کرتے رہیں اور اس سے مانگتے رہتے ہیں تو ایک دن آپ زیادہ اطمینان محسوس کریں گے۔ یہ ایک Process ہے۔ انبیاء کو بھی 25سال کی عمر میں نہیں بلکہ 40 سال میں نبوت کا درجہ مل جاتا ہے، اس لیے آپ کو ثابت قدم رہنا چاہیے۔ ایک دن آپ محسوس کر یں گے کہ آپ کا اللہ سے اچھا تعلق ہے اور آپ اللہ سے دعا کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔
ایک واقف نو عزیزم عبد المقيط خان نے یہ سوال کیا کہ مجھے جامعہ کی تیاری کے لیے کیا کرنا چاہیے ؟ جامعہ جانے کی اپنی خواہش پر پورا اترنے کے لیے میں کون سی دعائیں پڑھوں؟
اس پر حضور انور نے فرمایا: کیا آپ روزانہ پانچ نمازیں پڑھتے ہیں، آپ کو نماز کے معنی معلوم ہیں، سجدے میں اللہ سے اچھے مر بی بننے کے لیے دعا کرتے ہیں؟ کیا آپ قرآن کریم پڑھنا جانتے ہیں کیا آپ روزانہ تلاوت قرآن کریم کرتے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر آپ روزانہ ایک یا دو رکوع پڑھیں اور اس کے معنی بھی جاننے کی کوشش کریں۔ اس کے علاوہ کیا آپ کے اخلاق اچھے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب کا کچھ حصہ روزانہ پڑھنے کی کوشش کریں۔Essence of Islam کتاب سے اقتباسات پڑھا کریں۔ جس مضمون کو آپ پڑھ رہے ہیں اسے جذب کرنے اور سمجھنے کی کوشش کریں۔ تب آپ کو معلوم ہو گا کہ دین کیا ہے۔ آپ کو سورہ فاتحہ کا مطلب معلوم ہونا چاہئے، قرآن پاک پڑھیں۔ یہ جامعہ کے طالب علم کے لیے بنیادی طور پر ضروری ہے۔ اور آپ کو احمدیت کے بارے میں عمومی علم ہونا چاہیے۔ آپ کو احمدیت کے بارے میں مزید جاننے کی بھی کوشش کرنی چاہیے، حضرت مسیح موعودؑ نے کب مسیح ہونے کا دعویٰ کیا؟ آپ نے پہلی بیعت کب لی؟ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کب پیدا ہوئے؟ احمدیت کی تار یخ کا علم ہو نا چاہیے۔ یہ دعا بھی پڑھا کریں رَبِّ اِنّیْ لِمَا اَنْزَلْتَ اِلَىَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْر۔ مجھے یہ دعا پسند ہے اور آپ کو بھی پڑھنی چاہیے۔
ایک واقف نو عزیزم سلطان خلیل الرحمٰن صاحب نے سوال کیا کہ مفید ہنر کیا ہیں جو جماعت کے نوجوان ممکنہ جنگ کی تیاری کے لیے سیکھ سکتے ہیں ؟
اس پر حضور انور نے فرمایا: نو جوان ہوں یا بوڑھے۔ سب سے پہلے آپ کو دعا کرنی چاہیے کہ آپ کی زندگی میں جنگ کا کوئی ایسا واقعہ نہ ہو، کم از کم اس میں تاخیر ہو جائے۔ دوسری بات یہ کہ آپ اپنے آپ کو اسلام کی تبلیغ کے لیے تیار کریں۔ اور یہ عہد کریں کہ جب آپ بڑے ہو جائیں گے تو اسلام کا پیغام پھیلائیں گے۔ نیز اگر آپ لوگوں کو یہ سمجھا دیں کہ ان کی زندگی کا مقصد کیا ہے اور انہیں زندگی کیسے گزارنی چاہیے اور اللہ کی محبت حاصل کرنے کی کو شش کرنی چاہیے تو پھر کم از کم اگر جنگ کے امکان سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل نہ بھی کیا جا سکے تو اس میں کچھ وقت کے لیے تاخیر ہو سکتی ہے۔ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ ہر خاندان کو اپنے گھر میں کچھ مہینوں کے لیے راشن بھی محفوظ رکھنا چاہیے۔ نوجوان بھی اپنے گھر والوں کی مدد کریں اور اللہ سے دعا بھی کریں۔ اگر آپ کا مطلب ہے کہ ہم دنیا کو جنگ سے کیسے بچاسکتے ہیں تو اللہ سے دعا کریں کیو نکہ اس کے علاوہ ہم اور کچھ نہیں کر سکتے۔ اگر دنیا خود کو تباہ کرنے کے لیے کوشش کر رہی ہے اور لیڈر سمجھدار بننے کی کوشش نہیں کر رہے تو آپ کچھ نہیں کر سکتے۔ صرف دعا ہی کر سکتے ہیں۔
ایک واقف نو ابراہیم سید احمد صاحب نے یہ سوال پوچھا کہ جب ہمارے دوست اور کلاس فیلو ہمارے عقائد اور اخلاق کو نا پسند کرتے ہیں اور پھر ہمیں طعنہ بھی دیتے ہیں تو ہم ان کے سامنے اپنی شناخت کیسے بر قرار رکھ سکتے ہیں اور اپنے مذہب کا دفاع کیسے کر سکتے ہیں ؟
اس کے جواب میں حضور انور نے فرمایا : بات یہ ہے کہ خود اعتمادی ہونی چاہیے۔ اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں۔ ہم ٹھیک ہیں یا غلط ہیں۔ ان کے مذاق کو کچھ نہ سمجھو بلکہ اُلٹاتم ان کو کہو کہ ہم تو ٹھیک ہیں تم اپنے آپ کو کیوں تباہ یا بر باد کر رہے ہو۔ آپ میں اعتماد ہو نا چاہیے۔ جب ہم ٹھیک ہیں اور ہمارا claim ہے کہ ہم نے دنیا کو فتح کرنا ہے تو پھر کیوں فکر کرتے ہو۔
ایک واقف نو عزیزم روحان رحمٰن ظفر صاحب نے یہ سوال کیا کہ جب ہم خلیفۃ المسیح کے لیے دعا کرتے ہیں تو خاص طور پر کیاد عا کرنی چاہیے ؟
اس پر حضور انور نے فرمایا: آپ دعا کریں کہ اللہ خلیفہ وقت کو اپنے فرائض کی ادائیگی میں مدد فرمائے تا کہ اللہ تعالیٰ نے خلیفہ وقت کے کندھوں پر جو ذمہ داریاں ڈالی ہیں وہ صحیح طریقے سے ادا ہوں۔ اللہ خلیفہ وقت کو طاقت اور صحت دے تا کہ وہ اسلام اور احمدیت کے لیے بھر پور طریق سے اپنے فرائض کی بجا آوری کر سکے۔ یہ دعا کریں کہ خلیفہ وقت کے ذہن میں جو بھی منصوبے ہوتے ہیں وہ اللہ کی مدد سے کم سے کم وقت اور بہترین طریقے سے مکمل ہوں۔ یہ دعا کرو کہ اللہ اسے مدد گار یعنی سلطان نصیر عطا فرمائے، تاکہ مدد گاروں کی ٹیم بھی خلیفہ وقت کی مدد کر سکے۔ یہ دعا کر واللہ ہمیں خلیفہ وقت کے سلطان نصیر بنائے، کہ وقف نو کے طور پر ہم خلیفہ وقت کے کاموں، پروگراموں اور منصوبوں کی تکمیل میں خلیفہ کی مدد کر کے اپنے فرائض بھی ادا کر یں۔
ایک واقف نو عزیزم مشہود احمد نے یہ سوال کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب رسالہ الوصیت میں یہ لکھتے ہیں کہ جو وصیت کر تا ہے اسے اپنی دولت کا کم از کم دسواں حصہ دینا چاہیے۔ اگر میں طالب علم ہوں تو کیا میں وصیت کر سکتا ہوں؟
اس پر حضور انور نے فرمایا: کیا آپ کو کچھ جیب خرچ ملتا ہے۔ طلبہ کو اپنی جیب خرچ سے وصیت کرنے کی اجازت ہے۔ نیز اگر آپ کو ایک سو ڈالر یا پچاس ڈالر ملتے ہیں، تو آپ اس کا دسواں حصہ دے سکتے ہیں۔ اور جب آپ اپنی پڑھائی مکمل کر کے اونچی جاب حاصل کر لیں، اللہ آپ کو اچھی نوکری دے، پھر آپ اپنا چندہ اپنی تنخواہ کے مطابق ادا کر یں۔ طلبہ اپنی جیب خرچ سے وصیت کر سکتے ہیں۔
ایک واقف نو عزیزم توفیق خالد احمد نے یہ سوال کیا کہ حضور انور کا کیا مشورہ ہے کہ مالی مشکلات میں بھی چندوں کی ادائیگی کیسے جاری رکھی جائے ؟
اس پر حضور انور نے فرمایا: آپ کافی صحت مند لگتے ہیں۔ آپ دن میں تین بار یا کتنی بار کھاتے ہیں۔ ان تینوں وقتوں میں آپ اطمینان سے کھاتے ہیں۔ آپ موصی بھی ہیں۔ آپ کام بھی کر رہے ہیں۔ میں آپ سے آمدنی نہیں پوچھنا چاہتا لیکن آپ کو قربانی اور وصیت کی اہمیت معلوم ہونی چاہیے۔ آپ اپنے کھانے پر روزانہ کتنے پیسے خرچ کرتے ہیں؟
اس پر واقف نو نے بتایا کہ پچاس ڈالر ز۔ اور حضور انور کے استفسار پر بتایا کہ باہر سے بھی کھا تا ہوں اور روزانہ دس ڈالر خرچ کر تا ہوں۔
اس پر حضور انور نے فرمایا: آپ باہر سے کھائے بغیر جی سکتے ہیں کیو نکہ آپ کے گھر میں کھانا ہے۔ تو اگر آپ باہر سے جنک فوڈ (junk food)پر دس ڈالر خرچ نہیں کرتے ہیں تو آپ کو روزانہ دس ڈالر کی بچت ہو گی۔ تو 25 دنوں میں آپ 250 ڈالرز کی بچت کر یں گے اور 12 مہینوں میں آپ 3000 ڈالر کی بچت کریں گے۔ اس طرح کم از کم صرف باہر کا کھانا بند کر کے آپ سالانہ 3000 ڈالر بچاسکتے ہیں۔ اس لیے آپ فیصلہ کریں کہ اللہ کی راہ میں مالی قربانی آپ کی زندگی میں کتنی اہم ہے۔ قربانی کا مطلب ہے اپنی ذاتی خواہشات کو چھوڑنا اور اپنی پسند کی چیز ترک کرنا تا کہ اللہ آپ کو اس کے بدلہ میں جزا دے۔
حضور انور نے فرمایا: میں نے قربانی کے بارے میں یوکے میں خدام یا انصار کے اجتماع سے خطاب بھی کیا تھا تو آپ اس خطاب کو سنیں۔ اس لیے اگر آپ قربانی کے معنی اور اہمیت جانتے ہیں تو آپ یہ سوال نہیں اٹھا سکتے کہ اگر ہم مالی مشکلات میں ہیں تو ہم چندہ کیسے ادا کر سکتے ہیں۔ آپ نے اپنی زندگی سے روٹی کا ایک ٹکڑا بھی کم نہیں کیا تو آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ آپ مالی تنگی میں ہیں ؟
ایک واقف نو عزیزم منار احمد نے یہ سوال کیا کہ حضور کیا آپ کو لگتا ہے کہ PSYCHOKINESIS ممکن ہے؟ یعنی کہ صرف ذہنی کوشش سے اشیاء کو منتقل کرنے یا تبدیل کرنے کی طاقت ممکن ہے ؟
اس پر حضور انور نے فرمایا: ہاں یہ ممکن ہے۔ اس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ازالہ اوہام میں لکھا ہے۔ لیکن آپ نے واضح کیا کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس شخص کے پاس وہ طاقت ہے جو خدا کے پاس ہے۔ آپ نے ذکر کیا کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو ارتکاز (Concentration) کی طاقت سے ایسا کر سکتے ہیں۔ وہ اس میز کو نہ صرف ہلاسکتے ہیں بلکہ میز پر بیٹھے لوگوں کو بھی ہلا سکتے ہیں۔ لیکن یہ ایک عارضی Process ہے۔ جب بھی وہ اپنا ارتکاز کھو دیتے ہیں تو یہ چیز رک جائے گی۔ اس موضوع پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ کچھ لوگوں کے پاس اس کی طاقت ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کے پاس وہی حیثیت ہے جو نبی کو دی گئی ہے۔ ازالہ اوہام کتاب پڑھیں آپ کو اس کے بارہ میں مزید معلومات حاصل ہوں گی۔
ایک واقف نو عزیزم لبیب احمد زاہد نے یہ سوال کیا کہ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ کیا اللہ حقیقی ہے ؟ اللہ کے وجود کا یقین کرنے کے لیے مجھے کیا کرنا چاہیے ؟
اس پر حضور انور نے فرمایا: آپ جسمانی طور پر اللہ کو نہیں دیکھ سکتے، آپ جانتے ہیں کہ اللہ نور ہے۔ کیا آپ روزانہ پانچ بار نماز پڑھتے ہیں، کیا آپ نے کبھی دعا کی قبولیت کا تجربہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ دعا قبول کر کے اپنے وجود اور اپنی ہستی کو ثابت کر تا ہے ظاہر کر تا ہے۔ جب آپ اللہ سے دعا کرتے ہیں اور وہ اسے قبول کر تا ہے تو آپ کو واضح معلوم ہو تا ہے کہ آپ نے جو کچھ حاصل کیا ہے وہ اللہ سے ہی اس دعا کی قبولیت سے ہے۔ اور جب آپ نماز پڑھتے ہیں اور آپ سجدے میں ہوتے ہیں اور کبھی کبھار آپ بہت زور سے روتے ہیں اور آپ کو دل میں اطمینان ہو تا ہے اور آپ کو لگتا ہے کہ اب میری دعائیں قبول ہو گئی ہیں کہ اللہ میرا بھلا کرے گا۔ احمدیوں کا ہمیشہ اللہ کے ساتھ یہ تجربہ ہو تا ہے۔ کیا آپ نے بھی دعا کی قبولیت کا تجربہ کیا ہے؟
اس پر موصوف نے عرض کیا کہ تجربہ کیا ہے، تو اس پر حضور انور نے فرمایا کہ پھر آپ یہ سوال کیوں کر رہے ہیں کیونکہ اللہ نے خود آپ کو اپنا چہرہ دکھایا ہے۔ اس طرح اللہ اپنا چہرہ دکھاتا ہے۔ اس لیے اگر آپ کے پاس اس سلسلے میں کچھ اور سوالات ہیں تو آپ پوچھ سکتے ہیں۔
اس پر واقف نو نے پوچھا: لیکن کبھی کبھی میں اللہ سے دعا کر تا ہوں اور میری دعاپوری نہیں ہوتی۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ ضروری نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی ہر دعا قبول کرے۔ اللہ تعالیٰ مالک ہے۔ سبھی آپ کی کچھ دعائیں جو آپ مانتے ہیں آپ کے لیے اچھی نہیں ہوتیں۔ لیکن وہ یہ دعائیں بھی ضائع نہیں ہونے دے گا۔ اس دعا کا فائدہ آپ کے حساب میں جمع ہو جائے گا۔ جب بھی آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہو گی اللہ آپ کو ان دعاؤں کا فائدہ دے گا۔
ایک واقف نو عزیزم جاذب احمد بھٹی نے یہ سوال کیا کہ آج کے مادہ پرست معاشرے میں لڑکیوں کی اکثریت کیریر کی طرف مائل ہے۔ ایک ایساواقف نو لڑکا جو ایک با اخلاق اور ایسی شریک حیات کی تلاش میں ہے جو اپنے کیریر کی نسبت اپنے گھر کی طرف زیادہ توجہ دینے والی ہو، حضور انور کی اس کے بارے میں کیا نصیحت ہے ؟
اس پر حضور انور نے فرمایا: آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ جب آپ شادی کے حوالہ سے کوئی رشتہ ڈھونڈ ر ہے ہیں تو آپ لڑ کی کی خوبصورتی، اس کی دولت اور اس کی خاندانی حیثیت کی بنا پر شادی کر سکتے ہو لیکن ایک متقی مومن کو ایسی لڑ کی کاانتخاب کرنا چاہیے جو اچھی مومن بھی ہو، جو اپنے دین میں بہترین ہو۔ آپ نیک لڑکی چاہتے ہیں تو آپ کو خود بھی نیک ہونا پڑے گا۔ جب آپ خو د روزانہ پانچ وقت کی نماز نہیں پڑھتے تو آپ نیک لڑ کی سے شادی کی خواہش کیسے کر سکتے ہیں ؟ اگر آپ دونوں روحانی اور دینی طور پر معیاری ہیں تو پھر گھر میں امن اور ہم آہنگی رہے گی۔ اور آپ کی آنے والی نسلیں بھی اچھے ہاتھوں میں پرورش پائیں گی۔
حضور انور نے واقفین نو کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ تمام دنیاوی تعلیم اور اپنی خواہشات کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ پھر بھی ایک اچھے مسلمان بن سکتے ہیں۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کے والدین نے آپ کو پیدائش سے پہلے ہی جماعت کی خدمت کرنے کے لیے پیش کیا تھا۔ اگر آپ ان کے وعدے کو پورا کرنا اور نبھانا چاہتے ہیں تو آپ کو ہمیشہ یادر کھنا چاہیے کہ وقف نو کے کیا فرائض ہیں؟ اور میں نے کینیڈا میں چند سال پہلے وقف نو کی ذمہ داریوں سے متعلق خطبہ جمعہ دیا تھا۔ اس خطبہ میں جو میں نے ہدایات دی ہیں آپ ان پر عمل کریں۔ دوسری بات اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ وقف کی ذمہ داریاں نہیں نبھا سکتے تو آپ جو چاہیں کر یں۔ جو بھی معاملہ ہو۔ آپ احمدی ہیں۔ روحانی اور اخلاقی معیار بڑھانا آپ کا فرض ہے۔ اس کے ساتھ آپ دنیاوی تعلیم اور دنیاوی پڑھائی بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ آپ جو کچھ بھی کر رہے ہیں اللہ ہمیشہ آپ کو دیکھ رہا ہے۔ کبھی بھی برا کام نہ کرو کیونکہ اگر آپ کو آخرت کی زندگی پر یقین ہے تو آپ کویاد رکھنا چاہیے کہ آپ نے اچھا کام نہیں کیا تو آپ کو آخرت میں اس کی سزا مل سکتی ہے۔
٭…٭…٭